علی احمد کا تعلق ریاست امیرپور کے امیر خاندان سے تھا۔ امتیاز ہائی اسکول میں تعلیم ختم کرکے وہ امریکا روانہ ہوگیا۔ وہاں اس کا جی نہ لگا۔ وطن کی مٹی اسے واپس کھینچنے لگی۔ پڑھنے لکھنے سے تو یوں بھی اسے کو ئی سروکار نہ تھا۔ اپنے طور پر اس نے یہاں کچھ عرصہ ٹکے رہنے کے لیے بڑے جتن کیے، کیوںکہ والدین کا کہنا ماننا اس کے خمیر میں تھا۔ یہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔ ان جتنوں میں ایک جتن یہ بھی تھا کہ وہ شہ سواری کے ایک مشہور کلب ’’بریورائڈ رس‘‘ کا رکن ہوگیا، گھڑ سواری بھی اس کے خون میں تھی۔ گھوڑا سندھ کے رئیسوں کے لیے لازم وملزوم بنا۔ علی احمد پیدائشی شہ سوار تھا، چناںچہ بہت جلد ’’ بریورائڈس ‘‘ کا ہیرو بن گیا۔ اس نے امریکا کی زمین پر گھوڑے دوڑائے اور امریکی لڑکیوں کے دلوں میں جھنڈے گاڑھ دیے۔ رئیسوں کے ہاں دلوں کے معاملے نہیں ہوتے۔ مزے لوٹنے اور جیب لٹوانے کو ہی وہ دل کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ مزے لوٹنے والا معاملہ اس کے والدین پر کھلا یا نہ کھلا البتہ جیب کا لٹنا ان پر بہت جلد کھل گیا ، پیسے تو وہی بھیجتے تھے۔ لاچار والد کی بیماری کی اطلاع دے کر علی احمد کو واپس بلوا لیا گیا۔ اس کی آدھی پکی اور آدھی کچی امریکی محبوبہ ٹریسا والکر وہیں رہ گئی۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنے والد کو معمولی سا بیمار پایا۔ والدہ کی محبت بھری باتیں اس کے دل میں اتر گئیں۔ اس کے دونوں بچوں نے اس کے دل کو گرما سا دیا۔بیوی جو بچپن کی شادی کے نتیجے میں اس کے گلے باندھ دی گئی تھی ہمیشہ کی طرح ناقابلِ برداشت نہیں لگی۔ یہ اور بات کہ ایک منظر آپ ہی آپ دوسرے منظر سے گڈمڈ ہو جاتا۔ ٹریسا تو ٹریسا، مونیک، شیبا اور نہ جانے کس کس کا کیا کیا یاد آجاتا۔ مشرق بہرحال مشرق ہے، اس نے سوچا اگرچہ وہ سوچنے والے ذہن کا حامل آ دمی نہیں تھا۔ سوچنا رئیسوں کی شان نہیں، لیکن اس کا ذہن اسے تصویریں دکھاتا رہتا۔ جو کچھ گزرا، اس کی تصویریں، جو نہیں گزرا، لیکن شدت سے اس کی چاہت ہوئی، اس کی تصویریں۔ ساتھ ساتھ ایسی تصاویر جن کو وہ دیکھنا نہ چاہے اور وہ بھی جنھیں دیکھ کر ہول آجائے۔ ان دنوں جو تصویریں وہ دیکھ رہاتھا ان میں زیادہ برف گرنے، برف سے کھیلتے ہوئے مردوں، عورتوں اور بچوںکی،کچھ گوری اور کچھ بے انتہا کالی لڑکیوں کی۔ اونچی اونچی عمارتوں، چوڑی چوڑی سڑکوں، طرح طرح کی کاروںمیں لانگ ڈرائیو کی، تفریحی پارکوں، مختلف زاویے سے دیکھے گئے نیاگرا (آبشار) کی مبہوت کرنے والی اور سب سے زیادہ ٹریسا کی تصاویر۔ اس کا رقص کرنا، برف پر اسکینگ کرنا، گھوڑے دوڑانا۔ ان تصویروں میں مسلسل بے ربطی اور ربط کا تعلق جو اس کی سمجھ کبھی نہ آسکا۔
