داؤد مشوانی اس وقت اپنے فارم ہاؤس پر موجود تھا۔
کالی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے وہ ایک شہزادہ لگ رہا تھا۔
بالوں کو نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا جبکہ پاؤں میں چارسدہ چپل پہنی ہوئی تھی۔
“عبدالکریم لالہ!” داؤد نے اپنے وفادار ملازم کو آواز لگائی۔
“جی داؤد لالہ!” عبدالکریم نے کہا،
“هغه هلکان زما مخې ته راوړه! (ان لڑکوں کو ذرا میرے سامنے لاؤ)” داؤد نے کہا۔
“زه به دوی لالا راوړم۔ (میں انھیں لاتا ہوں لالا)” عبدالکریم نے کہا۔
عبدالکریم ان چاروں لڑکوں کو لے کر داؤد کے سامنے آیا تو داؤد نے اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ خود انکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا لی۔
وہ مسلسل انھیں دیکھے جا رہا تھا جبکہ ان لڑکوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔
وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھا۔ لیکن اس وقت اسکی دہشت سے وہ لڑکے کانپ رہے تھے۔ اسکی آنکھوں میں عجیب تاثر تھا۔
“کیا کر رہے تھے تم لوگ وہاں؟” داؤد نے سختی سے آگے ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ک۔۔۔۔۔ ککچھ۔۔۔ ن۔۔ نہیں!” ایک لڑکے نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
“وہ لڑکی کیا پاگل تھی جو ایسے ہی الجھ رہی تھی۔ جلدی بکواس کرو کیا کر رہے تھے تم وہاں؟” اب کی بار داؤد نے اونچی آواز میں کہا تھا۔
“دیکھیں ہمیں چھوڑ دیں اس لڑکی کی تو عادت ہے راہ چلتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس لڑکے کے الفاظ ابھی اسکے منہ میں تھے کہ داؤد مشوانی کا ہاتھ اٹھا اور اس لڑکے کے چہرے پر نشان چھوڑ کر گیا۔
داؤد نے اس لڑکے کا چہرہ دبوچا اور بولا “بیٹا تمہاری بھی بہن ہے۔ اگر کوئی فضول بکواس کی نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔” یہ کہتے ساتھ ہی داؤد نے اسکے منہ پر مکا مارا تھا اور پھر وہ چلایا تھا۔
“عبدالکریم عبدالکریم!!!”
“جی داؤد لالہ!” عبدالکریم سر نیچے کر کے اسکے سامنے آیا۔
“د عسکرو څخه دلته راځي (لے جاؤ ان کو یہاں سے)” اس نے کہا تھا۔ غصے سے اس وقت اسکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں اور کنپٹی کی رگیں تنی ہوئیں تھیں۔
عبدالکریم ان کو وہاں سے لے جانے لگا تو وہ بولا تھا۔
” عبدالکریم ان کا وہ حال کرو کہ آئندہ یہ مجھے دیکھ کے ہی تھر تھر کانپیں۔”
عبدالکریم اسکی بات پر سر ہلاتا چلا گیا تھا جبکہ وہ شدید غصے کے عالم میں اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس وقت کسی کا سر پھاڑ دے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
” ڈاکٹر نور ابھی تک ہسپتال نہیں آئیں،نور انتہائی غیر ذمہ دار ہیں۔ ڈاکٹر شاہ آپ ان سے غفلت کی وجہ پوچھیں۔”
ڈاکٹر ماریہ نے شاہ سے کہا تو اسنے چونک کر انھیں دیکھا تھا۔
“جی ڈاکٹر ماریہ آپ نے کچھ کہا؟” شاہ نے پوچھا۔
“میں کہہ رہی ہوں کہ ڈاکٹر نور آج پھر دیر سے آنے والوں میں شامل ہیں۔ آپ ان سے اس بابت کوئی سوال تو کریں۔” ماریہ نے کہا تو وہ بولا
“آپ جائیں اور جب وہ آئیں تو انھیں میرے آفس میں بھیجئے گا۔”
