“حد ہوتی ہے کوئی فصول گوئی کی” ۔۔۔مین دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی پھپھو کی غصے بھری آوز سنائی دی ۔۔۔”مگر آپ جب اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں ہاکنے لگتے ہیں تو سارے احلاقیات بھول جاتے ہیں سمار صاب “۔۔۔پھوپھو کا پارہ ہائی تھا ایک تو ان کو کسی نے برتھ ڈے وش نہیں کیا اوپر سمار صاب انہیں گمانے کے بہانے اپنے دوستوں کی طرف لے گے ۔۔۔ جو مسکرا کر اب ساری ڈانٹ سن رہے تھے
“دیکھا سو گئے سب ۔۔ میں نے کہا تھا جلدی چلتے ہیں” وہ سحت حفا تھیں ۔۔۔”افف اتنا اندھیرا کیوں ہے” ۔۔۔وہ جھنجھنلاہیں ۔۔۔تھوڑا آگے بڑھیں تو پیر کسی چیز سے ٹکرایا ۔۔۔لاہٹس یک دم آن ہوہیں ۔۔۔ٹھاہ کی آواز آئی تو وہ ڈر کے آنکھیں میچ گئیں ۔۔بند آنکھوں سے وہ حود پر کچھ ہلکا سا گرتا محسوس کر سکتیں تھیں ۔۔۔آنکھیں کھولیں اور تعجب سے اوپر دیکھا ۔۔۔جہاں ایک بڑا سا غبارہ جو اب پھٹ چکا تھا اسمیں سے گلاب کی پتیاں ان پر گر رہیں تھیں ۔۔۔ تنے اعصاب ڈھیلے ہوئے تو چھت سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھا
“واو!!” ۔۔۔بے احتیار بول اٹھیں سارا لاونچ کتنا حوبصورت لگ رہا تھا.۔۔وہ مسکراہیں تھوڑا اور آگے آہیں ۔۔۔تو میز کے گرد چھپی عوام یک دم باہر نکلی
“ہیپی برتھ ڈے ٹو یو” ۔۔۔سب ایک ساتھ چلائے تو انکی آنکھیں بھر آہیں ۔۔۔سب سے اونچی آوازانکی بھتیجی کی تھی جو اب ان کے گلے لگی سالگرہ کی مبارک بات دے رہی تھی ۔۔
انہوں نے نم آنکھوں سے اسکی کشادہ پےشانی چومی ۔۔۔”یہ سب تم نے کیا” ۔۔ وہ بولیں توانکی آواز میں بھی نمی شامل تھی ۔۔۔
“ہمم “۔۔۔اسنے مسکرا کر سر ہلایہ ۔۔۔
انہوں نے انگلی کی نوک سے آنکھوں کے کنارے صاف کیے ۔۔”اور یہ سب تم نے اکیلے کیا ہو گا ۔۔۔یہ سب کام چور اس قابل نہیں کے ایسی ڈیکوریشن کر سکیں” ۔۔پھوپھو نے اسے محبت سے اور باقی سب کو تنبہی نظروں سے گھورا
ان سب کے ہونٹ ایک ساتھ لٹکے تھے ۔۔۔
*نہیں یہ سب ہم سب نے مل کر کیا ہے ۔۔۔۔۔نایاب نے مسکرا کر کہا تو ان سب کے چہرے پھر سے کھل اٹھے ۔۔۔”ہاں کیک میں نے خود بنایا ہے “۔۔۔وہ اترائی اور بری نظر ان سب پر ڈالی (حمایت کی تو کیا ناراص تو اب بھی تھی )۔۔ پھپھو فورا کیک کے پاس آہیں ۔۔۔
“ماشاءالله””.۔۔۔اسکو تو دیکھ کے ہی لگتا ہے کہ تم نے بنایا ہو گا ۔ ۔۔وہ اسے سراہے بغیر نہ رہ سکیں
“سالگرہ مبارک ہو سمینہ” ۔۔۔ پاس سے اماں کی آواز آئی تو وہ انکی جانب مڑیں دادو( سمینہ کی امی) نے محبت سے انہیں گلے لگایا
“آپ نے بھی اس کا ساتھ دیا ۔۔۔اتنے عرصے بعد آئی ہے ہمارے گھر. ۔۔وہ بھی ناہل کی شادی کی وجہ سے ۔۔۔اور اتنا سارا کام اکیلے کیا ۔۔۔ کم از کم آپ تو روکتیں اسے”” ۔۔۔۔شکایتی نظریں نایاب پے جمائے وہ اماں سے بول رہیں تھیں ۔۔
“ارے یہ لڑکی کب سنتی ہے مجھ بڑھیا کی ۔۔۔بس میری یہ کرسی پکڑتی ہے اور کمرے میں چھوڑ آتی ہے “۔۔۔دادو نے تنک کے کہا تو وہ نایاب نے گھور کے انہیں دیکھا ۔۔۔
“ارے بچی نے اتنا سب کیا اور آپ دونوں خواتین اسکی تغریف کرنے کے بجائے ۔۔۔تنقید کر رہی ہیں” ۔۔ اس سے پہلے ماں بیٹی کی بحث طول پکڑتی سمار صاب بیچ میں بول پڑے تھے ۔۔۔
“آپ تو یہی کہیں گے ۔۔۔اتنے سال ہو گے مجھے آپ کے ساتھ کبھی اتنا اچھا سرپراہز نہیں دیا مجھے ۔۔۔ آپ سے ذیادہ تو نایاب محبت کرتی ہے مجھ سے” انہوں نے حفگی اور غصےسے اپنے شوہر کو ریکھا۔
“چلو آپ نے مانا تو ہم محبت کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔نایاب سے کم ہی سہی “۔۔۔وہ مسکرا کر ادا سے بولے تو پھوپھو کے گال دہک اٹھے ۔۔
“حد کرتے ہیں آپ” ۔۔۔ وہ سخت شرمندہ ہوہیں ۔۔۔
“ارے شرما کیوں رہی ہیں میں شوہر ہوں آپکا “۔۔۔سمار صاب مزید شوح ہوئے تھے
“آپکو بعد میں سیدھا کرو گی۔”۔۔پھپھو سٹپٹا گیئں تو وہ ادا سے انکے آگے جھکے ۔۔۔”اینی ٹائم مائے لیڈی” ۔۔۔ پھپھو نے انکی ڈھیٹھائی پر انہیں بری نظروں سے گھورا تھا سر جھٹک کے دوسری جانب مڑیں جہاں باقی سب جو ۔۔۔ہسنی چھپانے کے چکر میں سرح چہرے لیے کھڑے تھے ۔۔۔
“پھپھو یار ۔۔۔مزاح کر رہے ہیں وہ “۔۔۔ اس سے پہلے انکا پارہ مزید ہائی ہوتا نایاب نے انہیں کندھوں سے پکڑا اور کیک والے میز تک لائی ۔۔۔”چلیں کیک کاٹیں “۔۔۔نایاب انکے ہاتھ میں چھری تمائی تو وہ بل آحر مسکراہیں ۔۔۔ایک نظر کیک کی طرف دیکھا پھر نایاب کے کپڑوں کی طرف ،پھر اماں کو ۔۔۔سب کے کپڑے ایک جیسے تھے ۔۔۔لاونچ کی ڈیکوریشن بھی سفید اور فیروزی رنگ میں تھی ۔۔۔انکی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔۔
“اچھا تو یہ تھیم پارٹی ہے ۔۔۔انہوں نے سمجھ کے سر ہلایا ۔۔۔اسی لیے تم نے صبح مجھے یہ ساڑھی دی تھی انہوں نے ایک نظر اپنی سفید سلک کی ساڑھی پر ڈالی جسکا باڈر فیروزی تھا ۔۔۔۔۔اور سمار کی یہ فیروزی ٹائی جو انہوں نے سفید شرٹ پے پہنی تم نے ہی دی ہے” ۔۔۔اب انہیں سب سمجھ آ رہا تھا ۔۔۔نایاب بس مسکرا رہی تھی
“شکر ہے آپکو سمجھ تو آیا کے اس ساری سرپراہز پارٹی میں تھوڑا ہاتھ میرا بھی ہے “۔۔۔سمار صاب مسکراتے ہوئے انکے پاس آئے تھے ۔۔
“ہاں بس تھوڑا سا ہاتھ “۔۔۔پھپھو نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔۔
“بیگم کو خوش کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے “۔۔۔سمار صاب نے فورا ہار مانی تھی تو پھپھو نے ہونہہ والی نظر ان ہر ڈالی
“یار آپ لوگ لڑ لیں کیک ہم کل کاٹ لیں گے” ۔۔۔نایاب تنگ کے بولی تو پھپھو نے زبان دانتوں تلے دبائی ۔۔۔
“اچھا سوری “۔۔پھپھو نے اپنا کان پکڑا ۔۔۔”چلو اب کیک کاٹتے ہیں “۔۔۔پھپھو کیک پر جھکیں تو سب میز کے گرد جمع ہوئے ۔۔۔۔
“یار کیا زمانہ آ گیا ہے ۔۔۔پہلے بچے ماں باپ کو بھول جاتے تھے اب ماں باپ کو بچے بھول جاتے ہیں” ۔۔۔افسوس بھری آواز جس میں سخت مزمت بھی تھی ۔۔۔مین دروازے کے جانب سے سنائی دی تو سب اس جانب مڑے ۔۔۔
دونوں ہاتھ سینے پر باندھے ۔۔۔وہ فریش سا مین دروازے کے آگے کھڑا تیکھی نظروں سے سب کو گھور رہا تھا ۔۔۔ سفری بیگ پاس پڑا تھا ۔۔
پھپھو کے ہاتھ سے چھری گر گئی ۔۔۔لاونچ میں سناٹا چھا گیا ۔۔۔ “ناہل تم” ۔۔۔ سمینہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے اس تک آہیں وہ اب لاونچ کے وسط میں آچکا تھا ۔۔۔
“جی میں ہی ہوں “۔۔۔وہ سڑ کے بولا تو سمینہ نے اسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔۔۔اسکے تنے تاثرات بھی ڈھیلے پڑے تو اسنے بھی اپنے دونوں بازو اپنی ماں کے گرد حماہل کیے ۔۔۔
سب محبت سے ماں بیٹے کو دیکھ رہے ایسے میں ایک وہ تھی جو اسے سحت نظروں سے گھور رہی تھی( یہ اتنی جلدی پاکستان کیسے آ گیا) ۔۔۔” ہونہہ جھوٹا کہیں کا ۔۔۔اگر آ ہی رہا تھا تو میرا دماغ کیوں کھایا “۔۔۔
“کب آئے تم” ؟؟ ۔۔۔سمینہ نے اس سے الگ ہوتے پوچھا ۔۔۔
“میں تو سرپراہز دینا چاہتا تھا مگر یہاں آکے تو میں ہی سرپراہز ہو گیا ہوں”” ۔۔۔وہ متاثرہ نظر لاونچ پے ڈالتا بولا ایک اچٹتی نظر منہ بسورتی نایاب پر بھی ڈالی ۔۔۔اور جو نظر نانو پر پڑی تو اسکی آنکھیں چمکیں ۔۔۔
“واہ نانو کب آہیں !”۔۔۔وہ انکے پاس آکے گھٹنوں کے بل بیٹھا ۔۔ اور محبت سے انکے ہاتھوں کو چوما ۔۔۔اور نانو تو اپنے نواسے کی دیوانی تھیں ۔۔۔وہ اسکے بال چومتیں محبت سے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیر رہیں تھیں۔۔وہ سرشار سا ساری محبت سمیٹ رہا تھا ۔۔۔نایاب جھل بھن رہی تھی ۔۔۔
“کیسا ہے میرا بچہ”” ۔۔۔نانو نے محبت سے اسکا ماتھا چوما
“میں تو ایک دم فٹ ۔۔۔مگر آپ کمزور لگ رہی ہیں لگتا ہے کوئی حیال نہیں رکھتا آپ کا “۔۔وہ انہیں جانچتی نظروں سے دیکھ کے مسکرا رہا تھا ۔۔
“نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے ۔۔۔۔میری نایاب بہت خیال رکھتی ہے میرا( نایاب نے گردن اکڑائی) اسلیے تو اسے ساتھ لیے گھومتی ہوں “۔۔۔انہوں نے ایک نظر نایاب کو دیکھا ۔۔
جو لاپرواہ سی کھڑی تھی ۔۔(مجال ہے جو اس لڑکی نے سلام کی توفیق بھی کی ہو ۔۔۔دادو نے دانت پیسے )” یہاں آو نایاب ملو بھائی سے “۔۔۔دادو نے بمشکل غصہ صبط کیا ۔۔۔۔۔مگر آواز سحت رکھی ۔۔۔وہ حکم پے ناک سکوڑتی ان دونوں تک آئی وہ بھی کھڑا ہوہا تھا ۔۔۔وہ اسکے بلکل سامنے آرکی تو ناہل نے بغور اسے دیکھا ۔۔۔ بس ایک لمحے کو دل کی دھڑکن تمی ۔۔۔۔سبز کانچ سی آنکھوں کا سحر اسے جکڑنے لگا جو اسی کی آواز نے توڑا۔۔۔
“اسلام علیکم” ۔۔۔ دادو کی وجہ سے مسکرا کے بولی ۔۔۔
“وعلیکم سلام “۔۔۔اسنے سر کو حم دےکر جوب دیا ۔۔۔”اچھا لگا تمہیں یہاں دیکھ کے ۔۔۔آئے ہوپ کے تمہیں بھی اچھا لگا ہو گا میرا یہاں آنا” ۔۔۔مسکراہٹ دباتا وہ بہت ادب سے بول رہا تھا۔۔۔(اسے پتہ تھا وہ چڑھے گی )
“ہمم بہت اچھا لگا” ۔۔۔مصنوعی مسکراہٹ سے اسے بول کے وہ پھپھو کی جانب مڑی ۔۔۔”پھپھو اب تو آپکا بیٹا بھی آگیا اب تو کاٹیں کیک “۔۔۔اسے اگنور کرتی وہ سمینہ تک آئی تھی وہ سر جھٹک کے ڈیڈ سے ملنے لگا تھا. ۔۔سب ملازموں نے بھی سلام کیا ۔۔۔سب کا جواب دیتا وہ بھی میز کے قریب آیا ۔۔۔جہاں سمینہ اور سمار صاب اب ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔وہ بھی پاس ہی کھڑی تھی.۔۔۔دونوں ہاتھ جوڑے وہ اپنی سبز آنکھوں سے کیک کٹنے کا منظر دیکھنے کے لیے بے تاب لگتی تھی ۔۔۔
جیسے ہی سمینہ نے کیک کاٹا ۔۔۔ہیپی برتھ ڈے کا ایک شور سا اٹھا۔۔۔خوشی، تالیاں ایک مکمل منظر۔۔۔ وہ سب کو جھک کے کیک کھلاتی شرارت سے مسکرا رہی تھی ۔۔۔ناہل کی نظر ٹہر سی گئی تھی اس پر.