ابھی علی احمد وطن کے ماحول سے دوبارہ اپنے آپ کو مربوط کرنے کی کوشش میں مصروف تھا کہ اس کے بابا سائیں (والد) دیکھتے ہی دیکھتے شدید بیمار ہوگئے۔ حید آباد سے ڈاکٹرز بلوائے گئے ’’ قدم مبارک‘‘ پر منّت مانی گئی۔ خاندانی امام باڑے میں منّت کے دھاگے باندھے گئے، مزاروں پر لنگر تقسیم کیے گئے، لیکن بابا کی حالت میں فرق نہیںآیا۔ جام شورو کے ہسپتال میں بجلی لگوانے سے بھی کچھ نہ ہوا، پھر کراچی لے جایا گیا، آپریشن ہوا، لیکن بے فائدہ، حلق کا ٹیومر تھا تو Benign لیکن Malignant سے بھی زیادہ لاعلاج ثا بت ہوا۔ سب جتن بے کار گئے اور علی احمد کے بابا سائیں اس دنیا سے رابطہ توڑ گئے۔ بابا سائیں کے جانے کے بعد علی احمد کی آنکھوں کے سامنے ان کی تصویر آتی تو تا دیر نہیں ٹھہرتی، دوسری تصویریں اس کی جگہ لے لیتیں، عام طور پر ان رشتے داروں کی تصویریں جو اس کے بابا سائیں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو بھوکی نظروں سے گھور رہے ہوتے۔ رئیسوں اور جاگیرداروں میں جب کوئی رئیس یا جاگیردار مرتا ہے تولوگ روتے کم اور اور لڑتے جھگڑتے زیادہ ہیں۔ گھروں کے اندر، جرگوں میں اور بالآخر عدالتوں میں۔
والد کی موت نے علی احمد کو مصروفیتوں کے ایک دلدل میں اتار دیا۔ اس دلدل میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے علی احمد نے یہ بھی دیکھا کہ شہر کا ضعیف العمر ڈاکٹر اپنا منحوس بکس سنبھالے کوٹھی میں داخل ہوا۔ پہلے وہ اس کی دو سدا کنواری بہنوں کو مارفیا کے انجکشن لگانے آیا کرتا تھا، بظا ہر دردِ گردہ سے افاقہ پہنچانے کے لیے، لیکن در حقیقت ہسٹیریا کے دوروں کی شدت کم کر نے کے لیے۔ اس بار وہ اس کی سوتیلی ماں کے لیے بلوایا گیا تھا۔ کون سی بات اس کو زیادہ بری لگی یا کم بری لگی، وہ یہ سب سوچنے سے قاصر تھا۔ شاید اس کا دماغ بند اور ذہن مفلوج ہوگیا تھا۔ چناںچہ ٹریسا کا پہلا خط جب خلافِ توقع اسے ملا تو وہ حیران ہوا یا خوش ہوا، اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ خط میں لکھا تھا کہ وہ علی احمد کو بہت مِس کرتی ہے۔ اس کے علاوہ رسمی باتیں بھی لکھی تھیں۔ ایک تصویر بھی بھیجی تھی جس میں وہ پو رے دانت نکا لے ہنس رہی ہے اور سلاخوں کے پیچھے شیر کھڑا ہے۔ تصویر کو دیکھتے دیکھتے علی احمد نے ایک پل کے لیے چا ہا کہ وہ امریکا بھاگ جائے، لیکن وہ پَل دبے قدموں گزر گیا۔
ایک دن عجیب اتفاق ہو ا کہ فیاض اس کے پاس آ یا اور اس کو باہر لے گیا۔ جب وہ امتیاز کالج پہنچے تو اسے بڑا تعجب ہوا۔ پھر فیاض کے معمولی اصرار پر اس نے کالج میں باقاعدہ ایڈ میشن لے لیا۔ یہ سب کچھ یوں ہوا جیسے پلک جھپکتے میں ہوگیاہو۔ فیاض کے بارے میں تو سب لوگ جانتے تھے کہ یہ ایک لااُبالی آدمی ہے، لیکن علی احمد کے فیصلے تو مہینوں اور بعض اوقات برسوں میں ہوتے تھے۔ فیاض نے علی احمد کو داخلہ کیوں دلایا، یہ ایسی بات نہ تھی جو علی احمد کی سمجھ میں نہ آسکے؟ اس سال کالج میں لڑکیاں خاصی تعداد میں داخل ہو گئی تھیں۔
