نعمت خان کلانونت: کُفرانِ نعمت(خودنوشت)،سارق و کفن دُزد عتاب گھر ،قزاقستان،1857
رسوائے زمانہ جعل سازکرگس استخوانی نے سرقہ ،چربہ او ر کفن دُزدی میں جو حربے استعمال کیے ہیں وہ نا بیناافراد سے بھی پوشیدہ نہیں ۔ اپنے تخیل کی شادابی سے اس سبز قدم نے ساون کے اندھوں کو ہر طرف ہریالی اور سبز باغ دکھا کر جگر کو کھنڈر کھنڈر ،روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی کر دیا ہے ۔ اپنی بے ثمر زندگی میںسادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میںدُھول جھونک کر اور گھر پُھونک کر تماشا دیکھنے والایہ متفنی غبی دولتیاں جھاڑ کر اہلِ کمال کے پیچھے پڑ گیا تھا۔لاہور میں شاہراہِ قائد اعظم پر جامعہ پنجاب کے سامنے زمین پر بیٹھ کر ردی بیچنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ مفت خور لیموں نچوڑ حریص،بھاٹی کے بھاٹ اور بھٹیارے،ٹھینگا دکھانے والے ٹھگ،ہرن مینار کے زاغ و زغن ،عادی دروغ گو اورجعل سازان ردی فروشوں کے گرد کچھ نام نہاد محقق اور خود نمائی کے خبط میں مبتلاذہنی قلاش بھی چِیل کی طرح ہمہ وقت مُنڈ لاتے رہتے ہیں اور خود ساختہ ،نادر و نایاب قدیم مخطوطوں کو تلاش کر کے اپنے سہوِ قلم سے قارئین کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں ۔عام تاثر یہ ہے کہ جس طرف نگاہ دوڑائیں ،چوروں ،ٹھگوں مسترد قماش کے مسخروں اوراُچکّوںکا جھکمکّادکھائی دیتا ہے۔ اس اندھیر نگری میں زادو لُدھیک ، رنگو ،گھاسو،عارو،تارو اور گھونسہ بیابانی نے جو گُل کِھلائے ہیں ان کی وجہ سے حرفِ صداقت کی شمع گُل کرنے کی مذموم رسم شروع ہو گئی ہے۔ سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکھرے ان ردی بازاروں میں کوک شاستر اور قدیم مخطوطوں کی صور ت میں جو مسودات کوڑیوں کے بھائو فروخت کیے جاتے وہ پُشتارہء اغلاط ہوتے تھے۔کرگس استخوانی اپنے ہاتھ کی صفائی سے اس ردی بازار سے قدیم مخطوطے اُچک لیتا ہے ۔محققین یہ مسودے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اوراپنی چرب زبانی سے کا ہ کو کوہ اور بونے کو باون گزا ثابت کرنے میں اس قدرایڑی چوٹی کا زورلگا دیتے ہیںکہ چوٹی سے ایڑی تک اُنھیں دانتوں پسینا آ جاتا ہے۔منوں کے حساب سے پُرانے اور بوسیدہ دیمک خوردہ کاغذوںپر تازہ تیار کی گئی قدیم روشنائی سے ایسی لغو تحریریں پیش کی جاتی ہیں جوکہ ان خود ساختہ محققین کی بے بصری اور کور مغزی کا ثبوت ہیں ۔ طویل عرصے سے اس ردی بازار میں جعل سازی کا جو گورکھ دھند ا جاری ہے اس کے باعث اہلِ درد پر رقت طاری ہے ۔ رنگو کباڑیا کبھی کبھی شاعری کی جُگالی بھی کر لیتا ہے۔اپنے شعر وہ مخطوطے خریدنے والوں کوزبردستی سناتا ہے ۔رنگو کباڑیے کے دو شعر پیش ہیں:
کٹی ہے زیست کہاروں کے روگ میں رنگوؔ
میری لحد پہ اُڑے بے اماں عذاب کی دُھول
چلتے پھرتے ہوئے سرقوں کی خرافاتیں ہیں
اب تو تحقیق فقط خذف و خرابات نظر آتی ہے
شاہی محلے کا مکین دھونسو خان بھی عجب کند ہ ٔ نا تراش ہے ۔وہ جب کفن پھاڑ کر ہرزہ سرائی پر اُترتا ہے تو لوگ لاحول پڑھنا شروع کر دیتے ہیںاور اس آئی بلا کو ٹالنے کی دعا کرتے ہیں۔یہ ابلہ رواقیت کا داعی بن کر خود کو عہدِ مغلیہ کے شاہی خاندان کا فرد ظاہر کر کے اپنے احساس ِ کم تری کے زخم سہلاتا ،خچر کی دم کے بالوں سے تیار کی گئی وِگ کُھجاتا ، ضعفِ پیری سے نڈھال ہونے کے باوجودسینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو کرپریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجہ اندر بن کرہروقت ہنہناتارہتا ہے ۔اُس نے ایک ڈھڈو کُٹنی رذیل طوائف صبوحی سے شادی کی ۔یہ جسم فروش طوائف اپنے شوہر کوچُلّو میں اُلّو بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کر تی اورخُوب گُل چھرے اُڑاتی۔چند روز قبل یہ دونوں میاں بیوی جو دھرتی کا بوجھ بن چُکے ہیں،شاہی محلے سے باہر نکلے اور ردی بازار میں ایک مخطوطہ فروخت کرنے کے لیے وہاں موجود ردی فروشوں سے بات کی ۔رنگو کباڑیا تو ایسے متفنی سفہا اور اجلاف و ارذال کی تلاش میں رہتا ہے جو اپنے آبا کی یادداشتیں ،مخطوطات،مسودات اور مکاتیب کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کوڑا کرکٹ سمجھتے ہوئے انھیںاونے پونے داموں فروخت کر کے رفو چکرہوجاتے ہیں ۔اس کے بعد رنگو اور اس کے جعل ساز ساتھیوں کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں۔یہ قدیم خود نوشت جو دھونسو خان اور صبوحی نے ردی فروش رنگو کے کباڑ خانے میں فروخت کی کئی لحاظ سے ناقابلِ اعتبار اور بے وقعت ہے مگر اس میں جن تاریخی واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ جہاں حُسن و رومان کا شاخسانہ ہیں وہاں عبرت کا تازیانہ بھی ہیں۔
اس خود نوشت کا مصنف نعمت خان کلانونت ہے۔پہلے یہ خود نوشت ’’کلانونت نامہ‘‘کے نام سے لکھی گئی لیکن بعد میں مصنف کی نیت بدل گئی اور اس نے اس کتاب کا نام بدل کر’’کُفرانِ نعمت‘‘رکھ دیا۔اس خود نوشت کا تعلق مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے عہد (27فروری1712تا11فروری1713)سے ہے۔بر عظیم پاک و ہند میں مغلوں کی عظیم الشان حکومت کو بے غیرتی ،بے برکتی ،بے ضمیری ،بے ایمانی ،بے حیائی، بے توقیری ،بے حسی اور بے عملی کی اتھاہ گہرائیوں میںغرق کرنے کے منحوس کام کاآغاز جہاں دار شاہ(پیدائش:9مئی1661وفات:12فروری1713) کے عہد میں ہوا۔جب یہ راسپوٹین قماش سبز قدم مغل بادشاہ قصر شاہی میںداخل ہواتو ہر طرف ذلت،تخریب ،عیاشی ،بد معاشی،نحوست ، عریانی ،فحاشی اورسادیت پسندی کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ بلند پرواز شاہینوں کے آشیانوں میں اب کرگسوں ، زاغ و زغن اور بُوم و شِپر کا بسیرا تھا۔ گلشنِ ہستی میں ہر طرف کرگس ،بُوم اور شپر کی فراوانی تھی۔ اس لرزہ خیز خود نوشت کا مصنف نعمت خان کلانونت اور اس کی داشتہ لال کنور قصرِ شاہی میں گُھس گئے اور یہ بد اندیش رُ و سیاہ امور مملکت میںسیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔متعدد حقائق خرِ اوہام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں۔یہ خود نوشت اُجالوں کی دسترس سے دُور تیرگی کے مانند حضرمیں رہے گی۔مصنف نے اپنی رُوسیاہی اور مقدر کی تیرگی کا احوال جس چرب زبانی سے بیان کیا ہے اسے پڑھ کرمزید خرافات کی تمنا نہیں رہتی۔یہ اول فول سن کر ہر شخص توبہ استغفار کا ورد کرتا ہے۔اب ان اوراقِ نا گہانی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو کلاونت نامہ یا ’’کُفرانِ نعمت ‘‘کی صورت میںہمارے سامنے ایک انہونی کہانی سُنا رہے ہیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے کئی بیڑے بہا لے جاتے ہیں اور اس طوفانِ حوادث میںتخت و کلاہ و تاج کے بیڑے غرق ہو جاتے ہیں۔ابتدا میں مصنف نے اپنی شاعری کے ذریعے اپناحالِ زبوں بیان کیا ہے :
