اُسے لگا تھا کہ فریحہ ایک بار پھر ڈر کر سہم کر رہ جائے گی لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کا برا وقت شروع ہوچکا تھا
################
زرنین خود مکمل طور پر ڈھانپے حازق کے ساتھ چل رہی تھی۔۔ وہ خوش تھی بہت۔۔حازق کا ساتھ ہونا ہی ایک خوبصورت احساس تھا۔۔
انہوں نے شاپنگ کی اور اب وہ دونوں شاپنگ مال کے قریب ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے تھے
جی تو بیگم صاحبہ آپ کیا کھانا پسند کریں گی۔۔۔حازق نے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھ کر کہا
میں کب کچھ کھا سکتی ہوں۔۔ نقاب میں ہوں میں۔۔ اتار نہیں سکتی۔۔۔زرنین نے حازق کو دیکھتے ہوئے کہا
حازق نے زرنین کی آنکھوں میں دیکھا۔۔ گہری آنکھوں پر پلکوں کی بار تھی۔۔ وہ نقاب میں بھی اُسے بہت خوبصورت لگتی تھی
ایک بات پوچھوں زرنین۔۔حازق کھویا کھویا بولا
جی پوچھیے۔ زرنین نے ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھا
تمہیں گرمی نہیں لگتی نقاب میں۔۔۔میرا مطلب ہے تم کب سے نقاب میں ہو۔۔ شاپنگ بھی ایسے ہی کی تھی اور اب ریسٹورینٹ میں بھی۔۔ حازق کو ترس آیا زرنین پر
حازق عورت کو پردہ کرنے کا حکم ہے۔۔ اور پھر یہ تو اچھی بات ہے نا کہ ایک عورت خود کو غیر محرم سے محفوظ رکھے۔۔مجھے دیکھنے کا حق صرف آپ کا ہے۔۔۔۔میں خود کو آپ کی امانت سمجھتی ہوں۔۔اور امانت میں خیانت کر کے میں رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔۔میرا سنگھار بھی آپ ہی کیلئے ہے۔۔۔۔زرنین مسکراتے ہوئے بولی۔۔ نقاب میں اُس کی آنکھیں چھوٹی ہوگئی تھی
میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم جیسی پاک باز لڑکی بیوی کے روپ میں ملی ہے۔۔۔میری خواہش ہے کہ مجھے جنت میں تمہارا ساتھ ملے۔۔۔وہ زرنین کو نظروں کے حصار میں لئے بولا
انشاءاللہ۔۔۔ہم دونوں مل کر ایک دوسرے بہتر انسان بنائیں گے تاکہ جنت میں ایک دوسرے کا ساتھ حاصل کر سکیں زرنین نے اپنا نقاب درست کیا
حازق نے محبت لٹاتی نظروں سے اُسے دیکھا
اچھا اب میں جوس منگوانے لگا ہوں وہ تو پی سکتی ہو نا۔۔ حازق نے آنکھیں چھوٹی کیں
جی جی پی لوں گی۔۔۔۔
##############
حازق زرنین کو گھر پر چھوڑتا اپنے گھر آگیا تھا۔۔اُس نے راہداری عبور کی اور بڑے سے صحن میں آگیا۔۔ شام کا وقت تھا۔۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔۔۔وہ شاپنگ بیگ ہاتھ میں تھامے چل رہا تھا۔ اُسے مدھم سی آوازیں آئی۔۔۔جو سمجھ سے باہر تھیں۔۔ فریحہ کے چلانے کی آواز آئی۔۔اُس نے اپنے قدموں کو فریحہ کے کمرے کی جانب موڑا
فریحہ کی ایک چیخ اُس کے کان میں پڑی۔۔ اُس کا دل زور سے دھڑکا
وہ تیز تیز قدموں سے فریحہ کے کمرے کی طرف گیا اور جھٹکے سے دروازہ کھولا
سامنے کا منظر دیکھ کر اُس کے چہرے کے تاثرات بدلے
پہلے حیرت۔۔ پھر بے یقینی اور پھر غصے میں تبدیل ہوگئے
رشید نے فریحہ کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا اور فریحہ بری طرح تڑپ رہی تھی
