رہیلی میم آپ کی باتیں سن کے ہمت سی آ جاتی ہے ۔۔میم یو آر دی بیسٹ ۔۔۔ میں ابھی وہ ڈیل کیسنل کرتا ہوں ۔۔۔شیطان کے پھندے میں اپنی گردن میں کبھی نہیں ڈالوں گا””وہ پرجوش ہوہا تو نایاب نے مسکرا کے فون بند کیا ۔۔۔اور سر جھٹکتی واپس اس ہنگامے کی طرف آئی ۔۔۔جہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا ۔۔۔
“شہرین مجھ سے پوچھے بعیر یہ حرکت کی کیسے تم نے؟؟؟” ۔۔۔ناہل کی دھاڑ سنتے ہی اسکا دل زور سے دھڑکا وہ تیزی سے بھیڑ کو چیرتی سٹیج کی قریب آئی ۔۔۔سامنے کامنظر دیکھ کے اسکی آنکھیں باہر ابلنے کو تھیں۔۔۔ناہل کھڑا شہرین پر دھاڑ رہا تھا
وہ شدید غصے میں اسے جواب دے تھی میڈیا نے الگ شور ڈال رکھا تھا ۔۔۔۔ایک دم مچھلی منڈی کا سا سماں تھا ۔۔۔۔اس سے پہلے ناہل شہرین کو ایک تھپڑ جڑ دیتا وہ یک دم سٹیج پر گئی ۔۔۔اور بمشکل ناہل کو دھکیل کے پیچھے کیا ۔۔۔
“آر یو آوٹ آف یور ماہنڈ۔۔کیوں جنگلیوں کی طرح لڑ رہے تم دونوں”۔۔اسے اونچی آواز میں چلانا پڑا تھا ۔۔۔
“نایاب تم ہٹو بیچ میں سے “”۔۔۔ناہل کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔
“ہاں ہٹو تم بیچ میں سے دیکھتی کیا کرتا ہے یہ”۔۔۔شہرین اس سے اونچا چلائی ۔۔۔
“چپ کرو تم دونوں” ۔۔۔۔نایاب کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھ کے اتنی جلدی ایسا کیا ہو گیاجو اتنا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔۔۔فروا اور بسماء جو مزے سے شو انجوائے کر رہیں تھیں ۔۔۔نایاب نے بیچ میں آکرانکا سارا مزا ہی کر کرا کر دیا ۔۔۔
“لو آگیئں مدر ٹیرسا! ۔۔۔اچھا بھلاڈارامہ خراب کر دے گی” ۔۔۔فورا افسواس سے بسماء کے کان میں بڑبڑائی ۔۔۔”ڈرامہ نہیں ایڈیٹ فلم ۔۔۔شہرین فلم کر رہی ہے” ۔۔۔بسماء سخت بدمزہ ہوئی تھی ۔۔۔فروا نے غصے سے اسے کچھ سمجھانا چاہا پر اسٹیج پے لگا ڈرامہ مس ہو جاتا اسلیے وہ سر جھٹکتی اس جانب مڑی
“کوئی مجھے بتائے گا کے کیا ہوہا ہے یہاں؟؟”۔۔نایاب نے ناہل کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑا تو اسکا غصہ تھوڑاکم ہوہا ۔۔”پوچھو اس سے کس سے پوچھ کے فلم ساہن کی ہے اسنے ۔۔وہ بھی اس ڈاہیکٹر کی” ۔۔۔ناہل غصے سے بولتا ایک نظر اس ڈاہیکٹر کی جانب مڑا تو شانے اچکاتا سٹیج سے اترا ۔۔۔۔سمینہ،ناہید اور سمار صاب ششدر سے کھڑے سب دیکھ رہے تھے.۔۔
“مجھے کچھ بھی کرنے کے لیے کسی کی اجارت نہیں چاہیے سمجھے تم” ۔۔۔شہرین تڑاح سے بولی تو ناہل کا غصہ پھر ابل آیا۔۔۔نایاب نے بمشکل اسے تھام رکھا تھا ۔۔۔
“ناہل فار گاڈ سیک کیا ہو گیا ہے ۔۔۔کام ڈاون ۔۔۔جو بھی بات ہے ہم اندر جا کے کرتے ہیں “۔۔ وہ اسے نرمی سے سمجھا رہی تھی ۔”۔پھپھو پلیز اسے اندر لے جاہیں “۔۔اسنے مڑ کر بت بنی سمینہ کو کہا تو وہ حرکت میں آہیں ۔۔۔ناہل کو بازو سے پکڑا اور اندر کی جانب گھیسٹا ۔۔۔شہرین غصے میں پھنکار رہی تھی ۔۔۔ “ناہیدآنٹی پلیز آپ شہرین کو سنھبالیں” ۔۔۔نایاب کی آواز پر انہیں بھی آگے آنا پڑا بمشکل اسے سنبھالتی وہ اندر لے گئیں ۔۔۔فروا اور بسماء نے ناک سکوڑا ۔۔۔چلو جی سارا کام خراب کر دیا نایاب نے ۔۔۔سارے گھر والوں کو اندر بھیج کر اب وہ اکیلی ماتھے پے ہاتھ رکھے وہاں کھڑی رہ گئی تھی میڈیا کو اسی نے ہی سنبھالنا تھا.۔۔۔ایک گہری سانس لی ۔۔ ماہیک تھاما ۔۔
“پلیز آپ لوگ خاموش ہو جاہیں” ۔۔۔وہ چلائی تو سارا میڈیا خاموش ہوہا ۔۔۔”آپ لوگ خاموش ہوں گے تو آپ کے سوالوں کے جواب بھی دیے جاہیں گے “۔۔۔وہ تحمل سے بولی ۔۔۔
“آپ کون ہیں اور شہرین میم کی کیا لگتی ہیں؟؟’ ۔۔۔میڈیا میں سے ایک حاتون رپورٹر کے پوچھنے ہر وہ سخت اکتائی ۔۔۔اسے پتہ تھا وہ صرف اپنا نام لے گی اور پھر وہی ہو گا جو وہ کبھی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔مگر ابھی کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا.
