آج ان کے گھر سوئم تھا۔ اس کے کوشش کے باوجود بھی امی اور بابا نے اسے گھر پر اکیلے ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی اور اسے مجبوراً ان کے ساتھ آنا پڑھا۔
وہ زوہیب کی نظروں سے بچتے بچاتے کومل کے کمرے میں آئی اور اضطرابی کیفیت میں وہی بیٹھی رہی۔
کومل اس وقت مہمان خانے میں کھانا لیئے بیٹھی تھی۔
کومل:” کچھ کھا لو زوہیب تین دن سے تم نے کچھ نہیں کھایا” اس نے کھانا زوہیب کے آگے کر کے التجا کی۔
زوہیب:” بھابھی دل نہیں کر رہا۔” اس نے بے زاری سے کہا۔
کومل:” تھوڑا سا کھا لو طبیعت خراب ہو جائے گی۔” وہ اسے پھر کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
مسکان کومل کے کمرے میں ماہی کو گود میں اٹھائے ٹہل رہی تھی لکین وہ اور زور سے رونا شروع کر دیتی۔
آخر مسکان نے کومل کو بلانے کا فیصلہ کیا وہ ماہی کو واپس لیٹاتی باہر آئی لاؤنج میں اور کچن میں اسے کومل کہی نہیں ملی۔ اس نے ستارہ کو ڈھونڈ کر کومل کا پوچھا تو معلوم ہوا وہ مہمان خانے میں ہے۔
وہ مہمان خانے کے دروازے پر آکر ٹھٹک گئی۔ اس کا سانس رکنے لگا اس کا وہاں سے بھاگ جانے کا دل کیا لیکن اب فائدہ نہیں تھا کومل کے ساتھ ساتھ زوہیب بھی اسے دیکھ چکا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ زوہیب بھی یہاں ہوگا ورنہ وہ خود کبھی نہ آتی۔
کومل نے اسے مخاطب کیا تو وہ اٹک اٹک کر بولی۔
مسکان:” ووہ۔۔۔۔ ماہی بہت رو رہی ہے۔۔۔۔ ممم میرے پاس چپ نہیں ہو رہی۔۔۔۔” اس نے کانپتے زبان سے کہا۔
کومل:” اوہ ہاں اس کے فیڈر کا وقت ہوگیا ہے” یہ کہتے ساتھ وہ زوہیب کو پھر سے کھانا کھانے کی تنبیہہ کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔
زوہیب ہاتھ باہم پھنسائے سر جھکائے بیٹھا تھا کومل کے جاتے ہی اس نے مسکان کو مخاطب کیا۔
مسکان جانے کے لئے مڑتے مڑتے رک گئی۔ کرب سے آنکھیں بند کر لی۔
زوہیب کرسی سے اٹھتا ہوا اس کے پاس آیا۔
زوہیب:” کیا میں تمہارے لیے اتنا پرایا ہوگیا کہ تم مجھ سے میری ماں کی تعزیت بھی نہیں کر سکتی” اس نے افسوس بھرے غصے سے کہا۔ مسکان نکلنا چاہتی تھی لیکن زوہیب نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہو کے دیوار سے لگ گئی۔
“ایسا بھی کیا ہو گیا ہے کہ مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں ہے تمہیں ” اس نے متواتر نظر انداز ہوجانے پر پوچھا۔ مسکان نظریں نیچی کیے سہم کے کھڑی تھی۔
“تمہیں پتہ ہے میں اس دنیا کا سب سے بڑا کمینہ انسان ہوں جو اتنا سب ہونے کے باوجود بھی تم سے اچھے کی امید لگائے بیٹھا ہوں۔۔۔ اور تم۔۔۔۔” اس نے مسکان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
” تم بہت بڑی دھوکہ باز ہو۔۔۔ افسوس ہے مجھے کہ میں نے کبھی تمہیں چاہا۔۔” اس نے تیز آواز میں اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔
مسکان اب بھی خاموشی سے اپنی بے چینی کو قابو کرتی ساکت کھڑی رہی۔
“اور میری بے بسی دیکھو اتنی تکلیف سہنے کے باوجود بھی مجھے تم سے نفرت نہیں ہو رہی۔” اس کی آواز کی کرب مسکان کو اندر تک چب رہی تھی۔