فیاض اس کا کزن تھا وہ اس سے اچھی طرح واقف تھا، لڑکیاں اس کی کم زوری تھیں، اسکول کی ٹیچرز، کالج کی لڑکیاں، ہیلتھ وزیٹرز، نرسیں، پڑوس کے شہر کے بازارِ حسن کی طوائفیں (امیرپور میں کوئی با زارِ حسن نہیں تھا۔) سب اس کے دائرۂ انتخاب میں شامل تھیں ۔ علی احمد فیاض سے مختلف تو تھا لیکن تھا وہ بھی شا ہی خاندان سے تعلق رکھنے والا رئیس۔
کالج میں داخل ہوتے ہیں اس نے کالج کی لڑکیوں پر اپنا ’’حق‘‘ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ (لڑکیوں اور عورتوں پر ’’حق‘‘ کا یہ احساس اسے ورثے میں ملا تھا)، کالج کی لڑکیوں میں شائرین جمال اسے اچھی لگی، لیکن اپنے قدرے ٹھگنے قد کی وجہ سے اس نے اس بلند قامت لڑکی کی طرف مائل ہونے کی ہمت نہیں کی۔ البتہ سیما نقوی اسے بہت بھائی۔سیما نقوی کا قد کچھ کم تو نہ تھا لیکن شاید اس کے نازک اور پھول کی ڈالی جیسے وجود نے علی احمد پر اس کے نکلتے ہوئے قد کا رعب طاری نہ ہونے دیا۔ علی احمد اس کا پیچھا کرنے لگا۔ جہاں سیمانقوی جاتی، علی احمد اس کے پیچھے پیچھے ہو جاتا۔ علی احمد کی موجو دگی کے احساس سے سیما نقوی کی غزالی آنکھوں میں وحشت سی پیدا ہوجاتی۔ وہ اپنی ہم نام دوست سیما حمید کے قریب تر ہو جاتی تاکہ حفاظت کا احساس ہوسکے۔ علی احمد کسی دن اپنی خوب صورت گاڑی میں آتا، کسی دن جیپ میں اور کسی دن گھوڑے پر، اس کو یقین تھا شمالی امریکا کی طرح امتیاز کالج کی لڑکیوں کو بھی اپنی شہ سواری سے مسحور کرلے گا، لیکن اس سلسلے میں اسے ناکامی ہوئی۔ شائرین جمال جیسی فلرٹ لڑکی بھی اس کی طرف مائل نہیں ہوئی، سیما نقوی کیا مائل ہوتی، سیما نقوی کا تو اس کو دیکھ کر خون خشک ہو جاتا تھا۔ اس کو ہر وقت یہ خوف گھیرے رہتا کہ علی احمد اس کو اٹھوا نہ لے۔ یہ صورتِ حال ایسی نہ تھی جو کالج کے شریر لڑکوں سے چھپی رہتی۔
یوں بھی علی احمد اس قسم کے لڑکوں سے محفوظ نہ تھا۔ رئیس ہونے کے ناتے یہ لڑکے اس کو نوجوانوں کی اصطلاح میں ’’کاٹنے‘‘ میں مصروف رہتے۔ لڑکے اس کو گھیر گھار کر کینٹین لے جاتے، کھاتے پیتے اور بِل علی احمد چکاتا۔ ان لڑکوںنے غیرمحسوس طور پر اپنے آپ کو علی احمد کا راز دار بنا لیا۔ کینٹین میں تقریباً ہر روز سیما نقوی کی باتیں ہونے لگیں اور علی احمد کو سیما نقوی کا مصدقہ عاشق تسلیم کرلیا گیا۔ سیما نقوی کی آنکھیں ایک تو تھیں ہی بڑی دوسرے وہ ان آ نکھوں میںباقا عدگی سے کاجل لگاتی تھی اور کاجل بھی اس طرح کہ آنکھوں کے دونوں گوشوں سے کاجل کی ایک لمبی لکیر باہر نکل آتی اور نچلے پپوٹے کے نیچے ایک بڑا نیم دائرہ اس سے مل جاتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کی آ نکھیں اپنی قدرتی لمبائی سے کہیں زیادہ لمبی دکھائی دیتیں۔ وہ برقعہ نہیں پہنتی تھی۔ اس کے لباس کی تراش خراش جدید سے جدید تر ہوتی تھی۔ جب ٹیڈی لباس کا فیشن چلا تو امتیاز کالج میں سیما نقوی نے اس کی ابتدا کی۔ جن لڑکوں نے علی احمد کو سیما نقوی کا عاشق بنایا وہ خودبھی اس کے پرستار تھے، لیکن سیما نقوی ایک ایسا غزال تھی جس کو شکاری دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، اسیر کرنے کی کو شش نہیں کرتا۔ البتہ علی احمد ایک رئیس ہونے کے ناتے ہر عورت پرہاتھ ڈالنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ ایک دن انھی لڑکوں کے بہکانے میں آکر، ان کے لکھے ہوئے ایک محبت نا مے کواپنی تحریرمیں نقل کرکے سیما نقوی تک پہنچا دیا۔ سیما نقوی نے اس محبت نامے کو اپنے والد کے سپرد کر دیا اور اس کے والد نے کالج کے پرنسپل احمد حمید خان کو دے دیا۔ پروفیسر احمد حمید خان نے اس معاملے کو سختی سے نمٹایا۔ اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ ریاست کے شاہی خاندان والوں سے ٹکر لیتے البتہ کالج کے ڈسپلن کا سوال بنا کر وہ اس معاملے کو علی احمد کے خاندان کے دستار بند سردار کے پاس لے گئے۔ فیصلہ یوں ہوا کہ پرنسپل نے علی احمد کو اس کالج سے نکال کر حیدرآ باد کے ایک کالج میں داخل کروا دیا اور ایک اچھے ہوسٹل میں کمرہ بھی دلوا دیا۔ علی احمد کو ایک دھچکا سا لگا۔ اس کا حیدرآباد میں دل نہ لگا وہ امیرپور لوٹ آیا۔
ان ہی دنوں اس کو ٹریسا کا دوسرا خط ملا۔ علی احمد نے نہ صرف خط کا جواب پوسٹ کیا بلکہ ساتھ ہی ٹریسا کے لیے بلوچی کڑھائی کے کام کا ایک سوٹ بھی پارسل کیا۔ وہ یہ سب کرکے بے حد خوشی محسوس کرنے لگا۔ شاید امتیاز کالج بھی اس کے ذہن سے رخصت ہونے لگا تھا، لیکن چند ماہ بعد ہی پروفیسر احمد حمید خان کا تبادلہ ہوگیا۔ وہ حیدرآباد چلے گئے، انھیں تعلیمی بورڈ کا صدر بنا دیا گیا۔
جب نئے تعلیمی سال کا آ غاز ہوا تو علی احمد دوبارہ کالج لوٹ آیا۔ اس نے ایک بار پھر سیما نقوی کا تعاقب شروع کر دیا۔ حیدرآباد سے لوٹنے کے بعد علی احمد کچھ زیادہ ہی بے باک ہوچکا تھا۔ اب اس کونہ تو لڑکو ں کو راز دار بنا کر رکھنے کی ضرو رت تھی اور نہ ہی ان کو کھلا پلا کر راضی رکھنے کی۔ اب تو وہ اس انداز میں سوچنے لگا تھا کہ کہ وہ اگر سیما نقوی کو اٹھوالے تو اس کی بیوی کے طاقت ور اور با اثر رشتے دار کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ ویسے اس کے طبقے میں کسی لڑکی کو اٹھوا لینا کوئی پیچیدہ بات نہیں تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ سیما کو اٹھوانا نہیں چاہتا تھا، بلکہ اسے اپنانا چاہتا تھا۔ علی احمد کے خاندان کے جتنے مرد تھے ان سب کی ایک سے زائد بیویاں تھیں یہ بات مشہور ہے کہ ’’جس سال فصل اچھی ہوتی ہے اس سال چھوٹے، بڑے زمیں دار یاتونئی شادی رچاتے ہیں یا اپنے کسی دشمن کو مرواتے ہیں۔‘‘ علی احمد نے ہنوز نہ تو کوئی قتل کیاتھا اور نہ کروایا تھا، نہ ہی دوسری شادی کی تھی۔ جہاں تک اس کے والد کا تعلق ہے مرحوم نے چار شادیاں کی تھیں اور پانچ قتل۔ علی احمد کی والدہ ان کی پہلی بیوی اور کافی معمر خاتون تھیں البتہ اس کی تینوں سوتیلی مائیں خاصی کم عمر تھیں، ایک تو علی احمدسے بھی کئی برس چھو ٹی تھیں۔
ایک دن اسے بخار آگیا، ڈاکٹر کوبلوایا گیا۔ ڈاکٹر نے اسے بخار کی دوا دی اور ساتھ ہی انجکشن بھی لگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے یوں لگا جیسے وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہے اور کسی ہنڈولے میں جھول رہا ہے اور پھر وہ سو گیا۔جب بیدار ہوا تو پہلی تصویر اس کی نگاہوں کے سامنے ابھری وہ سیما نقوی کی تھی۔ وہی قدرے لمبا سا چہرہ، نازک اور ستواں ناک، چھوٹے اور پتلے لب، مخرو طی ٹھوڑی، اور کھنچی کمانوں جیسے ابرو، غلافی پپوٹے اور غزالی آنکھیں اور شخصیت کا شاخِ گل جیسا تأثر۔ اس کا جی چاہنے لگاکہ وہ آنکھیں بند کرے اور سیما کے سراپے کا موازنہ ٹریسا سے کرے، لیکن وہ ایسا نہ کرسکا، اوطاق میں کوئی مہمان آ گیا اور علی احمد کو اس سے ملے بغیر چارہ نہیں تھا۔
مہمان کی خاطر اگلے دن اس کو ’’کتوں اورریچھ کی لڑائی‘‘ کا شغل کرنا تھا۔ اگلے دن یہ تماشا بھی ہو گزرا۔ پہلاکتا چھوڑا گیا، اس نے ریچھ پر زبردست چھلانگ لگائی، ریچھ نے خوف ناک گھٹی گھٹی سی آواز حلق سے نکال کر (جو اس جانور سے مخصوص ہے۔) آناً فا ناً کتے کو اچھال دیا، عین اسی وقت دوسرے کتے کو چھوڑا گیا، اسی طرح پورے چار کتے چھوڑ دیے گئے۔ تماشہ دیکھنے والوں میں ضعیف العمر منہ کھولے ہنس رہے تھے، بچے سہمے سہمے تھے، کچھ چیخیں مار رہے تھے۔ اور باقی لوگ مٹھیاں بھینچے، دانتوں پر دانت جمائے پوری توجہ سے موت وحیات کی یہ کش مکش دیکھ رہے تھے۔یہ کش مکش زندگی کے لیے تھی، قوت کے لیے تھی، یا برتری کے لیے تھی؟
علی احمد کو اس کا شدید صدمہ ہوا تھا۔ چاروں کتے اس کھیل میں ریچھ کو شکست دینے میں ناکام ہو کر مرگئے تھے۔ ان میں دو ایسے کتے تھے جن سے علی احمد بہت پیار کرتا تھا۔ کسی کے خواب وخیا ل میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ ریچھ کامیاب ہو جائے گا اور کتے اپنے وجود کو باقی رکھنے کی یا اپنی برتری منوانے کی یہ جنگ ہار جائیں گے۔ پہلی مر تبہ علی احمد کو شدت سے ’’موت کا‘‘ احساس ہوا۔ پہلی مرتبہ اس کو اس حقیقت کا عرفان ہو ا کہ موت اٹل ہوتی ہے۔ والد کی موت نے اس کو شا ید زندگی کے اندر اور گہرا دھکیل دیا تھا، جب کہ اپنے پیارے کتوں کی موت نے اس کو موت کے اندھے کنوئیں کے کنارے لاکھڑا کیا۔