“میں ناہل کی کزن ہوں؟؟” ۔۔۔۔کچھ سوچ کے اسنے گول مول جواب دیا۔۔بچنے کی آخری کوشش ۔۔۔
“نام کیا ہے؟؟ ۔۔۔ وہی حاتون دوبارہ بولی. ۔۔میڈیا بال کی کھال اتارنا جانتا تھا ۔۔۔وہ سخت جھجھنلائی
“نایاب۔۔۔نایاب فاروق”۔۔۔وہ جبراً مسکرا کے بولی تو میڈیا میں کھل بلی سی مچ گئی ۔۔۔مشہور ڈیزاہنر نایاب فاروق جنکے ڈہیزاہن کردہ کپڑے ان دنوں کافی مشہور تھے ان کو کسی نے دیکھا جو نہیں تھا ۔۔
“آپ نایاب فاروق ہیں ۔۔۔مشہور ڈیزاہنر ۔۔۔سیلف میڈ کی آنر ؟؟””۔۔میڈیا میں سے ایک شوح نوجوان شاک کے عالم میں بولا ۔۔۔
“جی میں وہی ہوں” ۔۔۔اب وہ خود کو نارمل کر چکی تھی کبھی تو یہ دن آنا ہی تھا ۔۔۔چلو آج ہی سہی ۔۔۔
مگر اسکے یہ بولتے ہی میڈیا میں ایک شور سا برپا ہو گیا ۔۔۔”میم آپ کتنی ینگ ہیں”
۔۔۔آپ اتنی مشہور ہونے کے باوجود کسی بھی ٹی وی انٹر ویو میں کیوں نا آہیں ؟؟۔۔۔
جی تو ناظرین بریکنگ نیوز ہے ۔۔۔مشہور ڈیزاہنر جن کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا آج وہ سامنے آگئی ہیں. ۔۔
بھانت بھانت کی بولیاں ۔۔۔وہ رو دینے کو تھی ۔۔۔۔بسماء اور فروا کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی وہ فورا سٹیج پر چڑھیں اور گردن اکڑا کر اسکے داہیں باہیں کھڑیں ہوہیں. ۔۔آحر وہ وہ نایاب فاروق کی سہیلیاں تھیں تھوڑی شو تو مار ہی سکتیں تھیں ۔۔۔
“دیکھیں آپ لوگ پہلے خاموش ہو کے بیٹھیں اور ایک ایک کر کے سوال پوچھیں” ۔۔۔فروا نے نایاب کے ہاتھ سے ماہیک لیا اور اترا کے بولی تو میڈیا کے نماہندے اسکی جانب مڑے ۔
“ہم ان کا انٹر ویو لینا چاہتے ہیں” ۔۔۔ایک شوح سی لڑکی اپنے کیمرہ مین کے ساتھ آگے آئی ۔۔۔
“ہمیں بھی چاہیے” ۔۔۔اسکی دیکھ سب آگے سٹیج کی جانب لپکے ۔۔۔عجیب دھکم مکا شروع ہو گیا تھا. ۔۔نایاب نے موقع غنیمت جانا ۔۔۔”تم سنھبالو ان میڈیا والوں کو میں اندر جا کے دیکھتی یوں کیا سچویشن ہے” ۔۔۔فروا کے کان میِ جلدی سے بولتی وہ اندر کو بھاگی. ۔فروا ارے ارے ہی کرتی رہ گئی ۔۔۔
اور جو میڈیا کی نظر اندر جاتی نایاب پر پڑی تو لڑنا بھول کے اس جانب لپکے ۔۔ وہ تیزی سے بھاگی ۔۔۔اور مین دروازے سے اندر جاتے ہی اسے بند کیا. تو باہر کا شور کم ہوہا ۔ اسنے سکون کی سانس لی ۔۔۔ایک مصیبت سے تو جان چھوٹی.۔۔”اسکی بلا سے بھاڑ میں جائے میڈیا” ۔۔۔۔وہ تیزی سے اندر ٹی وی لاونچ کی جانب بھاگی جہاں سے بولنے کی آوازیں آ رہیں تھیں ۔۔۔افف کیسے سنبھالے گی وہ ناہل کو ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم سمجھتے کیا ہو خود کو ؟؟ تم مجھ پے ایسے آڈرز نہیں چلا سکتے ۔۔۔میں یہ فلم کر کے رہوں گی” ۔۔۔۔وہ اندر آئی تو شہرین کھڑی سخت غصے اور ہڈ دھرمی سے چلا رہی تھی ۔۔۔سمینہ صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھیں ۔۔۔سمار صاب باہر مہمانوں کو سنبھال رہے تھے ۔۔۔۔۔ناہید بیگم الگ مصطرب لگتیں تھیں (وہ تو اچھا تھا دادو یہ فنگشن اٹینڈ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں ۔۔۔ورنہ وہ یہ سب کیسے برداشت کرتیں)
“میں آخری بارتم سے بول رہا ہوں شہرین کے تم یہ فلم کسی صورت نہیں کرو گی “۔۔۔ناہل کی آواز بلند ہوئی تو وہ بیچ میں کودی تھی ۔۔۔
“اینف بوتھ آف یو !!”۔۔۔وہ شدید غصے میں دونوں ہاتھ اٹھاتی چلائی تو ناہل نے بے بسی سے سر جھٹکا ۔۔۔شہرین نے بری نظروں سے نایاب کو گھورا ۔۔۔”کوئی بڑوں کا شرم و لحاظ ہے تم دونوں میں ۔۔۔کسں طرح جاہلوں کی طرح لڑ رہے ہو چھوٹی سی بات پر “”۔۔ دکھ سے بولتی ناہل کی جانب مڑی ملال بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔”تم سے اس سب کی امید نہیں تھی مجھے ناہل “۔۔۔۔ناہل نے بےیقینی اسے دیکھا۔۔۔(اسکی کیا غلطی تھی بھلا ۔۔۔)
“میں نے کیا کیا؟؟؟ ۔۔۔ساری غلطی شہرین کی ہے کس سے پوچھ کے اس نے فلم ساہن کی ہے”” ۔۔۔وہ جھنجھنلا اٹھا ۔۔۔
“کیا غلطی ہے میری؟؟ ۔۔۔صرف اتنی کے فلم ساہن کی ہے ۔۔۔کتنی کنزرویٹو سوچ ہے تمہاری ۔۔۔تم بھی وہی نکلے دقیانوسی مرد ۔۔۔عورت کی ترقی سے جلنے والے۔۔۔تم جیسے مرد ہوتے ہی منافق ہیں۔۔ہمیشہ اپنی بیوی کو قید کر کے رکھناچاہتے ہیں”” ۔۔۔شہرین سینے پر بازوں باندھے سخت غصے میں چپا چپا کر بول رہی تھی ۔۔۔نایاب سر پکڑ کے رہ گئی ۔۔۔کوئی ایک بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا.۔۔
“تم جو بھی بکواس کرنی ہے کر لو میں تمہیں یہ فلم نہیں کرنے دوں گا” ۔۔۔۔ناہل بھی ہڈدھرمی سے بولتا دھاڑا ۔۔۔۔
“ناہل تم تو چپ ہو جاو پلیز “”۔۔۔نایاب کا بس صرف ناہل پر ہی چل سکتا تھا.۔۔وہ بار بار اسے مشتعل ہونے سے روک رہی تھی۔۔۔
“نہیں بولنے دو اسے میں بھی تو سنوں کیا زہر بھرا ہے اسکے دماغ میں “”۔۔۔شہرین نے تیکھے چتونوں سے ناہل کو گھورا ۔۔۔ناہل نے نایاب کو بازو سے پکڑ کے ساہیڈ پے کیا. ۔۔
“میرےدماغ میں زہر نہیں بھرا تمہارے دماغ میں گند بھرا ہے”۔۔۔۔ناہل اتنی حقارت سے بولا کے ایک پل کے لیے شہرین کا دل کانپ گیا ۔۔۔۔
“تم بھی جو مرضی ہے بول لو ۔۔۔میں بھی فلم کر کے رہوں گی” ۔۔۔وہ بنا اثر لیے تڑاح سے بولی ۔۔