” اب ایسے بت بنی کیوں کھڑی ہو کچھ تو بولو۔” اس نے غصے سے کہا۔ وہ اب دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔
مسکان:” پلیز میرا راستہ چھوڑے مجھے جانے دیں مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا۔” اس نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔
زوہیب کے تنے آبرو ڈھیلے پڑھ گئے۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ اس بے حس لڑکی کے لئے اس نے اپنے آپ کو اتنا گرا دیا۔ اس کا عزت نفس اسے ملامت کرنے لگا۔
زوہیب:” ٹھیک ہے جاو لیکن یاد رکھنا آج کے بعد غلطی سے بھی میرے سامنے مت آنا۔” اس نے مسکان کی آنکھوں میں دیکھ کر دانت پیستے ہوئے تنبیہہ کیا اور سامنے سے ہٹ گیا۔
وہ اپنے آنسو چھپاتے اپنے ڈیپریشن سے لڑتے وہاں سے بھاگ گئی۔ لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے ستارہ نے اسے دیکھ لیا اس کے پکارنے پر بھی وہ نہیں رکی تو ستارہ مہمان خانے میں آ کر دیکھنے لگی۔ وہاں زوہیب کو غصے سے میز کو لات مارتے پھر مایوسی سے سر پکڑے اپنے جذبات کو قابو کرتے دیکھ کر سمجھ گئی کچھ دیر پہلے وہاں کیا صورتحال رہی ہے۔
ستارہ کو مسکان پر بہت ترس آنے لگا۔ وہ کمرے کے اندر آئی اور زوہیب پر برس پڑی۔
ستارہ:” آپ کو کوئی حق نہیں ہے اس پر ایسے چلانے کا۔”
زوہیب:” مجھے تم سے کوئی بحث نہیں کرنی۔۔۔ بہت اچھے سے جانتا ہوں تم دونوں کو ایک کو کچھ کہو دوسری دفاع کرنے آجاتی ہے” اس نے سپاٹ انداز میں رخ موڑ کر کہا۔
ستارہ:” میں اس کی دفاع کرنے نہیں آئی ہوں میں صرف آپ کو سمجھانے کی کوشش کرنے آئی ہوں کہ یک طرفہ فیصلہ مت کیجیئے۔۔۔ آپ کو نہیں پتہ وہ کن حالات سے گزری ہے۔۔۔۔۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں اس کے ساتھ کیا حادثہ ہوا ہے ۔۔۔” ستارہ کی آواز بھیگنے لگی۔
” آپ کو صرف اپنی تکلیف نظر آرہی ہے۔۔۔۔ اس پر کیا بیتی ہے کیا ایک دفعہ بھی آپ نے اس سے پوچھا۔۔۔۔ پلیز زوہیب بہت مشکل سے وہ اس فیز سے نکلی ہے۔۔۔۔ اسے پھر سے اس فیز میں مت بھیجئے۔۔۔۔” وہ اب گیلی آنکھوں سے ہاتھ جوڑے اپنی بیسٹ فرینڈ کے لیے التجا کر رہی تھی۔
زوہیب کو کچھ کھٹکا تھا اس نے رخ موڑ کر ستارہ کو دیکھا جو اب اپنے آنسو صاف کرتی باہر جانے لگی تھی۔ وہ جھٹ سے اس کے سامنے آگیا۔
زوہیب:”ایک منٹ۔۔۔ کس حادثہ کی بات کر رہی ہو تم۔۔۔۔ کیا ہوا ہے اس کے ساتھ” اس نے بھوکلائے ہوئے کہا۔
ستارہ:” نہیں۔۔۔۔۔۔۔ کچھ۔۔۔ نہیں۔۔” اس نے ہڑبڑا کر اپنی بات بدلی۔
زوہیب:” ستارہ بتاو مجھے ایسا کیا ہوا ہے یہاں جو میں نہیں جانتا۔۔۔۔ کونسا فیز” اسے اب شدید پریشانی ہورہی تھی۔
ستارہ:” رہنے دے زوہیب آپ نہیں سن پائے گے۔” اس نے اضطراب میں کہا۔ وہ وہاں سے جانا چاہتی تھی لیکن زوہیب نے اس کا راستہ روک لیا تھا۔ اسے زوہیب کو یہ راز نہیں بتانا تھا اور اب وہ دوہری کیفیت کا شکار ہورہی تھی۔
زوہیب:” مجھے جاننا ہے میں سننا چاہتا ہوں پلیز بتاو” اسے اب سچ میں تجسس ہورہا تھا۔