ڈاکٹر ماریہ نے ڈاکٹر نور کے آنے پر اسے شاہ کے آفس بھیجا تو وہ آفس کے اندر جا کر بیٹھ گئی۔
” آپ صاف صاف بتائیں آپ کیا چاہتی ہیں نور؟” شاہ نے دونوں ہاتھ سامنے میز پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“کیا؟” نور نے ابرو اچکائے تھے۔
وہ اسے دیکھتی ہوئی بولی تھی” میں نے کیا کیا ہے اب؟ آپ کو میرے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا؟ م”
“آپ کام کرنے کہاں دے رہی ہیں؟ آپ روزانہ دیر سے آتی ہیں اور آپ کی وجہ سے یہاں کا نظم و ضبط خراب ہو رہا ہے۔” شاہ نے دانت پیستے ہوئے اسے کہا تھا۔
نور کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی نور نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا” کل میری غفلت تھی۔ میں مانتی ہوں مگر آج سڑک پر حادثہ ہوا تھا اور زخمی کو یہاں لانے میں مجھے دیر ہو گئی اور میرے خیال سے ایک ڈاکٹر کا فرض جان بچانا ہے نہ کہ کہیں پر جلدی پہنچنا۔”
“نور میرا یہ مطلب نہیں تھا میں کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا خیر معذرت اگر آپ کو برا لگا۔” شاہ نے شاید زندگی میں پہلی بار کسی سے معذرت کی تھی۔
” کوئی بات نہیں ڈاکٹر شاہ!”
نور نے ڈاکٹر شاہ پر زور دے کر کیا اور باہر جانے لگی جب پیچھے سے اسے آواز آئی تھی کہ” بیڈ نمبر پانچ کی مریضہ کی فائل کے کر آئیں میرے پاس۔” جس پر وہ اسے گھورتی وہاں سے جا چکی تھی۔
جبکہ شاہ سر جھٹک کر ایک مریض کے ایکسرے دیکھنے لگا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“رقیہ باہر آؤ!” ایک عورت مہمل کے گھر میں واویلا مچا رہی تھی۔
” کیا ہوا ہے خالہ کیا بات ہے؟” مہمل نے باہر آتے ہوئے کہا۔
“ارے رہنے دو خالہ تم جیسی لڑکیوں کی خالہ نہیں ہوں میں۔” اس عورت نے ڈھٹائی سے کہا۔
“یہ آپ کس لہجے میں بات کر رہی ہیں؟” مہمل کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
” کیا ہوا ہے بہن کیوں شور کر رہی ہیں؟” رقیہ بیگم نے کمرے سے باہر صحن میں آتے ہوئے کہا۔
” ارے پوچھو اپنی بیٹی سے کہ میرے بیٹے کو کیوں پٹوایا اس نے؟” اس عورت نے مہمل کی طرف اشارہ کیا۔
“میں نے کب پٹوایا؟ کسی وزیر کی بیٹی نہیں ہوں میں کہ لوگوں کو پٹواتی رہوں۔” مہمل نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا۔
” ارے تم وزیر کی بیٹی نہیں ہو مگر امیر لڑکوں کو پھانسا ہوا ہے تم نے، وہی تمہارے اشاروں پر ناچنے کیلئے کافی ہیں۔” اس عورت کی زبان درازیاں بڑھتی چلی جا رہیں تھیں۔
” آپ یہ کس قسم کے الفاظ استعمال کر رہی ہیں۔” رقیہ بیگم نے انکو ٹوکا تھا۔
“امی آپ اندر چلی جائیں ان سے میں بات کرتی ہوں۔ شرافت کی زبان ان کو سمجھ نہیں آتی۔” مہمل نے غصے سے کہا تھا۔
” ارے دیکھ لی اس کی لمبی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے۔ بڑوں کا کوئی لحاظ ہی نہیں اسے۔” وہ عورت مسلسل مہمل کے خلاف بول رہی تھی۔
” بڑے اس قابل تو بنیں پہلے۔” مہمل نے اسے کہا۔
” دیکھ لو رقیہ اسکے لچھن! سنبھالو اسے نہیں تو کوئی گل کھلا دینا ہے۔ میرے بیٹے کو پٹوایا ہے اس نے ایک امیر کبیر لڑکے سے میں تو پورے محلے کو چیخ چیخ کر بتاؤں گی اس نے پتہ نہیں کس کس کے ساتھ۔۔۔۔۔” اس عورت کے الفاظ ابھی منہ میں تھے کہ مہمل آگے بڑھی تھی وہ تو اسے رقیہ بیگم نے اسے روک لیا ورنہ اس نے شاید اس عورت کو چھوڑنا نہیں تھا۔
