دیکھ شہلا ضد چھوڑ اور میرے ساتھ گھر چل۔! تو خالہ کی وجہ سے ناراض ہے تو میں ان سے بھی معافی مانگ لوں گا۔۔ بلکہ ایسا کرتا ہوں تجھے ان سے ملوانے اسلام آباد لے چلتا ہوں ، اسی بہانے تو بہن کا سسرال بھی دیکھ لے گی۔۔۔
ویسے زینہ نے بڑی زیادتی کی ہے میرے ساتھ۔!
زیادتی زینہ نے کی ہے ۔؟؟ ذیشان کچھ تو شرم کر لو۔! رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔
کیسے کسی راہ چلتے کو زینہ کا ہاتھ تھما دیتے ۔۔
میری ماں ، میری بہن کو تو چھوڑو۔!! اپنی اولاد جو کہ ابھی دنیا میں بھی نہیں آئی تھی اسکا تو کچھ خیال کر لیتے۔ ؟
ذیشان آپ لوگ صرف اپنا پیسہ بچانے کے لیے بھاگے تھے نا ؟؟ بولو جواب دو ۔!!
چل چھوڑ بھی دے نا ضد۔ ذیشان کھسیانا ہوا۔
میں نے سوال کیا ہے مجھے جواب چاہئیے ذیشان۔!!
دیکھ شہلا میرے نا موجود ہونے پر تیرا بہترین علاج ہوا ہے ، ہر طرح کی سہولت میسر تھی ۔ تجھے تو شکر ادا کرنا چاہیے ، تو میرے ساتھ ہوتی تو سرکاری ہسپتال میں ہی رلتی رہتی۔۔
کیا ؟؟ ذیشان آپ کو ذرا سا بھی افسوس یا شرم نہیں آئی۔,؟؟ صرف اپنا پیسہ بچانے کے لئے مجھے دوسروں کے سر تھوپ گئے۔!
تو تو بیوقوف عورت ہے تجھے کیا خبر پیسہ کتنی مشکل سے کمایا جاتا ہے۔؟ اور ویسے بھی وہ لوگ تمہاری بہن کے سسرالیے ہیں ۔ لمبے نوٹ ہیں انکے پاس، انکے لیے لاکھ دو لاکھ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ ذیشان نے لاپرواہی سے بولا۔۔
ذیشان مجھے آپ کی اس سوچ پر نہایت افسوس ہے یعنی صرف پیسے کی خاطر اس حد تک گر سکتے ہیں۔ !!
مجھے فی الحال آپ کے ساتھ نہیں جانا ہے، میں سوچ کر بتاؤں گی کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا ہے۔!!
چل تو ادھر بیٹھ کر سوچتی رہ ، میں بھی پھر کسی دوسری کے بارے میں سوچتا ہوں۔!!
شہلا کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔
******************************************
روحیل نے زینہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ہاتھ تھام کر گھر کے اندورنی مہمان خانے کی طرف بڑھ گیا۔۔
صوفے پر براجمان ہستی کی طرف والہانہ انداز میں لپکا۔
السلام علیکم ۔!! روحیل نے اجتماعی سلام کیا اور زینہ کا ہاتھ تھامے پھپھو کی طرف بڑھ گیا۔۔
میری بہت پیاری پھپھو جان کیسی ہیں آپ ؟ روحیل فرحت جذبات میں پھپھو سے لپٹ گیا جبکہ زینہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
اسی اثناء میں ارشاد صاحب نے آگے بڑھ کر زینہ کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور عاصم بھی چھیڑنے کی غرض سے زینہ کے سر پر ہاتھ رکھنے آن دھمکا۔۔
صدا سہاگن رہو بہن۔!! عاصم نے زینہ کے کان میں سرگوشی کی۔
ویرے ۔!! تم زیادہ شوخے نہیں ہو گئے ہو ۔! زینہ نے سرگوشی والے انداز میں دہائی دی۔۔
بس آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا۔۔!! عاصم نے زینہ کو ڈرانا چاہا۔۔۔
میری بیوی زینہ سے ملیں پھپھو۔!! روحیل نے پھپھو کے سینے سے علیحدہ ہوتے ہوئے بولا۔۔ روحیل کو بوسے دیتی پھپھو کی نظر حجاب میں لپٹی زینہ پر پڑی تو منہ کے زاویے بدلنا شروع ہو گئے۔۔
زینہ مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی اپنا نقاب اتار چکی تھی۔۔
روحیل یہ تمہاری بیوی ہے ۔؟؟؟
جی پھپھو یہ زینہ ہے ۔!
ڈیڈ نے بتایا ہو گا آپ کو ؟؟
ہاں مجھے بھائی جان نے بتایا تھا ، ادھر آؤ زینہ میرے پاس گھبرا کیوں رہی ہو۔؟؟
ججججی ۔! زینہ لرزتی ٹانگوں کے ساتھ پھپھو کے قریب ہوئی۔۔
پھپھو نے ساتھ لپٹانے سے قبل سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔۔
تم سات سال کی تھی جب میں نے دیکھا تھا مگر ابھی کیا بن گئی ہو۔؟
یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے۔؟؟
نئی نویلی دلہن ہو ۔! اور ویسے بھی ہماری کلاس میں یہ سب دقیانوسی باتیں نہیں چلتیں۔۔
پھپھو نے اپنے “شورٹ بوب” بالوں میں ایک ادا سے ہاتھ پھیر کر پیچھے ہٹایا۔۔۔
چست آدھی آستیوں والی ساڑھی میں ملبوس پھپھو زینہ کے لیے ایک نئے امتحان کی پیشن گوئی تھی۔۔ضرورت سے کچھ زیادہ فیشن کی دلدادہ پھپھو کو دیکھ کر زینہ کی ہمت جواب دینے لگی۔۔
زینہ نے ڈرتے ہوئے اثبات میں گردن جھٹکی اور پھیکا مسکرا دی۔۔
سوگوار آنکھیں جھلملانے لگیں۔۔۔
بےتحاشا رونے کے باوجود بھی چہرے پر میک اپ کے اثرات ابھی بھی باقی تھے مگر نشیلی آنکھیں سوگواریت لیے ہوئے تھیں۔
ارے پھپھو زینہ گھر میں تھوڑی پہنتی ہے حجاب ، یہ تو بس باہر پہن کر جاتی ہے۔ روحیل نے فوراً بات کو سمیٹ کر عاصم اور ڈیڈ کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔
پھر بھی روحیل تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو ، تمہارا حلقہ احباب اس چیز کو قبول نہیں کرتا ہے۔۔۔ خوش شکل ہو ، تمہارے ساتھ چلنے والی کو بھی تمہارے ساتھ میل کھانی چاہئے۔۔
آخر کو تم ہمارے خاندان کے سب سے بڑے چشم و چراغ ہو ، ہمارا مختلف لوگوں کے ساتھ میل ملاپ ہوتا رہتا ہے ، ایسے تھوڑی ہی ایک برقعہ میں چھپ کر بیٹھا جا سکتا ہے۔۔۔ پھپھو اپنی دھن میں بولتی دبیز صوفے کی طرف بڑھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گئیں۔۔۔
پھپھو یہ میری بیوی ہے۔! مجھے اسکا یوں با حجاب ہونا پسند ہے۔!
آپ کونسی باتیں لے کر بیٹھ گئیں ہیں پھپھو ۔۔؟ روحیل نے پھپھو کو باور کروایا اور زینہ کا ہاتھ تھام کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔
شمیم زینہ شروع سے حجاب کی عادی ہے اور ہمیں اسکے حجاب لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔!