ستارہ:” ٹھیک ہے” اس نے ہار مانتے ہوئے کہنا شروع کیا
“آج سے 8 ماہ پہلے میری منگنی کے دن یہ حادثہ پیش آیا۔
# 8 ماہ پہلے #
مسکان کو آج تیار ہونے میں بہت دیر ہوگئی تھی۔ امی کی ڈانٹ پر اس نے سب سے آخر میں خرم بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ آنے کا کہا۔
اس وقت خرم بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کار میں بیٹھے ہارن بجا رہے تھے وہ جلدی جلدی باہر آئی اور کار میں بیٹھ گئی۔ خرم نے کار چلا دی گھر سے تھوڑا آگے جا کر وہ چلا اٹھی۔
مسکان:” یا اللہ۔۔۔۔ میں تو گفٹ اٹھانا بھول گئی۔” اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔
خرم:” چلو کوئی بات نہیں واپس تو اسی گھر آئے گی بعد میں دے دینا۔
مسکان:” منگنی آج ہے گفٹ بعد میں کیسے دوں۔۔۔۔” اس نے مایوسی سے کہا۔
خرم کی وائف:” مسکان دیر ہوجائے گی واپس نہیں جا سکتے۔” اس نے مسکان کی بات کا اشارہ سمجھ کر کہا۔
مسکان کا اور منہ بن گیا۔
مسکان:” تو میں خود چلی جاتی ہوں۔۔۔۔ بھائی آپ مجھے یہی اتار دیں۔” اس نے خوشی سے حل نکالا۔
خرم:”نہیں مسکان پھر واپس کیسے آو گی۔ اور اکیلے کیسے جانے دوں”
مسکان:” کچھ نہیں ہوتا آپ بھابھی اور بچوں کو پہنچا کر واپس لینے آجانا پلیز۔۔۔۔ تھوڑا ہی آگے آئے ہیں میں جلدی سے چلی جاو گی۔
خرم کے مان جانے پر وہ کار سے اتری اور تیز قدموں سے گھر کے جانب چلنے لگی۔ رات کے اس وقت روڈ پر اکا دکا ٹریفک تھا۔ وہ سر جھکائے دھڑکتے دل کے ساتھ تیز رفتار سے چلتی رہی۔
اسے محسوس ہوا ایک سفید رنگ کی وین اس کے سامنے آرکی اور دو درمیانے عمر آدمی چہرہ ڈھکے اسے پکڑ کر وین کے اندر گھسیٹنے لگے۔ مسکان حواس باختہ ہوگئی اسے اس اچانک حملے سے بچاؤ کا کوئی ذریعہ سمجھ نہیں آیا۔ وہ چیخنے چلانے لگی تو ان میں سے ایک نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ دونوں ہٹے کٹے مرد تھے مسکان ہر حد کوشش کے باوجود بھی اپنے کمزور بازوں ان کی گرفت سے نہیں چھڑا سکی۔ مسکان نے ان میں سے ایک کے پاوں پر اپنے ہیل والے سینڈل سے لات ماری وہ کراہ اٹھا۔ دوسرے نے مسکان کے گال پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ تھپڑ اتنا زوردار تھا کہ مسکان کو اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا محسوس ہوا اور ناک سے خون رسنے لگا۔ مسکان کی ہمت جواب دے گئی تھی لیکن وہ پھر بھی بچنے کی کوشش کر رہی تھی اتنے میں جس کے پیر پر مسکان نے ہیل ماری تھی اس نے مسکان کے بال دبوچے اور زور سے اس کا سر وین کے دروازے سے مارا۔ مسکان کے منہ سے آہ نکلی اور پیشانی پر خون بہتا محسوس ہوا۔ اس کا دماغ سُن ہوگیا اور دونوں آدمی اسے وین کے اندر دھکیل کر روانہ ہوگئے ۔
*********************
خرم 20 منٹ بعد واپس گھر آیا اور دونوں منزل پر مسکان کو پکارتا ہوا تلاش کرنے لگا جب وہ کہی نہیں ملی تو اس کے موبائل پر فون کرنے لگا نمبر بند جارہا تھا۔ خرم کو خوف لگا اس نے پریشانی سے سر پکڑ لیا اور آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگا۔ اس نے مایوسی سے ایک اور کال ملائی۔