بابا سائیں۔۔ حازق چلایا تھا
رشید نے گردن موڑ کر دیکھا حازق سخت تاثرات لئے اُس کی جانب بڑھ رہا تھا
یہ کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں امی جان کو۔۔۔اُس نے کھینچ کر فریحہ کو الگ کیا
فریحہ سسکنے لگی تھی
رشید کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حازق کو اُس کی سچائی معلوم ہو
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ اِس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔۔۔ایک عورت جو رب نے آپ کو امانت کے طور پر سونپی ہے آپ نے اُس پر ہمیشہ ظلم کیا ۔۔ کبھی سوچا ہے اللہ کتنا ناراض ہوگے آپ سے۔۔ کیا خوف نہیں آتا آپ کو اللہ کے انصاف سے۔۔۔؟کبھی احساس پیدا نہیں ہوا آپ کے دل میں۔۔ حازق بے بسی سے گویا ہوا
اُس نے فریحہ کو اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔۔
دیکھو حازق بیٹا میری بات سنو۔۔رشید کو سمجھ نا آیا وہ کیا کہے
آج جیسے وہ خود کو ہارتا محسوس کر رہا تھا
کیا بات سناؤ گے۔۔ ارے کیا کیا بتاؤ گے اپنے بارے میں۔۔ کس کس گناہ کو چھپاؤ گے۔۔ تمہارا بے بس لہجہ اِس بات کی گواہی ہے کہ تم اللہ کی پکڑ میں آچکے ہو۔۔ وہ سخت عزاب دینے والا یے۔۔تمہارا حشر بہت برا ہوگا رشید۔۔ بہت برا۔۔فریحہ نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہا
اُس کا گلا خشک ہونے لگا تھا۔۔
حازق نے پریشانی سے ماں کو دیکھا۔۔ وہ آج تک ایسے نہیں بولی تھی
تم اپنا منہ بند رکھو۔۔اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ رشید نے ہنکار بھر کر کہا
وہ کسی بھی طرح فریحہ کو چپ رکھنا چاہتا تھا
کیوں رہوں میں چپ۔فریحہ حازق کے حصار سے نکلی
حازق کو بھی تو پتا چلے اُس کے باپ کا گھٹیا روپ۔۔یہ۔۔ یہ جو آدمی یے نا حازق۔۔ اُس نے رشید کی طرف اشارہ کیا
حازق ساکت وجود کے ساتھ کھڑا تھا۔۔اُس کا دماغ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا
یہ قاتل ہے۔۔ تمہاری خوشیوں کا قاتل۔۔اِس شخص نے قتل کیا تھا حمید بھائی کا جائیداد کی خاطر۔۔لیکن پھر بھی کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔ فریحہ کی آواز اب آہستہ ہوگئی تھی
وہ بول بول کر تھک گئی تھی
بابا سائیں آپ نے۔۔حازق نے بے یقینی سے باپ کو دیکھا
حازق کو لگا اُس کا دل پھٹ جائے گا۔۔اتنا بڑا سچ۔۔ وہ اندر تک کانپ گیا تھا
رشید چور نظروں سے سب دیکھ رہا تھا۔۔
ہاں اسی شخص نے۔۔ میں نے خود سنا تھا۔۔اور آج یہ میرا منہ بند کروانے آیا تھا۔ لیکن میں سب کو بتاؤں گی۔۔وہ جنونی انداز میں بولی
یہ عورت پاگل ہوچکی ہے بالکل پاگل۔۔ علاج کرواؤ اِس کا۔۔رشید قہر آلود نظر سے فریحہ کو دیکھتا کمرے سے بھاگنے کے انداز میں باہر نکلا
امی جان آپ ادھر آئیں بیٹھیں یہاں۔۔حازق نے آگے بڑھ کر فریحہ کو بیڈ پر بٹھایا
وہ پریشان سا ماں کو دیکھنے لگا
حازق مجھے ایسے شخص کے ساتھ نہیں رہنا۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔وہ رو رہی تھی۔۔ بہت سے سالوں کا غبار نکلا تھا