کیک بہت مزے کا بنا تھا ۔۔۔سب کی تعریف وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے وصول کر رہی تھی ۔۔
وہ ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے اس تک آیا ۔۔۔جسنے کوئی لفٹ نہیں کروائی تھی ۔۔۔مطلب وہ سچ میں نک چڑی تھی ۔۔
“یہ کون سی بیکری سے کیک منگوا کر تعریفیں حود بٹور رہی ہو؟””۔۔۔سرسری سے انداز میں پوچھا گیا سوال نایاب کو بھڑکا گیا تھا ۔ اسنے کوفت سے آنکھیں میچیں ۔۔ گہرا سانس لیتی مسکرا کر اسکی جانب مڑی ۔۔(تپی ہوئی مسکراہٹ)
“یہ مٹھاس بیکز کی آنر نے حود بنایا ہے. “۔۔سینے پر بازو لپیٹے وہ مطمئن سی بولی
“گریٹ! ۔۔مطلب یہ کیک تم نے نہیں بنایا” ۔۔۔اسنے سچ بولنے پر جیسے اسے سراہا تھا ۔۔۔
“پوچھو گے نہیں کے مٹھاس بیکرز کی آنر کون ہے “”۔۔۔مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔
“کون ہے؟؟” ۔۔ناہل نے اچھنبے سے اسے دیکھا ۔۔
“نایاب فاروق”” ۔۔۔گردن اکڑا کے کہتی اس پر ایک بری نظر ڈالتی وہ دادو کی جانب چلی گئی ۔۔۔
ناہل کی آنکھوں میں حیرت ابھری پھر ستاہش۔۔۔ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی ۔۔۔گھوم کر اسے دیکھا جو جھک کے دادو کے کان میں کچھ کہہ رہی تھی ۔۔
“ایک بیکری کر آنر اور اتنی کڑوی ۔۔۔سٹرینج “”۔۔۔وہ مسکرا کے مام کی جانب گیا تھا. ۔۔جو اب گفٹس کھول کے دیکھ رہیں تھیں ۔
پارٹی حتم ہونے میں چار بج گئے تھے وہ سب تھکے ہارے اپنے کمروں میں گئے تھے اب انکی صبح دیر سے ہی ہونی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ساری رات نہیں سویا تھا ۔۔۔سبز کانچ سی آنکھوں نے سونے ہی نہ دیا تھا۔۔۔وہاں محفل میں تو وہ اسے نظرانداز کر آیا تھا مگر تنہائی میں وبال جاں بن گئی تھی ۔۔۔
“افف کیا مصیبت ہے” ۔۔۔کروٹ پے کروٹ لیتا وہ سحت بےزار ہوہا ۔۔۔تکیا دور اچھالتا وہ اٹھ بیٹھا ۔۔۔فجر کب کی قصا ہو کےباسی ہو چکی تھی ۔۔۔
کمرے میں دم گھٹنے لگا تو وہ بالکنی میں چلا آیا ۔۔۔صبح کی تازہ ہوا نے اسے تھوڑا سکون دیا ۔۔۔انکھیں بند کر کے اپنی زندگی پر نظر دوڑانے لگا. خوش شکل تھا ،ہینڈسم تھا انگلینڈ سے پڑھ بھی رہا تھا ۔ ۔۔لڑکیوں میں بھی کافی مشہور تھا ۔۔۔مگر اُس لڑکی کی محبت کے آگے وہ ہار گیا تھا ۔۔۔وہ اسکے کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی ۔۔”شہرین” ۔۔۔جس نے خود اسے پروپوز کیا تھا ۔۔۔لڑکی خوبصورت تھی ۔۔۔اور ویل آف فیملی سے بھی تھی ۔۔۔بظاہر وہ پرپوزل اسے ہر طرح سے ٹھیک بھی لگا تھا ۔۔۔مام ڈیڈ سے بات کرنے کے بعد ان دونوں فیمیلز کے درمیان ہونے والی ایک ہی ملاقات میں رشتہ پکا ہو گیا.۔۔۔ اور وہ انگلینڈ پڑھنے چلا گیا ۔۔ اب پڑھائی مکمل ہوئی تو شادی بھی طے ہو گئی ۔۔۔پندرہ دن بعد اسکی شادی تھی ۔۔۔نایاب بھی شاید اسی لیے آئی تھی ۔۔ اصولاً تو اسے شہرین کو سوچنا چاہیے تھا ۔۔۔وہ اسکی ہونے والی بیوی تھی۔۔۔مگر وہ کسے سوچ رہا تھا ۔۔۔”سڑی ہوئی ،نک چڑی ،انتہائی بورنگ ہے فاروق ماموں کی بیٹی”۔۔۔اپنے کزنز سے اس نے نایاب کے بارے میں ایسے ہی جملے سنے تھے ۔۔۔ایک حد تک آج وہ درست بھی ثابت ہوئے تھے ۔۔۔۔نہ وہ بہت ذیادہ فرینک تھی نہ خوبصورت پھر وہ کیوں اسے سوچ رہا تھا.۔۔۔ الھجن سی الجھن ۔۔۔
نیچے مین گیٹ کی کھلنے کی آواز اسے خیالوں سے کھینچ لائی ۔۔۔جھک کے گیٹ پر دیکھا تو وہ گیٹ بند کر کے اندر آتی دیکھائی دی ۔۔۔کھلے سے ٹریک سوٹ ملبوس تھی سر پر ہڈ گرا رکھی تھی۔۔کانوں میں ہینڈ فری ڈالے تھے ایک ہاتھ میں پانی کو بوتل تھی ۔۔ ناہل نے ریلنگ پے جھک کے دلچسپی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔کچھ تو الگ تھا اسکے ٹریک سوٹ میں ۔۔۔اسکا سراپہ مکمل طور پر چھپا تھا سر کا ایک بال بھی نظر نہیں آرہا ۔۔۔وہ پھر کھو سا گیا تھا ۔۔ہوش تو تب آیا جب وہ منظر سے ہٹی ۔۔۔وہ چونک کے سیدھا ۔۔”وہ کس خوشی میں اسے فصول عاشقوں می طرح گھور رہا تھ”ا ۔ ۔۔