بھائی جان آپ بھی بیٹوں کی باتوں میں آ گئے ہیں۔؟؟
یہ تو دونوں ایک نمبر کے بیوقوف ہیں۔!
پھپھو نے دونوں بھتیجوں کو لتاڑا۔۔۔
پھپھو میں تو کچھ زیادہ بیوقوف ہوں جو ابھی تک کنوارا بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔! عاصم کو اپنا درد دل یاد آ گیا۔۔۔
پھپھو میرے لیے تو لڑکی میری بھابھی زینہ کے ذمے ہے۔۔
ارے بھائی جان یہ ان دونوں کو کیا کر دیا ہے ۔۔؟؟
ان دونوں کی تو سوچ ہی بدل گئی ہے۔۔ لوگ آگے بڑھتے ہیں ، ترقی کی منازل طے کرتے ہیں مگر یہ دونوں تو پیچھے کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ بیٹا جی 1950 والی باتیں نہ کرو ، ابھی 2019 ہے ۔۔
ارے پھپھو جان۔!! آپ تو اٹلی جاکر ان کے جیسے بن گئیں ہیں۔۔عاصم سے رہا نہ گیا۔۔
عاصم دبئی میں کونسے سارے حاجی نمازی ہی مقیم ہیں۔؟؟ میں دبئی کے حالات بھی بخوبی جانتی ہوں بچے۔!
پھپھو اچھے برے لوگ تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں، یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ ہم کونسے راستے کو اپناتے ہیں۔!
عاصم بیٹا جی دبئی والے یورپی ممالک کی نقالی میں سب سے آگے ہیں۔!
پھپھو دبئی والوں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور ہم نے اپنی قبر میں جانا ہے۔۔ انہیں دیکھ کر ہم اپنی اخلاقی قدریں تو نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔!
ارشاد صاحب خاموش بیٹھے پھپھو بھتیجوں کی بحث پر مسکرا رہے تھے۔
بھائی جان آپ نے ان دونوں کو بہت ڈھیل دے رکھی ہے۔
ایک دن ان دونوں نے آپکو بھی برقعہ پہنا دینا ہے ۔!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا ہاہاہاہا عاصم اور ڈیڈ کا قہقہہ بلند ہوا جبکہ روحیل کا سارا دھیان زینہ پر تھا وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔۔
زینہ کو مکمل خاموش بیٹھے دیکھ کر روحیل نے زینہ کو نرم لہجے میں بولا۔
زینہ تم جاؤ اپنا حجاب اتار کر آؤ تو پھپھو کو پتا چلے کہ میری پسند کتنی اچھی ہے۔۔۔
زینہ اشارے ملتے ہی خاموشی سے غسل خانے کی جانب بڑھ گئی۔
روحیل کو اپنا آپ چکی کے دو پاٹوں میں پستا نظر آنے لگا۔۔ ایک طرف زینہ کا پھپھو کی باتوں پر غمگین ہونے کا ڈر تو دوسری طرف پھپھو کے آتے ہی حجاب پر اعتراضات ۔۔
عاصم اور ڈیڈ خاموشی سے ساری صورتحال دیکھ رہے تھے۔۔
عاصم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں روحیل کو چڑایا۔۔۔
حجاب اتار کر سب سے پہلے چہرے پر تھوپا گیا معیاری میک اپ پانی اور صابن کی نظر کر دیا ۔ واٹر پروف میک اپ کو رگڑ رگڑ کر اتارا اور مغرب کے لیے تازہ وضو کر لیا ۔۔۔
معصوم صاف شفاف چہرہ ، روئی روئی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی داستان سنا رہا تھا۔
کچھ سوچ کر غسل خانے سے نکل کر عاصم کو آواز دی۔۔
ویرے۔!!
عاصم کے بجائے روحیل کے کان کھڑے ہو گئے۔
کیا بات ہے زینہ؟؟
بھیا میرا نام ویرے ہے۔!! آپ یہاں پر تشریف رکھیں ، میں ذرا اپنی بہن کی بات سن کر آتا ہوں۔۔
روحیل لاجواب ہو کر دوبارہ بیٹھ گیا جبکہ دل میں بیقراری اپنے عروج پر تھی۔۔
روحیل اور سناؤ سب ٹھیک سے چل رہا ہے۔؟؟
جی پھپھو سب “الف ایک” چل رہا ہے۔! تو شرارتی ابھی بھی نہیں بھولا ہے۔! پھپھو نے لاڈ سے روحیل کو دیکھا۔۔
بس پھپھو آپ کے ساتھ گزرے ماہ و سال کون بھول سکتا ہے بھلا۔۔
پھپھو اپنی نشست سے اٹھ کر روحیل کے قریب آ کر بیٹھ گئیں اور ساتھ لگاتے ہوئے ڈھیر سارا پیار کرنے لگیں۔۔
روحیل تمہیں پتا ہے مجھے تم سب سے زیادہ پیارے ہو، میں تمہیں بہت خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہوں۔!
جی پھپھو یہ آپ کے زمانہ قدیم کے جملے ابھی بھی نہیں بدلے ہیں۔۔!
دیکھا بھائی جان یہ پھپھی کے ساتھ چھیڑ خانیاں کرتا ہے۔۔!! شمیم تم نے خود انکو سر چڑھا رکھا ہے اور کہتی مجھے ہو۔۔۔
بھائی جان حد تو آپ نے بھی مکا رکھی ہے۔!
پھپھو نے دوبارہ روحیل کو آڑے ہاتھوں لیا۔۔
یعنی پھپھو اب اتنی قدیم ہو چکی ہے۔۔؟؟؟
اب صرف پندرہ سال پرانی بات ہے شہزادے۔! پھپھو نے روحیل کی داڑھی کو پکڑ کر ہلکا سا مروڑا۔۔
پھپھو آپ ذرا بھی نہیں بدلی سوائے اپنی سوچ کے۔!!
ہیں۔؟؟ میری سوچ کو کیا ہو گیا مولانا صاحب۔؟؟؟
یہی مغربی سوچ ، مغربی طور طریقے اور مغربی رہن سہن نے آپ کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔۔۔
روحیل پتر میں تمہاری ایک ایک رگ سے واقف ہوں۔ یہ جو تیرے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں یہ صرف بیوی کے حجاب پر اعتراضات کی بدولت ہیں۔۔۔
ہائے پھپھو آپ وہی قدیم والی سمجھدار پھپھو ہیں۔۔
روحیل باتیں پھپھو کے ساتھ کر رہا تھا مگر سارا دھیان چند قدم کے فاصلے پر کھڑے عاصم اور زینہ میں تھا۔۔
ویرے میں کب سے باہر تھی ابھی امی کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ پھپھو کو برا تو نہیں لگے گا ؟؟
تم اپنا اس حلیے میں دیدار کروا کے چلی جاؤ تو انکو رات نیند آنے میں آسانی رہے گی وگرنہ گاہے بگاہے بھیا کو طعنے وصول ہوتے رہیں گے۔۔ دیدار سے مراد پھپھو ہیں ، روحیل بھیا نہیں ہیں۔۔!!!
گھبراؤ نہیں ۔!! آ جاؤ۔!