سیما حمید نے سیما نقوی سے سوال کیا، ’’علی احمد کو کہاں بھیج دیا؟‘‘ اس کے جواب میں سیما نقوی نے اپنی کالی آنکھوں کی ساری وحشت اپنی دوست کی آنکھوں میں انڈیل دی ۔ پندرہ دن سے علی احمد کالج نہیں آ رہا تھا۔ اصولی طور پر علی احمد کا نہ آ نا سیما نقوی کے لیے سکون کا باعث ہونا چاہیے تھا، لیکن سیما نقوی کالج کی مصرو فیات سے جب بھی فرصت پاتی اس کو علی احمد کا خیال آجاتا۔ چند دن پہلے اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ علی احمد کے ساتھ ایک شان دار گھوڑے پر سوار ہے۔ بیداری میں اس خیال کے آتے ہی وہ لرز جاتی تھی، لیکن خواب میں اس نے اپنے آپ کو بہت خوش اور مطمئن دیکھاتھا۔ اس کو اگرچہ یہ خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا کہ کہیں علی احمد اس کو اٹھوا نہ لے۔ وہ نہایت مستقل مزاجی سے یہ بھی سوچتی رہتی تھی کہ اگر ایسا واقعہ پیش آ جا ئے تو کیسا لگے گا؟
علی احمد کا دل کبھی کبھی یہ چا ہتا تھا کہ وہ سیما نقوی سے ’’پاک محبت‘‘ کرنے لگے (سسی پنوں والی)، پھر وہ سوچنے لگتا کیا سیما نقوی بھی مجھ سے ایسی محبت کرنے پر راضی ہو جائے گی؟ پھر وہ خود ہی ’’پاک محبت‘‘ کے خیال پر ہنس پڑتا۔ اگر وہ سیما نقوی سے شادی کر لے تو کیا یہ پاک محبت نہ ہوگی؟ سیما نقوی کے والد ضعیف العمر آدمی تھے، ان کا ایک چھوٹا سا برف کا کارخانہ تھا۔ ان کا صرف ایک ہی دبلا پتلا نازک سا لڑکا تھا جو ہنوز طالبِ علم تھا۔ کوئی اور رشتے دار بھی نہ تھے۔ گویا سیما نقوی کو حاصل کرنا علی احمدکے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اس سلسلے میں تھوڑی بہت رکاوٹ یہ تھی کہ علی احمدکی بیوی کے اقربا بہت طاقت ور لوگ تھے، وہ مسائل پیدا کرسکتے تھے اور وہ اس بات سے خائف تھا کہ اس کا اپنا خاندان بھی اس کے خلاف کھڑا ہو سکتا تھا۔ کسی عورت کو اٹھوا لینا تو برداشت کیا جاسکتا تھا، لیکن ایک عام سی عورت کو بیوی بنا لینا قریب قریب ناقابلِ برداشت تھا۔
علی احمد کالج میں واجبی سی پڑھائی بھی کر لیتا تھا تاکہ اساتذہ کوئی مسئلہ نہ اُٹھا دیں اور اسے پہلے کی طرح سیما نقوی سے جدا ہونا پڑے۔ ایک دن وہ اپنے آپ کو نہ روک سکا اور ایک چھوٹا سا رنگین لفافہ سیما نقوی کی گود میں پھینک کروہاں سے فوراً رفو چکر ہوگیا۔ اس وقت سیما نقوی اور سیما حمید دونوں ایک کلاس روم میں تنہا بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ سیما نقوی چندلمحے کے لیے جیسے سکتے میں آگئی ہوپھر اس نے سیما حمید کی جانب دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا کروں۔ سیما حمید نے لفافہ اس کی گود سے اٹھا لیا، لیکن پھر فوراً ہی واپس کر دیا یہ کہہ کر ’’تمھاری چیز ہے تم ہی کھو لو۔‘‘ سیما نقوی نے پوچھا ’’کیا واقعی کھولوں۔‘‘