“ریلکس ناہل جسٹ اٹریکشن ہے ۔۔۔تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا “۔۔۔۔سر جھٹک حود کو ڈپٹتا وہ اندر آیا ۔۔۔دہڑام سے بیڈ پے گرا ۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں وہ سب سے غافل بیڈ پے آڑھا ترچھا سو چکا تھا ۔ ۔۔۔نماز پڑھنے میں لاپرواہ تھا ۔۔۔یا شاید ہر کام میں لاپرواہ ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے دس بجے تھے ۔۔۔سمار صاب اور سمینہ ڈاہینگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ نوش فرما رہے تھے ۔۔۔پیارے میاں پراٹھے لا کے رکھ رہے تھے جنکو سمار صاب بڑے مزے سے پائے کے سالن کے ساتھ کھا رہے تھے ۔۔۔چائے پیتی سمینہ انہیں گھور رہیں تھیں.۔۔۔نایاب سامنے لاونچ میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“بیگم اسطرح گھورتیں رہیں تو ناشتہ ہضم نہیں ہو گا مجھے” ۔۔۔سمارصاب بھرے منہ کے ساتھ بولے ۔۔۔
“سمینہ نے چائے کا کپ میز پر رکھا ۔۔۔دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساہیئں ۔۔”بی پی آپ کا ہائی، شوگر آپکی ہائی ،کولیسٹرول آپکا ہائی اور بھوک آپکی اتنی شدید کے جیسے دس دن کے بھوکے کو روٹی دی جائے تو وہ ٹوٹ کے کھانے لگتا تھا “۔۔تحمل سے بولتیں وہ یک دم مشتعل ہوہیں ۔۔۔نایاب ان دونوں کی جانب متوجہ ہوئی
سمار صاب کا چلتا منہ بند ہوہا ۔۔۔”میں کب کھاتا ہوں اتنا ۔۔۔وہ تو بس آپکی سالگرہ کی خوشی میں تھوڑا ساچکھ لیا” ۔۔۔وہ عاجزی سے بولے تو نایاب نے بمشکل ہنسی روکی
“بلکل جیسے پچھلے ہفتے ناہل کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے کی خوشی تھی ۔۔۔چار دن پہلے نایاب اور اماں کے آنے کی خوشی تھی ۔۔۔اور اس سے ایک دن پہلے انکے آنے کی خبر کی خوشی تھی ۔۔۔ پرسوں میرے مسکرانے کی خوشی تھی ۔۔۔جو آپ نے ڈاہیٹ پلان خراب کیا “۔۔۔وہ انگلیوں پے گن کے انکے کارنامے بتانے لگی ۔۔۔سمار صاب ہاتھ روکے ان کو دیکھے گئے ۔۔
“توبہ ہے اس عمر میں بھی آپکی یاداشت کا جواب نہیں “”۔۔۔سمار صاب کی زبان بے احتیار پھسلی ۔۔۔اور جب بات کی سنگینی کا احساس ہوہا تو وہی زبان دانتوں کے نیچے دی ۔۔۔
سمینہ کو انکا بی پی شوگر سب بھول گیا ۔۔۔”کیا مطلب ہے آپکا کتنی عمر ہے میری ۔۔۔نایاب سے دو تین سال بڑی ہوں گی”” ۔۔۔وہ ٹھیک ٹھاک برا منا گئیں ۔۔ وہ تو حود کو چھبیس کا مانتیں تھیں ۔۔اور سمار صاب انہیں بوڑھی کہہ رہے تھے مطلب حد ہوگئی۔۔۔ انکی بات سن کے نایاب سر پھینک ہسنے لگی ۔۔۔اور سمار صاب نے آنکھیں پھاڑ کے انہیں دیکھا ۔۔۔
“استغفراللہ!!” ۔۔۔وہ امنڈتی ہنسی کا گلا گھونٹنے ۔۔۔سر جھکا گئے ۔۔۔
“گڈ مارننگ ایوری ون” ۔۔۔وہ سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آرہا تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کے نایاب کی ہنسی کو بریک لگی ۔۔۔وہ اسکے پاس پہنچ کے مسکرایا ۔۔۔تو جواب میں اسنے بھی سرسری سا مسکرا کر گڈ مارننگ بولا اور رح موڑ گئی وہ سر جھٹکتا ڈاہینگ ٹیبل پر ایک کرسی کھینچ کے بیٹھ گیا.۔۔۔تو سمنیہ اور سمار صاب نے لڑائی ختم کی۔۔۔
“تم اٹھ گئے مجھے لگا لیٹ اٹھو گئے” ۔۔۔سمینہ نے نرم مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور اسے جوس ڈال کے دیا ۔۔
“ہاں بس نیند کھل گئی آپ سب کی باتوں کی آواز آرہی تھی تو میں نے سوچا آپ کے ساتھ ناشتہ کر لوں” وہ جوس پیتا سرسری سا بول رہا تھا۔۔۔”اور یہ ہماری نایاب سی کزن یہ ناشہ کیوں نہیں کر رہیں”” ۔۔۔۔
“نایاب تو اماں کی وجہ سے جلدی اٹھ جاتی ہے ۔۔۔انہیں وقت پے دوائی لینی ہوتی ہے اسلیے ان دونوں نے تو ناشتہ کر لیا” ۔۔۔
“ہمم””۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔ اور ڈیڈ کو دیکھا ۔۔”ارے ڈیڈ یہ اتنا ہیوی ناشتہ ۔۔۔ڈانٹ نہیں پڑی کیا مام سے “۔۔۔شرارت سے بولتے اسنے جوس کا گلاس ختم کر کے میز پر رکھا ۔۔۔اور سمار صاب نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔۔۔جس ٹاپک کو انہوں نے بمشکل برحاست کیا وہ وہی چھیڑ رہا تھا.