” مہمل کیا سن رہی ہوں میں؟ کون تھا وہ؟ بتاؤ مجھے!” رقیہ بیگم نے اس سے پوچھا تو اس نے اس عورت کو دیکھا۔
اور بولی” امی ان کا آوارہ بیٹا مجھے چھیڑ رہا تھا اور مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا اس نے پیچھے سے ایک گاڑی والا آیا جسے میں نہیں جانتی تھی۔ وہ اس لڑکے کو لے گیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ان کے بیٹے کے کرتوت ہی ایسے ہیں۔”
“خبردار جو میرے بیٹے کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ورنہ ۔۔۔۔” وہ عورت انگلی اٹھا کر بولی تو مہمل اس کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی اور بولی۔
” ورنہ کیا ہاں بولیں اب کیوں زبان تالو سے چپک گئی ہے آپ کی؟ محلے کو بتائیں گی آپ؟ یہی کہنا ہے نا آپ نے؟ تو کان کھول کر سن لیں جس کو جو بتانا ہے۔بتائیں۔ مہمل خان کسی کے باپ سے بھی بھی نہیں ڈرتی۔ آپ کے بیٹے کے کرتوت سب کو بتاؤں گی میں بھی۔ لوگوں کی بیٹیوں پر بری نظر ہے اسکی گلیوں میں لڑکیوں کو روک کر ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے، نشہ کرتا ہے۔اپنے چرسی بیٹے کو بھی بتا دیں دور رہے مجھ سے نہیں تو ہڈی پسلی ایک کر دوں گی اس کی۔”
مہمل کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا وہ آگے بڑھی اور اس عورت کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور اپنے گھر کے دروازے سے باہر دھکا دے دیا۔
وہ ایسے ہی تھی اگر کوئی عزت کرے تو عزت کرتی تھی، ورنہ لمحوں میں اگلے کو بے عزت کر دیتی تھی۔
اور یہاں تو بات اسکے کردار پر آ رہی تھی تو وہ کیسے خاموش رہتی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“شاہ صاحب کیا حال ہے آپ کا؟” داؤد اسکے سامنے کھڑا تھا۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟” شاہ نے لب بھینچتے ہوئے کہا تھا۔
“مجھے چھوڑیں آپ بتائیں اب تو ہسپتال میں بھی یوسفزئی ڈاکٹر ہیں۔ اتنا پیار یوسفزئی قبیلے سے ہے تمہیں، چلو خیر تمہارا بنتا ہے۔” داؤد کا اشارہ نور کی طرف تھا۔
“اسے بیچ میں مت لاؤ وہ یوسفزئی ضرور ہے مگر اس کا ہماری لڑائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔” شاہ نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔
“شاہ لڑکیوں کو استعمال کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ مشوانی قبیلے کی روایات کو کبھی نہیں توڑوں گا میں۔” داؤد نے اسکی پریشانی اس بات سے دور کردی تھی۔
” کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟؟” شاہ نے نرم پڑتے ہوئے کہا۔
“شاہ وہ وقت بھی تھا جب میں تمہارا بہترین دوست تھا۔ تمہارے لیے ہر کام کرتا تھا۔ مگر اب وقت وہ نہیں رہا لیکن پھر بھی بتانے آیا ہوں عمیر کو ناران مت جانے دینا ورنہ مہمل سے نہیں بچا سکو گے۔”
اسے داؤد نجانے کس احساس کے تحت اسے سب بتا چکا تھا۔
“داؤد تم عمیر کو ہمیشہ کیوں بچاتے ہو؟ تم نے یوسفزئی خاندان کو برباد کرنا ہے تمہاری مجھ سے دشمنی ہے۔ مگر عمیر کیلئے اتنا پیار مجھے سمجھ نہیں آتا۔” شاہ کے لہجے میں طنز کی بجائے الجھن تھی۔