پُوچھتے ہیں سب کلانونت کون ہے
کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا
کوہِ غم جو کلانونت پر ٹُوٹے
آپ گندا نواز کیا جانیں
—————————————————
چُھپ کے چُھپ کے رات دِن دولت چُرانا یاد ہے
ہم کو اب تک حاکمی کا وہ زمانہ یاد ہے
لاتوں او ر گھونسوں کی بار ش کرنا وہ جہاں دار پر
اُس کے نتھنوں سے سدا خُوں کا بہانا یاد ہے
لال کنور اور زہرہ کنجڑن کا راج تھا کُل ہند پر
اور مجبوروں کے چام سے دام چلانا یاد ہے
مسافروں سے بھر کے کشتی کو ڈبونا جمنا میں
لال کنور اور جہاں دار کا پھر ہنہنانا یاد ہے
سا ز کی لے ،رقصِ مے اورحُسن کے نشے میں چُور
جہاں دار کو طبلے کی گت پہ ٹُھڈے لگانا یاد ہے
مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے عہد میں شہر دہلی کے مضافات میں ایک جنگل تھا جہاں سدا منگل کی کیفیت رہتی تھی اور بُدھ کا یُدھ قریب قریب عنقا تھا۔اس جنگل میں صا ف ظا ہر ہے کہ جنگل کا قانون ہی نافذ تھا۔جنگل سے دُور ویرانے میں ایک بستی تھی جسے ’’کلانونت نگر ‘‘کہا جاتا تھا۔اس بستی میں بڑی تعداد میںقحبہ خانے ،چنڈو خانے اورعقوبت خانے تھے۔پُورے ہند سندھ کے ڈُوم ،ڈھاری ،بھانڈ، بھڑوے ،مسخرے ،لُچے ،شُہدے،رجلے ،خجلے،چور ،ٹھگ ،اُچکے اور بھگتے اس بستی میں آ بسے۔ آخری عہدِ مغلیہ میں اس بستی کے اکثر مکینوں کا گھاس کھودنے اور کُتے گھسیٹنے پر مدار تھا۔ گھنے جنگل کی خاردار جھاڑیوں میں گھری اس بستی میں مور اور مو ر نیاںناچتیںاور ان کا رقص دیکھنے کے لیے ہر وقت دِل پھینک تماشائیوں کا تانتا بندھا رہتا۔قحبہ خانوں کے تو ڈھنگ ہی نرالے تھے یہاں شراب اور شباب کے نشے میں چُورسب مست بندِ قبا سے بے نیاز دنیا و ما فیہا سے بے خبر عیش و نشاط کی ایسی دنیا میں پہنچ جاتے جہاں فہم و ادراک اور عقل و خرد کا گُزر نہیں۔رقاصائوں کی چال کڑی کمان کے تیر کے ما نند تھی،اُن کی چشمِ غزال کے کاری تیر اس طرح جنسی جنونی تماشائیوںکے دِل میں اُتر جاتے کہ انھیں زندگی بھاری لگتی۔سفہا اور اجلاف و ارذال نے اپنے اپنے قحبہ خانے بنا رکھے تھے۔اُس زمانے میں ہیما اور شیما نام کی دو طوائفوںکے کوٹھے تماشائیوں سے بھرے رہتے۔ سچ ہے بُوم کی اصلیت توصرف بُوم ہی جانتا ہے چُغد کیا جانے کہ ہما کی اہمیت کیاہے ۔میں (نعمت خان کلانونت)ہیما کا بیٹا ہوںجب کہ لا ل کنور کی ماں کا نام شیما تھا۔مجھے اور لال کنور کو اپنے حقیقی باپ کا نام معلوم نہیں ۔ہماری مائوں نے ہمیں اس راز سے آگا ہ نہیں کیا ۔ہیما اور شیما کے قحبہ خانے نزدیک تھے ۔دونوں ہم پیشہ تھیں لیکن ان کا آپس میں کوئی رشتہ ہر گز نہ تھا۔میں اورلال کنور ہم عمر تھے اور ہم نے اپنا بچپن مِل کر ہنستے کھیلتے گزارا۔لال کنور نے بہت کم عمری میں اپنا مادری پیشہ اپنا لیااور جلد ہی بے پناہ زرومال اکٹھا کر لیا۔ہیما اور شیمادونوں اب ضعیف ہو چُکی تھیں۔میری ماں ہیما کی ضعیفی اورعلالت کے باعث ہمارے مالی حالات ابتر ہوتے چلے گئے ،شیمانے ہم پر ترس کھاتے ہوئے لال کنور کی میر ے ساتھ منگنی کر دی۔کچھ عرصہ بعد ہماری شادی بھی ہو گئی لیکن لال کنور کی کاروباری مجبوریوں کے باعث اسے پوشیدہ رکھا گیا۔ اس کے بعدوہ مسلسل ہماری مالی امداد کرتی رہتی۔لال کنور کے حُسن و جمال،رقص اور سُر تال کی ہر طرف دُھوم مچ گئی۔مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کے دربار میں میری رسائی تھی۔ ایک دن میں لال کنور کے کوٹھے پر سے دیکھ رہا تھا کہ وہ گدھے پر سوار ہو کر ایک بھکاری کا سوانگ رچا کر کلانونت نگر پہنچا۔اچانک گدھے نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور بادشاہ منہ کے بل زمین پر جا گرا۔گدھے کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور بادشاہ کو کا ٹنے کے لیے اُس کی طرف دو لتیاں جھاڑتا ہوا آگے بڑ ھ رہا تھا ۔میں نے وہیں سے اپنی غلیل میں غُلّہ ڈالا اور گدھے کی آنکھ کا نشانہ لیا ۔غُلّہ سیدھا گدھے کی بائیں آنکھ میں پیوست ہو گیا ۔پلک جھپکتے میں میری غُلیل کا دوسرا غُلّہ گدھے کی دائیں آنکھ میں جا لگااور گدھا بینائی سے محروم ہو گیا ۔اس کے با وجود وہ کاٹنے کے لیے اندھا دھند ادھراُدھر دوڑنے اور اُچھلنے کُودنے لگا۔بادشاہ خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔میں نے ایک بڑا سا لٹھ اُٹھایا اور نیچے اُترا ۔بادشاہ نے مجھے طیش کے عالم میں آگے بڑھتے دیکھا تو میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور پھر کبھی ادھر کا رُخ نہ کرنے کا وعدہ کیا ۔میں نے وہی لٹھ اُٹھایا پُوری قوت کے ساتھ گدھے کی پیٹھ پر تابڑ توڑ وار شروع کر دئیے۔ گرم مزاج بائولا گدھا دھڑام سے نیچے گِرااور وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔میری اس مہم جوئی اور ضعیف مردی کو دیکھ کر بادشاہ نے مُجھے ’’ خر افگن‘‘ کا خطاب دیا ۔ دراصل مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کو لال کنور کے بے پناہ حسن و جمال کی بھنک پڑگئی تھی اور وہ اسے ہر صورت میں حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ۔میرے اور لال کنور کے تعلقات بھی اب گرم جوشی کے بعد سر د مہری کاشکار تھے۔ لال کنور کے حسن و جمال کا چمن اب سیکڑوں مرتبہ لُٹ چکا تھاوہ ایک قلاش عاشق کے ساتھ مزید وقت گزارنے کے بجائے ایک دولت مند احمق کو شریک ِحیات بنانا چاہتی تھی۔وہ میر ا منہ بند رکھناچا ہتی تھی اور ساتھ ہی اپنی تجوری بھی بھرنا چاہتی تھی۔جہاں دار شاہ کی صور ت میں اُسے ایک عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پُورا شوہر ملنے والا تھا۔وہ ایک مشاطہ کی مدد سے اپنی عمر رفتہ اور بیتی جوانی کی دل کشی کی باز یافت میں بڑی حد تک کام یاب ہو گئی۔ وہ جہاں دار شاہ کو مسلسل تڑپاتی ،ترساتی اور اُس کی ہوس کو بڑھاتی رہتی۔ اُدھر لال کنور کے عشق میں دیوانہ ہو کر جہاں دار شاہ کئی بار فقیروں کا بھیس بنا کر لال کنور کے کوٹھے پر پہنچادُور سے اس کے حسن کے جلوے اور نیم عریاں رقص کے منظر دیکھنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ اسے دھتکار دیا گیا ۔اورنگ زیب کی بیٹی زینت النسا یہ منحوس دن دیکھنے کے لیے ابھی زندہ تھی۔اس نے جہاں دار شاہ کو بہت سمجھایالیکن جہاں دار شاہ کے سر میں تو لال کنور کے عشق کا جو خناس سمایا تھاوہ اُسے لے ڈُوبا۔ اورنگ زیب کی بیٹی نے جہاں دار شاہ سے کہا:
’’یہ تم کس راہ پہ چل نکلے ہو ؟کچھ تو اپنے بزرگوںکی عزت کاخیا ل کرو۔ تم شاہ عالم کے بیٹے ہو ،اس سے بہتر تو یہ تھا کہ تمھارا باپ لا ولد ہی اس دنیا سے چلا جاتا ۔تمھاری شخصیت اور کردار کس قدر ابتر اور مسخ ہو چُکا ہے ۔ ایک رذیل طوائف کے قدموں پر شاہی خزانے سے اس قدر زرو مال نچھاور کرناکہاں کی دانش مندی ہے؟تمھاری ذہنی صحت کے بارے میں مجھے شبہ ہے۔ لال کنور کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ رذیل طوائف پُورے ہند ،سندھ کا مورا ہے ،پُوری دنیا کی غلاظت یہیں آ گرتی ہے ۔اس سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیںمگر تم ہو کہ ذہنی اور جسمانی معذور کی طرح اُس کے قدموں میں گرے پڑے ہو ۔پہلے ہی تمھارے مظالم اور شقاوت آمیز ناانصافیوں کے ہر طرف چرچے ہیں ۔رعایاکا غیظ و غضب بڑھ رہا ہے اب خدا کے قہر کو دعوت نہ دو ۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ،وہاں دیر تو ہوسکتی ہے مگر اندھیر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے ڈرو جو تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلے اور دنیاوی کروفر کو بہا لے جاتے ہیں۔اس عیا ر اور مکار طوائف نے تجھے عقل و خرد سے بے گانہ کر دیا ہے اور اب تم اپنے شہرِ آرزو کے لُٹنے اور اس کا ماتم کرنے کے منتظر ہو۔میری مانو تم کسی حکیم سے علاج کرائواور لال کنور سے نجات حاصل کرو۔ ‘‘
دہلی کے بزرگ لوگوں کا کہنا تھا کہ جہاں دار شاہ کی آنکھ میں خنزیر کابال ہے ،اُسے بزرگوں کی عزت و احترام اور مشورے کی کوئی پروا ہی نہیں۔اس کی بے بصری ،کور مغزی ،ذہنی افلاس اور جنسی جنون نے
اسے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ اورنگ زیب کی بیٹی کی ناصحانہ باتیں سُن کر جہاں دار شاہ پیچ و تاب کھانے لگا اور دانت پیستے ہوئے بولا:
’’ اونہہ !ذات کی کوڑھ کرلی اور شہتیروں پر چڑھائی۔کان کھول کر سُن لے بُڑھیا!اس ضعیفی میں تمھارا دماغ چل بے چل ہو چُکا ہے ۔تجھے کیا معلوم کہ تاریخ کیا ہے اور تاریخ کا مسلسل عمل کیا ہوتا ہے ؟تاریخ کبھی اپنے آپ کو نہیں دہرا سکتی بل کہ ہر دور میں نئی تاریخ لکھی جاتی ہے۔مجھ سے پہلے مغل بادشاہ شاہی خزانے کی رقوم مُردو ں ،مقبروں ،باغوں ، قلعوں،دیواروں اور میناروںپر ضائع کرتے تھے لیکن میں نے سکون ِقلب حاصل کرنے کے لیے شاہی خزانہ چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں پہننے والی مُٹیاروں پر بے دریغ خرچ کیا ہے۔ایک جسم فروش رذیل طوائف لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر اسے ملکہ ٔہند بنانا میری منفرد سوچ ہے ،اس سے پہلے تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ہمارے بزرگوں نے جو کچھ کیا ہمیں اس پر نادم ہونا چاہیے نہ کہ اس پر بے جا طور پر اِترائیں۔ اکبر نے انار کلی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟انار کلی کو ہلاک کرنے کے لیے دیوار کی تعمیر اور اس حرافہ کی اس میں زندہ حالت میںدیوار میں تنصیب کی کیا ضرورت تھی؟کیا اس دیوار کی تعمیر پر شاہی خزانے سے زرِ کثیر خرچ نہیں ہوا تھا ؟انار کلی جس بے دردی سے اکبر اور سلیم دونوں کے جذبات سے کھیلتی رہی اور دادِ عیش دیتی رہی وہ بِلا شُبہ لائقِ تعزیر تھا ایک حسین و جمیل فتنے کی صورت میں اس رقاصہ نے سلطنتِ مغلیہ کی بنیادیں ہلا دیں اور بادشاہ اور ولی عہد کے درمیان ایک خون ریز جنگ بھی ہوئی۔اُس کا جُرم بِلا شُبہ لائقِ تعزیر تھا لیکن اس کا سادہ ،آسان اور کم خرچ طریقہ یہ تھا کہ انار کلی کو شیراں والا گیٹ میں موجود بھوکے شیروں کے پنجرے میں پھینک دیا جاتا۔ مسلسل چھیچھڑے ا ور اوجھڑی کھا کھا کر وہ شیر لا غر ہو چکے تھے جب اُنھیں پہلی بار نرم گوشت میسر آتا تو اُن کی شیرانہ خُو بیدار ہو جاتی۔اس اقدام سے بُھوکے شیروں کے پیٹ کا دوزخ بھی بھر جاتا اور انار کلی بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتی۔ دنیا جانتی ہے کہ شہنشاہ اکبر نے انار کلی کے قضیے میں انصاف کے تقاضے پُورے نہیں کیے۔تنہا انارکلی نے جنس و جنون کا یہ کھیل نہیں کھیلا تھا اس قبیح دھندے میں اکبر اور سلیم بھی برابر کے شریک تھے۔مغل افواج کے سالار مان سنگھ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مداخلت کرتا خودعنانِ اقتدارسنبھالتا اور تینوں جنسی جنونیوں کو دار پر کھنچوا کر نئی تاریخ رقم کرتا۔اس نے بہنوئی اور بھانجے کو تو کچھ نہ کہا لیکن جب اکبر ایک بے بس رقاصہ کو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب دھکیل رہا تھا توخاموش تماشائی بنا رہا ۔ جب اکبر نے دینِ الٰہی کا من گھڑت تصورپیش کیا تو اس وقت بھی مان سنگھ کو فوری مداخلت کرنی چاہیے تھی اوراکبر کو معزول کر کے نظامِ سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔اکبر کے ہر جُرم میں مان سنگھ بھی برابر کا شریک تھا۔ جرم کی یہ اعانت جنگل کے قانون کی خلاف ورزی ہے میری اعلا رائے میں مان سنگھ بھی قصور وار ہے۔سچ ہے ہاتھی کی ٹکر ہاتھی ہی سنبھال سکتا ہے ،یہاں انار کلی جیسی حسین و جمیل ر قاصہ کا ہمیشہ یہی انجام رہے گا۔‘‘