’’ہاں! اور کیا کروگی؟ دیکھیں اس میں کیا لکھا ہے۔‘‘ سیما حمید نے جواب دیا۔ سیما نقوی کو ڈر لگ رہا تھا کہیں سیما حمید اس لفافے کو پر نسپل تک پہنچانے کا مشورہ نہ دے دے۔ اس مر تبہ سیما نقوی ایسی کوئی حر کت نہیں کرنا چاہتی تھی۔
جب لفافہ کھولا گیا تو اس میں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میر کا یہ شعر درج تھا:
دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھ طریق غزالوں کا
وحشت کرنا شیوہ ہے ان کالی آنکھوں والوں کا
سیما حمید نے شعر پڑھ کر ایک قہقہہ لگایا اورسیما نقوی کی طرف دیکھ کر بولی، ’’اور بھرو کاجل آنکھوںمیں۔‘‘ سیما نقوی نے اس کاغذ کے پرزے کو احتیاط سے لفافے میں رکھا اور اپنی ڈائری میں رکھ دیا۔ اس دن جب اسے تنہائی میسر ہوئی تو اس نے پہلے خود اپنی کالی آنکھیں اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی دیکھیں پھر دیکھا کہ وہ بھاگی جا رہی ہے اور علی احمد اس کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلا آ رہا ہے۔ اس کا دل چاہا کہ اس کے قدم رک جائیں اور علی احمد اسے اپنے ساتھ گھوڑ ے پر سوار کرلے۔ اور نہ ہی اس کے دل وذہن سے اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا میر ؔ کا شعر فراموش ہو رہا تھا۔
علی احمد کا پورا ایک ہفتہ تشویش میں گزرا۔ وہ حیران تھا۔ نہ تو اس کو پرنسپل نے بلوایا اور نہ ہی اس کو کہیں سے کوئی سن گن ملی۔ وہ اس خاموشی اور کامل سکوت سے بھونچکا رہ گیا۔ کسی طرح کا ردِ عمل نہ ہونے نے اس پر ایک جا دو سا کر دیا۔ اس کو فیصلہ کرنے میں مزید دیر نہیں لگی کہ جس طریقے سے بھی ہو سیما نقوی کو نہ صرف حاصل کرلے بلکہ اس کو اپنی بیوی بنالے۔ ان معاملات میں وہ قطعی ناتجربے کار تھا۔
وہ امیر پور سے بارہ میل دور کوٹ مدیجی پہنچا۔ وہاںاس نے فیاض کے ساتھ دو گھنٹے کچہری کی۔ فیاض نے جب یہ سنا کہ علی احمد نے سیما نقوی کو اٹھوانے کا فیصلہ کیاہے تووہ اس کی مدد کے لیے فوراً تیار ہوگیا، لیکن شادی کرنے کے خیال کی سخت مخالفت کی۔ علی احمدنے صاف کہہ دیا کہ لڑکی اٹھانا ہی نہیں ہے، وہ اس سے شادی بھی کرے گا۔
بات چیت اس پروگرام پر ہوئی کہ یہ کام کس طرح انجام دیا جائے اور علی احمد کی پہلی بیوی کے رشتے داروں سے کیسے نمٹا جائے۔ اس رات وہ سارا لائحۂ عمل تیار کرکے امیرپور اپنے گھرلوٹ گیا۔ وہ اس رات اوطاق میں ہی سوگیا۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی اس کی آنکھوں کے سامنے چہرے ہی چہرے اُبھرنے اور ڈوبنے لگے۔ بیوی، بیوی کے رشتے دار، سیما نقوی، ٹریساوالکر، باباسائیں، اماں، سوتیلی ماں، فیاض، اس کے محبوب کتے، اور نہ جانے کون کون۔ اور پھر رات کے کسی خاموش لمحے نے اس کی آنکھوں کے کواڑ بندکردیے۔
