(Last Updated On: )
نئی زندگی صنعتی روز و شب سے مالا مال ہے۔ دن بہ دن نئی صنعتیں اونچے اور عظیم کارخانے، تعمیراتی اور مصروف کارگاہیں شہروں کی صورتیں بدلتے جا رہے ہیں۔ یہ ارتقاء کی منزلیں ہیں اور قوم ارتقاء کی راہ میں منزل بہ منزل رواں دواں ہے۔ ملازمتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر صبح، ہر پہر، ہر نیم شب کتنے ہی پڑھے لکھے، صنعتی کاریگر اور نوجوان شہروں سے جمع کر کے آبادی سے دور دراز صنعتی مراکز کی طرف لے جائے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک مخصوص وقت تک قوم کی اس روز افزوں عظمت کے منادر میں اپنے خون پسینے کو نذر کر سکیں۔
اقتصادی زندگی (بلکہ معاشرتی زندگی) ترقی اور مسرت کی جانب رواں دواں ہے۔ لیکن کیا سماجی زندگی کی بھی یہی صورت ہے۔ میرا جواب افسوس ناک طور پر نفی ہے۔ جہاں انسان اپنی دانش وری سے نت نئے کارنامے انجام دے رہا ہے اور نوع بہ نوع کارخانے قائم کرتا جا رہا ہے، وہیں اس کی زندگی بہ حیثیت ایک فرد کے کم سے کم تر اور محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ بلکہ اس کا ایک فرد کے طور پر کوئی جداگانہ کردار نہیں رہا، وہ معاشی تار و پود میں ایک ریشے کی حیثیت رکھتا ہے۔ صنعتی کلوں میں اس کی ہستی ایک پرزہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
عموماً (بلکہ صدیوں سے) یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ایک ذہین شخص ایک بڑا کاریگر ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ صنعتی زندگی ایک ذہین کے مقابل ایک پابند اور نظام الاوقات کے اسیر شخص کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ تخلیقی اور عملی اصول اتنے مختص ہیں کہ ان میں انسان کوئی واحد اور فرید قسم کی دانش وری نہیں دکھا سکتا۔ علم شعبہ جات میں بٹ گیا ہے اور شعبہ جات ان سے بھی بیش تر حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ یہ Specialization کا دور ہے یہ دور مقصدی بلکہ اقتصادی طور پر انسانیت کے عروج کی علامت ہو سکتا ہے۔ لیکن فرد کا دائرۂ عمل سمٹتا جا رہا ہے۔ جہاں مصروفیات ایک فرد کی تمام تر قوتوں کا مثبت استعمال کرتی ہیں وہیں انسان کی انفرادی صلاحیتوں کے لیے سمِ قاتل ثابت ہو رہی ہیں۔ اس مقام پر یوتانگ کا یہ قول قابلِ غور ہے کہ ’’دانش بغیر حسِ مزاح ایک بنجر زمین ہے۔‘‘ یہ ایک بین حقیقت ہے کہ انسان فن کارانہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے معاملے میں بنجر ہوتا جا رہا ہے۔
فرد جس میں تھوڑی سی فنی حسّیت ہے ایک عجیب سی کشاکش میں گرفتار ہے۔ نئی شاعری بھی اس کشاکش کو کچھ کامیاب طور پر نہیں پیش کر سکی ہے۔ کیوں کہ کشاکش کئی مسائل کا انجماد ہے۔ ہر مسئلے کی جداگانہ صورت پیش کی گئی ہے۔ لیکن فرد کے کرب کی نامیاتی شکل صحیح طور پر سامنے نہیں آ سکی ہے۔ سچ مانیے تو کئی جدید شعرا کے مجموعہ ہائے کلام کو ملا کر اگر ایک جگہ رکھا جائے تو وہ اگر ضم ہو جائیں تو حاصل ایک نامکمل نظم سے بڑھ کر نہ ہو گی۔
