بعد اس کے ناگپور چلا۔ اول منزل دس کوس چل کر چاند آور میں آیا۔ وہاں سے نو کوس راہ طے کر کے نیر میں پہنچا۔ راہ میں بسبب کمی بارش کے کنویں سوکھ گئے تھے، لہذا پانی کی طرف سے تکلیف کھنچتے رہے۔ سوا اس کے ساری راہ میں جنگلا تھا اور خوف و خطر شیر اور چیتے اور جانورون درندہ۔ کہیں عمل نظام الملک کا، کہیں کسی راجہ کا، کہیں کہیں انگریزی تھا۔ نیر سے دس کوس چلا قصبہ وردہ میں آیا۔ وہاں سے گیارہ کوس کے بعد کرنجہ میں پہنچا۔ وہاں سے گیارہ کوس آگے چلا، کنڈل واری میں آیا۔ دس کوس آگے بڑھا، دامنہ تک آیا۔ دس کوس آگے چلا، ناگپور پہنچا۔
شہر سے باہر ایک سرا میں اترا، نزدیک اس کے ایک تالاب دلچسپ تھا۔ چونکہ اس سال مینہ کم برسا۔ پانی کنوؤں کا خشک ہوا، اس لیے زن و مرد شہر کے اسی تالاب سے پانی بھر لے جاتے۔ ناگپور سے دو تین منزل پیشتر میں نے بازار گانو میں سنا کہ ایک شیر ہے، مسافروں کو ہلاک کرتا مگر گانو کے آدمیوں کو نہیں ستاتا۔ گائے بکریوں کو نہ کھاتا۔ اس کے پکڑنے کے لیے ناگپور کے راجہ نے قریب سو پیادوں کے مقرر کیے تھے۔ وہ لوگ کہیں پتا اور سراغ شیر کا نہ پاتے۔ اس سے مجھ کو ثابت ہوا کہ وہ شیر نہ تھا بلکہ کوئی رہزن اپنے تئیں صورت شیر بنا کر مسافروں کو مارتا اور اسباب ان کا لوٹ لے جاتا۔ اگر میں کچھ دنوں وہاں رہتا اور دو تین آدمیوں کو شریک حال اپنا پاتا،اس رہزن شیر لباس کا پتا لگاتا اور ضرور اس کو گرفتار کرتا۔ بسبب تنہائی اور رواروی راہ کے لاچار پڑا۔ ظاہراً وہ شخص وہاں کے حاکم سے سازش رکھتا۔ ورنہ کیا امکان کہ پتا اس کا نہ لگتا۔
ناگپور کے قرب وجوار سب زمین ریگستان اور کوہستان ہے اور جا بجا شور، زراعت کا اس میں نہیں نام و نشان ہے۔ انھی وجہوں سے اس شہر میں شدت حرارت ہے۔ آدمیوں میں مثل وحشیوں کے ہرگز نہ آدمیت و لیاقت ہے۔ مکانات ان کے مانند ڈھابلی کبوتر اور مرغوں کے تنگ و تاریک تھے۔ طرفہ یہ کہ راجہ کے مکانات ویسے ہی بنے۔ میں نے جب راجہ کا مکان دیکھا، قید خانہ نیو کیڈ لندن کا یاد آیا کہ وہ بھی اس سے سو گنا بہتر تھا۔ اس کے مکان کے سامنے ایک میدان پڑا۔ شام کو راجہ اپنے مکان کے باہر آ بیٹھتا۔ میدان میں سوار متلاشیٔ روزگار جمع ہوتے، اپنے اپنے کمال اور کرتب دکھلاتے۔ راجہ جس کسی کو پسند کرتا نوکر رکھ لیتا۔ سوار و پیادہ راجہ کے نوکر وردی انگریزی پہنے تھے، عجب بد قطع جانور کی شکل معلوم ہوتے۔ رستے بازار کے نہایت تنگ تھے۔ شام کو مرہٹے عزت دار گھوڑوں پر سوار سیر کرنے آتے۔ ان کی ایسی قطع حماقت کی تھی کہ حماقت چہروں سے برستی۔ ایک پرانا قلعہ تھا، اس میں لشکر انگریزوں کا رہتا۔ اگرچہ وہ قلعہ قابل تعریف کے نہیں، مگر انگریزوں نے اس میں توپیں جمائیں۔ شہر سے تین کوس نکل کر دریائے کابٹی ہے۔ اس کے نزدیک فوج انگریزی کی چھاؤنی ہے، سوار پیادے اور توپ خانہ اور بہت گورے اس میں رہتے ہیں۔ بسبب قرب کابٹی کے اس کو چھاؤنی کابٹی کہتے ہیں۔
عمر راجہ ناگپور کی تخمیناً تیس برس کی ہے۔ طبیعت اس کی مائل عیش و عشرت ہوئی ہے۔ ایک مکان رنڈیوں سے بھرا ہے۔ اب تلک تلاش اوروں کی رکھتا ہے۔ چنانچہ حال میں ایک رنڈی نہایت حسین بنارس سے آئی تھی۔ راجہ کے منظور نظر ہوئی۔ ایسا اس پر فریفتہ اور مبتلا ہوا کہ ایک لحظہ مفارقت اس کی گوارا نہیں کرتا۔ جو کچھ اس رنڈی کو منظور ہوتا ہے، بدل و جان اس کو بجا لاتا ہے۔ بموجب حکم اس کے کبھی باغ میں جاتا ہے، کبھی قریب تالاب کے مکان بنواتا ہے۔ غرض کہ بہر صورت اس کی اطاعت میں ایسا مصروف رہتا ہے کہ عقل میں نہیں آتا ہے۔ شہر میں کوئی ہتیار باندھے نہیں نکل سکتا ہے۔ یہ حکم راجہ کا ہے۔ شہر سے باہر ایک تالاب اور تھا۔ دونوں تالابوں پر چوکی پہرہ بیٹھا۔ آدمی یا جانور کو حکم نہانے بلکہ پانو دھونے کا ان میں نہ تھا۔ جس کا جی چاہتا، پانی پینے کا البتہ وہاں سے لے جاسکتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...