“تم میری چھوڑو اپنی شادی کی فکر کرو ۔۔شادی کے جوڑے ابھی تک نہیں لیے تم نے ۔۔۔شہرین کا کہنا ہے تم آو گے تو شاپنگ کرنے جائے گی ۔۔میں تو کہتا ہوں آج جاو تم ناہید کی طرف اس سے مل بھی لینا اور شہرین کو شاپنگ پر بھی لے جاو”.۔۔۔۔سمار صاب نے باتوں کا رح خوبصورتی سے ناہل کی شادی کی جانب موڑا ۔۔۔اور یہ وہ واحد ٹاپک تھا جس پر سمینہ کو سب بھول جانا تھا ۔۔۔
“ہاں ناہل ڈیڈ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔۔۔تم چلے جاو آج شہرین کی طرف اور ویڈنگ ڈریس سلیکٹ کر کے آو” ۔۔۔سمینہ اب پوری طرح شادی میں الجھ گئیں ۔۔۔سمار صاب نے شکر ادا کیا۔۔۔۔
“چلا جاوں گا مام” ۔۔۔وہ بے زاری سے بولا ۔۔۔”فل حال ناشتہ تو دیں “۔۔ایک نظر لا تعلق سی بیٹھی نایاب کو بھی دیکھا ۔۔۔
“ہاں کیا کھاو گے تم بتاو مجھے میں بنواتی ہوں” ۔۔۔سمینہ نے بولتے ہی پیارے میاں کو آواز لگائی ۔۔
“وہی جو ڈیڈ کھا رہے ہیں قسم سے عرصہ ہوگیا پراٹھے نہیں کھائے” ۔۔۔بےقراری سے ہاتھ ملتا وہ اشتیاق سے پراٹھوں کو دیکھنے لگا.۔۔۔موڈ پھر سے بہتر ہو گیا تھا ۔۔۔
نایاب یوں تو لا تعلق سی بیٹھی تھی ۔۔۔مگر کان ان سب کی باتوں کی جانب ہی تھے ۔۔۔”ہونہہ پراٹھے کھاہیں گئے یہ انگلینڈ پلٹ” ۔۔۔۔نحوت سے سر جھٹکا اور ٹی وی بند کر کے دادو کے کمرے کی جانب چل دی ۔۔۔ناہل نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی اور ناشتہ کرنے لگا.۔۔۔ چلو کچھ تو پسند کا ملا…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں نک سک سی تیار ہو کے لاونچ میں آئی تو منظر کچھ یوں تھا ۔۔۔
ناہل مزے سے صوفے پر پیر پسارے بیٹھا تھا ہاتھ میں مونگ پھلی کی پلیٹ تھی ۔۔جسمیں سے وہ لگا تار مونگ پھلی پھانگ رہا تھا ۔۔۔پھپھو بیٹھی کوئی مارنگ شو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔”جہاں ایک سوکھی سڑی سی ہوسٹ منوں میک اپ لدے اور بالوں کو اترنگے سٹاہل میں باندھے عورتوں انکے حقوق بتا رہی تھی” ۔۔۔
سمار صاب اخبار کھولےبیٹھے تھے ۔۔۔دادو اپنے کمرے میں آرام فرما رہیں تھیں۔۔۔۔
وہ ایک سرسری نظر ان پر ڈالتی پورچ کی جانب بڑھی ۔۔۔
ن”ایاب کدھر چل دی !”۔۔۔ٹی وی پر کمرشل بریک آئی تو پھپھو نے اسےباہر جاتے دیکھ پوچھا ۔۔۔مونگ پھلی کھاتے ناہل نے سر اٹھا کے اسے دیکھاسمار صاب نے بھی احبار سامنے سے ہٹائی ۔۔۔
“میری ایک دوست ملنے کا بول رہی ہے ۔۔۔مجھے کچھ شاپنگ بھی کرنی ہے تو سوچا اس سے مل بھی لوں گی اور اسے لے کر شاپنگ پر بھی نکل جاو گی” ۔۔۔باہیں ہاتھ پے پہنی ریسٹ واچ پر نظر ڈالتی وہ کھڑے کھڑے ہی بتانے لگی ۔۔۔(گہرے سبز رنگ کے گھیرے دار فراک میں ملبوس تھی ۔۔۔جسکی آستین فل چوڑی دار تھیں ۔۔فراک کے گھیرے پر ہلکے گلابی رنگ کی کڑھائی ہوئی تھی ساتھ چوڑی دار پاجامہ تھا ۔۔۔گلاپی ڈوپٹہ جسکے کناروں پر گہرے سبز رنگ کی کھڑائی تھی سر پر تھا یہ اسی کی بوتیک کا جوڑا تھا( وہ صرف اپنے ڈیزاہن کردہ جوڑے پہنتی تھی ۔۔) بال ہائی پونی میں بندھے تھے ہونٹوں پر ہلکا سا گلابی لپ گلوز لگا تھا ۔۔۔ناہل نے اسے دیکھ کے منہ بنایا اور جھک کے مونگ پھلی کھانے لگا ۔۔۔
“تو اکیلی کیوں جا رہی جارہی ہو۔۔۔رکو زرا ناہل نے بھی جانا ہے شہرین کو لے کے شاپنگ پر ۔۔تم ان کے ساتھ چلی جاو” ۔۔۔سمینہ کی بات سن کے ناہل کے کان فورا کھڑے ہوئے موڈ یک دم فریش سا ہوگیا عجیب سی خوشی ۔۔۔(نہ جانے کیوں ).۔۔مگر وہ جو جانے کے لیے تیار کھڑی تھی سخت بدمزہ ہوئی ( لو بھلا اب اسے بھی جھیلو )
“نہیں پھپھو میں چلی جاوں گی خواہ مخواہ اسے زحمت ہو گی ۔۔۔اور ویسے بھی یہ شہرین کے ساتھ جا رہا ہے میں کیوں کباب میں ہڈی بنو گی” ۔۔۔چہرے پر معصومیت سجائے وہ جلدی سے بولی ۔۔کہیں سچ میں نا جانا پڑھ جائے اسکے ساتھ ۔۔۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم کون سا ڈیٹ پے جا رہے ہیں ہمیں بھی شاپنگ کرنی ہے ۔۔۔تم ساتھ چلو گی تو شہرین کو بھی کمپنی ملے گی” ۔۔۔۔۔اسے پتہ تھا کے وہ انکار کرے گی اسلیے وہ سرہت سے کہتا اٹھ کھڑا ہوہا ۔۔۔”بس پانچ منٹ میں ابھی آیا ۔۔۔ویٹ فار می” ۔۔۔نایاب نے کچھ بولنے کے لیے لب واہ کیے ۔۔۔مگر وہ سنے تو … عجلت میں بنا اسے بولنے دیے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔
“بیٹھ جاو نایاب تم اسکے ساتھ چلی جانا ۔۔۔مجھے بھی تسلی رہے گی” ۔۔۔پھپھو نے محبت سے کہا تو ناچارہ اسے بیٹھنا پڑا ۔۔۔
“افف یار کیا مصیبت ہے پہلے اس بندر کو جھیلو اور سے اس مس بیوٹی پالر کو” ۔۔۔نایاب نے ایک منٹ کے لیے شہرین کا سوچا ۔۔۔”اترنگے لباس ، مہنگے بیگز، اسکے وجود سے اٹھتی مہنگے برانڈ کے پرفیوم کی خوشبو ، منوں لدا میک اپ ۔۔۔۔افف” ۔۔نایاب نے فورا جھرجھری لی ۔۔۔شہرین کے بارے میں اسنے صرف سن رکھا تھا اور پھپھو کے موباہیل میں ایک عدد تصویر دیکھی تھی ۔۔۔وہ بہت خوبصورت تھی اوپر سے اترنگا فیشن وہ جہاں سے گزرتی ۔۔۔ہر کوئی مڑ کے لازمی دیکھتا تھا ۔۔۔( ہونہہ الاہیڈ گلاس کی ماڈرن لڑکیاں) ۔۔۔نایاب نے گہری سانس لی ۔۔۔دس منٹ بعد ناہل بھی تیار ہو کے آگیا ۔۔
