نہیں ،رحمن بابو،اُسے پتہ بھی نہ چلا اور مذہبی جنونیوں نے اُسے ایک ہی وار میں ختم کردیا۔۔۔نہیں،اُس میں ایک سانس بھی نہ بچا تھا،مگر پھر کیا پیش آیا کہ جب اُسے قبر میں لٹا دیا گیااور ہم اُس پر مٹی ڈالنے لگے تو وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیااور ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگا، خدارا میری جان مت لو۔۔۔خدارا۔۔۔
نہیں ،بابو،وہ سو فیصد مر چکا تھا مگر کیا ہوا کہ خوف کی شدت سے ہڑبڑا کر جی پڑا اور قبر میںبیٹھے بیٹھے فریاد کئے گیا۔۔۔۔خدا کے لئے۔۔۔۔
نہیں ،بابو،اُس وقت تو وہ بے خبری میں چل بسا تھا۔اِس وقت اُسے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے پاکر ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ جان تو اُس کی اب نکل رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سمجھتے کیوں نہیں،رحمن بابو؟زندگی بھی تو پہاڑکا پہاڑہے جس کی چوٹی ایک سیدھ میں اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ہاں میں بھی ساری عمر پھسل پھسل کر بالآخر یہاں چوٹی پر آہی پہنچا۔مگر کیا فائدہ، بابو؟ میں نے کیا دیکھا کہ یہاں کوئی ایک شخص بھی آباد نہیں ،جس سے فخر سے اچھل کر کہہ سکوں ،دیکھو،پہنچ گیا ہوں۔۔۔۔نہیں،بابو کسی جھاڑی واڑی سے بھی مخاطب ہو کر کہنا چاہوں تو چوٹی پر قدم بھر ہی تو جگہ ہوتی ہے،اچھلنے سے پہلے ہی آدمی لڑکھڑاکر نیچے جا گرتا ہے۔ہاں، بابو،ٹھیک کہتے ہو۔چوٹیوںپر سینہ پھُلا کر اچھل کودکی گنجائش نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات درمیان میں ہی رہ گئی رحمن بابو۔آگے کی یہ ہے کہ سورگ سے جنت اتنی قریب ہے کہ یہاں پانچوں وقت کی اذان کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔شری رام چندر نے گجرات کے قتل و غارت کی کہانیاں سُنیں تو اُن سے رہا نہ گیااور دو قدم چل کر یہاں جنت میں آپہنچے اور دیکھا کہ نوواردوں کی سہمی ھوئی آنکھوں میں گجرات ابھی تک چیخوں اور شعلوں میں دھجی دھجی اُڑ رہا ہے۔نا معلوم شری رام چندرکو کیا سُوجھی کہ انہوں نے اُسی دَم احمد آباد میں گھری ایک مسلم خاتون کے یہاں جنم لینے کی ٹھان لی۔
نہیں ،پہلے اورآگے بھی سُن لو بابو۔شری رام چندر کی نیت بھانپ کر ایک سفید ریش مولانا سرعت سے ان کی جانب بڑھ آئے۔۔۔نہ رام ،نہ!ایسا مت کیجئے۔وہ لوگ آپ کو پیدا ہوتے ہی پٹخ دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہیں کونسی مثال دے کر سمجھاؤں بابو،کہ ہم در اصل بیک وقت جی اور مر رہے ہوتے ہیں۔ٹھہرو بابو،شاید اس مثال سے ہماری مشکل حل ہو جائے۔کیا تم نے کسی دریا کو سمندر میں گرتے ہوئے دیکھا ہے؟اور گرتے وقت کیا وہ آگے پیچھے ہونے کے باوجود بیک وقت نہیں ہوتا؟۔۔۔۔ہاں ،بابو،اِسی عمل سے تو زندگی اپنے آگے پیچھے سدا بہار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ساتھ اتنا عجیب واقعہ پیش آیا کہ تم یقین نہیں کروگے بابو۔میں اپنی ایک نئی کہانی لکھ رہا تھاکہ اچانک اِس میں ایک ایسا کردار آ داخل ہواجو میری پچھلی کہانی میں ایک ہندو مسلم فساد میں قتل کیا جا چکا تھا۔ہاں رحمن بابو،میں بھی اُسے بڑی حیرت سے دیکھے جا رہا تھاکہ وہ واقعی اپنا آپ ہے یا اپنا بھوت۔
تُم؟۔۔۔۔
ہاں پال صاحب،میں ہی تو!۔۔۔اُس نے مجھے یقین دلانا چاہا۔۔۔اُنہوں نے میرے سامنے پہلے میری بوڑھی ماں کی جان لی پال صاحب،پھر میری بیوی سے زنا کرکے اُسے قتل کیا اور پھر میری چھ سالہ بچی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔،جو اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ کر ناحق اُن کی منت سماجت کرتی رہی کہ مجھے چھوڑ دو۔
مگر تمہیں بھی تو۔۔۔۔
اُس نے مجھے ٹوک کر جواب دیا رحمن بابو۔۔۔نہیں پال صاحب،آپ نے تو میری زندگی تک پوری کہانی لکھ دی،مگر مجھے مرکر بھی کیسے چین آئے؟اب تو جو بھی کرنا ہے مجھے خود آپ کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آپ سے باہر نکلورحمن بابو،۔۔ہاں، ٹھیک ہے،جینا تم ہی کوہوتا ہے،مگر میرے بابو،جیا بھی تو دنیا کو ہی جاتا ہے،اپنے آپ کو نہیں۔۔۔نہیں ،باہرنکل آؤ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...