کچھ دیر بعد عرفان تایا ابو اور تائی امی کے ہمراہ جھٹ سے گھر میں داخل ہوئے خرم وہی لان میں پسینہ صاف کرتا چکر کاٹ رہا تھا۔
عرفان:” کیا ہوا خرم تم نے بابا اور امی کے ساتھ ایمرجنسی میں گھر کیوں بلایا۔
تایا ابو اور تائی امی بھی فکرمندی سے خرم کو دیکھے جا رہے تھے۔ خرم کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے بتائے۔ تایا ابو کے پھر پوچھنے پر اس نے در پیش کیفیت بیان کی ۔
سب کے چہرے زرد پڑ گئے۔
عرفان پریشانی میں مسکان کا نمبر ملاتا رہا جو مسلسل بند جارہا تھا ۔
حارث صاحب غضب سے خرم پر جھڑپنے لگے تھے پر عرفان نے پکڑ لیا۔
خرم:” سوری تایا ابو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں حالات اتنے خراب ہونگے” اس نے خوفزدہ عالم میں اپنی وضاحت کی۔
عرفان:”بابا اس میں خرم کی کیا غلطی ہے مسکان نے خود ضد کی۔۔۔۔۔۔ خرم تم منگنی میں جاو۔۔۔ میں یہاں سنبھالتا ہوں۔” اس نے ہمدردی سے خرم کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
خرم:” نہیں میں اس وقت آپ لوگوں کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔”
عرفان:”بات کو سمجھو خرم تمہارا وہاں موجود ہونا لازمی ہے اگر چاچو نے دیکھ لیا ہم بھی نہیں ہے تم بھی غائب ہو تو سب پریشان ہوجائے گے۔ اس لیے تم وہاں جا کے سنبھالو میں یہاں سنبھالتا ہوں۔” عرفان کے سمجھانے پر خرم وہاں سے ہال چلا گیا جہاں ستارہ کی منگنی کی تقریب چل رہی تھی۔
نائلہ بیگم تو رو رو کر ہلکان ہوگئی تھی اور حارث صاحب اضطراب میں دائیں سے بائیں چکر کاٹتے رہے۔
عرفان انہیں تسلی دیتا پاس کے پولیس اسٹیشن میں اطلاع دینے چلا گیا۔
آدھ گھنٹے بعد وہ واپس لوٹا تو حارث صاحب اس پر جھپٹے۔
“کیا کہا پولیس نے”۔
عرفان:” وہ کہہ رہے ہیں 24 گھنٹے سے پہلے کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ صبح شکایت درج کریں گے” اس نے بے بسی سے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پھر سے مسکان کا نمبر ملاتا رہا۔
ستارہ پورے فنکشن مسکان کی غیر موجودگی پر تپتی رہی۔ گھر پہنج کر اس نے مسکان کا قتل کرنے کا ارادہ بنا لیا تھا لیکن گھر پہنچ کر حقیقت سے آراستہ ہو کر اس کا غصہ پانی بن گیا۔ وہ روہانسی ہو کر گھر کے مردوں سے ایک ایک کر کے مسکان کو ڈھونڈ لانے کی التجا کرتی رہی پر کوئی کچھ نہ کر سکا مسکان کا نمبر اب بھی بند آرہا تھا اور ان میں سے کسی کے پاس اب تک اغوا کیئے جانے کی کال بھی موصول نہیں ہوئی تھی۔
رات اسی کشمکش میں گزری صبح صادق کے وقت عرفان کو کسی انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔
عرفان:”ہیلو۔۔۔۔۔ جی میں عرفان ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں وہ میری بہن ہے۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ کس ہسپتال میں۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں ابھی آتا ہوں۔” اس نے ہیبت کے عالم میں کال پر گفتگو کی۔