ہلکے سبز رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ گرے جینز اور ڈل پنک رنگ کی جیکٹ میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔اسکی آنکھیں شہد رنگ تھیں اور بلکل ہم رنگ بال جو اس وقت پیچھے کی جانب سیٹ کر کے رکھے تھے ۔۔
“چلیں” ۔۔۔اسنے آتے ہی نایاب کو چلنے کا اشارہ کیا وہ گہری سانس لیتی اسکے پیچھے گئی ۔۔۔
وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کے بیٹھنے ہی لگی تھی کے وہ بول اٹھا
“آگے بیٹھو میں کھا نہیں جاو گا” ۔۔۔نایاب رک سی گئی دروازہ ادھ کھلا رہ گیا.۔۔ وہ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے کھڑا تھا ۔۔آنکھوں میں شرارت تھی ۔۔
“یہ جگہ تو شہرین کی ہے ۔۔۔اسے برا لگ سکتا ہے “۔۔اسنے سوالیہ آبرو اٹھاکے اسے دیکھا ۔۔۔۔
“ہاں برا تو اسے لگ سکتا ہے “۔۔۔ناہل نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا ۔۔۔”تم ابھی بیٹھ جاو ۔۔۔بعد میں جب وہ ساتھ ہو گی تو پیچھے بیٹھ جانا “۔۔۔رسانیت سے بولتا وہ ڈراہیونگ سیٹ پر بیٹھا اور منتظر سا اسے دیکھنے لگا
وہ کچھ لمحے خاموش کھڑی رہی ۔۔۔پھر سر جھٹکا ۔۔۔پہلے سے ادھ کھلا دروازہ مزید کھولا ۔۔اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔ناہل کو غصہ تو شدید آیا مگر صبط کر گیا ۔۔۔گردن موڑ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔
“سوری پر میں تھوڑی دیر کے لیے بھی کسی کی جگہ نہیں لے سکتی ۔۔۔نہ اپنی جگہ کسی کے لیے چھوڑتی ہوں ۔۔۔اسلیے میں اپنی جگہ پر رہنا ہی پریفر کرتی ہوں “۔۔۔قطیعت سے بولتی وہ باہر دیکھنے لگی ۔۔۔
ناہل نے نفی میں سر ہلایا ۔۔ “نک چڑی” ۔۔۔زیرے لب بڑبڑیا اور کار مین روڈ پر لائی
تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ اس شاندار سے بنگلے کے ڈراہینگ روم میں بیٹھے تھے ۔۔۔ناہید بیگم نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا ۔۔۔(وہ الگ بات تھی نایاب جیسی بہن جی ٹاہپ لڑکی انہیں پسند بلکل نہیں آئی مگر ہونے والے داماد کے ساتھ تھی تو جھیلنا لازمی تھا) ۔۔۔
انہوں نے سفید رنگ کی سلک کی ساڑھی (جسکا بلاوزر ہاف اور گلا گہرا تھا) پہن رکھی تھی ۔۔۔گہرے میک اپ میں چہرے کی جھریاں دب سی گئیں تھیں ۔۔ وہ اپنی عمر سے کافی چھوٹی لگ رہیں تھیں۔۔۔نایاب تو اتنی الٹرا ماڈرن ساس کودیکھ کے ہی گنگ رہ گئی تھی اسے اپنی دادو کی وہ کہاوت یاد آئی تھی جو وہ اکثر ایسی عورتوں کو دیکھ کے بولا کرتیں تھیں ( بوڑھی گھوڑی لال لگام )۔۔وہ خاموشی کے ساتھ ایک صوفہ پے ٹک گئی ۔۔۔گھر کافی شاندار تھا ۔۔۔وہ سراہے بغیر نہ رہ سکی ۔۔۔ناہل بڑے آرام سے ٹانگ پے ٹانگ چڑھائے بیٹھا اپنی ساس کے ساتھ باتیں بگھارنے میں لگا تھا ۔۔۔ جو اب ملازم کو ان دونوں کی حاطر مداری کا بول رہیں تھیں ۔۔ساڑھی کا ایک پلو نفاست سے تھامے ٹانگ پے ٹانگ چڑھائے ۔۔۔وہ انیس بیس سال کی دوشیزہ کی طرح گپیں ہانک رہیں تھیں ۔۔
نایاب کو سخت بے زاری نے آ گھیرہ ۔۔۔اس سے پہلے وہ ایک دلربا سی انگڑائی لے کے اباسی بھرتی ۔۔۔اسے یاد آیا کے وہ اپنے بیڈ روم میں نہیں ناہل کے سسرال میں ہے ۔۔۔اور یہ اسے سہج سہج کے زینے اترتی شہرین کو دیکھ آیا ۔۔۔ “کالے رنگ کی عجیب سے فیشن میں سلی شرٹ اور ساتھ میں تنگ جینز پہنے ہوئے تھی ۔۔۔بال جو سہنری رنگ مہں ڈائی تھے انکو الٹے سیدھے فیشن میں باندھ رکھا تھا گہرے میک اپ میں وہ چلتی پھرتی قیامت لگ رہی تھی۔۔۔
نایاب مزے سے مگر ناہل ششدر سا اسے دیکھے گیا۔۔(یہ کیسا فیشن تھا ) وہ مسکرا بھی نہ سکا تھا ۔۔۔جبکے وہ ایک ادا سے چلتی اس تک آئی ۔۔۔اسے ناچارہ کھڑا ہونا پڑا تھا ۔۔”ہائے ہنی ہاو آر یو آئے مسڈ یو سو مچ” ۔۔۔خوشی سے بولی ایک ہاتھ اسکے کندھے پے رکھا گال سے گال مس کیا اور اسکے سامنے صوفہ پر نزاکت سے بیٹھی ۔۔۔
“فاہن ۔۔۔تم کیسی ہو “۔۔۔ناہل بمشکل بولا اور ناگواری چھپاتا واپس بیٹھا ۔۔۔
“میں تو اب بلکل ٹھیک ہوں “۔۔۔وہ چہکی ۔۔۔اور جو نظر نایاب پر پڑی تو. خوبصورت آنکھوں میں حیرانی در آئی
۔۔”ناہل یہ کون ہے ؟؟” ناہل کے ساتھ کسی لڑکی کا ہونا اسے پریشان کر رہا تھا ۔۔۔
“اوہ سوری۔۔۔میں بتانا بھول گیا ۔۔۔یہ میری کزن ہے نایاب ،نایاب فاروق” ۔۔۔ناہل نے ایک اچٹتی نگاہ نایاب پر ڈالی ۔۔۔۔سادہ سےحلیے میں وہ لڑکی (کپڑے اسکے بھی برانڈڈ تھے ) مگر پورے تھے ۔۔۔جو اسے سادگی میں بھی الگ بناتے تھے ۔۔۔نایاب نے تھوڑا سر خم کر کے سلام کیا ۔۔
شہرین بنا جواب دہیے تنقیدی نظروں سے اسے دیکتھی رہی ،دیکھتی رہی یہاں تک کے اسکی آنکھیں چمکیں ۔۔”اوہ مائے گاڈ آپ نایاب فاروق ہیں ۔۔۔مشہور بوتیک ۔۔۔سلیف میڈ کی آنر” ۔۔۔وہ صوفہ سے اچھل کر کھڑی ہوئی ۔۔۔اسکے چہرے پر شاک ،ایکساہمنٹ نا جانے کیا کیا تھا ۔۔۔ناہل نے گردن گھما کے نایاب کو دیکھا ۔۔۔ناہید بیگم کی آنکھیں واہ. ہوئیں ۔۔