میری نگاہ میں اہم ترین المیہ ’’اخلاقی اقدار کی شکست‘‘ ہے جو موجودہ زندگی میں زیادہ گہرا اور درد ناک ہو گیا ہے۔ برسوں سے بنی ہوئی اور بنائی ہوئی وہ اقدار جو مختلف مذاہب، عقائد اور کلچر کو سنہرے وعدوں اور سنہری امیدوں سے آراستہ کرتی تھیں یک بہ یک توہمات اور رسوم و قیود کی شکل اختیار کر گئیں۔
بڑے دل چسپ وعدے تھے بڑے رنگین دھوکے تھے
گلوں کی آرزو میں زندگی شعلے اٹھا لائی
خورشید احمد جامیؔ
وہی نگاہ جو کل چشمِ احساں تھی، چشمِ کرم تھی، وہی نگاہ اب چشمِ نگراں اور دیدۂ غضب بن گئی۔ کل جن راستوں کو سیدھی راہ قرار دیا گیا تھا وہ آج اسباب، اداروں اور سرمایہ داروں کا جال بن گئے ہیں۔ اقدار کے زوال کی صورت یہاں تک پہنچی ہے کہ انسان ہر برتر کردار کے بارے میں مشکوک ہو گیا۔ یہاں تک کہ
گلوئے یزداں میں نوکِ سناں بھی ٹوٹی ہے
حکایتِ دل پیغمبراں بھی ٹوٹی ہے
مخدوم
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
ن۔ م۔ راشد
انسان عظیم ہے خدایا
اس نے تجھے عرش سے بلایا
احمد ندیم قاسمی
یزداں پہ جھپٹ پڑے گا ابلیس
انسان جو ہٹا درمیاں سے
احمد ندیم قاسمی
یہ انتہائی صورت کمیونسٹ اور اشتراکی نظریات کے فروغ سے پیدا ہوئی۔ ممکن ہے کہ ان نظریات نے انسانیت کے ایک بڑے حصے کے لیے معاشی اطمینان فراہم کیا ہو، لیکن وہیں انھیں ہر مروج مقدس اصول سے آزاد کر دیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس معاشی انقلاب کو معاشرتی انقلاب کا بناوٹی سا نام کیوں دیا جاتا ہے۔ (خیر یہ تو نظریاتی بحث ہے)
اقدار کی شکست نے یہ خیال عام کیا کہ اب مجذوبانہ فقر و فاقہ اور خاکسارانہ تلاشِ حق کی نئے سماج کو کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب کوئی استاد کوئی شاگرد، کوئی رہنما، کوئی سیاسی راہبر اگر حیثیت رکھتا ہے تو وہ اس کی معاشی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔ اس کی مستند قابلیت ہے۔ سقراط جو شاید کوئی ڈگری نہیں رکھتا تھا، اگر اس دور میں آتا تو اس کی عالمانہ باتوں کو غالباً کوئی نہ سنتا اور وہ اپنی دانش کی آگ میں جل کر خود کشی کر لیتا۔
عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
اقبالؔ
اپنی بات کو ذرا واضح طور پر پیش کرنے کے لیے میں ماڈرن آرٹ کی مثال دوں گا۔ پکاسو سے لے کر ایم۔ ایف۔ حسین کی پینٹنگس کو ذوق سے دیکھنے والے لوگ آپ کو بہت کم ملیں گے۔ اگر ان لوگوں سے جو صاحبانِ ذوق کہلاتے ہیں عظیم فن کاروں کے مشہور آرٹ پر بھی رائے لی جائے تو حاصل مایوس کن ہو گا۔ کیا یہ صورتِ حال آرٹسٹ کے لیے ایک کرب انگیز تجربے سے کم ہے؟ اپنے جی کو خوش کرنے کے لیے چند ادیب یہاں تک کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ان کا شعر و سخن ان دو قاریوں کے لیے ہے (کم از کم) جو ان کی شاعری سے صحیح طور پر محظوظ ہوتے ہیں۔ گویا شاعر ترسیل سے مبرا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے کیا اس دعوے دار شاعر کو زیادہ اربابِ ذوق میسر آئیں تو مسرور نہ ہو گا؟ گویا یہ تو حفظ ماتقدم سا بیان ہے۔ انہی اقدار میں (جو سرے سے ہیں ہی نہیں) فن کی حیثیت اسباب تعیش سے بھی کم تر ہے وہ آنکھیں جو بصیرت رکھتی تھیں۔ ریفریجریٹر میں پڑی ہیں اور ہمارا چہرہ۔۔۔