’’تم تو بلا وجہ گڑے مُردے اُکھاڑنے لگے ہو ۔‘‘زینت النسا نے کہا’’ اس وقت تم بادشاہ ہو ، اب تو تمھارا کتا بھی مرتا ہے تو شہر کا شہرخود کو سوگوار ظاہر کرتا ہے ۔اُس وقت سے ڈرو جب تم خود اپنے انجام کو پہنچو گے تو کوئی آنکھ پُر نم نہ ہو گی۔ چڑھتے سورج کی پرستش کرنا دنیا کا دستور ہے ۔ تمھارے ساتھ جری اور جنگ جُو ساتھی کوئی نہیں البتہ کلاونت، بانکے،سارنگی نوا ز اور طبلہ نواز کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ تم نے تومغلیہ سلطنت کے وقار کو چھاج میں ڈال کر چھلنی میںاُڑانے کی ٹھان لی ہے۔ اپنی حکومت کے وقار میں اضافہ کرو اور جنسی جنون ،رقص و موسیقی،اقربا پروری اور شراب نوشی سے توبہ کرو۔تمھاری بد اعمالیاں دیکھ کر ہر شخص تمھیں گالیاں دیتا ہے۔طوائفوں کے لیے تم نے پیسا ٹھیکری کر دیا ہے ۔اپنے حلوے مانڈے سے کام رکھنے والوں نے تمھیں اپنے نرغے میں لے رکھا ہے اور تم ہو کہ چکنے گھڑے بنے رہتے ہو ۔ بھاٹ ،بھٹیارے اور بیسو ا کے بارے میں دانا کہتے ہیں کہ یہ سب ایسے بد ذات ہوتے ہیں کہ سدا چڑھتے سورج کی پرستش کرتے ہیں جب آزمائش کی گھڑی آتی ہے تو یہ پلٹ کر دیکھتے ہی نہیں اور پھر بات تک نہیں پُوچھتے ۔یاد رکھو جب کسی پر بُرا وقت آتا ہے تو خواہ وہ اونٹ پر بھی سوار ہو ،اُسے کتا کاٹ لیتا ہے۔یہ نعمت خان کلانونت جو تمھارا مشیر بن بیٹھا ہے ،اُس کی تو لاٹر ی نکل آئی ہے پہلے تو یہ بھاٹ اس قدر ناکارہ تھا کہ اِس نابکار کے چھپر پر پُھونس تک نہیں ہوتی تھی مگر اب تو اس کی ڈیوڑھی پر نقارہ بجتا ہے ۔یہ بہت کایاں شخص ہے ،اس سے جلدی اپنی جان چھڑائو۔‘‘
’’ لوگ مجھے گالیا ں دیتے ہیں ،اونہہ !کُتوں کے بھونکنے سے ہاتھی کبھی نہیں ڈرتے َ۔تم نے میرامنہ کھلوایا ہے میں آج سارے گڑے مُردے اُکھاڑ کر دم لوں گا‘‘جہاں دار شاہ کے منہ سے جھا گ بہہ رہا تھااور وہ مثلِ گُرگ نتھنے پھیلا کر پھنکارا:
’’میں گڑے مُردے اُکھاڑ کر چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں سے اُن کا موازنہ کروں گا ۔اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔میری باتیں آج تمھیں پانی پانی کر دیں گی۔ دنیا جانتی ہے کہ مغل شہنشاہ جہاں گیر نے نو رجہاں حاصل کرنے کے لیے اُس کے شوہر شیر افگن کو مروا ڈالا لیکن میں نے لال کنور کو حاصل کرنے کے لیے اس کے شوہر خر افگن کو ملتان کا صوبے دار مقر کر دیا جہاں وہ خُوب دادِ عیش دے رہا ہے اور مزے سے مُلتانی سوہن حلوے کھا رہا ہے۔لال کنور اور خر افگن میں علاحدگی کیوں ہوئی یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔ جہانگیر نے ایک خارش زدہ ہرن کی ہلاکت پر اسے شیخوپورہ کے قریب دفن کر کے ہرن کی قبر پر ہرن مینا ر تعمیر کرایا ۔ کیا یہ دُکھی انسانیت کے ساتھ مذاق نہیں ؟ اس ہرن کوکسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا جہاں اُسے زاغ و زغن نوچ کھاتے تو اس طرح بچت بھی ہوتی اور ماحولیاتی آلودگی سے نجات بھی مِل جاتی ۔جہانگیر کی موت کے بعد اس کی لاہور میں تدفین کے لیے اتنے بڑے مقبرے پر دولت خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مر مریں قبور کے اندر بادشاہ اور شہزادیاں تہہ ظُلمات پڑے ہیں جہاں اُن کے بدن ملخ و مُور کے جبڑوں میں ہوتے ہیں ۔لاہور میںمغل شہنشاہ جہاں گیر کی بیوی نُور جہاںکا مقبرہ مقام عبرت ہے ،جہاں دِن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہے۔ شاہ جہان نے مُلکی خزانے کو اپنی بیوی ممتاز محل کی قبر کی تعمیرپر بے دریغ لُٹایا اور تاج محل تعمیرکرایا ۔ ہر شہر میں قلعے اور باغات تو تعمیر کر دئیے گئے لیکن مفلس و قلاش لوگوںکی کُٹیا کے مکین سدا محرومیوں کا شکاررہے۔انھوں نے محض اس ڈر سے رعایا کو جاہل رکھا کہ کہیں یہ اپنے حقوق کی بات نہ کرے۔تعلیمی ادارے بنانے کے بجائے قبریں ،محل ،سڑکیں اور باغات بنائے ۔بوسیدہ کھنڈرات پرتو بے پناہ توجہ دی مگر ٹُوٹے دلوں کی تعمیر کا کسی کو خیال ہی نہ آیا ۔ساری دنیا بدل گئی ،فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی لیکن اہلِ وفا اور الم نصیبوں کے حالات جو ں کے توں رہے ۔ بے ضمیروں کے وارے نیارے رہے جب کہ قسمت کے مارے آلام روزگار سے ہارے رہے ۔سوچنے کی بات ہے کیا ممتاز محل کے لیے ایک دور افتادہ شہرِ خموشاں میں ایک خام لحد کافی نہ تھی۔اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کو قید میں کیوں رکھا؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے ماضی کے حاکم قبروں اور باغوں کے بجائے شفاخانے ،فلاحی مراکز اورجامعات بناتے تا کہ رعایا میں ذہنی بیداری پیدا ہوتی۔
’’تم نے کون سا فلاحی کام کیا ہے ؟‘‘زینت النسا نے غصے سے کہا’’ میرا باپ ٹوپیاں سی کر بیچتا اورگزارہ کرتا رہا اور تم عیاشی کر رہے ہو۔ تم نے موری کی اینٹ کو قصرِ شاہی میں لگایا اور اپنے اسلاف کی عزت و عظمت کا مذاق اُڑایا ۔ تمھاری اس حماقت کی وجہ سے کلاونت نگر کی ہر کنچنی اور کسبی طوائف شاہی محل میںگُھس گئی ہے۔وہاں کا ہر ڈُوم گندھراب بن بیٹھا ہے اور تم راجا اندر بنے شراب اور شباب کے نشے میں دھت پریوں کے اکھاڑے میں رنگ رلیاں منا رہے ہو ۔ قحبہ خانے کی رسوائے زمانہ رذیل جسم فروش طوائف لال کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن اور اس کی ہم جولی طوائفیں اب عملاً حکومت کی باگ ڈورسنبھال چُکی ہیں۔اس اندھیر نگری میں چوپٹ راجے کو اپنی اُنگلیوں پر نچا رہی ہیں اور رعایا کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو گئی ہے اور ان کی صبح وشام کی محنت اکارت چلی گئی ہے۔‘‘
’’بس کر و بُڑھیا !اب اس سے آگے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالنا ‘‘جہاں دار شاہ نے غراتے ہوئے کہا’’ کیسی ٹوپیاں، کہاں کی سلائی،کس نے ٹوپیاں بیچیں اور کہاں سے آ ئے خریدار یہ سب تاریخ دانوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیاں ہیں جن کامقدر ہے تاریخ کا طومار۔ اپنے باپ شاہ جہان کی معزولی اور اسیری کیااورنگ زیب کی قابل تقلید مثال ہے؟ جب گدھوں سے ہل چلنے لگیں تو بیل پالنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اب تولال کنور اوراس کا خاندان ہی میرے لیے واحد سہارا ہے۔میرے اقتدار کی گرتی ہوئی دیوارلا ل کنور اور اس کے آشنائوں کے سہارے کھڑی ہے اس لیے اب میری ہر خوشی اُن سے ہے۔ تم اچھی طرح جانتی ہو سب بلائیں تمام ہو چکی ہیں اب تو لال کنور پر مرناہی میری زندگی ہے ۔لال کنور کے عشق میںمجھے ہر ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی گوارا ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ گلیاں اور بازار سُونے ہو جائیں جن میںلال کنور اوراس کی سہیلیاں بندِ قبا سے بے نیازرقص ہو کر میری ہم رقص بن کر مجھے تھام لیں اور سداہنستی گاتی پھریں ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ رقاصہ اور مغنیہ لال کنور کا تعلق دو پہر بیاسی خاندان سے ہے ۔ دو پہر بیاسی خاندان کی طوائفوں نے رقص ،عریانی ،فحاشی اور جسم فروشی میں سب کو مات دے دی ۔ ان رقاصائوں نے اپنے اپنے کوٹھوں پر بڑے بڑے شکار کیے ہیں۔اب اس کے خاندان کے لوگ ہی امور مملکت چلائیں۔