حیدر قریشی
یہ نیک بندوں کی انوکھی بستی تھی جہاں سارے نیک لوگ ہی بستے تھے۔گناہ کے تصور سے ہی خوف کھانے والے اور گناہگاروں کے لیے غضب ناک نیک بندے۔کسی کی معمولی سی لغزش کو معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ان کا خیال تھا کہ معمولی غلطیوں کو نظر انداز کیا گیا تو بڑے گناہ جنم لینا شروع کر دیں گے اور دھرتی ناپاک ہو جائے گی۔یہ نیک بندے اپنے عقائدمیں کسی قسم کے اجتہادکو اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں معمولی کوتاہی کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔
ایک بار ایک مجذوب فقیر اس گاؤں میں آگیا۔بستی کے لڑکوں،بالوں نے اس مجذوب سے باتیں کیں تو انہیں لگا کہ ان کے خدا کے محدود تصور کے بر عکس اس مجذوب کی باتوں میں ایک ایسے خدا کا احساس ملتا ہے جو سچ مچ لا محدود ہے اور جس کی محبت بھی دل دہلا دینے والی ہے۔
مجذوب نوجوانوں کو بتا رہا تھا کہ خدا خود کہتا ہے کہ جو مجھے ڈھونڈتا ہے،وہ مجھے پا لیتا ہے۔اور جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے دیکھ لیتا ہے۔جو مجھے دیکھ لیتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے۔جو میرا عاشق ہو جاتا ہے،اُسے میں قتل کر دیتا ہوں اور جسے میں قتل کر دیتا ہوں ،اُس کا خون بہا میں خود ہوجاتا ہوں۔
تب نیک بندوں کی اس بستی کی بڑی عبادت گاہ کا منتظم وہاں سے گزر رہا تھا۔اس نے مجذوب کی یہ بات سنی تو پہلے اسے بھی یہ بات بہت اچھی لگی لیکن پھر یکدم اسے خیال آیا کہ یہ تو اس کے پختہ عقائد اور ایمان سے ہٹ کر بات کی گئی ہے۔صراطِ مستقیم سے ہٹی ہوئی بات کتنی ہی خوبصورت اور دل کو بھانے والی کیوں نہ ہووہ سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔چنانچہ اس نے اسی وقت بستی کے بہت سارے نیک بندوں کو جمع کرکے صلاح مشورہ کیا اور اپنی نئی نسل کو کسی بھی طرح کی گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لیے فیصلہ کیا کہ یا تو یہ مجذوب نیک بندوں کی بستی کو چھوڑ دے یا پھراسے قتل کردیا جائے۔ فیصلہ بظاہر یہی تھا لیکن حقیقت میں یہ طے ہوا تھا کہ مجذوب کو قتل کر دیا جائے گا۔ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نیک بندوں کے سر پنچ مجذوب کے ٹھکانے پر پہنچے تو مجذوب غائب تھا۔جیسے اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
نیک بندے پھر سر جوڑ کر بیٹھے کہ اپنی نئی نسل کو کسی بھی طرح کی گمراہی سے بچانے کے لیے کیا کیا جائے۔ایک نیک بندے نے مشورہ دیا کہ پار پرے کے ایک گاؤں میں خدا کے محبوب ایک بزرگ رہتے ہیں۔ان کو اپنے ہاں بلایا جائے اور ان کے ذریعے دین کی وہ باتیں سنی جائیں جن کے نتیجہ میں مزید نیکیوں کی تحریک ہو۔چنانچہ نیک بندوں کی بستی والوں نے دعوت دے کر خدا کے محبوب اس بزرگ کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ان سے ایک عام خطاب کا پروگرام طے ہوا تھا۔اتفاق سے یہ پروگرام ایسے ایام میں ہوا جب روزوں کا مہینہ چل رہا تھا۔پار پرے کے گاؤں سے آئے ہوئے خدا کے محبوب بزرگ کچھ علیل تھے،دوسرا سفر کی حالت میں تھے اس لیے انہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا کہ خدا کی طرف سے ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک حالت کی صورت میں بھی روزہ نہ رکھنے کی رعائت دی گئی تھی،جبکہ انہیں دہرے طور پر یہ رعائت حاصل تھی۔
جب پار پرے کے گاؤں کے بزرگ خطاب کر رہے تھے،انہوں نے دورانِ خطاب نیم گرم پانی کا ایک گھونٹ سب کے سامنے پی لیا۔ حقیقتاََ وہ ان سارے نیک بندوں کو بتانا چاہتے تھے کہ خدا کی طرف سے جو استثنائی رعائتیں دی جاتی ہیں،وہ بشری کمزوریوں اور سہولتوں کو مدِ نظر رکھ کر دی جاتی ہیں۔اس طرح وہ نیکی کے نام پر کٹّر پن کے رویے کو رد کرنا چاہتے تھے اور اپنے عمل کے ذریعے اسے ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خدا کے محبوب بزرگ کی نیک نیتی اور خدا کی دی ہوئی رعائت والی بات نیک بندوں کی سمجھ میں نہ آسکی۔