“تو پھر میری طرف سے یہ شادی کینسل سمجھو “”۔۔۔ناہل کی اٹل لہجے میں کی گئی بات سن کے سب شاک رہ گئے تھے ۔۔
“ناہل؟؟ نایاب شاک سے چیخی ۔۔۔کیا بول رہے ہو کچھ سمجھ بھی آرہا ہے تمہیں؟؟؟؟.۔۔۔نایاب نے اسکا بازو پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا ۔۔۔ تو ناہل نے بےبسی سے اسے دیکھا ۔۔۔وہ اسے کچھ سخت نہیں بول سکتا تھا ۔۔۔آنکھیں زور سے میچ کے اسنے ڈھیر سارا غصہ اندر ہی اتارا ۔۔۔جو شہرین کو پسند بلکل پسند نہیں آیا ( وہ نایاب کی بات تحمل سے کیوں مان رہا تھا ۔۔) فروا اور بسماء بھی کسی طرح میڈیا کو سنبھال کے اندر آہیں تھیں ۔۔۔اندر کا ماحول تو شدید تناو سے بھرا تھا ۔
“ہونہہ صاف بولو تم مجھ سے جان چھڑوانا چاہتے ہو ۔۔۔جب سے یہ تمہاری کزن آئی ہے تمہارے تیور ہی بدل گئے ہیں۔۔۔میری فلم کو آڑ بنا کے تم دونوں اپنا رستہ صاف کرنا چاہتے ہو” ۔۔۔شہرین اتنی نفرت سے بولی کے سب سانس روکے اسے دیکھے گئے۔۔۔ (بحث کار گر ثابت نہیں ہو رہی تو کیا ۔۔شہرین اپنا کام نکلوانے کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی) ۔۔وہ جو کب سے انکا جھگڑا ختم کرنا چاہتی تھی یک دم شہرین کی جانب پلٹی.۔۔پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔جو زہر اگلنے کے بعد پرسکون سی کھڑی تھی ۔۔(فروا کا دل کیا کے منہ توڑ دے اس میک اپ کی دوکان کابسماء نے سختی سے اسے کچھ بھی کرنے سے روک رکھا تھا نہیں تو وہ بتاتی اسے ) ۔ناہل جسنے بمشکل غصہ کنڑول کیا تھا اس بکواس پر پھر سے بھڑک اٹھا ۔۔۔۔
“کیا؟؟؟؟ ۔۔۔کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی”” ۔۔۔۔وہ غصے پاگل ہونے کو تھا مٹھیاں زور سے پھینچ رکھی تھیں.۔۔سفید رنگ اب سرح پڑ چکا تھا ۔۔۔۔
“بکواس نہیں کی ۔۔۔سچ بولا ہے ۔۔۔اولڈفیشن لڑکی تمہیں مجھ سے ذیادہ پسند ہے جب بھی اسکی جانب دیکھتے ہو تمہارا غصہ یک دم کم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔سب سمجھتی ہوں میں ناہل ۔۔۔اتنی بےوقوف نہیں” ۔۔۔شہرین بنااثر لیے نان اسٹاپ بولے گئی ۔۔۔۔بنا سوچے بنا سمجھے ۔۔۔
“ہاں پسند ہے مجھے یہ اولڈفیشن لڑکی ۔۔عزت کرتا ہوں اسکی ۔۔۔۔۔۔اور صرف میں ہی نہیں باہر کھڑا ہر انسان اسکی غزت کرتا ہے.۔۔۔۔”چچ چچ” !!یہ لڑکی اولڈ فیشن رہ کے بھی اتنی غزت کما گئی ۔۔۔باہرصرف اسنے نام بتایا تھا۔۔۔اور سارا میڈیا کیسے اسکی جانب لپکا تھا ۔۔۔۔”یہ ہوتی ہے عزت” ۔۔۔”یہ ہوتی ہے عورت”.۔۔۔ناہل نے فحر سے بولتے نایاب کی جانب دیکھا (پورے لباس میں اسکا سراپہ مکلمل طور پر چھپا تھا.۔۔سر کا ایک بال بھی نظر نہیں آرہا تھا )۔۔۔ اور پھر ایک حقارت بھری نظر شہرین پر ڈالی ۔۔۔آدھا لباس جو اسکے جسم کو چھپانے میں ناکام ثابت ہورہا تھا۔۔۔(ڈوپٹہ تو شاید ہی اسنے کبھی گلے میں بھی ڈالا ہو ) جسکا منہ اب ایسا تھا کے جیسے کسی نےبیلچہ اٹھا کے اسکے منہ پے مار دیا ہوذلت کی وجہ سے کانوں سے دوہاں نکل رہا تھا ۔۔۔۔(مگر وہ اسے بولنے نہیں دے رہا تھاچلا رہا تھا اونچی آواز سے) ۔۔۔۔”اسنے اولڈ فیشن ہو کے بھی اتنی شہرت کما لی شہرین مگر تم اتنی الٹرا ماڈرن ہو کے بھی زرا سی عزت نہ کما سکی ۔۔۔اور جو بچی کچی عزت تھی وہ بھی تم نے آج اتار دی اس ڈاہیکٹر کی فلم ساہن کر کے” ۔۔۔۔نفرت سے ہنکار بھرتا وہ چپ ہوہا ۔۔۔
“ہونہہ تم جیسے منافق مردوں کا پتہ ہے کیا مسئلہ ہوتا ہے!! ۔۔۔شہرین نے غصے سے بولتی ایک قدم آگے آئی۔۔۔۔”لبرل عورت گرل فرنڈ کے روپ میں چاہیے ہوتی ہے اور شادی کے لیے اس جیسی(نفرت سے نایاب کو دیکھا)بہن جی لڑکی چاہئے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ یو نو واٹ تم اسی کو ڈیزور کرتے ہو۔۔۔(نفرت سے اسکے سینے پر انگلی رکھی اور فخر سے گردن اکڑائی )۔۔زرا دیکھو اسے میری خوبصورتی کے آگے یہ کچھ بھی نہیں اور تم سے میرے مقابلے پر لا رہے ۔۔۔افسوس ہے تم پے”” ۔۔۔افسوس سے گردن ہلاتی پیچھے ہوئی ۔۔
ناہل نے تنظریہ نظروں سے شہرین کو دیکھا ۔۔۔”مجھے تو تمہاری سوچ پے افسوس ہو رہا ہے شہرین”.۔۔ناہل نے نفرت سے سر جھٹکا ۔۔۔ ۔۔”مگر میں بھی کس سے بحث کر رہا ہوں ۔۔۔۔تم جیسی عورت کو کیاپتہ کے اصل خوبصورتی چہرے کی نہیں کردار کی ہوتی ہے۔۔۔۔اور اگر تم اپنےکردار کا موزانہ کرو گی ناشہرین ۔۔۔تم تہمیں خود سے نفرت ہو جائے گی” ۔۔۔۔۔نفرت سے چبا چبا کے کہتا وہ شہرین کو مزید مشتعل کر گیا ۔۔۔۔۔
“تم”۔۔۔۔شہرین نے غصے سے کچھ کہنا چاہا مگر نایاب جو کب سے سن رہی تھی یک دم چلائی تھی ۔۔۔۔
“چپ ہو جاو الله کے لیے چپ ہو جاو تم دونوں!! ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اسنے کب سوچا تھا کے اسکی ذات کو یوں موضوع بنایا جائے گا. (اتنی تذلیل )” پلیز میری وجہ سے مت لڑو ۔۔چپ ہو جاو”” ۔۔۔کیا نہ تھا اسکی آواز میں ۔۔۔بے بسی ،منت ،التجا۔۔۔بس اس سے آگے ناہل نہیں بول سکتا تھا. ۔۔۔۔وہ بے بسی سے سر ہلاتا بڑے بڑے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا.