ٹوٹی اقدار کے
بکھرے ہوئے، افکار کے
پا بستہ تمناؤں کے
لب بستہ وفاؤں کے
سراسیمہ گزرتی ہوئی ہر ساعت کے
اس انبوہ میں گر
اپنا چہرہ نظر آ جائے تو اس سے بھی چرالوں نظریں
(یہی ظالم کہیں آئینہ دکھانے نہ لگے۔۔۔)
… (ساجدہ زیدی ’’سناٹے کی آواز‘‘)
لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں کے کے ہبریا ایسے ہی مقبول فن کار کی بنائی ہوئی تصاویر یوں سجاتے ہیں جیسے انسائیکلوپیڈیا کی موٹی جلدیں۔ اُن سے اِن تصاویر کے انتخاب کا سبب پوچھنے کی غلطی نہ کیجیے۔
مروجہ اقدار پر انسان کا ایقان یوں کم زور ہو گیا ہے کہ اب کئی اقداری شخصیات اور اقداری محکمات علامتی نشانات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، وہ ان تمام اقدار سے جو خدا، قدرت، قسمت، نیکی، خیر و شر کا تصادم، امن و امان وغیرہ کا بار بار ذکر کرتی ہیں مشتبہ ہے۔ اس کا اعتماد اگر اٹھ نہیں چکا تو ہٹ تو چکا ہے۔ وہ ہر دل کش چیز میں ’’لا۔۔ ۔‘‘ ڈھونڈتا ہے۔ وہ صاف ستھرا رہنے کے احکامات میں بھی تحکمانہ درشتی پاتا ہے۔ نظام العمل اور منظم زندگی کو اپنی آزادی پر قفس پاتا ہے اور اس لمحے کا منتظر ہے جب تارِ عنکبوت ٹوٹ جائے گا اور کھلی کھلی تازہ ہوا اس کی زندگی کے سنسان مکان میں در آئے گی۔
خوش آئند مستقبل ایک وعدہ ہے اور وہ بھی محبوب کا وعدۂ فردا سے بڑھ کر نہیں۔ لیکن ہر فرد مستقبل کا منتظر ہے اس انتظار میں کبھی آرزو کی طلائی تحریر ہے تو کبھی حقائق کا سیہ رنگِ سایہ، اس انتظار میں کچھ مایوسی ہے تو کچھ خوش فہمی۔ نیا فن کار دونوں ہی کیفیات سے دوچار ہے۔ اس بڑھتی ہوئی تشکیک کا سبب یہ ہے کہ منزل تک پہنچنے کا کوئی راستہ، کوئی مسلک اور سمت اسے راس نہیں آتے۔ وہ تو تہذیبی نظام سے بھی بد ظن ہے۔ یہ ذہنی کشمکش، یہ اخلاقی کشاکش اسے کنفیوز کرتی ہیں۔ وہ ایک طرف معبدوں کے بے چراغ ہونے کا مرثیہ خواں ہے تو دوسری طرف فرد پر شب و روز اترتے ہوئے کرب سے نالاں ہے۔
کہاں تو وہ لمحے تھے رقصاں
کہ جب آسماں زمیں پر نظر کی حدوں تک
نئی ایک دنیا تھی منظر تھے ساتھی، رفیق اور ہم دم
مگر اب یہ دھرتی، مناظر سبھی کچھ اجاڑ اور بنجر پڑے ہیں
پہاڑوں کی سب چوٹیاں اب ہیں رنگ اور تابش سے محروم
اندھیرے نے پھیلا دیں باہیں
…… (ماجد حلیم ’’ایک پہاڑی شام‘‘)
نئی صنعتی زندگی میں فرد کی کم اصلیت اور اس کی وجودی اہمیت کے زوال کے خلاف نئی شاعری احتجاجی آواز ہے جو مشینی شور شرابے میں ابھرنا چاہتی ہے۔
بمبئی کی زندگی کی عکاسی ’’عروس البلاد‘‘ میں قاضی سلیم یوں کرتے ہیں:
یہ لوگ کیسے لوگ ہیں، جیتے ہیں کس لیے
ایسا ہو ایک رات سمندر کے دیوتا
ساحل کے کف سے چیختے چنگھاڑتے چلیں
دھرتی کے زخم زخم کو دھوکر نکال دیں
یہ لوگ کیسے لوگ ہیں، جیتے ہیں کس لیے
بے ہوش نیم مرگ سرِ راہ گزار عام
کچھ ایسے اڑتے ترچھے پڑے ہیں کہ جیسے وہ
انسان نہیں کٹے ہوئے جنگل کے پیڑ ہیں
احتجاجی قوت کو الفاظ میں قید کرنے سے جلتی ہوئی شاعری جنم لیتی ہے۔