میں کسی قاتل کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔میں نہیں رہنا۔۔۔فریحہ نے بےدم ہوکر اپنا وجود بیڈ پر گرا دیا
امی جان۔۔حازق نے تکلیف سے ماں کو دیکھا اور کانپتے وجود کے ساتھ ڈاکٹر کو فون ملانے لگا
##################
رشید گاڑی میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔۔ وہ فریحہ کو بھی مار دینا چاہتا تھا۔ اگر حازق نہ آتا تو شاید وہ یہ بھی کر گزرتا۔۔۔اُس کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہورہا تھا۔۔ اُس نے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور گاڑی چلاتا ہوا سنسان سڑک پر نکل آیا
ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل پکڑی ہوئی تھی۔۔ وہ وقفے وقفے سے بوتل کو منہ سے لگاتا اور گاڑی کی سپیڈ مزید تیز کردیتا
میں۔۔۔
میں مار دوں گا سب کو۔۔ چھوڑوں گا نہیں تمہیں فریحہ۔۔ مار دوں گا۔۔وہ جنونی انداز میں بولا
شراب کا نشہ چڑھنے لگا تھا۔۔ اُس کا دماغ سن ہونے لگا
آنکھوں کے سامنے گرد چھانے لگی تھی
وہ ابھی بھی گاڑی بری طرح سے چلا رہا تھا
اچانک ایک بڑا سا ٹرک اُس کے سامنے آیا۔۔۔ اُس نے دھندلاتی آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھا۔۔ اُس کا دماغ چلنا بند ہوگیا تھا۔۔ اُس نے گاڑی کی سپیڈ کنٹرول کرنا چاہی لیکن اُس کے ہاتھوں سے جان نکل رہی تھی۔۔ وہ نشے میں ڈوبا کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔۔ اُسے اپنی موت نظر آئی۔۔ اُس نے خوف سے بڑے سے ٹرک کو اپنی جانب آتا دیکھا جو کب سے ہارن بجا رہا تھا۔۔۔۔
اُس کا دل ڈوبنے لگا۔۔ چیخ مارنے کیلئے آواز نکالنا چاہی لیکن آواز جیسے مر گئی تھی۔۔گاڑی تیز رفتار سے چلتی ٹرک میں جالگی تھی۔۔۔۔
گاڑی کا برا حشر ہوگیا تھا۔۔کوئی بھی دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ گاڑی چلانے والا بچ سکتا یے۔۔
آہستہ آہستہ لوگوں کی بھیڑ بڑھنے لگی۔۔ ہر شخص افسوس سے اندر بے جان پڑے وجود کو دیکھنے لگا۔۔ جس کا چہرہ بری طرح بگڑ چکا تھا۔۔۔اور وہ خون میں لت پت پڑا تھا
رشید اپنی بے جا انا اور ضد کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی مول لی تھی۔۔ اور اُسے اتنا بھی موقع نہ ملا کہ وہ معافی مانگ سکے۔۔اُس نے اللہ کے بندوں کا دل دکھایا تھا۔۔ اور اللہ بھی تب تک معاف نہیں کرتا جب تک اللہ کا بندہ معاف نہ کردے
اللہ نے انسان کو آخری سانس تک معافی کا موقع دیا ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اُس کا آخری وقت کب آجائے۔۔
یہ تو دنیا کی رسوائی تھی ابھی آخرت کا حساب تو الگ سے تھا۔۔
اُس دن کا حساب جب ہر ایک جان خوف کے حصار میں ہوگی۔۔۔خوف سے تھر تھر سب کے وجود کانپ رہے ہوگے۔۔کوئی کسی کیلئے کچھ نہ کرسکے گا۔۔ ہر جگہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔۔دل مارے دہشت کے ابل رہے ہوگے۔۔ پِتّے پانی پانی ہوجائیں گے