عاصم زینہ کو اپنے ساتھ لیے پلٹا۔۔۔
پھپھو دیکھیں نا میری بھابھی جیسی ہے کوئی اس پورے اسلام آباد میں ہے۔؟؟
عاصم نے پرجوش انداز میں اعلان کیا۔۔
ماشاءاللہ ہماری بہو بہت پیاری ہے ، یہ تو ہمارے گھر کی رونق ہے ۔۔ اس کے آنے سے ہمارا یہ مکان گھر لگنے لگا ہے۔۔۔
ارشاد صاحب نے فوراً اٹھ کر زینہ کے سر پر دست شفقت رکھا۔۔۔
زینہ کو شفاف حلیے میں دیکھ کر روحیل کے دل میں ٹھیس اٹھی۔۔ کثرت بکا سے سوجھے پپوٹے جو شاید باقیوں سے پوشیدہ تھے یا کسی نے غور و فکر نہیں کیا تھا مگر روحیل کو تو زینہ کی ہر چیز ازبر تھی۔۔۔
اسکے دل کی ملکہ بہت خاموش اور اداس تھی جوکہ روحیل کے لئے شدید اذیت کا باعث تھا۔۔
وہ پھپھو اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ دیر کے لئے جانا چاہتی ہوں ، ابھی مغرب کا بھی وقت ہو چکا ہے اور دوسرا امی تنہا ہوں گی۔۔ زینہ کا مؤدب اور دھیما شیریں لہجہ روحیل کے دل پر خنجروں کے وار کر رہا تھا۔۔ ہائے زینہ تم تک رسائی کس قدر کٹھن مرحلہ ہے۔۔۔ تم کب میری ہو گی۔؟ روحیل نے زینہ کو دیکھتے ہوئے سوچا جو پھپھو سے چند لمحوں کے لئے مخاطب تھی ، اجازت نامہ ملتے ہی زینہ خاموشی سے مہمان خانے سے نکل کر بائیں جانب ملحقہ دروازے کے پیچھے غائب ہو گئی۔۔۔
اپنی بوڑھی ماں کو یوں تن تنہا دیکھ کر اپنے اوپر مذید غصہ آنے لگا۔۔
مجھے کیا ضرورت تھی میک اپ کے لیے جانے کی۔؟؟
اس شخص کی غلط کاریاں میرے سے پوشیدہ تھیں ، پردہ پڑا تھا پڑا رہتا ، میں ایسے ہی اس عورت کے متھے لگ گئی۔۔۔
پھر خیالوں کو جھٹکا ، پچھتاوا تو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔۔ قدر میں ایسے ہونا لکھا تھا اور بس ہو گیا ہے۔۔ ماں کو تیمم کرواتے ہوئے زینہ مسلسل سوچ رہی تھی۔۔۔
امی میں نے زیادہ دیر لگا دی ہے کیا ؟؟ پیچھے آپ اکیلی لیٹی رہیں ہیں۔
ارے نہیں ۔! زینہ میں اکیلی کہاں تھی۔؟؟ عاصم اندر باہر آتا جاتا رہا ہے اور پھر بھائی صاحب بھی شمیم کو لے کر آئے ہیں۔ دس منٹ تک ادھر میرے پاس بیٹھے رہے ہیں۔۔!
تم بس اپنے شوہر کو خوش رکھا کرو بیٹی۔! جیسے وہ کہتا ہے ویسے اسکی مان کر چلو ۔۔۔
جاؤ نماز پڑھو ۔!!
زینہ نے خاک کی پڑیا کو ایک طرف رکھ کر مصلی بچھا لیا اور مغرب کی ادائیگی میں غرق ہو گئی۔۔
سلام پھیر کر ہاتھ اٹھا لیے اور ناچاہتے ہوئے بھی آنسو لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے۔۔۔
میرے مالک تو میری ماں کو مکمل شفایاب کر دے ، ہمارے سر پر سے قرضے کا بوجھ اتر جائے، میرے بھائی کے لیے اچھے اسباب پیدا فرما۔ آمین۔۔۔یا اللہ میرے دل میں صبر و استقامت پیدا فرما، میرے اس شوہر کو مکمل ہدایت دے دے میرے مولا ، اسے زنا کے شر سے محفوظ رکھ اور اسے ثابت قدم بنا دے ۔۔
نمازِ کی طوالت سے زیادہ دعا طویل تر ہو گئی۔۔ ہاتھ پھیلائے دائیں بائیں سے بےخبر زینہ اپنے رب وحدہُ لا شریک سے راز و نیاز میں مشغول تھی۔۔
پتا ہی نہیں چلا کب روحیل دبے پاؤں کمرے میں آکر خاموشی سے امی کے پاس بیٹھ گیا۔۔
زینہ نے مصلی سمیٹا اور پلٹی تو روحیل کو دیکھ کر چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔۔
روحیل کو مخاطب کرنے کے بجائے امی سے بات کرنے لگی۔۔
امی آپ نے نماز ادا کر لی۔؟؟
ہاں ۔! میں کب سے نماز پڑھ چکی ہوں تم ہی بس بہت لمبی دعائیں مانگتی ہو کہ آدھا گھنٹہ اسی میں گزر جاتا ہے۔۔
روحیل کو کھانا پینا دو جاکر۔! باہر پھپھو کے ساتھ بیٹھو بیٹی۔!! پردیس سے صرف تم لوگوں کے نکاح کا سن کر دوڑی چلی آئی ہے۔۔ آج کل کہاں پر اتنے چاہنے والے ملتے ہیں۔!
ارے نہیں ماسی امی۔! ملازمہ نے کھانا تیار کر لیا ہے ، میں تو بس زینہ کو بلانے آیا تھا اور آپ کے لئے یخنی بھجواتا ہوں۔
اگر آپ نے ہمارے ساتھ بیٹھنا ہے تو میں ویل چیئر پر لے جاتا ہوں۔؟؟
ارے نہیں بیٹا مجھے مارچ میں بھی ٹھنڈ دسمبر جنوری والی محسوس ہوتی ہے یا پھر یہ اسلام آباد ہے اس لیے زیادہ سردی ہے۔؟؟
جی ماسی امی مری قریب ہے اور وہاں پر شدید برفباری کی وجہ سے اسلام آباد کی آب و ہوا میں بھی بہت اثر آ جاتا ہے۔۔ اب بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ، آپکو مری گھمانے لے جاؤں گا ان شاءاللہ۔۔ روحیل ساس کے ساتھ نہایت شفقت کے ساتھ بات کر رہا تھا جبکہ زینہ اپنے خیالوں میں گم کسی بات پر توجہ نہ دے پا رہی تھی۔۔۔
اے زینہ ۔! مجھے تو ابھی خیال آیا ہے تم میک اپ کے لیے گئی تھی نا ۔؟ مجھے تو میک اپ نظر ہی نہیں آیا ہے ۔؟
زینہ چونکی ججی امی وہ پھپھو سے ملاقات کے بعد وضو کیا ہے تو میک اپ کو اتارنا پڑا ہے۔۔ زینہ نے باطنی غم کو چھپانے کے جان توڑ کوشش کی۔۔۔
مگر بےوفا آنکھیں دغابازی کرنے کے لیے تیار تھیں۔
امی آپ نے اٹھ کر بیٹھنا ہے ؟ میں آپ کو بٹھاتی ہوں۔! زینہ نے روحیل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔۔
نہیں زینہ تم چھوڑو۔! میں خود ماسی امی کو بٹھاتا ہوں ویسے بھی ابھی یخنی تیار ہو چکی ہے، تم جاؤ باورچی خانے سے لے آؤ ، آج میں ماسی امی کو خود کھلاتا ہوں۔
جی بہتر۔!!
زینہ بھاری دل کے ساتھ کمرے سے نکل آئی مگر پانچ سیکنڈ کے فورا بعد روحیل نے عقب سے اسے آ لیا۔۔
زینہ رکو۔!!