میں لال کنور کے نام کی مالا جپتے جپتے خاک ہو جائوں گا۔میں تو اُس کے عارض کو دیکھ کر جیتا ہوں اور عارضی ہی میری زندگانی ہے۔ یہ مطلق العنان مغل بادشا ہ ہی تھے جن کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے انار کلی ،نور جہاںاورلاڈھی کو مصائب و آلام کی بھینٹ چڑھا دیا۔تمھارے باپ مغل بادشاہ اور نگ زیب نے اپنی شاعرہ بیٹی زیب النسا مخفی کو سلیم گڑھ قلعے میں بیس برس قید رکھا ۔ شاہی عتاب کا نشانہ بننے والی اس مظلوم شہزدی نے اسی زندان میں 26۔مئی 1702کو چونسٹھ سال کی عمر میں قید ِ حیات و بندِ غم سے نجات حاصل کی یوں شاہی جبر نے اس مجبور شہزادی کی زندگی کو غم کا فسانے میں بدل کرخود کو تماشا بنا دیا۔ مغلیہ دور میں اس خطے میںخواتین کی تعلیم ،روزگار، علاج ،غذا اور رہائشی سہولیات پر کبھی توجہ نہ دی گئی ۔ بڑھیا! مغل بادشاہوں کی عیاشی اور بے بصری کا ثبوت تلاش کرنے کی خاطر لال کنور ، زہرہ کنجڑن ،نعمت خان کلاونت ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ اپنے ماضی پر بھی نگاہ ڈالنا ضروری ہے جس ملک میں مطلق العنان آمر شاہ جہان کی محبوب بیوی ممتاز محل اس کے سترہویں بچے کو جنم دیتے وقت لقمہ ٔ اجل بن جائے وہاں رعایا کے پس ماندہ طبقے کی مفلوک الحال عورتوں کی صحت اور معیار زندگی کے بارے میں کسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ‘ ‘
زینت النسانے اپنے خاندان پر لگائے گئے الزامات کے جواب میں کہا ’’صرف مغل بادشاہوں کے عہد حکومت ہی میں نہیں دنیا بھر میں مختلف ادوار میں خواتین پر مظالم ہوتے رہے ہیں۔آپ نے ان کا کبھی ذکر نہیں کیا ۔‘‘
’’ تاریخی تناظر میں کہی گئی تمھاری باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں ‘‘ جہاں دار شاہ نے آ ہ بھر کر کہا ’’دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ اپنے جرائم پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ اس کی بے حسی علامت ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ بد قسمتی سے ماضی میں دنیا کے بیش تر ممالک میںخواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ر ہا ہے ۔یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ ہارون الرشید کی بہن عباسہ ، ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد( 1934-1967)، شمس الدین التتمش کی بیٹی اور ملکہ ٔہند رضیہ سلطانہ (1205-1240)،ایرانی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ (1817-1852)،امریکی شاعرہ سلویا پلاتھ ( Sylvia Plath: 1932-1963)،فرانس سے تعلق رکھنے والی جون آف ٓٓآرک Joan Of Arc:1412-1431)اورمیری کوئن آ ف سکاٹس (Mary Queen Of Scots)سب مظلوم خواتین ہیں۔‘‘
زینت النسانے کہا’’ مجھے ضعیف سمجھ کر نظر انداز نہ کرو پرانے زمانے کے مشاق مو سیقار کہا کرتے تھے کہ سارنگی جس قدر کہنہ ہو جائے اس سے نکلنے والی دھنیں اسی قدر موثر ہونے لگتی ہیں۔ عورتوں کی شان و شوکت اور جاہ و جلا ل تاریخ کے ہر دور میں مسلمہ رہی ہے ۔ان کی خاموشی کو تکلم کے سلسلے اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل رہا ہے ۔یہ سن کر اطمینان ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اب مرد بھی عورت کی مظلومیت کی واقعات سناتے ہیں ۔عورتوں پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف رائے عامہ کی بیدار ی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔میں نے اپنی طویل زندگی میں پس ماندہ طبقے کی خواتین کے ساتھ انصاف ہوتے نہیں دیکھا ۔اب تو میں چراغ سحری ہوں شاید آنے والی نسلیں بہتر حالات دیکھ سکیں ۔ مجھے یقین ہے مستقبل میںمعاشرے میں قابل رحم حالت کے باوجود خواتین کی استقامت ،ایثار اور صبر و تحمل ثمر بار ہوگا ‘‘
جہاں دار شاہ نے ضعیف خاتون کی بات سن کر کہا ’’ بڑھیا! مہ و سال کی گردش بھی تمھارے فکر و خیال میںتبدیلی نہیں لاسکی۔ ہم اہل اقتدار کے لیے یہ امر لائق صد افتخار ہے کہ ہمارے درباریوں نے ہمیشہ حقِ نمک ادا کرتے ہوئے کاسۂ گدائی تھام کر ہماری ہم نوائی کی۔جب تک درِ کسریٰ کے کھنڈرات کے سامنے دُم ہلا کر غرانے والے موجود ہیں زنجیر بد ل لٹکانے والوں کاکوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔‘‘
زینت النسا دامن جھاڑ کر مایوسی کے عالم میںوہاں سے چلی گئی۔جہاں دار شاہ نے شراب اور شباب سے اپنا تعلق پُختہ تر کر لیا ۔ یہ عیاش شاہ ِ بے خبر ہروقت نشے میں دھت رہتا ۔قصرِ شاہی میں رقص و سرود کی محفلیں ہوتیں اور ڈُوم فرش پر گرے بادشا ہ کو زور زور سے ٹُھڈے مارتے۔
ایک دن جہاں دار شاہ شراب کے نشے میں چُور لڑ کھڑاتا ہوا لال کنور کے کوٹھے پر پہنچا۔شاہی حفاظتی دستے نے قحبہ خانے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔چوب دار نے اعلان کیا :
’’بے ادب ،بے ملاحظہ،شرم سار!نگاہ بر خُوب رُو!ظلِ تباہی،وارثِ تختۂ دار، شہنشاہ ِ ہند،عالم فناجہاں دار شاہ آج سرِ راہ تشریف لاتے ہیں اور قحبہ خانے کی زینت میں اضافہ فرماتے ہیں۔‘‘
جہاں دار شاہ کی آمد کا یہ مجنونانہ اور احمقانہ اعلان سُن کر وہاں موجود سیکڑوں لوگوں میں کُھسر پُھسرشروع ہو گئی۔اکثر لوگ اس بات پر متفق تھے کہ ایک عادی دروغ گو ،شرابی، مخبوط الحواس ،فاتر العقل اور جنسی جنونی درندہ جو اپنے تمام حقیقی بھائیوں کو ٹھکانے لگا کرمسندِ حکومت پر غاصبانہ طور پر قابض ہو گیا ہے ،اس سے سنجیدگی کی توقع ہی عبث ہے۔یہ وقت کا ایک سانحہ ہی تو تھا کہ ایک جاہل اپنی جہالت کا انعام پا کر زندگی کی اقدارِ عالیہ اور ماضی کی درخشاں روایات کوروندتے ہوئے ایک جسم فروش رذیل طوائف کے کوٹھے پردادِ عیش دینے نہایت ڈھٹائی سے آ دھمکا تھا۔ راسپوٹین قماش مسخرے جہاں دار شاہ کے بارے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی بیزاری ،نفرت ،حقارت اور غصے کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے چوب دار غرایا:
’’ردِ ادب!سب اپنے منہ اور آنکھیں بند رکھیں۔اگر کسی نے اس واقعے پر اُنگلی اُٹھائی تو اس کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے،اگر کسی نے لب کشائی کی حماقت کی تووہ باقی زندگی کے لیے گونگاکر دیا جائے گا،اگر کسی نے قدم آگے بڑھا یا تواُسے شمشیر کے وار سے لنگڑا کر دیاجائے گا۔شاہی فرمان ہے کہ رعا یا کا کوئی فرد سر اُٹھا کر نہ چلے ورنہ ہر اُٹھنے والا سر بہ زورِ شمشیر گرا دیا جائے گااور دھڑ کر گسوں کی غذا بنے گا۔عاشقوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا اُس کا جانا ٹھہر گیا ہے،وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