“ناہید آنٹی آپ لے جاہیں ابھی شہرین کو ۔۔۔ابھی یہ دونوں غصے میں ہیں۔۔۔کل آرام سے بات کریں گے “۔۔۔وہ ڈھیروں آنسوں صبط کرتی بمشکل بول پائی۔۔۔اور تیزی سے وہاں سے نکلی.۔۔۔فروا اور بسماء بھی اسکے پیچھے لپکیں ۔۔۔وہ کمرے میں آئی ۔۔۔تھکے انداز میں بیڈ پر بیٹھی۔۔۔بہت سارے آنسوں اندر اتارے ۔۔۔اسے کچھ کرنا تھا ۔۔۔اور جو بھی کرنا تھا ابھی کرنا تھا ۔۔۔۔شہرین اس پر شک کر رہی تھی ۔۔۔۔نہیں وہ ناہل کی شادی نہیں خراب کرے گی ۔۔۔۔ وہ جھٹ سے اٹھی۔۔۔سوٹ کیس کھول کی بیڈ پر رکھا ۔۔۔اتنے میں فروا اور بسماء بھی وہاں آگیئں ۔۔۔سامنے کا منظر دیکھ کے دونوں کے دل دھک سے رہ گئے تھے ۔۔۔۔وہ ان دونوں سے بے نیاز اپنے کپڑے نکالتی سوٹ کیس میں پھینک رہی تھی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***********************…………………
وہ مضطرب سا اپنے کمرے میں داہیں سے باہیں ٹہل رہا تھا ۔۔۔کالا کوٹ صوفے پر پڑا تھا ۔۔۔ٹائی کی ناٹ اب ڈھیلی تھی ۔۔۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے شہرہن اس سے پوچھے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھائے گی ۔۔۔اب وہ اتنا بھی ماڈرن نہیں تھا کے لبرلازم کے نام پر اپنی ہونے والی بیوی کو اشتہار بنا دیتا ۔۔۔اگر آج نایاب بیچ میں نہ آتی تو شاید وہ یہ رشتہ ہی توڑ دیتا ۔۔۔ “نایاب “۔۔۔وہ زیرے لب بڑبڑایا ۔۔۔
“افف کتنی انسلٹ کر دی اس بے چاری کی شہرین نے “۔۔۔وہ یک دم رک کے سوچنے لگا ۔۔۔”عجیب کوئی واہیات لڑکی ہے یہ شہرین کچھ بھی بول جاتی ہے بنا سوچے سمجھے” ۔۔۔اسنے بالوں میں انگلیاں پھیر کے خود کو نارمل کیا ۔۔۔ “مجھے اسے سوری بولنا چاہیے شہرین کی طرف سے” ۔۔۔خود سے کہتا وہ اسکے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔باہر خاموشی تھی شاید شہرین جا چکی تھی ۔۔۔
اسکے کمرے کے باہر پہنچ کے گہری سانس لی اور دروازہ ناک کیا ۔۔۔جوتھوڑی دیر میں بسماء نے کھولا۔۔۔ناہل کو دیکھ کے اسکے تنے تاثرات ڈھیلے پڑے ۔۔”تھینگ گاڈ ناہل تم آئے ۔۔۔ورنہ یہ ضدی لڑکی ہماری تو سن ہی نہیں رہی تھی” ۔۔۔بسماء اسے بازو سے پکڑ کر اندر لائی تو کمرے کا منظر اس پر واصح ہوہا ۔۔۔بیڈ پر بڑا سا سوٹ کیس کھلا پڑا تھا ۔۔جسمیں وہ کپڑے رکھ رہی تھی ۔۔۔فروا صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھی ناہل کو دیکھ کے وہ بھی تھوڑا پرسکون ہوئی اور بھاگ کے اس تک آئی ۔۔۔”ناہل پلیز تم ہی سمجاو اسے ۔۔۔تنک کے کہتی وہ بسماء کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر چلی گئ ۔۔۔اب صرف وہ دونوں بچے تھے ۔۔۔
ناہل سینے پر دونوں بازو باندھے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔اس نے ناہل کے آنے کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا ۔۔۔وہ جو سوری بولنے آیا تھا اسکا پارہ فوراً ہائی ہوہا.
“کیا ہو رہا ہے یہ ؟؟”۔۔۔وہ ویسے ہی تیکھی نظروں سے اسے گھورتے بولا ۔۔۔
“نظر نہیں آرہا پیکنگ کر رہی ہوں” ۔۔۔واہ کیا لہجہ تھا لٹھ مار ۔۔۔وہ تو جل ہی گیا ۔۔۔فورا اسکی جانب بڑھا۔۔۔بازو سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا ۔۔۔
“تم کہیں نہیں جا رہی سمجھی تم” ۔۔۔۔
“تم مجھے آڈرز نہیں دے سکتے میرا جو دل آئے گا وہ کروں گی ۔۔۔بازو چھوڑو میرا “”۔۔۔وہ پہلے ہی جھنجھجلائی ہوئی تھی اب یہ بھی آ گیا اسکا سر کھانے ۔۔۔سخت غصے سے اپنا بازو چھڑوانے لگی ۔۔۔گرفت مزید مصبوط ہوئی ناہل نے محظوظ مسکراہٹ سے اسے دیکھا.