يَوۡمَ لَا تَمۡلِكُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَيۡـــًٔا ؕ وَالۡاَمۡرُ يَوۡمَٮِٕذٍ لِّلَّهِ
“جس دن کوئی جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ رکھے گی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے،”
اور دوذخیوں کے چہرے بری طرح بگاڑ دیئے جائیں گے اور دوزخ کے فرشتے انہیں بالوں سے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں داخل کریں گے۔۔بہایت ذلت آمیز گھڑی ہوگی۔۔
وَاِنَّ الۡفُجَّارَ لَفِىۡ جَحِيۡمٍ ۚۖ
“اور بیشک بدکار ضرور دوزخ میں ہیں،”
استغفراللہ۔۔۔کیسا ہوگا وہ دن۔۔ وحشت سے بھرپور۔۔۔ خوف کے مارے دل گلوں تک آن پہنچے گے۔۔ انصاف کا دن۔۔۔فیصلے کی گھڑیاں۔۔
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا يَوۡمُ الدِّيۡنِۙ
“اور تو کیا جانیں کیسا انصاف کا دن،”
اللہ کی عدالت۔۔۔۔
برہنہ بدن۔۔۔۔
شرمندگی سے جھگے ہوئے چہرے
خون بہاتی آنکھیں
آب کو ترستے لب
خشک ہوتی رگیں
پسینے سے شرابور کانپتے وجود
اللہ ھو اکبر
لیکن۔۔۔۔
ایمان والے پرسکون ہوگے۔۔ اُن کا رب راضی ہوگا۔۔ اُن کے نام عزت سے پکارے جائیں گے۔۔
انہیں احترام سے بہشت میں داخل کیا جائے گا
بہشت۔۔جنت الفردوس۔۔ خوبصورت جگہ۔۔ ایمان والوں کا ٹھکانہ۔۔۔
اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِىۡ نَعِيۡمٍۚ ٍ
“بیشک نِیکو کار ضرور بہشت میں ہیں”
##############
ایک سال بعد
زرنین اور حازق کی شادی ہوچکی تھی۔۔۔اور وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے۔۔ زرنین کی خواہش کے مطابق ایک ادارہ بن رہا تھا جہاں ابھی تعمیراتی کام چل رہا تھا اور بہت جلد مکمل ہونے والا تھا۔۔۔۔
زوجاجہ بیگم اب حازق کے ساتھ ایک گھر میں ہی رہتی تھیں رشید کی موت پر زوجاجہ بیگم نے بہت آنسو بہائے تھے۔۔
وہ ابھی بھی اِس بات سے بے خبر تھیں کہ ان کی اولاد کو قتل کرنے والا رشید ہی تھا۔۔دو جوان بیٹوں کی موت کسی بھی شخص کا بوڑھاپا خراب کرسکتی ہے۔۔۔
فریحہ نے سارے آنسو اپنی قسمت کیلئے بہائے تھے۔۔ اب اُسے ساری عمر ایک قاتل کی بیوہ بن کر رہنا تھا۔۔اُس نے حازق کو منع کیا تھا کہ وہ زوجاجہ بیگم یا زرنین کو اپنے باپ کی اصلیت نہ بتائے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ رشید کے عزاب میں اضافہ ہو۔۔ وہ معاف کرچکی تھی رشید کو۔۔ اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت میں دے دیا تھا اُس نے۔۔
حازق کیلئے یقین کرنا مشکل تھا بہت وہ باپ کو ایک قاتل انسان کے روپ میں کیسے قبول کر لیتا۔۔
وہ ہر روز رشید کے حق میں دعا کرتا۔۔ اُس کیلیے مغفرت طلب کرتا۔۔شاید اسی سے رشید کے عزاب میں کمی آجائے
#######
حازق۔۔۔ زرنین نے حازق کو پکارا جو لیپ ٹیپ پر کام کرنے میں مصروف تھا
جی مسز فرمائیے۔۔ حازق نے بنا گردن اٹھائے کہا۔۔لہجے میں محبت تھی
میری بات سنے۔۔ زرنین نے الماری سے کتاب نکالی اور اُس تک آئی وہ صوفے پر بیٹھا تھا
جی سنائیے۔۔ حازق پھر مختصر سا بولا
حازق۔۔۔