یہ اعلان سُنتے ہی سب حاضرین نے لبِ اظہار پر پانچ دائروں والے تالے لگا لیے ا ور اپنے ضمیر کو ان دائروں کے مدار میں مقید کر لیا۔ یہ دائرے بے حسی ،بے غیرتی ،بُزدلی ،بے ضمیری اور بے حیائی کے تھے ۔کلانونت نگری کا ہر مکین اس انہونی پرحیرت زدہ تھااور حسرت و یاس کی تصویر بنا آئینہ ٔ ایام میںمجبوروں کے چام کے دام چلانے والوں کی یہ ادا دیکھنے پر مجبور تھا ۔ بابر،ہمایوںاکبر ،جہاں گیر اور شاہ جہاں کے تخت پر بیٹھنے والا مغل شہنشاہ ایک جسم فروش رذیل طوائف کی چو کھٹ پر اس طرح ناک رگڑنے آ پہنچے گا یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہاں کی ہرطوائف کو اپنے حسن و جمال پر بہت گھمنڈ تھالیکن ایک بات پرسب متفق تھیں کہ کلانونت نگر کی کوئی بھی طوائف جسمانی کشش، فحاشی ،رقص ،سُراورتال میںلال کنورکی گرد کو بھی نہیں پہنچتی۔ جنسی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے مکروہ دھندے میں لال کنور ناز و ادا اور عریانی کے حربے بڑی مکاری سے استعمال کرتی۔جہاں دار شاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ نا ہنجار اپنی سلطنت میں فہم و ادراک اورذہن و ذکاوت کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا تھااور بر ملا کہتا تھاکہ وہ مقامات عقل پر فائز اہلِ کمال کی عزت وتکریم کو تہس نہس کر کے دم لے گا۔ایک سہ پہر جہاں دار شاہ سیدھا لال کنور کے کوٹھے پر پہنچااور جھک کر اس طوائف کو سلام کیا۔لال کنور نے بیٹھے بیٹھے سلام کا سر سری انداز میں جواب دیا۔جہاں دار شاہ نے اپنی آنکھیں مل کر لال کنور کو دیکھا ،پھر ہاتھ ملنے لگا کہ اب تک وہ اس حسین ساحرہ کے حُسن کے جلووں سے کیوں محروم رہا۔اس موقع پر جہاں دار شاہ نے کہا:
’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟تم عورت ہو یا پرستان سے اُترنے والی کوئی پری!حُسنِ بے پروا کے یہ جلوے دیکھ کر میری آنکھیں چُندھیا گئی ہیں۔میں اپنی زندگی کی پچاس خزائیں دیکھ چُکا ہوں ۔آج پہلی بار دِل کی کلی کھلی ہے ۔اے حسین جسم فروش طوائف ،رقاصہ اور مغنیہ اس دنیا کے آئینہ خانے میں تم نے تو مجھے تماشا بنا دیا ہے ۔کون کہتا ہے تم محض ایک جسم فروش طوائف ہو ،تم تو کوٹھے پرآنے والوں کے جسم و جاں کو بن مول خرید لیتی ہو ۔آج سے میںبھی تمھارا غلام ہوں ۔‘‘
’’کنیز پری نہیں ایک مغنیہ، جسم فروش طوائف اور رقاصہ ہے ‘‘لال کنور نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا’’جب میں دس سال کی تھی توقحبہ خانے میںاپنی ماں کے ساتھ اس دھندے میںایسی اُلجھی کہ پھر اس گورکھ دھندے سے کبھی نہ نکل سکی۔اب تو اس دلدل میں چالیس سال بیت گئے ۔ حیف صد حیف کہ تلاشِ بسیار کے باوجود اب تک مجھے کوئی ایسامحرم نہ مل سکا جسے حالِ دل سنائوں۔میں اب تک اپنی بے ثمرزندگی کی پچاس خزائیں دیکھ چکی ہوں لیکن دل کے گلشن میں کبھی بہار نہ آئی۔جس طرح پھولوں سے رس چُوسنے والے بھنورے نرم و نازک کلیوں کا رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں یہی سلوک ہر جسم فروش طوائف سے ہوتاہے ۔میرے مقدر کا یہ المیہ میرے لیے سوہانِ روح بن چُکا ہے۔اب تو جرس ِ گُل بھی میرے لیے تازیانہ ٔ عبرت بن گئی ہے۔‘‘
’’ اے خوب رُو !تم بو لتی ہو تو تمھارے منہ سے پُھول جھڑتے ہیں‘‘جہاں دار شاہ نے لال کنورکو تھپکی دیتے ہوئے کہا’’ سچ تو یہ ہے کہ پُھول بھی تمھارے قدموں کی دُھول ہیں۔اس وقت ہم دونوں پچاس سال کے ہیں ،یہ ایک بہت اچھا شگون ہے۔اب ہمارے نصیب بھی ایک جیسے ہو جائیں گے۔ہم تم ہوں گے اور شاہی محل ہوگا ،عرقِ انفعال کے قطروں سے ہر طرف جل تھل ہو گا،ہر حاسد چُلّو بھر پانی میں ڈبکیاں لگائے گا ، ہمارے ہاتھوں منھ کی کھائے گااور حبس میں سارا جنگل ہو گا۔‘‘
’’اس قسم کی جُھوٹی تسلیاں سُن سُن کر اب میں سرابوں کے جان لیوا عذابوں سے باہر نکلنے کے لیے شرابوں کی رسیا بن گئی ہوں ۔ ‘‘لال کنور نے جہاں دار شاہ کے شانوں پر پیشہ ور طوائف کے انداز میں سر رکھ کر نتھنے پھیلا کر کہا’’ میرے اس کوٹھے پرکئی شاہ زادے ،منصب دار،تاجر، راجے ،مہاراجے ،سرمایہ دار اورحُسن کے پرستار دیوانہ وار آئے،مجھے سبز باغ دکھائے،رنگ رلیاں منائیںاور پھر کالا باغ کے صحراؤں میں ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ان کے گلشن میںنسیم بھی ہے اورصبا بھی لیکن میرے دل میں خزاں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔قریہ ٔدل میںجدھر دیکھواُمیدوں ،اُمنگوں اور خوابوں کی راکھ بکھری پڑی ہے۔‘‘
’’ میں اپنے ہاتھوں سے جھاڑو دے کر یہ راکھ صاف کروں گا ۔ میں تمھیں سونے کے ترازو میں تولوں گا اور کچھ نہ بولوں گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثرسخت گیر حاکم کینہ پرور ،منتقم مزاج اور تسمہ کش ہوتے ہیں لیکن میں تمھارے دل کی نگری کا جاروب کش بن گیا ہوں ،میری یہاں آمد طلوعِ صبحِ عیاراں کا فرمان اور میرا ذاتی ہذیان سمجھو۔‘‘جہاں دار شاہ نے لال کنور کے قدموں میں اپنا سر رکھتے ہوئے کہا’’میں زندگی بھر تمھارا غلام رہوں گا ۔آج سے تم ملکہ ٔہند ہو اور تمھارا لقب ’’امتیاز محل ‘‘ہو گا ۔تم قصر شاہی کوزینت بخشو گی سالانہ دو کروڑ روپے تمھیں ذاتی جیب خرچ ملے گا اس کے علاوہ سارا شاہی خزانہ بھی تمھارے تصرف میں رہے گا۔ زر و جواہر کے ڈھیر تمھارے قدموں پر نچھاور کر دئیے جائیں گے ۔تمھار ے خاندان سے تعلق رکھنے والے سب افراد بلند ترین مناصب پر فائز ہو ں گے۔ شادی کے بعدہر شاہی فرمان تمھاری خصوصی اجازت سے جاری ہوگا۔اب جلدی کرومیرے ساتھ چلو اورہند کی بے بس و لاچا ررعایا کا کام تمام کرنے میں میری مدد کرو۔‘‘
یہ کہہ کر جہاں دار شاہ آگے بڑھا اور لال کنور سے لپٹنے کی کوشش کی دفعتاًلال کنور پیچھے ہٹی اور خراباتی جہاں دار شاہ منہ کے بل زمین پر جاگرااور بے سُدھ ہو گیا۔اس کے سر پر رکھے تاج کے نیچے بطانہ میں بھاری رقم اور زر و جواہر چُھپے تھے۔لال کنور نے سب کچھ اُچک لیااور کچھ دیر بعدوہ جہاں دار شاہ کے سامنے بیٹھی ٹسوے بہا رہی تھی۔ جہاں دار شاہ نے لال کنور کو اپنی آغوش میں لے لیا اور اس کی اشک شوئی اور اپنی جذباتی تسکین کی صور ت تلاش کر لی۔لال کنور اب بطانے کے دانے پر لگ گئی تھی اس کے بعد اس نے جہاں دار شاہ کو اپنی انگلیوں پر نچایا اور اپنی من مانی کی اوراب وہ قصرِ شاہی میں جا پہنچی۔ لال کنور کے ساتھ باضابطہ شادی کے بعد پہلے ہی دن جہاں دار شاہ نے نئی ملکہ ٔہندامتیاز محل (لال کنور )سے پُوچھا:
’’اس وقت تم پورے ہند کے سیا ہ وسفید کی مالک ہو۔کوئی ایسی خواہش جو اب تک پُوری نہ ہو سکی ہو یا کوئی ایسی آرزو جس کی تکمیل کی تمناتمھارے دل کو بے چین رکھتی ہو ۔‘‘
’’ایک حسین منظر دیکھنے کی تڑپ میرے دل میں ہمیشہ رہی ہے ‘‘لال کنور نے آہ بھرکر کہا ’’ میں نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی د ریا میں ڈُوبتی نہیں دیکھی۔‘‘
’’یہ بھی کوئی اتنی بڑی خواہش ہے جس کی تکمیل کی تمنا تمھیں بے قرار و مضطرب رکھتی ہے ‘‘جہاں دار شاہ نے کہا’’میں رعایا کی محض ایک کشتی نہیں بل کہ پُوری مملکت کا بیڑا غرق کر سکتا ہوں قومی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہر دور میں حکم رانوں کا وتیرہ رہا ہے۔میں بھی اپنے وقت کا نیرو ہوں روم جلتا ہے تو جلتا رہے مجھے تو بانسری کی دُھن پردیپک راگ ہی الاپنا ہے‘‘
’’پھر جلدی کریں آج شام سے پہلے مجھے دریا میں مسافروں سے بھری کشتی ڈُوبنے کا دل کش منظر دکھانے کا انتظام کریں ۔‘‘ سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا لال کنور کی آنکھوں میں درندگی کی منحوس چمک پیدا ہو گئی اور وہ کہنے لگی’’کشتی میں ہر عمر کے مسافروں کی بڑی تعداد سوار کرائی جائے اور ڈُوبنے والوں کو بچانے والا کوئی نہ ہو ۔ میںآج شام کا کھانا ڈُوب کر مرنے والوں کی چیخ پُکار سن کر کھائوں گی۔‘‘
چلچلاتی دوپہرکا وقت تھا شاہِ بے خبر جہاں دار شاہ نے بے حس و بے غیرت طوائف لال کنور اور بے ضمیر و رذیل نائکہ زہرہ کنجڑن کی ظالمانہ اور احمقانہ فرمائش کی تکمیل کی خاطر دریائے جمنا کے دوسرے کنارے ایک بے تکلف شاہی ضیافت کاانتظام کیا ۔آن کی آن میں شہر بھر کے ماہرباورچی ،مشاق خانسامے اور بھٹیارے اپنا سامان لے کر دعوت کے مقام پر جا پہنچے ۔ا ن کہنہ مشق اور آزمودہ کارباورچیوں نے پیاز ،لہسن ،ادرک اور تیرہ تال لگا کر تیرہ مصالحے تیار کرنے کا آغاز کر دیا۔ ادرک پیسنے والوں کو اس بات کا کوئی ادراک ہی نہ تھا کہ جن اجل گرفتہ لوگوں کو اس جان لیوا عوت میں مدعو کیا گیا ہے وہ سب کے سب کوئی دم کے مہماں ہیں۔ پکوڑے ،زردہ ،پلاؤ ،گوشت روٹی اور کڑی کی تیاری زور شور سے شروع ہو گئی ۔ اجل گرفتہ مہمانوں کی خاطرزردہ اور پلائو تیار کر نا شروع کر دیا گیا۔زردے میں گُڑ ڈالا گیا اور پلائو میں اونٹ کا گوشت ڈالا گیا۔یہ کھابا تو صرف رعایا کے لیے تھا جب کہ شاہی خاصے میں چِڑے ، ہرن ،تیتر،بٹیر ،مچھلی اور مرغ کے مرغن کھانے شامل تھے ۔لال کنور ،زہرہ کنجڑن اور ان کی ہم پیشہ ،ہم مشرب وہم جولی طوائفیں بن سنور کر ایک کشتی میں سوار ہو کر وہاں پہنچ گئیں ۔ان عیاش طوائفوںکے ساتھ ہی ایک اور کشتی میں شہر بھر کے ٹھگ ،اُ ٹھائی گیرے،اجرتی بد معاش،منشیات کے عادی ،جرائم پیشہ ننگ انسانیت درندے ، ڈُوم، ڈھاری،بھانڈ ،بھڑوے ،مسخرے ، تلنگے ،وضیع ،لچے ،شہدے ،رجلے ،خجلے ،بھگتے اور کلاونت بھی بڑی تعداد میں لال کنور کی دعوت پر وہاں اکٹھے ہو گئے۔ پریوں کا اکھاڑہ سج گیا تو جہاں دار شاہ بھی راجا اندر کے روپ میں وہاں پہنچ گیا۔وہ ہر طوائف سے ملتا ،اس سے ہاتھ ملاتااور خُوب ہنہناتا پھرتا تھا۔ اچانک ایک بہت بڑی کشتی دریائے جمنا میں نمو دار ہوئی جس میں مسافروں کی کثیر تعدادسوار تھی۔اس کشتی میں امرا ،غربا، بُوڑھے ،جوان ،بچے ،عورتیں ،مرد ،بیمار اور خواجہ سرا سب شامل تھے۔جب یہ کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو جہاں دار شاہ نے ہاتھ کوزمین کی طرف کیا اورملاحوں کو چلّا کر یہ حکم دیا:
’’کشتی کو دریا کی منجدھار میں لے جا کرغرقاب کر دو ۔‘‘
’’جو حکم ظلِ تباہی‘‘ یہ کہہ کر ملاحوں نے شاہی حکم کی تعمیل میں کشتی دریا ئے جمنا کی مہیب طُو فانی لہروں کے گرداب میں ڈبو دی اور خود مشکوں کے ذریعے تیر کر کنارے تک آ پہنچے ۔ جہاں دار شاہ نے ملاحوں کو شاباش دی اور لال کنور نے بھی کشتی کے توانا ملاحوں کی مہارت کی بہت تعریف کی ۔یہ قیامت کا منظر تھا ہر طرف شور برپاتھا َ’’بچائو ۔۔بچائو ‘‘کی درد ناک آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ایک طرف بے بس انسانیت سسک رہی تھی، زندگی ختم ہو رہی تھی او ر آہیں دم توڑ رہی تھیں تو دوسری طرف بے حس درندے قہقہے لگاتے کھانے پر ٹُوٹ پڑے۔ جب درندے اپنے پیٹ کا دوزخ بھر چُکے توڈُوبنے والی کشتی کے قسمت سے محروم مظلوم انسانوں کی چیخ پُکار ختم ہوچکی تھی اور سب عدم کی بے کراں وادیوں کوسدھارچکے تھے۔ یہ لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا سانحہ دیکھ کرلال کنورخوشی سے پھول کر کُپا ہو گئی اور جہاں دار شاہ سے کہا:
’’آج کی ضیافت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔آج بہت مزہ آیا ، ڈُوبنے والوں کی چیخ پُکاراوررقاصائوں کے پیروں میں بندھی پائل کی جھنکارنے سماں باندھ دیا۔ثابت ہو ا کہ رقص تو چیخ کو سُن کر بھی کیا جا سکتا ہے۔رقاصائوں کو تو اپنے رقص کی جولانیوں سے کام ہوتا ہے ۔کسی نے بھی ڈُوبنے والوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا جرسِ گُل بھی اس منظر کو دیکھ کر محو ِ حیرت تھی۔‘‘
جہاں دار شاہ بولا ’’اس قسم کی ضیافتیں اب کثرت سے ہوں گی۔ اگر ملکۂ عالیہ کاحکم ہو تو روز اسی طرح کشتی ڈبو دی جائے ،ہمیں تو تمھاری خاطر مقدم ہے۔‘‘