“دوں گا آڈرز کیا کر لو گی؟؟”۔۔۔۔وہ دھونس جماتا بولا تو نایاب نے ڈھیراں غصہ اپنی سبز آنکھوں میں بھر کے اسے گھورا ۔۔۔اسنے منہ بنایا ۔۔۔”نایاب تم جانتی ہو میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا اس لیے ضد چھوڑ دو” ۔۔۔وہ اب تحمل سے بولا اوراسکا بازو چھوڑا ۔۔۔
“مگر میں !!”۔۔۔۔وہ مزید جھجنلائی ۔۔۔
“اگر مگر کچھ نہیں تم نہیں جاو گی مطلب نہیں جاو گی ۔۔۔ اٹل لہجےمیں بولتا صوفے پر جا بیٹھا ۔۔۔نایاب نے چند گہری سانسیں لیں ۔۔۔(وہ بات کیے بغیر نہیں مانے گا )اور تھکے انداز میں بیڈ کی پاہیتنی پر آ بیٹھی ۔۔۔”ناہل تم سمجھ کیوں نہیں رہے شہرین کو لگتا ہے ہمارے بیچ کوئی افیئر چل رہا ہے” ۔۔۔۔ ۔۔۔وہ بے بسی سے بولتی انگلیاں دبا رہی تھی ۔۔۔ناہل نے گہری نظر اس پر ڈالی.۔۔وہ پریشان تھی.۔۔۔
“بول لیا جو بولنا تھا ۔۔۔یا اور بھی کچھ باقی ہے” ۔۔۔وہ پرسکون سا آگے ہو کے بیٹھا دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساہیں ۔۔۔نایاب نے اکتاہٹ سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
“شہرین کو کچھ نہیں لگتا نایاب ۔۔۔وہ اچھی طرح جانتی ہے ایسا ویسا کچھ نہیں ہے “۔۔۔نایاب نے کچھ بولنے کے لیے لب واہ کیے مگر اسنے ہاتھ اٹھا کے اسے روکا ۔۔۔نایاب نے جل کے منہ بنایا ۔۔۔”اونہہ میری بات مکلمل نہیں ہوئی” والی نظر اس پر ڈالتا وہ دوبارہ بولا ۔۔۔”شہرین صرف بہانہ ڈھونڈ رہی ہے اپنی بے تکی ضد پوری کرنے لیے.۔۔۔کسی بھی طرح بس وہ فلم کرنا چاہتی ہے ۔۔۔بس اسی لیے وہ مجھے دوسرے مسئلوں میں الجھا رہی ہے*.۔۔۔( گہری سانس لی اور واپس ٹیک لگا کے بیٹھا. ) مگر میں اسے فلم کبھی نہیں کرنے دوں گا “۔۔۔۔ قطعیت سے بات مکلمل کی۔۔۔۔
“مگر اسطرح تو تمہاری تیار شادی کیسنل ہو سکتی ہے ۔۔۔۔تم لوگوں کا رشتہ خراب ہو سکتا ہے” ۔۔۔۔نایاب کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے سمجھائے کیسے ۔۔۔وہ تنگ ہی تو آگئی تھی. ۔۔
“تو میں کیا کروں ۔۔۔اسے خود احساس نہیں ہے “۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولتااسے مزید مشتعل کر رہا تھا مگر ابھی صبر لازمی تھا
“ٹھیک ہے اگر according to you(دونوں ہاتھ اٹھا کے اسے داد دی ) اگر وہ یہ سب اگر فلم کرنے کے لیے کر رہی ہے تو ۔۔ ۔۔۔تو تم اسے فلم کرنے دو “۔۔۔ پھروہ بھی لاپرواہی سے کندھے اچکاتی بولی تو وہ کرنٹ کھا کے اٹھا ۔۔ ماتھے پر سلوٹیں در آہیں ۔۔۔
“واٹ ڈو مین ؟؟میں اسے کیسے فلم کرنے دے سکتا ہوں ۔۔۔اتنا بھی بے عیرت نہیں ہوں میں کے اپنی ہونے والی بیوی کو اشہتار بنا دوں”۔۔ وہ بےیقنی سے اسے دیکھتا دبا دبا چلایا.۔۔اگر کسی اور نے یہ بات کی ہوتی تو وہ اسے الٹا لٹکا دیتا ۔۔۔۔مگر نایاب ۔۔۔اففف!!
“مگر ہو سکتا ہے وہ کوئی اچھی فلم ہو ۔۔۔اسمیں فحاشی نہ ہو” ۔۔وہ بنا اثر لیے اسے کنوینس کر رہی تھی. ۔۔
“رانا شفقت کہ فلمیں وہ بھی فحاشی کے بغیر!” ۔۔۔وہ تلحی سے مسکرایا۔۔۔”کون سی دنیا میں رہتی ہو تم نایاب ۔۔۔۔کبھی دیکھی ہیں اس واہیات انسان کی فلمیں؟؟” ۔۔۔وہ نفرت سے بولا تو نایاب مسکرائی ۔۔(۔طنزیہ مسکراہٹ )۔۔۔”تم نے دیکھی ہیں اسکی فلمیں؟؟ ۔۔۔وہ سوالیہ آبرو اٹھا کے اسے دیکھا ۔۔۔
“دیکھی ہیں اسی لیے کہہ رہا ہوں”۔۔۔گہرائی میں جائے بغیر لاپراوہی سے جھلاکے بولا ۔۔۔
“پھر تو شہرین ٹھیک ہی کہہ کے گئی ہے تمہیں منافق “۔۔۔وہ اتنی تلحی سے بولی کے ناہل کی ریڑ کی ہڈی سنسنا اٹھی۔۔۔۔”کیا مطلب ہے تمہارا؟” ۔۔۔شاک کے عالم میں بولا ۔۔مگر وہ بغیر اسکے ری ایکشن کی پرواہ کیے بول رہی تھی ۔۔۔”کتنی عجیب بات ہے نا ناہل ہم دوسروں کے گھر کی عورتوں کو فحاشی کرتے بڑے مزے سے دیکھ لیتے ہیں.۔۔۔دوستوں کے ساتھ انجوئے بھی کر لیتے ہیں مگر وہی بات جب ہمارے اپنے گھر کی عورت کرنے کا بول دے تو خون کھول جاتا ہے۔۔۔یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے” ۔۔۔۔(وہ کنگ رہ تھا ۔۔۔یہ کیسا انکشاف کب ہو رہا تھا؟؟) ۔۔۔۔ “اپنی جگہ کھڑے رہ کے ہم دوسروں کو غلط نہیں کہہ سکتے ناہل ۔۔۔مانا کے شہرین غلط کر رہی ہے مگر اسے وہی درست لگ رہا ہے ۔۔۔وہ جس سوساہٹی میں رہتی ہے وہاں فلم تو باغزت لوگوں کو ہی آفر کی جاتی ہے ۔۔۔ہونہہ اپر سوساہٹی کے رواج ان ہی کی طرح فرسودہ اور کھوکھلے ہیں” ۔۔۔ ۔۔۔مگر تم ناہل تم اب اتنا کیوں برا منا رہے ہو۔۔۔اب تو یہی اب کرے گی “۔۔۔