” مسکان کے ساتھ ایک ایکسیڈنٹ ہوا ہے ہسپتال بلایا ہے۔” گھر والوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا۔
بابا اور عرفان ہسپتال کے لئے روانہ ہوئے۔ امی کی ضد پر انہیں بھی ساتھ لے جانا پڑا اور انہیں سنبھالنے کے لئے ستارہ بھی ساتھ چلی گئی۔
ہسپتال پہنچ کر انہیں ریسپشن سے فون کئے جانے کا پتہ چلا اور نرس کے ہدایت پر وہ مطلوبہ کمرے کے سامنے جا رکے۔
اندر سے ایک لیڈی ڈاکٹر برآمد ہوئی اور عرفان سے مخاطب ہوئی۔
ڈاکٹر:”آپ اس لڑکی کے گھر والے ہیں۔” اس نے پیشہ ورانہ مہارت سے پوچھا۔
عرفان:” جی۔۔۔ میں بھائی ہوں۔۔۔۔ یہ ماں باپ اور یہ کزن۔” عرفان نے سب کا تعارف کروایا۔
نائلہ بیگم:” کیا ہوا میری بیٹی کو وہ ٹھیک تو ہے۔ ” انہوں نے بہتے آنسوؤں سے پوچھا۔
حارث صاحب انہیں سنبھالنے لگے تھے۔ عرفان اور ستارہ دل تھامے ڈاکٹر کے بولنے کے منتظر تھے
ڈاکٹر نے ایک لمبی سانس لی اور نرم لہجے میں سمجھانے لگی۔
ڈاکٹر:” دیکھیئے میں اب جو میں بتانے لگی ہوں آپ سب کو بہت حوصلہ اور صبر سے سننا ہوگا۔۔۔۔۔ میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔۔۔ یہ وقت آپ کی بیٹی کے ساتھ ساتھ آپ سب پر آزمائش کا ہے۔۔۔۔۔۔ میری درخواست ہے کہ۔۔۔۔۔ آپ میں بات تسلی سے سن لیجیئے گا۔
سب نے ایک دوسرے کے جانب فکرمندی سے دیکھا
حارث صاحب:” بات کیا ہے ڈاکٹر کھل کر بتایئے۔۔۔۔۔ ہوا کیا ہے آخر۔” وہ نائلہ بیگم کو کرسی پر بیٹھا کر ڈاکٹر سے مخاطب ہوئے۔
ڈاکٹر:” آپ کی بیٹی کے ساتھ ریپ ہوا ہے اور پھر اسے جان سے مارنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔
ان سب کے پیروں تلے زمین نکل گئے۔ یہ خبر ان پر بجلی گرنے کے مانند تھی۔
حارث صاحب سینے پر ہاتھ رکھے لڑکھڑا کر پیچھے کرسی پر جا گرے جہاں نائلہ بیگم پہلے ہی سے اپنا سر پیٹتی آہ و بکا کر رہی تھی۔ ستارہ نے اپنی چیخ روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیئے۔ عرفان سانس لینا بھول گیا تھا اس کو ہوش نہیں رہا کہ ان بزرگوں کو سنبھالے یا خود کو۔
ان کو سناٹے میں جاتے دیکھ کر ڈاکٹر پھر بولنا شروع ہوئی۔
“اس کے جسم پر کئی جگہ تشدد کے نشان ہے جس سے لگتا ہے اس نے اپنی دفاع کرنے کی کافی کوشش کی تھی لیکن۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے ان کا مقابلہ نہیں کر پائی۔۔۔۔”
وہ سب دم سادھے کھڑے ڈاکٹر کی بات سنتے رہے۔
“زیادہ دیر اس کا گلا دبائے جانے سے اور اس کے چیختے رہنے سے آواز پوری طرح بیٹھ چکی ہے۔۔۔۔۔ ابھی بھی مسکان کے بے ہوش ہوجانے پر ان کو لگا وہ مر گئی اس لئے چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔۔ صبح کچھ سٹوڈنٹس کے گروپ کو وہ ہائی وے کے پاس پڑی ملی تو ہسپتال لے آئے
عرفان:” چلے گئے۔۔۔۔ مطلب وہ۔۔۔۔” اس نے خاموشی توڑی اور آہستہ سے کہا اس کا ذہن اب بھی اس جملے میں اٹکا ہوا تھا۔
ڈاکٹر:” مطلب وہ۔۔۔۔ وہ ایک سے زیادہ تھے۔۔۔۔ دو تھے۔” عرفان کی نامکمل بات کو ڈاکٹر نے مکمل کر دیا۔
عرفان نے افففف کر کے کرب سے آنکھیں بند کر لی۔