تھکے ہوئے واماندہ اشخاص صرف بے نام اکائیاں ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان میں شخصیاتی کیفیات باقی نہیں رہتیں وہ تو خاشاک کی طرح ہو جاتے ہیں اور نیا شخص تو ضرورت اور اسباب کا ایک ہر کارہ ہے۔
عمیق حنفی ایک انسانیت پرست شاعر ہیں۔ وہ تعلقات کے بے لوث اور بے حس ہونے کے المیے پر حیران ہیں۔ ان کی شاعرانہ باتیں سنیے:
شارعِ عام پر حادثہ ہو گیا
آدمی کٹ گیا
اس کا سر پھٹ گیا
بھیڑ بہتی رہی
بات کرنے میں جو تھے مگن بات کرتے رہے
قہقہے چیخ کے پر کترتے رہے
اور اکثر جو خاموش تھے چپ گزرتے رہے
آدمی مر گیا
…… (مشین زادوں کی بستی میں)
ایسا نہیں کہ کامل مسرت کی کلید ہاتھ آئے۔ مذاہب جو خوش تہذیبی اور امن و سلامتی کے دعوے دار ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ وہ خوش گوار تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔ جہاں بہتر عمل کی تاکید زور و شور سے ہوئی وہیں اطلاق میں زبردستی کی گئی۔ مذاہب سے ہٹ کر مسالک میں بھی وہی دشواری پائی گئی۔ قریبی مثال مارکسزم کی ہے جس کی عمل آوری میں سماجی نا انصاف کی گھناؤنی صورت درپیش ہوئی۔
نیا فن کار یہ جانتا ہے کہ اب کوئی نیا فلسفہ بھی ان روز افزوں مسائل کا حل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ وہ نئے اخلاقی مستقبل سے نا امید سا ہے۔ اس حال میں آنے والی نسل کے لیے ہماری تہی دامنی نہ جانے کیسی کیفیت سامنے لائے۔ مصطفی زیدی اپنی نظم ’’میری پتھر آنکھیں‘‘ میں یوں کہتے ہیں:
قحطِ افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اس دیس، کل اس دیس کا وارث ہو گا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دھوپ کا حرفِ جنوں، لو کا وصیت نامہ
اور مرے شہر طلسمات کی بے در آنکھیں
میری بے در، مری بنجر، مری پتھر آنکھیں
جدید شاعر رؤف خلش کہتے ہیں:
ریت کے ٹیلے وہی ہیں
خزاں کا ہے وہی موسم
جھلستے ہیں کڑکتی دھوپ میں پودے گلابوں کے
ابلتے خون میں لتھڑی صلیبیں
کن نگاہوں کا ہیں کفارہ
دہکتے سائبانوں میں
پانی کی ٹھنڈی چھاگلیں
سوکھی پڑی ہیں
میں اک بے خواب اور تنہا مسافر
گھنے سائے کی دھن میں۔۔ ۔
صدیوں سے بھٹکتا ہوں
اوپر کی مثالیں صرف ایک جھلک ہیں۔ اس افراط و تفریط کے دور میں نیا شاعر تتلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ حاضر لمحے میں سلیس نغمہ چھیڑتا ہے۔ وہ ایک ناظر کی طرح بغیر کوئی نتیجہ اخذ کیے منظر کو دیکھتا ہے اور انوکھے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس شاعری کی لفظیات مبہم سی لگتی ہیں۔ لیکن اس کے بے ترتیب الفاظ اس کی ذہنی بے ترتیبی کے آئینہ دار ہیں۔ اس کی شاعری ایک ٹوٹتا ہوا نور ہے جو ادب اور زندگی کے فیوژن سے کسی جنگلی باغ میں پھولوں کی طرح کھلا ہوا ہو۔
شاعری کا بنیادی عنصر فرد کے جذبات و علائق سے منسلک ہے۔ شاعری کو محاورہ کی طرح روز مرہ میں استعمال کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک بے ربط اور بے مخاطب تبصرہ ہے۔ نیا شاعر اس صورتِ حال سے دوچار ہے جو کرب ناک ہے۔ اس کی ساری نظمیں ادھوری اور ساری شعری کیفیات تشنہ ہیں اور بہتر یہی ہے۔ جس دن یہ نظمیں مکمل ہو جائیں گی وہ دن بہت صبر آزما ہو گا۔
٭٭٭