آٹھ دس دن منصوبہ بندی اور اہم جزئیات پر غوروفکر میں گزرگئے۔ علی احمد باقاعدگی سے کالج جاتا رہا اور سیما نقوی کو ’’چور نظروں ‘‘ سے دیکھتا بھی رہا ۔ اس نے ساری تیاریاں قریب قریب مکمل کرلیں۔ یہاں تک سیما نقوی کو اٹھوا کر فوری نکاح کروانے کے بھی سا رے انتظامات مکمل کر لیے۔
اس کے خون کی گردش تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ یہ خون اس کا اپنا ہونے کے علاوہ اپنے آبا و اجداد کا بھی تھا جس سے اس کو ورثے میں انتہائی قدیم اسلحہ، تلواریں، نیزے، خنجر اور کلہاڑیاں ملی تھیں۔ ابھی دن کا اجالا باقی تھا، اس نے ڈرائیور کو بلایا اور کہا کہ جیپ نکالے۔ علی احمد اٹھا اور اپنی بندوق لے کر با ہر نکل گیا سب لوگ علی احمد کی افتادِ طبع سے واقف تھے ۔ وہ وقت بے وقت شکار پر چلا جاتا تھا۔ اس کی ہر مشکل کا مداوا شکار ہی تھا۔ اپنی زندگی کے اہم اہم فیصلے اس نے شکار کے دوران کیے تھے۔ اس کی جیپ کوٹ مدیجی والی سڑک پر برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ ڈرائیور نے سو چا شاید چھوٹے سرکار ’’فلائنگ شارٹس‘‘ کھیلنے جارہے ہیں۔ علی احمد کبھی کبھی اڑتے ہوئے پرندوں کا بھی شکار کرلیا کرتا تھا۔ اس کانشانہ اس معاملے میں بھی ٹھیک تھا۔ دن کی روشنی شام کی آ غوش میں جانے کے لیے بے چین تھی، یہی وقت بسیرے کی تلاش میں اڑنے والے پر ندوں کو مار گرانے کا وقت تھا۔ کوٹ مدیجی کے موڑ پر اس نے جیپ کو بستی کی طرف مڑوا دیا۔ اس کی جیپ اس کی آبائی کو ٹھی کے سامنے جا کر رک گئی۔ ڈرائیور کچھ حیران ہوا۔ علی احمد شکار کی مہمات پر کبھی فیاض کو ساتھ نہیں لیتا تھا۔
وہ جیپ سے اترا نیم تاریک ماحول میں اس کا آبائی ملازم ’’اللہ دینو‘‘ جانے کدھر سے اس کے سامنے آگیا۔ وہ اس کے قدموں پر گر پڑا۔ وہ اس کے مرحوم بابا سائیں کا خاص الخاص خدمت گار تھا۔ ’’ اللہ دینو چاچا تو اس وقت یہاں۔‘‘
اللہ دینو چاچا اس کے قدموں سے اٹھا اور ہاتھ جوڑے کھڑا رہا۔
’’کیا بات ہے بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ علی احمد غصے سے بولا۔
’’سائیں میں مجبوری سے آیا تھا۔‘‘ اللہ دینونے گریہ آمیز آواز میں جواب دیا۔ وہ سر سے پائوں تک لرز رہا تھا۔
’’کیسی مجبوری؟ تو یہاں کیا کر رہا ہے۔‘‘
اللہ دینو نے اپنے کندھے سے بندوق نکال کر علی احمد کے قدموں پر ڈا ل دی۔ ’’سائیں میں نے فیاض کو گولی مار دی ہے۔ یہی خدمت انجام دینے یہاں آیا تھا۔ مرحوم سائیں کی ایک اور آخری خدمت۔ آپ سائیں! چاہو تو اسی وقت میری بندوق سے مجھے ختم کردو۔ میں نے اس مردود کو جہنم بھیج دیا ہے۔ بے شرم، بے غیرت، ہماری عزت سے، مرحوم سائیں کی امانت چھوٹی سرکار سے…..‘‘
اللہ دینو سے آ گے کچھ بولا نہ گیا وہ اپنی پگڑی زمین پر رکھ کر سر اور سینہ پیٹنے لگا۔