“میں نے؟؟ناہل نے بےیقینی اپنی جانب انگلی موڑتا وہ بیچ میں ہی بول پڑا میں نے کیا کیا ؟؟؟” نایاب نے گہری سانس لی ۔۔۔تنے اعصاب ڈھیلے کیے ناہل کو بھی سمجھانے کی ضرورت تھی ۔۔
“جب شہرین نے تہمیں پروپوز کیا تھا تو اسکی کیا عمر تھی ناہل؟؟”ایک دم سے الگ سوال ۔۔۔وہ چونک کے سیدھا ہوہا ۔۔۔”اب عمر کہاں سے آگئی بیچ میں ۔۔۔؟؟ “ناہل نے الجھن سے دیکھا وہ اب پرسکون تھی ۔۔۔
“جتنا پوچھا اتنا جواب دو ناہل”۔۔۔ واہ کیا شانے بےنیازی تھی ناہل تو جل ہی گیا تھا(اسنے ایک حفا نظر خود کو گھورتی نایاب پر ڈالی) ۔ ۔۔”شاید ستھرا سال” ۔۔۔ہونہہ کرتا دوبارہ پیچھے ہو کے بیٹھا ۔۔
“مطلب تب وہ صرف ایک ٹین ایجر تھی “۔۔۔نایاب نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا۔۔۔۔۔”پہلے تو تمہیں اسکا پروپوزل اس وقت ایکسپیکٹ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔مگر جب کر ہی لیا تھا تب ہی اسے بتا دینا تھا.۔۔کے تمہیں کیسی لڑکی چاہیے ۔۔”
“ہاں جیسے وہ تو مان لیتی میری”۔۔۔وہ بیچ میں ہی کلس کر بولا. ۔
“تب وہ چھوٹی تھی ناہل گیلی مٹی کی طرح تم جیسے چاہے اسے “تب” موڑ سکتے تھے اپنے سانچے میں ڈھال سکتے تھے۔۔۔۔تب وہ نا سمجھ تھی ناہل ۔۔۔تم سمجھاتے تو سمجھ جاتی ۔۔مگر تم نے کیا کیا؟؟” ۔۔۔نایاب نے افسوس سے اسے دیکھا.۔۔۔اور سر جھٹک کے دوبارہ بولی ۔۔”تم نے اسے وہی سب کرنے دیا جو وہ پہلے کرتی تھی ۔۔پاڑیز ،کلبنگ،لڑکوں سے دوستی ،اترنگے فیشن کبھی تم نے اسکی اصلاح کی ۔۔۔” نہیں “( نایاب نے نفی میں گردن ہالائی )تم نے کبھی کچھ نہیں کہا ہو گا۔۔۔اور اب جب وہ اس سب کی عادی ہو چکی ہے تم ایک دم سے اتنے سخت بن گئے”.۔۔اب وہ گیلی مٹی نہیں رہی شیشہ بن چکی ہے ۔۔۔اب وہ تمہاری بات نہیں سنے گی”۔۔۔ آحر میں لہجہ دھیما ہوہا ۔۔۔وہ بت بنا اسے سن رہا تھا ۔۔۔نایاب کے چپ ہونے پر اسکے ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔”چلو میں نے اسے پہلے نہیں روکا تو اب میں اسے مزید بھی غلط کرنے دوں ۔۔۔اب بھی اسے غلط کرنے سے نہ روکوں”۔۔۔آنکھوں میں اصطراب لیے وہ بے چینی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
“تم اسے غلط کرنے سے منع بھی تو غلط طریقے سے کر رہے ہو” ۔۔۔نایاب نے جتاتے ہوئے کہا تو اسنے جھنجھنلا کے نایاب کو دیکھا ۔۔۔۔”تو پھر کیسے روکوں ۔۔۔تم ہی کوئی طریقہ بتا دو” ۔۔۔وہ ہار مانتے ہوئے اکتا کے بولا.۔۔۔
“ناہل تمہیں یہ تو پتہ ہی ہوگا کے شیشے کو کاٹنے کے لیے کس چیز کا استعمال کیا جاتا ہے” ۔۔۔لو جی پھر سےالٹا سوال ناہل کا دماغ گھوم گیا تھا مگر کیا فاہدہ ۔۔۔نایاب نے کب سننی تھی اسلیے مصنوعی مسکراہٹ سے اسنے ڈھیروں غصہ صبط کیا تھا. ۔۔
“ہیرا ۔۔۔ہیرے کا استعمال کیا جاتا ہے” ۔۔۔ اسکے جواب پر نایاب کی آنکھیں چمکیں تھیں ۔۔۔
“مگر میں تو شیشہ پتھر سے بھی کاٹ سکتی ہوں”۔۔۔وہ اترا کے بولی ناہل کو سخت غصہ آیا ۔۔۔بھلا پتھر سے کون شیشہ توڑ سکتا ہے ۔۔۔
“تمہارا دماغ چل گیا ہے نایاب ۔۔۔پتھر سے شیشہ کیسے کاٹ سکتی ہو تم ۔۔۔پتھر سے تو ٹوٹ جائے گا”۔۔۔وہ سخت خفا سا لگتا تھا ۔۔۔
“ایگزیلٹی واٹ آئے مین ناہل!” ۔۔۔۔اب وہ دلچسپی سے مسکرائی آنکھوں کی چمک یک دم بڑھی ۔۔۔ناہل نے چونک کے اسے دیکھا ۔۔۔
“شیشے کو کاٹنے کے لیے ہیرے کا استعمال کیا جاتا ہے ۔۔۔۔سب سے مہنگا پتھر ایک معمولی سی چیز کو سنوارنے اور تراشنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تو تم نے یہ کیسے سوچ لیا کے ایک انسان کو تم اپنے پتھر جیسے رویے سے ٹھیک کر لوگئے ۔۔۔۔ایک انسان کا دل شیشے سے بھی نازک ہوتا ہے اسمیں سے برے حصے کاٹنے کے لیے تمہیں اپنا رویہ ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی کرنا پڑے گا. ۔۔اپنا اخلاق ہیرے سے قیمتی کرو ۔۔۔اپنی زبان میں مٹھاس بھرو ۔۔۔۔تب ہی تم شہرین کو واپس ٹھیک کر سکتے ہو ۔۔۔اس پر چیخو گے چلاو گے تو تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔۔۔بس وہ ٹوٹ جائے گی ۔۔۔اور شیشہ ٹوٹ جائے نا تو دوسروں کے ہاتھ بھی زحمی کر دیتا ہے” ۔۔۔محصوص نرم لہجے سے بولتی کافی سارا بولنے کے بعد وہ چپ ہوئی ۔۔۔ناہل کو لگا جیسے وہ کبھی ہل نہیں پائے گا ۔۔۔چند منٹ میں اس لڑکی نے اسے لا جواب کر دیا تھا ۔۔۔۔وہ تھوڑی دیر اسے دیکھتی رہی پھر اٹھ کے دوبارہ پیکنگ شروع کی تو وہ ہڑبڑا کے اٹھا ۔۔۔اٹھ کر اسکے قریب آیا