آپ یا تو کام کر لیں یا میری بات سُن لیں۔۔ زرنین جھنجلا کر بولی
اُسے غصہ آیا تھا حازق پر۔۔ وہ کب سے اُسے پکار رہی تھی اور وہ کام میں مصروف تھا اب اتنا بھی کیا ضروری کام جو بیوی کی بات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہو
حازق نے گردن اٹھائی۔۔ زرنین کرے تیور لئے اُسے دیکھ رہی تھی
اللہ توبہ۔۔ حازق نے کانوں کو ہاتھ لگایا
یہ کیا بیویوں کی طرح گھور رہی ہو مجھے۔۔۔اُس نے آنکھیں بڑی کیں اور صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا
کیونکہ میں بیوی ہی ہوں۔۔۔مجھے لگتا ہے آپ کی یاداشت کمزور ہوچکی ہے۔۔ ایک سال پہلے آپ مجھے بیاہ کر اِس گھر میں لے آئے تھے۔۔۔زرنین نے اُسے گھوری سے نوازا
اچھا جی لیکن ابھی تو ایک سال ہونے میں دو دن کم ہیں۔۔یاداشت میری نہیں آپ کی خراب ہے بیگم صاحبہ۔ حازق نے زرنین کے سر پر چپت لگائی۔۔ آنکھوں میں شرارت واضح تھی
ہاں ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا اور آپ مجھے بھول بھی گئے ہیں۔۔کتنے دن ہوگئے ہیں ٹھیک سے بات بھی نہیں کی ۔زرنین نے منہ پھلا کر کہا
تم کچھ زیادہ نہیں بولنے لگ گئی شادی کے بعد۔۔حازق نے حیرت سے اُسے دیکھا
جب نہیں بولتی تھی تب کہتے تھے کہ بولو اور اب بولتی ہوں تو کہہ رہے ہیں کہ زیادہ بولتی ہوں۔۔۔۔کسی حال میں خوش نہیں آپ۔۔ زرنین تیز تیز بولتی گئی
حازق نے حیرت سے اُس کی تیز چلتی زبان دیکھی جو شاید اُسی کے ساتھ کا اثر تھی
اچھا میری ماں۔۔ مجھے معاف کردو۔۔ آپ زیادہ بولتی ہی مجھے اچھی لگتی ہیں۔۔حازق نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں میں اُس کا چہرہ لیا
زرنین خاموش ہوگئی۔۔ حازق کتنے دنوں سے کام میں بہت زیادہ مصروف تھا۔۔ وہ گھر میں بھی ہوتا تو لیپ ٹاپ پر لگا رہتا یا تھک کرسو جاتا۔۔ زرنین حازق سے آج سارے گلے شکوے کرنے کی تیاری میں تھی۔۔حازق کی محبت نے اُسے بدل دیا تھا۔۔ وہ زندگی کی طرف لوٹ آئی تھی ہنسنا مسکرانا سیکھ لیا تھا اُس نے
آپ کتنے دنوں سے صرف کام مصروف ہیں۔۔ زرنین نے شکوہ کنا نظروں سے اُسے دیکھا
جی کیونکہ میں آپ ہی کیلئے مصروف ہوں۔۔حازق اطمینان سے بولا اور زرنین کو اپنے ساتھ لیے بیڈ تک آیا
زرنین۔۔
جی۔۔ زرنین نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔ ڈائری اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھی
دو دن بعد تمہارا بہت بڑا خواب پورا ہوجائے گا۔۔۔حازق نے چمکتی آنکھوں سے کہا
کیا مطلب۔۔ زرنین نا سمجھی سے بولی
مطلب یہ کہ دو دن بعد ادارے کا سارا کام اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔۔ اور پھر اُس کی افتتاح ہوگی انشاءاللہ۔۔ حازق نے مسکراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی
کیا واقعی۔۔۔ زرنین کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا
حازق نے سر اثبات میں ہلایا
حازق میں آپ کو کیسے بتاؤں۔۔ میں۔۔ میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ۔۔ زرنین بولتے بولتے بیڈ سے اٹھی