اس گئے گزرے زمانے میں بھی لال کنور کے پرستار وں میں کمی نہ آئی۔لال کنور کا وتیرہ تھا کہ وہ ہمیشہ گھی سے بھرے کُپے کے ساتھ جا لگتی اس طرح اُس کی سدا پانچوں گھی میں رہتیں۔میں ملتان کیا پہنچا سداتفکرات میں گِھرا رہتا۔اگرچہ میں بہت بارعب تھا لیکن اس نوکری نے مجھے خاک روب سے بھی بد تر بنا دیا۔دہلی میں تھا تو لال کنور کو آنکھ بھر کر دیکھنے کا موقع مِل جاتا تھا،جب کہ ملتان میں گرد ،گرما، گدا اور گورستان کے سوا کچھ نہ تھا۔حقیقت یہ ہے کہ میں اس شہر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہاتھا۔دہلی میں مجھ جیسے منصب داروںکے بارے میں لوگ بر ملایہ کہتے تھے کہ اقتدار کے اصطبل میںاب گھوڑے عنقا ہیں،اب تو خر ،خچر اور استر ہی راج کررہے ہیں۔ تخت دہلی کی طرف سے اپنی توہین ،تذلیل ،تضحیک ،بے توقیری اورمسلسل شکستِ دِل کے باعث میں علیل رہنے لگا۔ میں نے اپنے چارہ گر اور مسیحا کو بتا دیا تھا کہ لال کنور کے ہجر میں گُھل گُھل کے میں مُو سا ہو گیاہوں۔میری کوئی امید بر نہیں آتی تھی اور نہ ہی لال کنور سے ملنے کی کوئی صورت نظر آ رہی تھی۔ جہاں دار شاہ کے ساتھ شروع میں تو میرا وقت اچھا گُزرامگرکچھ عرصہ بعد اُسے معلوم ہو گیا کہ میں بھی لال کنور کا شیدائی ہوں ۔ وہ مجھے اپنا رقیب سمجھنے لگا اوراسی وجہ سے وہ ہر قیمت پرمجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتاتھا۔جہاں دار شاہ اور میں نے اخلاقی اقدار اوردرخشاں روایات کی پامالی میں جس بے بصری ،بد ذوقی اور کو ر مغزی کا مظاہرہ کیا ،اُس کی مہذب معاشرے میں کوئی مثا ل نہیں ملتی۔جہاں دارشاہ اور میں نے جس حسینہ کو چاہا اپنا لیا ،جومہ جبیں دل کو بھائی اسے فی الفور دل میں بسا لیا ۔ نئے نئے نشے تیار کرنے پر زرِ کثیر خرچ کیا اورجو بھی نشہ ملا وہ استعمال کیا۔جنس و جنوں کا جو انداز بھی سُو جھااُسے بے دریغ اختیار کیا ۔ہمیں کسی کے خوش یا ناخوش ہونے کی مطلق پروا نہ تھی ۔اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور اپنا اُلو سیدھا کرنا ہمار ا وتیرہ تھا۔جنس اور جذبات کے سیلِ رواں میں ہماری کشتیٔ جاں ہچکولے کھانے لگتی اور ہمیں کچھ نہ سُوجھتا۔جہاں دار شاہ کی کم عقلی کا یہ حال تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جنس اور جذبات اور حُسن و رومان کے قدیم تصورات اب فرسودہ ہو چُکے ہیں ۔ جب دل کو قرار ہوتا ہے تب ہی تیوہار منانے کی سُو جھتی ہے ۔اُس کا خیال تھا کہ حُسن کی ہر صورت ایک دعوتِ عام کی حیثیت رکھتی ہے ۔میرے ساتھ جہاں دار شاہ کے اختلافات رفتہ رفتہ بڑھنے لگے ۔در اصل ایک جذبہ ٔرقابت تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں میں ایک ایسی خلیج پیدا ہو گئی جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ایک وقت ایسا آیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ سلوتریوں سے سُنا تھا کہ گدھے کا ماس کاٹنے کے لیے کُتے کے دانت درکار ہیں۔میں نے جہاں دار شاہ کا تختہ اُلٹنے کے لیے ایک مغل شہزادے فرخ سیر سے رابطہ کیا ۔ وہ میری بات سن کر پھڑک اُٹھا ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی تیار بیٹھا تھا ۔میں نے ہمدم دیرینہ بادشاہ گرسادات با رہہ کے سر براہ حسین علی کو اپنے اورفرخ سیر کے عزائم سے آگاہ کیا ۔وہ بولا :
’’میں وہ ہوں جس شہزادے کو جُوتا ماروں وہ بادشاہ بن جاتا ہے‘‘
میں نے کہا ’’اس بار تو اپنے کفش کا ہما فرخ سیر کے سر پر بٹھا دو،اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا ۔سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک پھر سے آ ملیں گے۔لال کنور جب عیاش شوہر سے نجات حاصل کر لے گی توپھر اپنے پُرانے آشنائوں کی طرف بھی توجہ دے گی ۔‘‘
حسین علی نے میری آہ و زاری سُن کر کہا:’’ میں توسیاسی شطرنج کے مہرے بدلنے کا ماہر ہوں ۔عشق کی بازی میں تو جاں تک بھی دائو پر لگائی جاتی ہے،اس لیے یہ بازی کھیلنا میرے بس سے باہر ہے۔تمھاری خواہش اور فرخ سیر کی ہوس جاہ و منصب کی تسکین کے لیے جہاں دارشاہ کو ٹھکانے لگاکر اُس کی جگہ ایک نئی کٹھ پتلی کی صورت میں فرخ سیر کو توتخت ِ شاہی پر بٹھایا جا سکتا ہے مگرجہاں دار شاہ کی ملکہ لال کنور کو کسی اور عاشق کی آغوش میں ڈالنامیرے لیے نا ممکن ہے۔‘‘
میں نے کہا’’تم جہاں دار شاہ کو میرے راستے سے ہٹا دو باقی کام میں اپنی قسمت پر چھوڑتا ہوں ۔اگر لال کنور کے دل میں میرے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز، بچپن کی محبت ،جوانی کی ترنگیں، جذبات کی اُمنگیں ،شباب کے پر کیف لمحات اور خلوت میںگزرنے والے مسحور کن دنوں کی یاد باقی ہو گی تو وہ بیوگی کی چادر اوڑھ کر بھی کچے دھاگے سے کھنچی میرے پاس چلی آئے گی۔‘‘
خفیہ طور پر طے شدہ منصوبے کے مطابق فروری 1713میںفرخ سیر کی فوج کی یلغار کے سامنے جہاں دارشاہ کے پروردہ بانکے ،کلاونت ،ڈُوم اور مسخرے ٹھہر نہ سکے اور دُم دبا کر بھاگ نکلے۔جہاں دار شاہ اور اس کے معتمد ساتھی ذوالفقار خان نے بھیس بدل کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن فرخ سیر کے سپاہیوں نے ان بُزدلوں کو دبوچ لیا اوران کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔جب فرخ سیر فاتحانہ انداز میں قصرِ شاہی میں داخل ہوا تو ہاتھی پر بیٹھے جلاد نے جہاں دار شاہ کا سر نیزے کی نوک پر بلند کر رکھا تھا ۔جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا تھا۔تیروں سے چھلنی ذوالفقار خان کی لاش تیسرے ہاتھی کی دُم سے بندھی تھی ،زمین پر مسلسل گھسٹنے کی وجہ سے یہ لاش بُری طرح مسخ ہو چُکی تھی۔ لال کنور نے پہلے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا رکھا تھا اس نے زرو مال اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی اپنی گٹھڑی بغل میں دبائی اور چادر اوڑھ کر فرار ہونے کے لیے باہر لپکی ۔فرخ سیرکے حفاظتی دستے کے مسلح سپاہیوںنے اس مکار جسم فروش طوائف کہ پہچان لیا اور اس سے گٹھڑی چھین کرایک طرف دھکا دیا ۔ نیم عریاں لباس پہنے لال کنور زمین پر منہ کے بل بے سُدھ گری پڑی تھی۔فرخ سیر کی فوج کے ہاتھیوں کی ایک قطار اُسے روندتی ہوئی آگے نکل گئی۔
میں وہاں سے فرار ہو کر تھرتھرکانپتا ہوا صحرائے تھر میں پہنچااور زندگی کے باقی دن تارک الدنیا سادھو بن کر گُزارنے کا فیصلہ کر لیا۔میںنے اپنے مداحوں اور پرستاروں کو اپنے آبائی فن موسیقی،رقص اور آلات موسیقی کے استعمال کاہنر خوب سکھایا ۔میرے خرمن کے خوشہ چینوں نے راگ اور موسیقی کے جن آلات میں اپنی صلاحیت،محنت اور مہارت کا لوہا منوایا ان میں الغوزہ ،بِین، بانسری،بِگل،گیٹار، پکھاوج،پیانو، پی پا، تنبورا، ترہی،خنجری، جل ترنگ، چمٹا، دف، دوتارہ،ڈُگڈگی ،ڈرم،ڈھول ،ڈھولک ، سارنگی،سنکھ،ستار،سرود ، سُر بہار،شہنائی، طبلہ، کرتال،کمانچی،گراموفون، گھنگرو، گھڑا، مُرلی، منجیرا ، وائلن، وینااور ہار مونیم شامل ہیں۔یہی آلاتِ موسیقی زندگی بھر ہم سب کلاونتوں کا اوڑھنا بچھونا رہے۔دیپک راگ میری اولین چاہت تھی اور میری زندگی اسی میں سلگتے سلگتے بِیت گئی ۔میں زندگی کی بازی ہار گیا اور پیمان شکن لال کنور ملکۂ ہند بن کر جیت گئی۔