“ٹھیک ہے میں غلط ہوں ۔۔۔مجھے ویسے بی ہیو نہیں کرنا چاہیےتھا ۔۔۔میں شہرین کو ٹھیک کر لوں گا ۔۔۔مگر تم تو مت جاو” ۔۔۔وہ التجایہ لہجہ اپنائے نرمی سے بولا مگر وہ ویسے ہی اپنا کام کرتی رہی ۔۔۔جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو ۔۔۔
“نایاب پلیز یار !!”۔۔۔(کیا بے بسی تھی )وہ رو دینے کو ہوہا تو وہ غصے سے کپڑے بریف کیس میں کپڑے پٹھخ کر جارحانا انداز پیچھے مڑی ۔۔۔
“تم سے کس نے کہا ہے کہیںں جا رہی ہوں”” ۔۔۔اسکی بات سن کے وہ جو پریشان سا کھڑا تھا یک دم چونکا ۔۔۔ماتھے پر بل ڈالے ۔۔”تو پھر یہ پیکنک کس حوشی میں کر رہی ہو ۔۔۔(تنگ کے پوچھا )”
“شادی کا گھر ہے سارے کزنز آہیں گے ۔۔اس روم میں اور بھی لڑکیاں رکیں گی ۔۔۔اسلیے میں اپنا سامان پیک کر کے الگ رکھ رہی ہوں ۔۔۔تاکے پرابلم نہ ہو” ۔۔۔غصے سے جواب دیا ۔۔ سر جھٹکا اور دوبارہ پیکنک کرنے لگی. ۔۔۔”تو تم نہیں جا رہی””! ۔۔۔وہ یک دم خوشی سے چیخا ۔۔۔۔
“ناہل میرا سر مت کھاو مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں “۔۔۔جھنجھجلا کے کہتی اسنے بریف کیا بند کر کے بیڈ کے نیچے ڈال دیا ۔۔۔اور گہری سانس لیتی وہ باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔یک دم دروازہ کھولا تو ۔۔۔فروا اور بسما اوندھے منہ نیچے گریں۔۔۔وہ اچھل کے ایک قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔ناہل نے آگے آکر جب دیکھا وہ بے احتیار زور ہنسنے لگا ۔۔۔وہ گھیسانی ہنسی ہنستی مصنوعی غصہ چہرے پے سجاتی وہ دونوں کھڑی ہوہیں ۔۔۔نایاب انہیں کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔
“یہ دروازہ اتنی بری طرح کیوں کھولا تم نے نایاب ..دروازہ کھولنے کے اداب نہیں آتے تمہیں ۔۔۔فروا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصادق اسی پر چڑھ دوڑی ۔۔۔بسماء تو خیر کچھ کہنے کے قابل ہی نہ تھی ۔۔۔
“یو نو واٹ تم تینوں پاگل ہوں “۔۔۔غصے سے کہتی دروازہ ٹھاہ سے بند کرتی وہ وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔دروازہ اتنے زور سے بند ہوہا کے تینوں نے بے احتیار کانوں پرہاتھ رکھے ۔۔۔
“استغفراللہ !!”۔۔۔ناہل نے کانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ دونوں اسے گھورتی آستینیں پیچھے کرتیں اس تک آہیں ۔۔۔
“بہت ہنسی آرہی تھی”۔۔۔فروا نے گردن زور سے ہلا کے اسے دیکھا۔۔۔۔جسنے ان دونوں کے تیور دیکھ کے پہلے ہی دوڈ لگائی تھی۔۔۔وہ اسکے پیچھے بھاگیں ۔۔۔
“اللہ آج ساری چڑیلیں میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہیں ۔۔۔لگتا ہے نظر لگ مجھے پارٹی میں” ۔۔۔اپنے کمرے کا دراوزہ بند کر کے وہ آہینے کے سامنے کھڑا مسلسل خود کو مختلف زاویوں دیکھتا بول رہا تھا ۔۔۔۔”ہینڈسم بھی تو بہت ہوں میں”۔۔۔۔(خوش فہمی بھی کوئی نہ پالے۔۔۔) ۔۔باہر سے فروا اور بسماء غصے سے دروازہ پیٹیں کچھ چلا بھی رہی تھیں ۔۔۔۔”مگر اسے کیا ؟؟؟اسنے آیت الکرسی پڑھ لی تھی ۔۔۔اب چڑیلیں اس تک نہیں آ سکتی تھیں ۔۔۔۔بڑابڑاتا وہ سونے لیٹ چکا تھا ۔۔۔۔چڑیلوں کا خون کھول رہا تھا ۔۔(استغفراللہ۔۔۔) ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لاپرواہی سے صوفے پے لیٹی موباہل پر سکرولنگ کر رہی تھی.۔۔۔ ایک ٹانگ نیچے لٹکا رکھی تھی جو مسلسل ہلا رہی تھی ۔۔۔۔ناہید بیگم غصے میں کھولتی داہیں سے باہیں جانب لانگ مارچ کر رہی تھیں ۔۔۔ساتھ میں انکا لیکچر بھی جاری تھا ۔۔۔۔(جو شہرین بلکل نہیں سن رہی تھی )” تم سے کچھ کہہ رہی ہوں تم سے سن رہی ہو؟؟” ۔۔۔۔کچھ پل کے لیے وہ رکیں اور غصے سے چلاہیں ۔۔۔شہرین پے کچھ اثر نہ ہوہا وہ ویسے ہی لیٹی رہی ۔۔ناہید کا تو بی پی ہی شوٹ کر گیا ۔۔۔جارحانہ انداز میں شہرین تک آہیں ۔۔۔اور اسکے ہاتھ سے موباہل اچک لیا ۔۔۔وہ اس افتاد پر گڑبڑا کے اٹھ بیٹھی ۔۔۔اور بدمزگی سے اپنی جلال میں آئی ماں کو دیکھا ۔۔
“میں کب سے تم سے بات کر رہی ہوں دیواروں سے نہیں اور تم ہو کے اس موباہل پے لگی ہو” ۔۔۔انہوں نے غصے سے اسکا مہنگا موباہل صوفے پر اچھالا ۔۔۔
“تو کس نے کہا مجھ سے بات کرنے کے لیے مجھے نہیں سننا آپکا فصول لیکچر” ۔۔۔وہ ہاتھ جھلا کے کہتی دوبارہ لیٹ گئی ۔۔۔
“واٹ تمہیں میری باتیں فصول لگ رہی ہیں “۔۔۔ناہید نے پٹی آوز میں صدمے سے اس سے پوچھا۔۔۔۔شہرین نے بدمزہ ہو کر آنکھیں میچیں ۔۔۔غصے سے پاس پڑا کشن دور پھینکا۔۔۔