“جی میں وہی ہوں “۔۔سادگی بولتی نایاب ہلکہ سا مسکرائی۔۔
“اوہ گاش !! آپ ہمارے گھر ،مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا “۔۔وہ فین مومنٹ میں لگتی تھی ۔۔۔گہرے شاک میں ۔۔۔
“ممی اتنی بڑی فیشن ڈیزاہنر ہمارے گھر آئی ہیں ۔۔۔کچھ اچھا منگواہیے انکے لیے “۔۔۔وہ اب شاک کے مرحلے سے نکل کر خوشی کے مرحلے میں داحل ہو گئی تھی ۔۔۔
“کیا ہو گیا ہے شہری بی ہیو” ۔۔۔ناہید نے شرمندگی سے (بہن جی ) نایاب کو دیکھا اور دانت پیس کے اپنی بیٹی کو( ڈیزاہنر ہی تو ہے کون سی کوئی فلم ایکٹرس ہے ) ۔۔ شہرین بنا اثر لیے انکے ساتھ ہی سنگل صوفے پر ٹک گئی ۔
“مجھے نا آپ کی بوتیک کے کپڑے بہت پسند ہیں “۔ آنکھوں میں خوشی لیے وہ اپنے مخصوص انداز سے بول رہی تھی۔۔اسکے بیٹھنے کا انداز بھی کچھ بھی الگ سا تھا “کمر ایک دم سیدھی گردن اکڑی ہوئی،ہاتھوں اور پیروں کو ایک حاص زاویے پے رکھنا” ۔۔۔نایاب کو ایسے عجوبے دیکھنا بہت پسند تھا اسلیے وہ بہت شوق سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“تھینکس !”۔۔۔۔نایاب نے بے حد امنڈتی ہنسی کا گلا گھونٹ کے نرم مسکراہٹ سے اسےدیکھا ۔۔
“مجھے جب بھی نہ کوئی ٹراڈیشنل ڈریس پہننا ہوتا ہے تو آپکی بوتیک کا رح کرتی ہوں” ۔۔۔وہ شوحی سے بولتی بولتی یک دم اداس ہوئی ۔”مگر آپ جو کپڑے ڈیزاہن کرتی ہیں وہ زرا اولڈ فیشن ہوتے ہیں۔۔۔ ۔۔آپ کو کچھ فیشن ایبل بھی ڈیزاہن کرنا چاہیے بہت آگے جاہیں گی “۔۔۔وہ یک دم پرجوش ہوئی جیسے مسئلے کا حل مل گیا ہو. ۔۔
“جی جی بلکل آپ درست کہہ رہی ہیں اس طرف ترقی بہت ہے مگر مجھے ترقی سے زیادہ عزت چاہیے جو الحمداللہ مجھے اللہ نے بہت عطا کی ہے “۔۔۔ نایاب نےسادگی سے جواب دیا تو شہرین نے ناگواری سے منہ بنایا ( یہ کیا بات ہوئی بھلا)۔۔۔ناہل کو ایک فحریہ احساس نے آہ گھیرا ۔۔۔وہ کافی محظوظ ہوہا ۔۔
“برا مت مناہیے گا آپ ہیں تو فیشن ڈیراہنر ۔ مگر آپکے ڈیزاہن کردہ کپڑوں میں فیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی” ۔۔۔لاتعلق سی بیٹھی ناہید کو اپنی بیٹی کی انسلٹ تو گویا سلکا ہی گئی تھی ۔وہ نا گواری سے بولیں
ناہل اور شہرین نے بے چینی سے پہلو بدلہ ۔۔۔ماحول میں عجیب تناو سا چھا گیا ۔۔۔نایاب نے کچھ سمجھ کے انہیں دیکھا ۔۔۔”آپ کی بات درست ہے مگر میں فیشن ڈیزاہنر نہیں ڈریس ڈیزاہنر ہوں اور لباس ایسے ہی ڈیزاہن کیے جاتے ہیں ناہید آنٹی” ۔۔۔مخصوص تپی ہوئی مسکراہٹ سے بولتی وہ ٹیک لگاکے بیٹھی ۔۔۔ناہید لاجواب سی ہو گئیں ۔۔۔ناہل کو زور کی ہنسی آئی تھی ۔۔۔جسکو چھپانے کے لیے وہ گردن موڑ گیا ۔۔۔شہرین نے ناک سکوڑ کر اپنی ماں کو دیکھا ۔۔اتنے میں ملازم چائے کی ٹرالی دھکیلتا ہوہا آیا تو سب اس جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔چائے کے ساتھ ڈھیروں ڈھیر لوازمات کے تھے مگر سب کا دھیان مٹھاس بیکرز کے کیک نے اپنی کھینچا ۔۔۔
“ارے ہاں آپ تو ایک بیکری بھی رن کرتی ہیں” ۔۔۔شہرین پھر سے چہکی ۔۔۔”بہت مزے کے کیک ہوتے ہیں آپ کی بیکری کے اور سویٹس تو لاجواب ہی ہوتی ہیں” ۔۔۔شہرین نایاب کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی ۔۔۔اور ناہید بیگم تاسف سے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
“مام تو کسی اور بیکری کی مٹھائی نہیں کھاتی سچ میں بہت مزے کی ہوتیں ہیں ۔۔۔ایسا کیا ڈالتی ہیں اس میں “۔۔۔شہرین اپنی ڈاہٹ بھولائے کیک کا ایک بڑا سا پیس اپنی پلیٹ میں رکھتی مسلسل بول رہی تھی ۔۔۔ناہل نے بھی کیک لیا تھااور نایاب کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔جسنے صرف چائے لی تھی ۔۔۔ناہید بیگم کا تو جی ہی اچاٹ ہو چکا تھا. ۔۔وہ بس برادشت کرتیں وہاں بیٹھی تھیں ۔۔۔
“دیسی گھی” ،،،پیور دیسی گھی استعمال ہوتا ہے ہمارے ہاں مٹھائی میں” ۔۔۔نایاب چائے کا سب لیتی بولی تو ناہید بیگم نے گھبرا کے اسے دیکھا اورپھر رغبت سے کیک کھاتی شہرین کو ۔۔۔وہ ٹھریں سدا کی ڈاہٹ کانشیس ۔۔۔اور یہ دیسی گھی کا استعمال ۔۔۔انہوں نے کرنٹ کھا کر پیلٹ شہرین کے ہاتھ سے لی ۔۔۔وہ بھی دیسی گھی کا سن کے رک سی گئی تھی ۔۔۔
نایاب کو جی بھر کے ہنسی آئی اسے پتہ تھا ان کا ری ایکشن کچھ ایسا ہی ہونا ہے ۔۔۔
“دیسی گھی کیوں یوز کرتی ہیں آپ ۔۔۔اوہ مائے گاڈ اتنی کیلریز۔۔۔کوئی اپنی صحت کے ساتھ ایسا رسک کیسے لے سکتا ہے “۔۔۔ناہید بیگم کو ہارٹ اٹیک آتے آتے بچا تھا ۔۔
“میں آپ کی بات سے ایگری نہیں کرتی دیسی گھی صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے ہڈیوں اور پٹھوں کو مصبوط رکھتا ہے ۔۔۔ اور بھی اسکے بہت سے فواہد ہیں اگر اسے سہی طریقے سے استعمال کیاجائے تو اٹس رہیلی گڈ فار دا ہیلتھ” ۔۔۔نایاب نے تحمل سے اپنی مکمل کی تھی ۔۔۔
“مگر اس سے موٹاپا بھی ہوتا ہے ڈونٹ یو نو دس “۔۔۔شہرین بھی جھرجھری لیتی بولی ۔۔