انہوں نے فوراََ بزرگ پر اعتراض جڑ دیاکہ آپ نے روزوں کے ایام میں روزہ نہیں رکھا۔تب بزرگ نے وضاحت کر دی کہ اپنی علالت اور مسافرت کے باعث انہیں روزہ نہ رکھنے کی رعائت خدا نے دی ہوئی ہے۔بزرگ کی دلیل نہایت معقول تھی لیکن نیک بندوں کے لیے یہ ان کی نئی نسل کے لیے مجذوب کی باتوں سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔انہوں نے روزوں کے ایام کے احترام کے نام پر ایمان افروز شور مچا دیا۔بزرگ اپنی طرف سے جو کچھ کہنا چاہ رہے تھے وہ سب اس شور میں دب گیا۔نیک بندے یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ ایک بیمار اور مسافر جو خودان کے مدعو کرنے پر اس بستی میں آیا تھاوہ روزوں کے ایام کی استثنائی رعائت کا حق دار ہے۔اس سارے ہنگامہ کا اثر نئی نسل پر ہو رہا تھا۔نئی نسل محسوس کر رہی تھی کہ ہمیں دئیے گئے احکامات کی روح کو مارا جا رہا ہے اور صرف ظاہری الفاظ پر تکیہ کرکے اپنی مخصوص نیکی کے عقائد مسلط کیے جا رہے ہیں۔بہر حال وہ بزرگ اپنا خطاب ادھورا چھوڑ کر چلے گئے اور نیک بندوں کی نئی نسل جو ابھی تک ایک جستجو کی کیفیت میں تھی اب باقاعدہ شبہات کا شکار ہونے لگی۔ نیک بندوں کی بستی کے بڑے اپنی نئی نسل کی نئی سوچ سے مزید فکر مند ہوئے اور انہیں گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لیے کوئی اور ترکیب سوچنے لگے۔لیکن ان کے سوچتے سوچتے پورا ایک سال بیت گیا۔
نئے سال کے روزے شروع ہونے سے ایک دن پہلے نیک بندوں کی بستی میں وبائی ہیضہ پھیل گیا۔اور
روزوں کے مہینہ کے پہلے دن ہی سے وہ سارے نیک بندے روزہ رکھے بغیر وبائی ہیضہ سے بچنے کے لیے مختلف دیسی دوائیاں پھانک رہے تھے اور ایک پھکی کے ساتھ نیم گرم پانی پی رہے تھے۔روزوں کے سارے ایام وبائی ہیضہ کی نذر ہو گئے ۔ساری بستی دیسی دوائیں کھانے اور نیم گرم پانی پینے پر مجبور ہو گئی تھی ۔اب کسی کو روزوں کے ایام کے احترام کاخود ساختہ فلسفہ نہیں سوجھ رہا تھا۔تب ایک نوجوان نے اپنی بستی کے سارے بزرگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
’’آپ بزرگوں نے مجذوب فقیر کی طریقت کی باتوں کی روح کو سمجھے بغیراُسے معتوب قرار دے دیااور خدا کے محبوب بزرگ کی شریعت کی باتوں کو بھی ان کی روح کے ساتھ سمجھنے کی بجائے اپنی من گھڑت تاویلوں کے ذریعے رد کیا اور گھر پر بلائے ہوئے مہمان کی اہانت کی۔کیا اس بار روزوں کے مہینے میں آپ خود خدائی سزا کا شکار نہیں ہوئے؟ کہ نہ کسی کو روزہ رکھنے کی توفیق ملی اور نہ کسی کو اب روزوں کے احترام کا وہ من گھڑت فلسفہ یاد رہا جو پچھلے سال خدا کے ایک محبوب بزرگ کی اہانت کرنے کے لئے آپ کو شدت سے یاد آگیا تھا۔ ‘‘
نوجوان کی باتوں کی باقی سارے نوجوان بھی تائید کر رہے تھے۔اور نیک بندوں کی بستی کے سارے بزرگ یہی سوچ رہے تھے کہ ان کی نئی نسل ان کے ہاتھوں سے نکل کر گمراہ ہو گئی ہے ۔وہ اپنی نئی نسل کی گمراہی پر افسردہ تھے لیکن ان میں سے کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ وہ خود خدا کی طرف سے کیسی کھلی کھلی سزا پا چکے ہیں۔ اورسزا پانے کے بعد بھی مسلسل ایک سزا کی حالت میں گھرے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقوق اللہ کا معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے مابین ہے اور اللہ کی رحمت اور مغفرت کی کوئی حد نہیں۔
وہ ستّار اور غفّار ہے اور اپنے حقوق کے معاملہ میں اپنے کمزور بندوں کی غفلت سے اکثر چشم پوشی فرماتا
ہے۔البتہ حقوق العباد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ان حقوق کی ادائیگی پر ہمارے سماجی ڈھانچے کا انحصار
ہے۔فرد کے معاملات دوسرے افراد سے اور افراد کے معاملات ریاست کے ساتھ حقوق العباد کے شعبے
میں آتے ہیں۔ان کا مکمل ادراک اور دیانتداری کے ساتھ ادائیگی ہی اسلامی معاشرت کی بنیاد ہے۔
ان کا نظر انداز کیا جانا یا ان کی ادائیگی میں خیانت معاشرے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
(اوصاف علی کی کتاب حقوق العباد میں
سابق چیف جسٹس ایس انوارالحق کے تحریر کردہ پیش لفظ سے اقتباس)