“دیکھیں یہ وقت جتنا آپ پر سخت ہے اس سے کئی زیادہ مسکان پر جس کے ساتھ یہ حادثہ ہوا ہے۔۔۔۔ وہ بہت گہرے صدمے میں ہے۔۔۔۔۔ اس کی ذہنی کیفیت بہت بگڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ آپ سب کو دل بڑا کرنا ہوگا۔۔۔۔ ابھی آپ کو اسے بھی سنبھالنا ہے۔۔۔۔ ” وہ دوستانہ انداز میں ان سب کو سمجھا رہی تھی۔
“ویسے تو یہ پولیس کیس ہے۔۔۔۔ کوئی بھی ڈاکٹر قانونی کارروائی ہونے سے پہلے ایسے مریض نہیں لیتی۔۔۔۔۔ پر میں نے انسانیت کے ناتھے اس کا بر وقت علاج کیا۔۔۔ آپ مسکان کی فیملی ہیں اس لئے میں نے پہلے آپ کو اطلاع دینا ضروری سمجھا۔۔۔۔ وہ کچھ صدمے سے باہر آجائے پھر آپ سب کے تعاون سے اس کیس کو درج کراتے ہیں۔”
وہ ان کو ہدایت دیتی واپس کمرے کے اندر داخل ہوگئی۔
کچھ منٹ بعد ڈاکٹر واپس نکلی تو عرفان نے انہیں مخاطب کیا۔
” کیا ہم مسکان سے مل سکتے ہیں” اس نے دل گرفتگی سے پوچھا۔
ڈاکٹر:” ابھی نہیں ہم نے اسے آرام آور انجیکشن لگایا ہے اس وقت وہ سو رہی ہے جیسے اٹھتی ہے نرس آپ کو اطلاع کر دے گی۔” وہ جواب دے کر اپنے آفس کے جانب بڑھ گئی۔
جب وہ نیند سے اٹھی تو نرس کے اطلاع کرنے پر وہ اس سے ملنے کمرے میں داخل ہوگئے۔ نائلہ بیگم تو جاتے ہی اس سے لپٹ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔ ستارہ اور عرفان اس کے سرہانے کھڑے نائلہ بیگم کو چپ کروانے کی کوشش کرتے رہے۔
بابا اس کے زخمی چہرے، پژمردہ جسم، سر اور ہاتھوں پر جگہ جگہ پٹی بندھی دیکھ کر ٹھٹک گئے اور وہی دروازے پر ہی کھڑے رہ گئے۔ آگے آکر اپنی پھول جیسی پچی کو اجڑا ہوا دیکھنےکی ہمت نہیں ہو سکی ان میں ۔
مسکان نے خالی ذہن اور سوجی ہوئی آنکھوں سے سب کو باری باری دیکھا اور رخ موڑ لیا۔ امی کی آواز اس کے رنج میں اضافہ کر رہی تھی۔ اس نے تکلیف سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ دیے اور لمبی لمبی سانس لیتے گھبرانے لگی۔ نرس اس کی حالت سمجھ گئی وہ قریب آئی اور ان کو باہر جانے کے لیے کہا۔
” آپ سب باہر چلے جائے۔۔۔۔ وہ ہمارے سٹاف کو اونچا بولتے دیکھ کر بھی ایسے ہی آپے سے باہر ہوگئی تھی۔۔۔۔ اس وقت اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ پلیز سب باہر چلے جائے۔”
عرفان اور ستارہ نائلہ بیگم کو سنبھالتے وہاں سے باہر آگئے۔
بابا امی اور ستارہ کو گھر بھیج کر وہ رات عرفان وہی رک گیا۔ اگلی صبح اس کی حالت کچھ بہتر لگ رہی تھی۔ گھر آکر اسے سیدھا اس کے بیڈروم میں لے گئے۔ امی نے لاکھ اسے کھلانے پلانے کی کوشش کی لکین نہ وہ کچھ بولی نہ کچھ کھایا۔
اس حادثے کے بارے میں گھر کے افراد کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی۔ کومل اپنے سسرال والوں کے ساتھ اسلام آباد گئی تھی اس لئے فلحال اسے بھی انجان رکھا تھا۔
باقی گھر والے جہاں اس سے ہمدردی کر رہے تھے۔ بابا نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ جب سے وہ گھر آئی تھی ایک دفعہ بھی وہ اس کے پاس نہیں آئے۔
اس رات مسکان ان کے اس روئیے پر پوٹ پوٹ کے روئی تھی آواز بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس کی رونے کی آوازیں کوئی نہیں سن سکا تھا۔