روحیل فوراً راستہ روک کر زینہ کے سامنے کھڑا ہو گیا اس سے پہلے زینہ خوف کے مارے چیختی فوراً اسکے چہرے پر اپنا بھاری ہاتھ جما کر زینہ کو زبردستی اپنے حصار میں لے کر راہداری میں سے نکل کر سٹور روم میں لے آیا۔۔۔
مچلتی زینہ غوں غوں کرتی رہ گئی۔۔
کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی فورا کنڈی چڑھا دی۔۔
کیا کر رہے ہیں۔؟؟ زینہ شدت غم سے چلائی۔
مجھے کیوں تنگ کرتے ہیں۔؟؟ کیا بگاڑا ہے میں نے آپ کا ۔؟؟ جب سے آپ میری زندگی میں آئے ہیں ،ایک لمحہ بھی میرا سکون سے نہیں گزرا ہے۔!!
اللہ کا واسطہ ہے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔!! زینہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بلک پڑی۔۔
میں تمہیں تمہارے حال پر نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔! تم میری بیوی ہو ۔! تمہیں کیوں سمجھ نہیں آتا ہے۔! روحیل نے زچ ہو کر دانت پیسے۔
بیوی۔! ہونہہ۔! زینہ نفرت اور بےبسی سے ہنکارا بھر کر رہ گئی۔۔
آنسوؤں کی لڑیاں گول معصوم چہرے کو تر کر رہی تھیں۔۔۔
زینہ تم کیوں رو رو کر خود کو ہلکان کرتی ہو۔؟؟
تقدیر کے لکھے کو قبول کر لو۔!!
آپ کو میں نے تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہی قبول کیا تھا مگر جو آج میرے ان گناہگار سماعتوں نے سنا اور ان بےوقعت بصارتوں نے دیکھا ہے ، وہ میری روح کو چھلنی کر چکا ہے ۔! زینہ کی بھرائی آواز اونچی ہونے لگی۔۔
آہستہ بولو کوئی سن لے گا۔
روحیل نے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہا مگر زینہ نے حقارت سے روحیل کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔
مت چھوئیں مجھے۔!! مجھے آپ سے گھن آتی ہے ۔!!
زینہ کا شدید غم و غصہ روحیل کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔۔
روحیل نے زینہ کی بات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا اور اسے اپنے مضبوط حصار میں جکڑ لیا۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔!! مچلتی زینہ نے روحیل کے سینے پر غصے سے مکوں کی برسات شروع کر دی۔۔
مار لو جتنا مارنا ہے زینہ۔!!
میں چاہتا ہوں تمہارے اندر کا غبار باہر نکلے تاکہ تمہارا دماغ صحیح سمت میں سوچنے کے قابل ہو سکے۔
آپ میرے دماغ کو غلط بول رہے ہیں ؟؟ زینہ نے خود کو روحیل سے آزاد کرتے ہوئے بولا۔۔
ہاں کیوں کہ تم سارا راستہ روتی ہوئی آئی ہو اور پھر غسل خانے میں بھی روتی رہی ہو اور ابھی مغرب کے بعد بھی آدھا گھنٹہ روئی ہو۔ میں مسجد سے نماز پڑھ کر گھر لوٹ بھی آیا ہوں اور تم ہنوز بیٹھی رونے کا شغل پورا کر رہی تھی۔۔۔
شادیانے بجاؤں ؟ خوشیاں مناؤں؟؟ نامحرم عورتوں کے ساتھ میرے شوہر کے ناجائز تعلقات قائم رہ چکے ہیں۔؟؟
کیا کروں ؟؟ آپ بتائیں۔؟؟
میں نے ساری جوانی خود کو سینت سینت کر رکھا ہے صرف اس ایک شخص کی خاطر جو پاک دامن ہو گا۔جسے حلال حرام میں تمیز ہو گی۔۔ جو اللہ کی بنائی گئی حدود کی پاسداری کرے گا مگر آپ نے تو تمام حدیں ہی پار کر دیں ہیں۔ لڑکیوں کو چھیڑنا تو دور کی بات ، آپ تو باقاعدہ ۔۔۔۔۔
میں اپنی زبان کو میلا نہیں کرنا چاہتی ہوں۔! زینہ شدید اذیت میں مبتلا جو جی میں آیا بولتی چلی گئی۔۔۔
بول لیا ہے ؟؟ اب مجھے بولنے کی اجازت دو گی۔؟؟
آپ کیا بولیں گے۔۔؟ مجھے صرف ایک بات کا جواب دیں اگر میں یہ سب اعمال سیئہ کر چکی ہوتی اور پھر آپکو بولتی کہ میں نے سچی توبہ کر لی ہے، مجھے قبول کر لیں۔!
آپ مجھے کرتے قبول۔؟؟؟
مجھے میرے سوال کا جواب ابھی اور اسی وقت چاہیئے۔۔!!
میری بھی کوئی عزت نفس ہے ۔! میں نے وہاں اس گوفی کے سامنے بہت دقت سے خود پر قابو پائے رکھا تھا مگر اب میری برداشت جواب دیتی جا رہی ہے۔ میرا کیا قصور تھا جو آپ نے مجھے اتنا بڑا دھوکہ دیا ہے۔؟؟
___
روحیل زینہ کی طرف دیکھے بغیر الوداعی کلمات بول کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔
زینہ کو گھٹن محسوس ہونے لگی۔۔کیا ہوتا اگر میں کچھ دن اور صبر کر لیتی ، برداشت کر لیتی مجھے لگتا ہے میں کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی۔۔۔
ابھی میں انہیں جانتی ہی کتنا ہوں ، اور اس گوفی کی فحش گوئی پر کامل یقین کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی کے وار کرنے لگ گئی۔۔ مجھے روحیل کے ساتھ ایسے پیش نہیں آنا چاہئے تھا۔۔
زینہ کا دل پچھتاووں میں دہل کر رہ گیا۔۔
یا اللہ میں انہیں کیسے مناؤں گی۔؟ ، شدید غصے والے بھی ہیں۔ میرے خیال میں ویر سے بات کرتی ہوں ، نہیں یہ نا ہو انہیں علم ہو تو وہ مزید غصہ کرنے لگ جائیں۔۔
ہائے امی کو پتا چل گیا تو وہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔۔
زینہ کھانے کی میز پر پلیٹ پر جھکی مختلف سوچوں میں گم تھی۔۔
زینہ۔!!!
جی ۔!! زینہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
کھانا کھا چکی ہو تو میرے ساتھ میرے کمرے میں آؤ۔!!
جی پھپھو میں یہ برتن سمیٹ کر آتی ہوں۔
تم برتن رہنے دو ، ملازمہ سب کر لے گی، مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔۔
جی بہتر۔! بس میں ہاتھ دھو کر ابھی آئی۔! زینہ نے عاصم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ عاصم کندھے اچکا کر رہ گیا۔۔
پھپھو آپ چائے پیئں گی ؟؟ ہاں میں سبز چائے پیتی ہوں مگر ابھی نہیں بعد میں پیوں گی۔۔
چچا جان آپ کے لئے چائے بنا لاؤں؟؟ نہیں بیٹی ۔!! تم ابھی سے گھر کی ذمّہ داریاں اٹھانے کی متحمل نہیں ہو۔۔
ملازمہ تمام گھر سنبھال رہی ہے۔۔تم بس اپنی والدہ کا ٹھیک طریقے سے خیال رکھا کرو ۔!!