اُسے سمجھ نہ آیا وہ کیا کرے
حازق بھی اٹھ کھڑا ہوا
بیگم صاحبہ حوصلہ رکھیں۔۔۔اور بس اب تیار رہیں افتتاح کیلئے۔۔ حازق نے اُس کی ناک دبائی
ایک اجازت چاہئے مجھے آپ سے۔۔زرنین نے جھجکتے ہوئے کہا
حکم کیجیے آپ۔۔ حازق سر کو خم دیتا بولا
زرنین حازق کے انداز پر مسکرا دی
میں چاہتی ہوں کہ ہم شادی کی پہلی سالگرہ ادارے میں منائیں۔۔۔ایسے لوگوں کے ساتھ جو خوشیوں کے طلب گار ہیں۔۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ سب فلاحی اداروں کو انوائٹ کریں۔۔۔میں غریب طبقے کے لوگوں کے ساتھ اپنی خوشی کو بانٹنا چاہتی ہوں۔۔ میں سب کو بتاؤں گی کہ یہ ادارہ آپکی محنت سے قائم ہوا ہے۔۔۔ رزنین نے حازق کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا
حازق دلچسپی سے اُس کی باتیں سن رہا تھا۔۔ وہ کتنا پیارا دل رکھتی تھی۔۔
زرنین یہ تو آپ کا خواب تھا جسے پورا کرنے میں
میں نے تھوڑی سی کوشش کی ہے بس۔۔ میرا اِس سب میں کوئی عمل دخل نہیں۔۔ یہ اللہ کافضل ہے جس نے اِس نیک کو کو پایا تکمیل تک پہنچایا ہے۔ اور ہمیں اِس بات کا شرف دیا ہے کہ ہم مخلوقِ خدا کیلئے کچھ کرسکیں۔۔۔ورنہ میری کیا اوقات ہے۔۔ حازق نے رب کا شکر ادا کیا۔۔ جب سے زرنین اُس کی زندگی میں شامل ہوئی تھی وہ ہر روز رب کا شکر ادا کرتا۔۔
جی بالکل۔۔ زرنین بس اتنا ہی کہہ سکی۔۔اُس کی آنکھوں میں نمی چھانے لگی تھی۔۔وہ خاموشی سے وہاں سے جانے لگی جب حازق نے اُس کا بازو پکڑا
تم ٹھیک ہو۔۔ حازق اُس کے سامنے آیا
زرنین کی آنکھیں جھلکنے لگی تھی۔۔ وہ خاموش رہی
زرنین کیا ہوا ہے۔۔ حازق نے بے چینی سے پوچھا
وہ گھبرا گیا تھا زرنین کو روتا دیکھ کر
مجھے بابا کی یاد آرہی ہے۔۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔۔زرنین روتے ہوئے بولی
حازق نے اس کے آنسو صاف کیے
وہ اب بھی بہت خوش ہوگے۔۔۔۔اور تم اُن کیلئے دعا کیا کرو۔۔اگر ایسے روؤ گی تو انہیں دکھ ہوگا بہت۔۔ حازق پیار سے اُسے سمجھانے لگا
زرنین خاموش ہوگئی تھی۔۔
وہ حازق کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
اچھا میں آپ کو یہ دکھانا چاہتی تھی۔۔ زرنین نے ہاتھ میں پکڑی ڈائری آگے کی
اِس میں کیا ہے۔۔ حازق نے ڈائری کو چھو کر کہا
آپ کو پتا ہے ایک دن میں نے اپنی الماری کھولی تھی۔۔اُس میں سے مجھے یہ پیج ملا۔۔زرنین نے ڈائری میں سے صفحہ نکالا
یہ بابا نے لکھا تھا میرا لیے۔جو شاید ان کی ڈائری سے گر گیا تھا جب میں بابا کی ڈائری اپنے کمرے میں لائی تھی۔۔زرنین نے مزید کہا
وہ محبت سے صفحے کو دیکھ رہی تھی
اچھا لیکن اِس میں لکھا کیا یے بابا نے۔۔حازق نے دلچسپی سے پوچھا
ایک نظم۔۔ میرے لئے۔۔ زرنین کا دل بھر آیا۔۔
وہ پھر سے بیڈ کے کونے پر بیٹھ گئی
اُس نے نظم سنانا شروع کی
حازق بھی اُس کے ساتھ بیٹھا محوت سا اُسے سننے لگا
زندگی میں ہر طرف خوشیاں بکھر گئی تھیں
ختم_شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...