تین دن بعد اس کی پٹیاں اتر گئی تھی۔ شام کے وقت اس نے لاؤنج میں بھاری بھرکم آواز میں کسی کو گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ وہ دروازے کے پاس آکر دیکھنے لگی دو پولیس اہلکار صوفے پر بیٹھے بابا سے بات کر رہے تھے اور بابا ماتھے پر شکن لیئے ہاتھ اٹھا کر انہیں تردید کر رہے تھے۔
بابا:” مجھے نہیں کروانا کوئی کیس۔۔۔۔۔ کیا مل جائے گا کیس کر کے۔۔۔۔ کیا میری بیٹی کی عزت واپس آجائے گی۔۔۔۔۔ کیا اس کے دامن پر لگے رسوائی کے داغ مٹ جائیں گے نہیں نا۔۔۔۔۔ بس مجھے نہیں کرنا کوئی کیس۔”
عرفان:” لیکن بابا۔۔۔ اس کے گنہگاروں کو سزا مل جائے گی۔”
بابا:” مجھے کسی کو سزا نہیں دلوانی”
پولیس اہلکار: آپ غلطی کر رہے ہیں حارث صاحب” اس نے سپاٹ انداز میں کہا۔
بابا:”آپ کا شکریہ۔۔۔۔۔ ہمیں آپ کے مدد درکار نہیں ہے”
پولیس اہلکار تنے تاثرات کے ساتھ واپس چلے گئے۔ گھر میں تناؤ کا سماء تھا۔ بابا کسی اور سے بات کئے بغیر اپنے کمرے چلے گئے۔
اگلے تین دن تک ان کے یہاں یہی سب چلتا رہا پولیس اور جرنلسٹس کے چکر لگتے اور بابا ان کو گیٹ سے ہی جواب دے دیتے۔ اس سب کے چلتے آس پاس محلے والے شک میں پڑ گئے اور ان میں سے اکثر ان کے گھر پوچھنے بھی آجاتے جن کو امی اور بابا یہی کہتے کہ کار کے ساتھ چھوٹا حادثہ پیش آیا ہے۔
عرفان اور ستارہ کو خاص ہدایات دیئے گئے تھے کہ وہ کسی کو اس حال میں مسکان سے ملنے نہ دیں۔
اگلے دن صبح سویرے ہی زنانہ حقوق کی سربراہ اپنے اہلکاروں سمیت ان کے گھر پہنچ گئی تھی۔
بابا کے منع کرنے کے باوجود وہ گھر کے اندر داخل ہوئی اور مسکان کے کمرے کا دروازہ بجانے لگی۔
“مسکان باہر آو ہمیں پتہ ہے تم اندر ہو۔۔۔۔ ڈرو مت ہم تمہارے ساتھ ہے۔۔۔۔ کب تک تمہارا یہ ظالم باپ تمہیں قید رکھے گا۔۔۔۔۔ تم اپنے ساتھ ہوئے ظلم کے لئے آواز اٹھاو۔۔۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ ہے۔۔۔” اس کے پیچے اس کے اہلکاروں نے بھی بلند آواز میں نعرے لگائے۔
مسکان بند دروازے کے پیچھے ڈری سہمی ایک کونے میں زمین پر سر گھٹنوں میں چھپائے بیٹھی تھی۔
جب ان کے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مسکان نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ عورت بابا سے مخاطب ہوئی۔ اس کی آواز اتنی تیز اور بلند تھی کہ مسکان بآسانی اس کی باتیں سن سکتی تھی۔
” آپ کو اپنی بیٹی کو ہم سے بات کرنے پر راضی کرنا پڑے گا۔۔۔۔ ہمیں اس کا بیان چاہیے۔۔۔ آج وہ ہمارا ساتھ دے گی تو کل کو کوئی اور ایسے سانحہ سے بچ جائیں گی۔”
بابا پھر بھی انکاری رہے۔
“اگر آپ اسی طرح خاموش رہے تو سب کو لگے کا کہ یہ کوئی ریپ نہیں ہوا آپ کے اپنی بیٹی کے کسی ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے اس لیے آپ اسے چپا رہے ہیں۔”
اس کی باتیں مسکان پر کوڑوں کی طرح برس رہی تھی۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے بے آواز روتی رہی۔
********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...