“دیکھیں ہمیں اپنی جڑوں سے کبھی نہیں کٹنا چاہیے یہ سب ہماری روایات ہیں ہمارا کلچرہیں ،ہم انہی چیزوں سے پہچانے جاتے ہیں ،آجکل کی نوجوان نسل نے ان چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا اسلیے بیمارویوں کے حلاف قوت مدافعت ختم ہو گئی”۔۔۔نایاب نرمی سے سمجھا رہی تھی ۔۔۔
“مگر اسطرح تو آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں زمانہ بدل رہا ہے آجکل لوگ ڈاہٹ کانشیس ہوتے جا رہے ہیں ۔۔۔صحت سے ذیادہ فگر اہم ہے ۔۔۔اور اولڈ فیشن کپڑوں سے ذیادہ جدید فیشن ایبل کپڑے مارکیٹ میں اِن ہیں ۔۔۔ایسے میں کون آپ کی دیسی گھی والی سویٹیس اور اولڈ فیشن کپڑے خریدے گا؟؟؟” ۔۔۔ناہید یبگم جو کب سے خاموش بیٹھیں تھیں اپنے دل کی بھڑاس نکالی تھی۔۔ناہل نے تنبہی نظروں سے انہیں گھورا ۔۔مگر نایاب پرسکون تھی اسنے سکون سے چائے کا آخری سپ لیا کپ شیشے کے میز پر رکھا ۔۔اور پوری طرح انکی جانب متوجہ ہو کے بیٹھی ۔۔۔ایک نظر میز پر رکھی دیسی گھی والی سویٹس پر ڈالی اور دوسری ناہید بیگم کی ساڑھی ۔۔ جو اسی کی بوتیک کی تھی ۔۔۔
“جیسا کے میں نے پہلے بھی کہا ہے کے مجھے ترقی سے ذیادہ عزت چاہیے جو میرے پاس پہلے سے بہت ہے اور رہی بات میرے بوتیک سے اولڈ فیشن کپڑے حریدنے سے یا میری بیکری کی دیسی گھی والی مٹھائی خریدنے کی تو میں کسی کی منت نہیں کرتی کے آکے مجھ سے خریدو ۔۔۔مگر دیکھ لیں آپکی یہ ساڑھی جو آپ نے پہن رکھی وہ میری ہی بوتیک کی ہے ۔۔۔اور یہ کیک جو آپ لوگ کھا رہے ہیں یہ بھی میری بیکری سے آیاہے ۔۔۔اور رہی بات اولڈ فیشن کپڑوں کی تو مجھے نہیں لگتا کے میرے ڈیزاہن کردہ کپڑے اولڈ فیشن ہیں ۔۔۔کیوں کے جس تہذیب کا میں حصہ ہوں وہاں ایسے ہی لباس پہنے جاتے ہیں میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان ہونا ہی ایک اعلیٰ تہذیب یافتہ اور ماڈرن ہونے کا نام ہے ۔۔دنیا کے سب سے روشن دلاہل اسلام میں ہیں ۔۔دنیا کے سب سے بڑے ساہنسدان مسلمان تھے ۔۔۔سب سے پہلے عورت کو عزت اسلام نے دی ۔۔۔سب سے پہلے عورت کا جسم اسلام نے ڈھکا ۔۔۔اور دنیا کے عظیم انسانوں میں سب سے اوپر میرے نبی “حضرت محمد صلی اللّٰہ والہ وسلم ” کام نام اس بات کا ثبوت ہے کے اسلام ہی سب سے ذیادہ ماڈرن اور تہذیب یافتہ ضابطہ حیات ہے” ۔۔۔نایاب نے سکون سے اپنی بات مکمل کی ،،گہری نانس لیتی کھڑی ہوئی ۔۔۔اور ان دونوں ماں بیٹی پر جیسے کسی نے گرم پانی انڈیل دیا تھا ۔۔حق دق بنی بیٹھیں بس اسے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
“ناہل مجھے لگتا ہے کے شاپنگ پے چلنا چاہیے” ۔۔۔ایک اچٹتی نظر ان دونوں پے ڈالتی اور باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔پھر رکی پیچھے مڑی ۔۔۔اور شاہستگی سے بولی ۔۔۔*آپ لوگوں سے مل کر اچھا لگا ۔۔۔شادی پے ملاقات ہو گی ۔۔اینڈ بائے دا وے تھینکس فار دا ٹی” ۔۔۔اور ایک ہونہہ والی نظر ان پر ڈالتی پرس سنبھالتی باہر چلی گئی ۔۔اس سب میں سب سے ذیادہ مزہ ناہل کو آیا تھا ۔۔۔”اسے لگا تھا وہ اولڈ فیشن ،دبو ،اپنی بات نہ کہہ سکنے والی لڑکی ہو گی مگر وہ تو بے انتہا کانفیڈینٹ تھی اتنی کے ان الٹرا ماڈرن عورتوں کو بھی لاجواب کروا دیا ۔۔گڈ “”
“برا مت منانا ناہل تہماری کزن بہت روڈ ہے” ۔۔۔شہرین کا سارا مزا کر کرا ہو گیا تھا۔۔۔وہ ناک سکوڑ کر بولی ۔۔ناہید بیگم نے نحوت سے سر جھٹکا “چھٹانگ بھر کی لڑکی نے انہیں آہینہ دیکھا دیا تھا ۔۔۔
“ہمم روڈ تو ہے” ۔۔۔ناہل کو آج سمجھ آیا کہ اسکے سارے کزن نایاب کو روڈ، نک چڑی اور بورنگ کیوں کہتے ہیں ۔۔۔وہ بس۔۔ایک مسلمان لڑکی تھی ۔۔۔صرف نام کی نہیں عمل سے بھی ۔۔۔اور یہی چیز اسے سب سے الگ کرتی تھی ۔۔۔
“باتیں تو ایسے کر رہی تھی جیسے ایک وہی مسلمان ہو ۔۔۔ہم کیا مسلم نہیں “۔۔۔ناہید یبگم ناراضگی سے بولیں ۔۔
“چھوڑیں آنٹی اسے وہ ایسی ہی ہے (کمال کی)۔۔ہمیں شاپنگ پر بھی جانا ہے چلیں شہرین “۔۔۔وہ نارمل انداز میں بولتا اٹھ کھڑا ہوہا ۔۔۔ تو وہ دونوں بھی کھڑی ہوہیں ۔۔
“شہرین اپنا موڈ ٹھیک کرو اور اچھے سے شاپنگ کرنا آج تم دونوں نے ویڈنگ ڈریس سلیکٹ کرنا ہے “۔۔۔ناہید بیگم نے شاہستگی سے پریشان سی کھڑی شہرین کو کہا ۔۔۔جسکی آنکھیں ویڈنگ ڈریس سن کے چمکیں ۔باقی سب بھول گیا
“اوہ یس چلو چلیں ناہل” ۔۔۔پرجوش سی بولتی اسنے ناہل کے بازوں میں بازو حماہل کیا اور اپنی ماں کو بائے بولتی کار تک آئی ۔۔۔ناہل نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تو وہ بال جھٹکتی اگلی سیٹ پر بیٹھی ۔۔۔ایک بری نظر پیچھے بیٹھی نایاب پر ڈالی ۔۔۔جو فون کان سے لگائے کسی سے بات کر رہی تھی ۔۔۔
“ناہل ہم کون مال جا رہے ہیں”.۔۔۔ناہل جب بیٹھ چکا تو۔۔۔نایاب نے ایک منٹ کہتے ہوئے عجلت سے اس سے پوچھا ۔۔۔
“ہم سینٹورس مال جاہیں گے” ۔۔۔شہرین نے منہ چڑھا کے جواب دیا وہ اوکے بولتی اپنی دوست کو سینٹورس آنے کا بتانے لگی ۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...