جی۔!! زینہ دھیمے لہجے میں بول کر ہاتھ دھونے چلی گئی۔۔
بھائی جان آپ بھی کمال کرتے ہیں۔!
کیا ہوگیا ہے شمیم۔؟؟
اسے گھر کی ذمّہ داری اٹھانے دیں ، چھوٹے گھر کی لڑکی ہے ،سر چڑھ جائے گی۔۔
سہل پسندی کی عادت ہو جائے گی۔۔۔!!
عاصم نے غم سے پہلو بدل کر پوچھا۔ پھپھو جان آپ ویسے تو مغرب کے طور طریقوں پر چلنے کی قائل ہیں مگر بہو کے معاملے میں آپ کی سوچ بھی ثقافتی رنگ لئے ہوئے ہے۔۔۔؟؟
عاصم تم اپنے کام سے کام رکھو۔!! بڑے دادا ابو نہ بنو ۔!!
پھپھو میری تو بہن ہے ،میں تو اسکی طرف داری کروں گا۔
بھائی جان آپ نے حقیقتاً ان دونوں کو سر چڑھا رکھا ہے۔۔
پھپھو میں تو دہرے معیار کا قائل نہیں ہوں۔۔!
تجھے تو میں سیدھا کر کے جاؤں گی۔! جو پہلے سے ہی سیدھا سادھا ہو اس پر وقت لگانا وقت کا ضیاع ہے۔۔۔
تمہاری چونچ نہیں بند ہونے والی ہے ۔! پھپھو نے گردن جھٹکی۔۔
ویسے پھپھو زینہ کو کمرے میں کیوں بلوا رہی ہیں۔؟؟
کیوں تمہیں کیوں اتنی بےچینی ہو رہی ہے؟؟
مجھے زیادہ تو نہیں بس اس بات کی پریشانی ہے کہ کہیں آپ روایتی ساس والا انداز نہ اپنا لیں۔۔!
دیکھ رہے ہیں بھائی جان۔!!
عاصم یار عورتوں کے کرنے کی سو باتیں ہوتی ہیں ، تم پھپھو کو اپنا شوق بھی پورا کرنے دو۔!!
ٹھیک ہے پھپھو جان میری عزیز ترین بھابھی آپ کی ہوئی۔،!! وہ دیکھیں زینہ میرا مطلب بھابھی صاحبہ لوٹ آئی ہیں۔۔
زینہ سیاہ لباس میں ملبوس کھلے لمبے بل دار بالوں میں چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی۔۔
زینہ نیپکن سے ہاتھ صاف کر لیتی ، اب اتنی دور ہاتھ دھونے گئی ہو ۔۔
وہ پھپھو دراصل مجھے عادت ہے کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھونے کی تو اسی لیے۔
زینہ نے مؤدب لہجے میں فوراً اپنی صفائی پیش کی۔۔۔
اچھا چلو میرے ساتھ آؤ۔!!
جاؤ زینہ بیٹی۔ارشاد صاحب نے بھی کرسی چھوڑتے ہوئے پھپھو کے ہمراہ جانے کا عندیہ سنایا جبکہ عاصم انگلیوں کے اشارے سے زینہ کو فتح کے اشارے دے رہا تھا۔
زینہ مسکرا کی پھپھو کی پیروی میں چلنے لگی۔۔۔
متوازن چال چلتی پھپھو نے شاندار سجے سنورے کمرے میں پہنچ کر زینہ کو کرسی پر بیٹھے کا اشارہ کیا اور خود سنگھار میز کے سامنے اپنے قیمتی زیورات اتار کر رکھنے لگیں۔۔
پانچ منٹ خاموشی کی نظر ہو گئے زینہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پھپھو کو خود مخاطب کرے یا پھر ان کا اپنے کام سے فارغ ہونے کا انتظار کرے۔۔
اضطرابی بڑھنے لگی۔۔۔
زینہ کپکپاتی انگلیوں کو مسلنے لگی۔۔۔
زینہ۔!!
جی .!!!
تمہارا روحیل کے ساتھ کوئی چکر وکر تھا۔؟؟
زینہ اس عجیب و غریب سوال پر چکرا کر رہ گئی۔۔۔شرمندگی سے چہرہ لال انگارے کی طرح دہکنے لگا ۔۔۔ خود پر فوراً قابو پایا۔۔
ننننہیں پھپھو۔!!! ایسی تو کوئی بات نہ تھی۔!
تو پھر وہ کیوں تمہارے لیے مرا جا رہا تھا ؟؟ پھپھو کی پیشانی پر سلوٹیں بڑھنے لگیں۔۔ میرے بتائے گئے تمام رشتوں سے انکاری اور پھر بھائی جان نے بھی دوست احباب کی لڑکیاں دکھائیں ، اسکا گزشتہ دو ماہ سے میرپور کے مسلسل چکر کاٹنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔۔
ٹھیک ہے اسکے ننھیال والوں کے ساتھ سانحہ پیش آیا تھا مگر پھر بھی میری عقل تسلیم ہی نہیں کرتی ہے کہ اسکا تمہارے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھپھو نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔ پھر چند لمحے خاموش رہ کر دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا۔۔۔ روحیل کا تمہارے لیے مرے جانا غیرمعمولی ہے جبکہ تمہارا اور روحیل کا کوئی خاص جوڑ بھی نہیں بنتا ہے ۔۔۔!!
اب اسکی چال ڈھال دیکھو اور اپنا حلیہ دیکھو ، اسکے ساتھ چلتے ہوئے تم بہت دقیانوسی لگتی ہو۔۔!!
ایسے لگتا ہے میرا خوبرو روحیل گھر کی ملازمہ کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔۔!!
دیکھو میرا بھتیجا کس قدر وجیہہ ہے۔۔!! پھپھو کی مسلسل توہین سے زینہ کا دل ڈوبنے لگا۔۔ آنسوؤں سے لبریز آنکھیں کسی بھی لمحے دغا بازی کے لیے تیار تھیں۔
جی چاہا پھپھو کو کھری کھری سنا کر یہاں سے بھاگ جائے مگر زبان دانتوں تلے دبائے خاموشی سے کاری وار سہنے لگی۔۔
زینہ ہنوز گردن جھکائے فرش پر نظریں گاڑھے نئے نفرت آمیز القابات سننے کی منتظر تھی۔۔
پھپھو اپنے باطن کا زہر زینہ پر انڈیل کر سفری تھیلے میں سے کریم نکال کر چہرے پر لگا میک اپ صاف کرنے لگیں۔۔۔
کریم کو ایک طرف رکھا اور گردن اکڑا کر دوبارہ سے زینہ کا بغور جائزہ لینے لگیں۔
کھڑی ہو جاؤ۔!!!
زینہ ایک لمحہ ضائع کیے بنا فوراً کھڑی ہو گئی۔
اوپر دیکھو۔!!
زینہ نے سوگوار چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔۔۔
روتی رہی ہو ۔؟؟
جی تھوڑا سا روئی تھی۔۔۔ گلے میں پھنسی آواز بمشکل پھپھو کی سماعتوں تک پہنچ پائی۔۔
اتنا اچھا پیارا شوہر بیٹھے بٹھائے ملا ہے ، بہترین گھر مل گیا ہے تو اور کیا چاہتی ہو ۔؟؟؟ روتی کاہے کو ہو ۔؟؟؟
وہ مجھے امی کی صحت کو دیکھ کر رونا آ گیا تھا۔۔ زینہ بھرائی آواز میں گویا ہوئی اور روحیل والی بات کو مکمل طور پر گول کر گئی۔۔
ہونہہ۔!!!