” اسلئے کے مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے بچپن میں عمیر کو اپنا چھوٹا بھائی مانتے ہوئے قسم کھائی تھی کہ جب تک زندہ رہوں گا اس پر آنچ نہیں آنے دونگا۔ مگر باقی یوسفزئی خاندان کو میں موقع نہیں دینے والا اس لئے کسی خوش فہمی کا شکار مت ہونا۔”
داؤد نے اسے کہا اور چلا گیا تھا۔
شاہ کی اس سے جتنی بھی دشمنی صحیح مگر شاہ یہ جانتا تھا کہ وہ عمیر کو کبھی کچھ نہیں ہونے دیگا۔
وہ واقعی عمیر کو بھائی مانتا تھا اور کبھی تو شاہ حیران ہوتا تھا کہ یوسفزئی خاندان کے دشمن بننے کے باوجود وہ عمیر کیلئے نفرت نہیں رکھتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
داؤد کو وہ فون ملا رہی تھی مگر وہ اٹھا نہیں رہا تھا۔
یہ کوئی ستائیسویں دفعہ اس نے کال ملائی تھی جو کہ اٹھا لی گئی تھی۔
“زہے نصیب آج تو بڑے لوگوں کا فون آیا ہے۔” داؤد کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
“مشوانی صاحب کیا چاہتے ہیں آپ؟” مہمل نے چبا کر لفظ ادا کئے تو داؤد سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔
“کچھ ہوا ہے مہمل؟”
“کچھ؟” مہمل ہنسی تھی۔
“تمہارے ہوتے ہوئے کچھ نہیں ہوتا بلکہ بہت کچھ ہوتا ہے اور تمہاری وجہ سے ہوتا ہے۔” مہمل نے کہا تو وہ پریشان ہوتا ہوا بولا۔
“کچھ بتاؤ تو سہی”
“کیوں مارا تم نے ان لڑکوں کو؟” مہمل نے کڑے تیوروں سے پوچھا تھا۔
“یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔” داؤد نے جان چھڑانے والے لہجے میں کہا۔
“ہاں تمہارا معاملہ ہے نا اسی لئے ان میں سے ایک لڑکے کی ماں میرے گھر آئی۔ میری ماں کے سامنے میرے کردار کی دھجیاں بکھیر گئی۔ کیا کیا الزام نہیں لگایا اس نے مجھ پر۔ تمہاری وجہ سے مجھے یہ سننا پڑا کہ میں لڑکے پھانستی ہوں۔” مہمل بولے جا رہی تھی اور وہ سن رہا تھا مگر اسکی آخری بات پر داؤد چیخا تھا
“مہمل قابو میں رکھو اپنی زبان!”
” میں اپنی زبان قابو کروں تو کیا ہو جائے گا؟ اس عورت نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکی اب وقت پیچھے تو نہیں جا سکتا۔” مہمل نے اسے بہت کچھ جتایا تھا۔
” لگتا ہے ان لڑکوں کی عقل ٹھکانے نہیں آئی ورنہ کبھی وہ عورت تمہارے گھر نہ آتی۔ تم فکر نہیں کرو میں پتہ کرتا ہوں کہ کس کی ماں تھی وہ اور پھر اس لڑکے کو سبق سکھاتا ہوں۔” داؤد نے جب یہ کہا تو وہ آگ بگولہ ہو کر بولی۔
“جان چھوڑو میری خبردار جو اب تم نے کچھ کیا روز کتنی لڑکیوں کو لڑکے چھیڑتے ہیں انکی خبر لو مہمل کو احسان کی ضرورت نہیں۔”
“اچھا غصہ نہ کرو نہیں کرتا کچھ!” اسنے مہمل کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔
“نہیں تم بتاؤ آج ایک بات؟ کیا رشتہ ہے تم سے میرا جو یوں تم میرے پیچھے پڑے ہو؟” مہمل آج سب پوچھنا چاہ رہی تھی۔
” دیکھو داؤد میں مشوانی قبیلے کی لڑکی نہیں جس کی عزت کی حفاظت تم پر فرض ہو۔ میں مہمل خان ہوں نہ کہ مہمل مشوانی! سمجھے؟ اس لئے میرا پیچھا چھوڑ دو۔” مہمل نے آہستہ آواز میں کہا تھا۔
” مہمل مشوانی قبیلے نے تو تم لوگوں کو اپنا حصہ مانا تھا نا؟” داؤد نے کہا تو وہ تپ کر بولی۔