“ہاں لگتی ہیں فصول ۔۔۔میں آپکو پہلے ہی بتا رہی ہوں ممی کے اس معاملے میں میں کسی کی نہیں سنوں گی ۔۔۔میں نے فلم کرنی ہے تو کرنی ہے ڈیٹس اٹ” ۔۔۔غصے سے بولتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تو اسکی عقل پے ماتم کرتی ناہید نے اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ پاس بیٹھا دیا ۔۔۔خود بھی اسکے سامنے سنگل صوفہ پے بیٹھیں ۔۔۔
“جب عقل بٹ رہی تھی شہرین تب تم کہاں تھی ۔۔۔میں نے کب تم سے کہا کے فلم مت کرو ۔۔۔میں تو بس اتنا کہہ رہی ہوں کے ناہل کی بات مان لو” ۔۔۔۔ناہید بیگم اب تحمل سے بولیں مگر شہرین کو تو آگ ہی لگا گئیں
“ممی مجھے لگتا ہے عقل سے آپکا بھی دود دور تک کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ایک طرف کہہ رہی ہیں فلم کرو ۔۔ اوردوسری طرف کہہ رہی ہیں کے ناہل کے بات مان لو “۔۔۔وہ کلس کر بولی ۔۔۔تو ناہید نے بے بسی سے آسمان کو دیکھا ۔۔۔کب عقل آئے گی انکی بیٹی کو ۔۔۔
“شہرین میں تمہیں کیسے سمجھاوں”۔۔۔وہ سخت جھنجھنلا گئیں ۔۔اور سر پکڑ کے اسے دیکھا. ۔
“افف ممی آپ سیدھی طرح بول رہی ہیں کے میں جاؤ روم میں “۔۔۔وہ تنگ ہی آ گئی تھی ۔۔۔۔اب مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی. ۔۔۔
“میری بات دھیان سے سنو بےوقوف لڑکی “۔۔۔ناہید نے اسکے موڈ کی پرواہ نہ کرتے ہوئیے رازداری سے اسے کہا ۔۔۔اور اپنا رح سخن شہرین کے قریب کیا ۔۔۔شہرین نے سوالیہ آبرو اٹھا کے انہیں دیکھا ۔۔۔”تم ناہل سےکل، آج کے رویے کی معافی مانگو گی اور اسے یقین دلاو گی کے تم فلم نہیں کر رہی” ۔۔۔
“خد ہے پھر وہی ضد”.۔۔۔شہرین بیچ میں ہی جھنجھنلا کے بول اٹھی تو ناہید نے ایک رکھ کے چپیڑ اسکے سر پر ماری ۔۔۔شہرین نے صدمے سے اپنی ماں کو دیکھا ۔۔۔
“میری بات مکلمل ہونے کے بعد بولنا” ۔۔۔ناہید بیگم نے سختی سے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا ۔۔۔وہ منہ بنا کے سیدھی ہو کے بیٹھی ۔۔۔
“فل حال تم ناہل سے یہی کہو گی کے تم یہ فلم نہیں کر رہی ۔۔۔۔ایک بار خیر سے شادی ہو جانے دو پھر تم جو مرضی آئے کرنا تب وہ کچھ نہیں کر پائے گا “۔۔۔۔وہ شاطرانہ انداز میں بولتیں پیچھے ہو کے بیٹھیں ۔۔۔۔
“کمال ہے ممی ۔۔۔وہ شادی سے پہلے مجھے فلم نہیں کرنے دے رہا تو شادی کے بعد تو وہ مجھے قید کر کے بھی رکھ سکتا ہے ۔۔۔تب وہ مجھے فلم کیوں کرنے دے گا” ۔۔۔شہرین غصے اور افسوس سے اپنی ماں کو دیکھ کر بولی جنکی منطق اسکی سمجھ سے باہر تھی۔۔۔ ۔۔۔
“کرنے دے گا لازمی کرنے دے گا” ۔۔۔ناہید مکاری سے مسکراہیں ۔۔۔شہرین نے الجھ کے انہیں دیکھا ۔۔۔”کیسے کرنے دے گا ؟؟؟”
“ہم حق مہر کی رقم پورے پچیس کروڑ رکھواہیں گے ۔۔۔۔شادی کے بعد وہ اتنی جلدی اتنی بڑی رقم تو مہیا نہیں کر پائے گا ۔۔۔پھر تم جو دل میں آئے کرنا”۔۔۔۔ناہیدنے چٹکی بجاتے مسئلہ حل کیا ۔۔۔
“اور ناہل تو چھوٹا بچہ ہے مان جائے گا “۔۔۔شہرین نے انہیں افسوس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے عقل پر ماتم کر رہی ہو ۔۔۔پھر اکتا کے سر جھٹکا ۔۔”رہنے دیں ممی وہ ایک پل میں سمجھ جائے گا۔۔اسلیے بہتر یہی ہے کے میں خود ہی یہ رشتہ توڑ دوں”۔۔۔شہرین نے ہاتھ اٹھا کے قطعیت سے بات ختم کی۔۔ ناہید بیگم نے بھڑک کے اسے دیکھا
“چپ کرو تم رشتہ ختم کرو گی” ۔۔۔چڑ کے اسکی نقل اتاری ۔۔۔”ناہل جیسا ویل ایجوکیٹیڈ،ہینڈسم اور اکلوتا امیر لڑکا کدھر ملے گا تمہیں۔۔۔ارے ایسے لڑکوں کے تو خواب دیکھتی ہیں لڑکیاں”۔۔۔۔ناہید نے تحمل سے اسے سمجھایا ۔۔۔
“مگر وہ ہینڈسم امیر لڑکا مجھے کبھی فلم نہیں کرنے دے گا “۔۔۔۔اسکی تان وہیں آکے ٹوٹی تھی ۔۔۔
“تم فل حال یہی کرو جو میں کہہ رہی ہو ۔۔۔شادی تک صبر کرو.۔۔۔”
“مگر حق مہر والی بات وہ کبھی نہیں مانے گا ممی”۔۔۔وہ اکتا کے چلائی ۔۔۔آخر کوئی حل ہی نہیں مل رہا تھا۔۔۔
“ہم اس سےکہہ دیں گے کے ہمارا رواج ہے ۔۔۔ویسے بھی تب وہ مہمانوں سے سامنے اپنی اونچی ناک کی حاطر انکار نہیں کر پائے گا”۔۔۔ناہید سمجھداری سے بولیں تو وہ بھی چونکی ۔۔۔”یہ حل بہتر تھا” ۔۔۔گہری سانس لی
“ٹھیک ہے آپ کہہ رہی ہیں تو میں یہ رسک بھی لے لیتی ہوں مگر کوئی بھی گڑ بڑ ہوئی تو آپ ذمہ دار ہوں گی “۔۔۔۔انگلی اٹھا کے اپنی ماں کو وارن کیا اور اپنا کلچ اور موباہل اٹھاتی اپنے کمرے میں چل دی۔۔۔۔ناہید نے کچھ سمجھ کے سر ہلایا اور پاس پڑے لینڈ لائن فون پے جلدی سے نمبر ملایا۔۔۔۔انہیں رانا شفقت سے بات کرنی تھے وہ بھی ابھی ۔۔۔۔______________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...