تمہاری امی عمر رسیدہ ہیں ، انکی یہ عمر بیماریوں میں مبتلا ہونے والی ہے جبکہ تم ابھی بیاہ کر اپنے سسرال آئی ہو ۔ تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے۔!
یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر روؤ گی تو اتنا عالیشان گھر کیسے سنبھال پاؤ گی ۔؟؟
پھپھو نے زینہ کے قریب آتے ہوئے اسکے کھلے بالوں کو چھو کر دیکھا۔۔
تمہیں میک اپ پسند نہیں ہے کیا ؟؟؟
جی کچھ خاص نہیں ہے۔!!!
میرا بھتیجا ہزاروں روپے خرچ کر کے تمہارا میک اپ کروا کے لایا تھا اور تم نے گھر پہنچتے ہی چہرہ دھو ڈالا ۔؟!
وہ پھپھو مجھے وضو کرنا تھا تو اس لیے میک اپ کو دھونا پڑا تھا۔۔۔ !
زینہ نے فوراً صفائی پیش کی ۔۔۔
بہرحال جو بھی ہے ابھی باورچی خانے میں جا کر روحیل کے لیے شکر اور الائچی والا دودھ ابال کر اسے اسکے کمرے میں پہنچا کر آؤ۔! میں آج اسے دیکھ کر دہل گئی ہوں نجانے تم نے اسے کیا کر دیا ہے۔؟ میرے معصوم بھتیجے کا چھوٹا سا چہرہ نکل آیا ہے۔۔۔!
تم دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ چل رہا ہے کیا۔؟؟؟
ننننہیں پھپھو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
چلو کہتی ہوتو مان لیتی ہوں ورنہ میں اڑتی چڑیا کے پر گھن لیتی ہوں۔۔
وہ میرا بھتیجا ہے ، میں اسکی ایک ایک رگ سے واقف ہوں۔ اسکے اندر کی اداسی اسکے چہرے پر ظاہر ہو جاتی ہے جو آج میں نے دیکھی ہے۔۔
وہ چاہے لاکھ چھپائے مگر میرے سے چھپ نہیں سکتا ہے، میں نے ماں بن کر اسے پروان چڑھایا ہے۔۔۔
میرے روحیل کو تمہاری طرف سے رتی بھر تکلیف نہیں پہنچنی چاہیئے۔!!!
جی نہیں پہنچے گی۔!!
زینہ نے نفی میں گردن جھٹکتے ہوئے پھپھو کو یقین دہائی کروائی۔۔
اچھا اب جاؤ اور جو بولا ہے وہ ٹھیک سے کرنا ہے ۔۔
جی بہتر۔! زینہ کمرے سے باہر نکلنے کے لیے پر تولنے لگی۔۔
اور ہاں آج سے روحیل کے تمام کام تمہارے ذمے ہیں، اسے کے کھانے سے لے کر اسکے کپڑوں جوتوں کا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔۔
جی۔!!!
ابھی جاؤ۔! زینہ دروازے کی طرف جیسے ہی پلٹی پھپھو نے دوبارہ آواز دے کر روک لیا۔۔
روحیل ایک شیشے کے گلاس میں ایک چھوٹی چائے کی چمچ چینی لیتا ہے اور دو الائچیاں ڈال کر اچھی طرح دودھ ابال لینا اور پھر اسے لازمی چھان لینا کیونکہ اسے الائچیوں کے دانوں کا منہ میں آنا پسند نہیں ہے ، وہ صرف الائچی کی خوشبو پسند کرتا ہے۔۔
گلاس شیشے کا اور اسے ڈھک کر لے کر جانا ہے۔جب تک وہ دودھ پی نہ لے تم نے کمرے سے لوٹنا نہیں ہے۔!!!
صبح میں نے گلاس چیک کرنا ہے۔!
جی بہتر ۔!! زینہ نے اثبات میں گردن ہلائی ۔۔۔
آپ کے لئے بھی چائے بنا لوں۔؟؟؟
نہیں میرا ابھی موڈ نہیں ہو رہا ہے ۔اگر ضرورت ہوئی تو میں ملازمہ سے بنوا لوں گی۔۔۔
اور ہاں تمہیں کھانا بنانا آتا ہے ۔؟؟؟
جی سارا کھانا بنا لیتی ہوں۔! ۔تو پھر کل سے کھانا بنانے کی ذمّہ داری بھی تمہاری ہو گی ، کل میں تمہیں بتا دوں گی کہ کیا پکانا ہے ۔!!
جی ٹھیک۔!!
اب جاؤ۔!
زینہ نے کمرے سے نکل کر سینے میں پھنسی سانس خارج کی ، اور آنسوؤں سے لبریز آنکھیں رگڑ ڈالیں۔۔۔ عاصم ڈیڈ سبھی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
باورچی خانے میں پہنچنے پر ملازمہ کو برتنوں کی دھلائی میں مصروف پایا۔۔
بی بی آپکو کچھ چاہئیے تھا۔؟؟
ارے نہیں ۔! میں نے بس آپ کے صاحب کے لئے دودھ گرم کرنا ہے۔۔
بی بی لایئے میں کر دیتی ہوں۔!
ارے نہیں میں خود کر لوں گی آپ بس مجھے پتیلی کھنگال دیں ۔۔
اور مجھے بی بی کے بجائے بیٹی بولا کریں۔ !! زینہ نے پتیلی تھامتے ہوئے مسکرا کر بولا۔۔۔
جو آپ کا حکم بیٹی۔!
حکم نہیں بلکہ ایک گزارش ہے کیونکہ مجھے اچھا لگے گا۔
اچھا بیٹی۔!!
زینہ نے پھپھو کے بتائے گئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے دودھ تیار کر لیا مگر روحیل کے کمرے تک پہنچنے کے لئے ایک فیصد ہمت نہ تھی۔۔۔
جی چاہا عاصم کو بلا کر دودھ بھیج دے یا ملازمہ کو بھیج دے۔۔ مگر پھپھو کے خوف سے خود ہی ہمت جمع کی اور دھیرے دھیرے زینے چڑھنے لگی۔۔
بند دروازے کو دیکھ کر دل ڈوبنے لگا ۔ ہائے اگر وہ سو رہے ہوئے تو میرے جگانے پر غصہ نہ کر جائیں۔۔
یا اللہ۔! زینہ کا جی چاہا دھاڑیں مار مار کر روئے۔۔
اوپری منزل میں خاموشی کا راج تھا۔ ڈیڈ عاصم سبھی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے جبکہ پھپھو نیچے مہمان خانے میں ٹھہری ہوئیں تھیں۔۔
بارہا سوچنے پر زینہ نے ہمت کر ہی ڈالی۔۔
ٹک ٹک ہلکے سے دروازہ بجایا۔ کوئی جواب نہ پا کر دل دھڑکنے لگا ۔ دوسری بار ذرا زور سے بجایا۔
ہنوز خاموشی برقرار تھی۔
تیسری مرتبہ اپنا سارا زور لگا کر دروازے کو بجانے کا تحیہ کر لیا۔۔
ابھی دروازے پر ہاتھ ہی رکھا تھا کہ دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔۔
زینہ کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس چھوٹتے چھوٹتے بچا ، زینہ کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔۔
روحیل نے خشمگیں نظروں سے گھورا۔۔۔شب باشی کے لباس میں ملبوس تھکا ہارا سا روحیل چہرے پر صحرائی مسافر کی سی تھکن لیے زینہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔۔
کیوں آئی ہو ۔؟؟
وہ میں آپ کو دودھ دینے آئی تھی۔!