” اگر ہم وہ حصہ بننا چاہتے تو کبھی بھی پشاور سے یہاں نا آتے۔ اس لئے اب تم یہ فضول کے کام چھوڑ دو زندگی عذاب کی ہوئی ہے تم نے میری۔”
مہمل نے کہا اور فون کاٹ دیا۔
جبکہ وہ ہمیشہ کی طرح اسکی باتیں سن کر چپ ہو چکا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ڈاکٹر نور یہ ڈاکٹر شاہ سے آپ کو بہت ڈانٹ پڑتی ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟” نرس نے نور سے پوچھا۔
“اسکی وجہ یہ ہے کہ تمہارے ڈاکٹر شاہ کا دماغ خراب ہے۔” نور نے اسے تپ کر کہا۔
“میں کچھ سمجھی نہیں۔” نرس حیران ہوئی۔
“ویسے ایک بات ہے کہ یہ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی تو نہیں جو اپنا آفس بنا کر بیٹھے ہیں۔ یہ ہسپتال ہے بجائے اسکے کہ مریضوں کو دیکھیں وہ ایک آفس سجا کر بیٹھے ہیں اور دوسروں کو کہتے کہ آپ غفلت برت رہے۔ حد ہے منافقت کی!” نور نے اپنی بھڑاس نکالی تھی۔
” اگر میری شان میں قصیدہ مکمل ہو گیا ہو تو کیا میں بات کر سکتا ہوں؟” شاہ نے پیچھے سے آ کر کہا۔
نرس تو شاہ کو دیکھتے ہی غائب ہو چکی تھی جبکہ شاہ اب اسے گھور رہا تھا جو یوں کھڑی تھی کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
“آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے کیا؟” نور اسکی جانچتی نگاہوں سے تنگ آ کر بولی۔
” آپ کو میرے آفس سے مسئلہ کیوں ہے؟” شاہ نے پوچھا تو نور ایک لمحے کو تو گڑبڑائی مگر پھر بولی۔
“آپ ایک ڈاکٹر ہیں سارا دن آفس میں کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟”
“مس نور ہسپتال کے انتظامی امور کوئی ایم بی اے پاس نہیں سنبھالتا۔ ڈاکٹر ہی سنبھالتاہے اس لئے میں ایڈمنسٹریٹر کے فرائض دیکھتا ہوں اور میرے خیال سے مریضوں کی فائلز بھی دیکھتا ہوں اور مشکل آپریشنز بھی کرتا ہوں۔” شاہ نے اسے صفائی دی۔
“ہممم آپ کی مرضی آپ جو مرضی کریں۔” نور نے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔
“اب نظریں کیوں نہیں ملا رہی اور اگر میری مرضی ہی صحیح ہے تو آپ کیوں طنز کے تیر برساتی رہتی ہیں۔” شاہ نے اسکو دیکھتے ہوئے کہا۔
نور نے اسکی بات پر اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا اور اسے جواب دیتے ہوئے بولی۔
” مسٹر شاہ ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے آپ کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، چاہے میں آپ کے بارے میں کچھ کہوں یا پھر کسی اور کے بارے میں۔”
یہ کہہ کر نور جانے لگی لیکن پھر مڑکر بولی اور “جہاں تک نظر ملانے کی بات ہے تو پھر یاد رکھیں کہ آپ میری سرد نگاہی برداشت نہیں کر پائیں گے۔”
جبکہ شاہ پیچھے اسے چبھتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل آج گھر پر ہی تھی اور اپنے کمرے میں بیٹھی کمپنیز کی فہرست دیکھ رہی تھی جو طلباء کو وظائف دیتی تھیں۔ مگر اسے مایوسی ہو رہی تھی کہ یہ صرف باتیں کرنے کی حد تک ہے کیونکہ اسے ہر کمپنی نے انکار کیا۔ تھا اب صرف دو کمپنیز کے نام رہتے تھے جہاں اس نے آج جانا تھا مگر اسے یقین نہیں تھا کہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔
وہ اٹھی اور جہانگیر خان کے پاس چلی گئی اور ان سے باتیں کرنے لگی۔ جہانگیر خان کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر ایک خوشی کی چمک آتی تھی۔