مجھے دودھ نہیں پینا ۔!!کاٹ دار لہجہ۔
پلیز آپ پی لیں پھپھو نے بولا ہے وہ صبح آپ کا گلاس چیک کریں گی۔!
زینہ کا ملتجی لب و لہجہ روحیل کو مزید گھورنے پر مجبور کرنے لگا۔۔۔
ادھ کھلا دروازہ مکمل طور پر واہ کر دیا۔
اندر آؤ۔!!!
ججججی۔؟؟
جی۔! فوراً۔! روحیل نے ڈپٹا۔
زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی جواب دینے لگی۔
زینہ نے چار و ناچار دروازے کی دہلیز پار کی اور دودھ کا گلاس میز پر رکھ کر پلٹنے لگی۔۔۔
کدھر جا رہی ہو .؟؟
جججی نیچے امی کے پاس۔! زینہ نے روحیل کا چہرہ دیکھے بنا فوراً جواب دیا۔۔!
خود کو کیا سمجھتی ہو۔؟؟
کچھ بھی نہیں۔! بلکہ کچھ بھی نہیں سمجھتی ہوں۔
رات انہیں کپڑوں میں ملبوس سو گی۔؟؟روحیل کا روٹھا اور سخت لہجہ زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی خیر باد کہنے لگی ، اسکی خشمگیں نگاہوں کا تعاقب زینہ کی حالت ابتر کرنے لگا۔۔۔
کیا میں الماری سے کپڑے نکال سکتی ہوں۔؟؟زینہ کی شکل شکار سے بچنے والی سہمی ہرنی والی ہو رہی تھی۔۔۔
نہیں۔!! کورا جواب پا کر زینہ کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔۔
تو پھر میں کیا پہنوں گی۔؟ میرے تمام لباس آپ کے کمرے میں موجود ہیں۔کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی زینہ نے تمام حقائق روحیل کے گوش گزار کیے جو چہرے پر سختی سجائے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔۔۔
دیکھیں آپ پلیز مجھے معاف کر دیں۔! غصّے میں میرے منہ میں جو آیا بولتی چلی گئی حالانکہ وہ سب جھوٹ تو نہیں تھا۔!
تم نے معافی مانگنے کا یہ طریقہ بھی عجیب نکالا ہے۔!
معافی بھی مانگتی ہو اور ساتھ میں آئینہ بھی دکھاتی ہو۔!!
ننننہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں۔زینہ نے تھوک نگلا۔۔
وہ میرا مطلب ہے کہ میرا شکوہ جائز تھا۔۔!! زینہ نے بولتے ساتھ آنکھیں میچ لیں۔۔۔
کلہاڑی کے وار بھی کرتی ہو اور چاہتی ہو ڈال بھی نہ ٹوٹے۔!
ڈال تو تم نے توڑ دی ہے زینہ۔! کبھی فرصت ملے نا تو ضرور سوچنا کہ تم کس سمت جا رہی ہو۔!!
اپنے کپڑے نکالو اور یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ۔!
روحیل کا ٹوٹا لب و لہجہ زینہ کو کچوکے لگانے لگا۔۔
دیکھیں آپ میرے ساتھ نہ روٹھیں پلیز۔!!
کیوں نہ روٹھوں۔؟؟ روحیل کا غصہ ہنوز برقرار تھا۔۔۔
کیونکہ جن سے محبت کی جاتی ہے ان سے روٹھا نہیں جاتا ہے ، انہیں انکی کوتاہیوں سمیت قبول کیا جاتا ہے ، انکی پردہ پوشی کی جاتی ہے ، اور آپ تو میرے ساتھ محبت کے دعوے دار تھے تو پھر اچانک میرے چند کلمات پر مجھے بے سائباں کیوں کر رہے ہیں۔؟؟ زینہ نے ہمت جمع کر کے پہلے سے سوچے گئے جملے دہرا دیئے۔۔۔
تمہیں چند گھنٹوں میں بہت باتیں کرنا آ گئیں ہیں۔؟ روحیل کی غصیلی نگاہیں اور سخت لہجہ زینہ کا کچومر نکالنے لگا۔۔۔
وہ دراصل پھپھو کو پتا چل گیا ہے کہ میرے اور آپ کے بیچ کچھ مسئلہ چل رہا ہے۔! زینہ نے صفائی پیش کرنے کے لیے روحیل کی آنکھوں میں دیکھا جہاں پر غصہ ہنوز اپنے عروج پر تھا۔۔۔
زینہ اب شیر کی گچھاڑ میں ہاتھ ڈال ہی دیا ہے تو مرنے کے لیے تیار ہو جا۔! دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا۔۔
کمرے میں لگے گھڑیال کی سوئیوں کی ٹک ٹک کے علاوہ خاموشی کا راج تھا۔۔۔
زینہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کمرے سے نکل جائے یا پھر روحیل سے بات کرے یا پھر مزید وضاحت دے ، شش و پنج میں مبتلا زینہ نے چند لمحوں بعد جھکا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔
ماضی پر تو ہمارا اختیار نہیں ہے مگر حال اور مستقبل کو تو سنوارا جا سکتا ہے۔!!! میرا مطلب ہے جو ہو چکا ہے اسے بھول جائیں ۔! ہم دونوں سے خطائیں سر زد ہوئیں ہیں۔۔۔غلطی سرزد ہو جانا انسانی فطرت ہے اور بقول آپ کے کہ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں۔ مجھے بھی بیوقوف جذباتی سمجھ کر معاف کر دیں۔!!
روحیل کی کھا جانے والی نظریں زینہ کو گھائل کرنے لگیں۔
یا اللہ۔! میری مدد فرما۔! معافی تلافی کے باوجود بھی اس شخص پر رتی برابر فرق نہیں پڑ رہا ہے ۔۔پھپھو نے کونسا دیکھنا تھا دودھ دینے میں آئی ہوں یا ملازمہ ۔؟ زینہ دل ہی دل میں خود کلامی کیے جا رہی تھی ۔۔کاش نہ آتی۔۔۔لفظ کاش کو تو لغت سے نکال پھینکنا پڑے گا ، مجھے خواہ مخواہ پچھتاووں میں دھکیلتا ہے ۔۔۔ پچھتاوے تو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔۔ میں بھی بعض اوقات ناشکری کرنے بیٹھ جاتی ہوں۔۔۔
زینہ دل ہی دل میں دوبارہ گردن جھکا کر استغفار کرنے لگی۔۔۔
میرے خیال میں تمہیں مزید وقت کی ضرورت ہے تاکہ تمہاری اس کھوپڑی میں جو بھوسی بھری ہوئی وہ نکل سکے۔ روحیل نے اچھی طرح سے گھورنے کا عمل سر انجام دیا پھر غصیلے لہجے میں زینہ کی طبیعت صاف کرنے لگا۔۔
آپ نے نکاح روٹھنے کے لیے کیا تھا کیا .؟؟؟ زینہ جذبات میں آکر دوبارہ غلط بول گئی۔۔
تمہیں جب میں نے بتایا نا کہ نکاح کیوں کیا تھا تو تمہاری یہ زبان قینچی کی طرح نہیں چلے گی۔۔! کشادہ پیشانی کی تنی رگیں اور غصیلا چہرہ زینہ کو رونے پر مجبور کرنے لگا۔۔
میرا مطلب وہ نہیں تھا جو آپ سمجھ رہے ہیں۔! میں کہنا کچھ اور چاہ رہی ہوں مگر زبان سے الفاظ دوسرے والے ادا ہو رہے ہیں۔۔زینہ نے بھرائی آواز میں بولا۔۔
دراصل میں نے پہلے کسی روٹھے شوہر کو کبھی منایا بھی تو نہیں ہے۔۔۔ زینہ نے سڑ سڑ رونا شروع کر دیا۔۔جبکہ روحیل نے اس کی بات پر بمشکل ہنسی دبائی۔۔۔
مجھے بیویاں رکھنے کا تجربہ ہے تھا کیا ۔؟؟؟
ننننہیں ۔!!! زینہ نے فوراً جواب دیا۔۔
تو پھر میں اپنے دماغ کو استعمال کر کے تمہیں ساتھ لے کر چل رہا ہوں تو تم دماغ کیوں نہیں استعمال کر سکتی ہو۔؟؟ دماغ میرپور گروی رکھوا کر آئی ہو۔؟؟
نہیں.!! بالکل بھی نہیں۔!! زینہ نے نفی میں گردن جھٹکی۔۔
اگر گروی نہیں رکھوایا ہوا تو اسے میرے گھر میں رہتے ہوئے استعمال میں لاؤ ۔!!
ابھی لاؤں گی۔۔! میرا مطلب ہے دماغ کو استعمال میں لاؤں گی۔
کمرے کے بیچ و بیچ میں کھڑے دونوں کے درمیان عجیب قسم کی تکرار جاری تھی۔۔
روحیل کے جوابات سن کر زینہ کو کچھ ہمت ہوئی۔ وہ میں الماری سے اپنا مطلوبہ سامان لے جاؤں۔؟؟
نہیں ۔!! روحیل کی طرف سے کورا جواب پا کر زینہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔
پھر میں کیا کروں۔؟؟
آپ کی ناراضگی کو کیسے دور کروں۔؟؟ اگر کہتے ہیں تو پاؤں پکڑ لیتی ہوں۔! زینہ دوبارہ رو دینے کو تھی۔۔
مجھے پاؤں پکڑوانے کا کوئی شوق نہیں ہے ۔! سمجھی ہو تم۔! دانت پیس کر جواب دیا گیا۔۔
آپ مجھے سر پھری ، بیوقوف سمجھ کر معاف کر دیں پلیز ورنہ میں رو دوں گی جو کہ آپ کے لئے اذیت کا باعث بنے گا ۔!
اب نہیں اذیت کا باعث بنے گا ۔! رو لو جی بھر کر۔! روحیل نے بے نیازی سے بولا۔۔۔
زینہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔
پھر میں کیا کروں۔؟؟ آپ کو کیسے مناؤں۔؟؟ مجھے خود ہی حل بتا دیں ۔!! زینہ نے لاچار ہو کر پوچھا۔۔
وہ جو دودھ لائی ہو وہ گلاس اپنے ہاتھوں میں تھام کر مجھے پلاؤں گی۔
بولو منظور ہے۔؟؟! روحیل نے اپنی ہنسی دبا کر دھمکی آمیز لہجے میں بولا۔۔۔
مجھے منظور ہے ، آپ بس ناراضگی ترک کر دیں۔
سنتے ساتھ زینہ نے دوڑ لگا کر میز پر پڑے ڈھکے گلاس کو مضبوطی سے ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔
میں کھڑے کھڑے تو پلانے سے رہی ، آپ کہیں پر بیٹھ جائیں پلیز۔۔
زینہ نے سرعت سے التجائیہ انداز اپنایا۔۔۔
تمہاری ریل چھوٹ رہی ہے کیا ۔؟؟؟
نہیں تو ۔!
تو پھر جلد بازی کاہے کو ہے ۔؟؟ روحیل کا کاٹ دار لب و لہجہ زینہ کی ہمت کو ڈانواں ڈول کرنے لگا۔ نشیلی آنکھیں شدت غم سے جھلملانے لگی۔۔
آپ پلیز راضی ہو جائیں۔!!
زینہ کی لاچارگی اپنے عروج پر تھی۔۔
روحیل کا جی چاہا سارا کھیل ابھی ختم کر دے اور اس جذباتی،بیوقوف سی لڑکی کو اپنے سینے میں سمو لے۔۔
آئندہ مجھے شکایت کا موقع نہ ملے اور جو میں بولوں اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے ۔!! اگر تم کسی اور کی باتیں سن کر میری طرف سے بدظن ہوئی تو پھر میں نے تمہارا حشر بگاڑ دینا ہے۔!!
جو بھی بات ہو گی سیدھا میرے پاس آؤ گی اور مجھ سے تحقیق کرو گی۔!!!
ابھی دودھ ادھر لے آؤ۔!! روحیل نے بستر کی طرف اشارہ کیا اور خود سنجیدگی کا خول چڑھائے بستر کی پائنتی پر جا بیٹھا۔۔۔
مجبور زینہ بھی دھیرے دھیرے اسکی پیروی کرنے لگی اور روحیل سے کچھ فاصلے پر ٹک گئی۔۔۔
روحیل نے گردن موڑ کر زینہ کو گھورا ۔۔
اب یہاں پر بیٹھی سوگ مناتی رہو گی یا عملی مظاہرہ بھی کرو گی۔؟؟
جی۔!! زینہ نے دودھ کا گلاس روحیل کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنی آنکھیں میچ لیں۔۔
روحیل کے بائیں جانب بیٹھی یہ معصوم سی ہستی اس کے دل میں پہلے سے زیادہ گھر کرنے لگی۔ وہ لڑکیاں بھی تھیں جو روحیل کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ وار دینے کےلئے تیار رہتیں تھیں ، بنا کسی تردد اور ہچکچاہٹ کے اسکے بستر کی زینت بن جاتیں اور ایک یہ لڑکی ہے جو اپنے محرم کے پاس موجود ہوتے ہوئے بھی شرم سے لال ہوئے جا رہی ہے۔۔۔ زینہ تمہاری ہر ادا ہی جان لیوا ہے۔۔ روحیل نے زینہ کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس تھام کر لبوں سے لگا لیا۔۔۔
زینہ آنکھیں کھول لو۔! خطرہ ٹل چکا ہے ۔!! تم بارودی سرنگ سے نکل کر ہموار راستے پر چل پڑی ہو۔!! روحیل نے دودھ کے چند گھونٹ لے کر زینہ کو مخاطب کیا جو روحیل کے پکارنے پر فوراً ہوش میں آ گئی۔۔۔
ابھی آپ راضی ہیں۔؟؟ زینہ نے بیقراری سے پوچھا۔۔
ہاں۔!! مگر تمہیں یہ زمہ داری روزانہ رات کو نبھانا ہو گی۔ ٹھیک اسی وقت ایک سیکنڈ نہ آگے اور نہ پیچھے ہونا چاہئے ، اور اگر وقت میں رد و بدل ہوا تو تمہیں سزا ملے گی۔!!
کونسی سزا ملے گی۔؟؟ ابھی سے بتا دیں تاکہ میں ذہنی طور پر تیار ہو جاؤں ۔! زینہ نے پریشانی میں فوراً پوچھ ڈالا۔۔۔
روحیل جو کہ خود پر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے بیٹھا تھا نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا اٹھا۔۔۔
شکر ہے آپ راضی ہو گئے ہیں۔ زینہ بچوں کی طرح کھلکھلائی۔۔۔
ابھی میں چیزیں لے کر جاؤں.؟؟؟
میرا جی تو نہیں چاہ رہا مگر مجبوراََ بھیجنا پڑے گا۔۔۔
اور ہاں سنو زینہ۔! روحیل نے الماری کی طرف بڑھتی زینہ کو پکارا۔۔
جی۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...