وہ جہانگیر خان کی لاڈلی تھی۔
بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پر وہ اس سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔
مگر قسمت نے انھیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی اس پیاری بیٹی کیلئے کچھ کر پاتے۔
“بابا کاش آپ ٹھیک ہوتے دانی اور آپی ہمارے پاس ہوتے کتنا اچھا ہوتا پھر مجھے یوں در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں پھر اور نہ ہی امی کو لوگوں کی باتیں سننا پڑتیں مگر بابا فکر نا کریں میں یوسفزئی خاندان کے ایک ایک فرد سے بدلہ لوں گی۔ وہ خود آپ سے معافی مانگیں گے بابا۔ میں تب تک سکون سے نہیں بیٹھوں گی جب تک ان کا سکون غارت نہ کر دوں۔” مہمل نے کہا۔
“مہمل یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟” رقیہ بیگم نے اسے کہا۔
“کیا ہو گیا ہے امی؟” مہمل نے پوچھا۔
“تم اگر اپنے باپ سے اچھی باتیں نہیں کر سکتی تو مت آیا کرو یہاں اس کمرے میں!” رقیہ بیگم نے اسے بیڈ سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
“امی! “مہمل صدمے میں تھی۔
“کیا امی؟ اپنے باپ کی حالت دیکھو اس حالت میں تم اسے دکھڑے سنا کر پریشان کرتی ہو۔ جہانگیر تمہاری وجہ سے خود ترسی میں چلے جاتے ہیں راتوں کو روتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ انھیں پچھتاوا ہوتا دکھ ہوتا تم کیوں کرتی ہو ایسے باپ سے کیسا انتقام لے رہی ہو۔” رقیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
“امی میں بابا سے کب انتقام لے رہی بلکہ مجھے تو بابا کی اس حالت کا انتقام لینا ہے۔” مہمل انکے گھٹنے پکڑ کر بولی
“رہنے دو مہمل یہ جڑے ہاتھ دیکھو جو کرنا ہے کرو مگر اپنے لفظوں کے زہر سے اپنے بوڑھے ماں باپ کو نہ مارو۔” رقیہ بیگم نے اسے کہا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
“میں دیکھتی ہوں امی۔” مہمل نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“رکو میں خود جاؤں گی تم نے جو پچھلی بار کیا نا ان خاتون کے ساتھ وہی کافی ہے۔”
رقیہ بیگم یہ کہہ کر چلی گئی جبکہ وہ بیٹھی اپنے والد کی ٹانگیں دبانے لگی جبکہ جہانگیر خان کی آنکھوں میں نمی تھی۔
وہ اپنی اس گڑیا کو دیکھ کر اس کے اچھے نصیب کا ہی سوچ سکتے تھے کیونکہ یوسفزئیوں نے انھیں کچھ کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو شاہ کیا حال ہے؟” داؤد نے اسکا فون اٹھایا۔
“میں ٹھیک تم سناؤ” شاہ نے اس سے پوچھا۔
“میں بھی ٹھیک ہوں اور کیا عمیر کل سے جا رہا ہے پھر جناح میڈیکل کالج؟” داؤد کے پوچھا۔
“ہاں تم بتاؤ کیا مہمل جائے گی وہاں یا نہیں؟” شاہ نے سوال کیا تھا جسکے جواب میں داؤد بولا۔
” تمام کمپنیز نے میرے کہنے کے مطابق اسے انکار ہی کیا ہے مگر وہ بیٹھنے والی نہیں ہے وہ ضرور کچھ کر لے گی۔”
” داؤد مجھے کچھ بھی خراب نہیں چاہیے تم اسے مار کیوں نہیں دیتے؟” شاہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ داؤد کا بی پی شوٹ کیا تھا۔
“شاہ آج تو تم نے یہ کہہ دیا آئندہ مت کہنا میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ یوسفزئی خاندان کو وہ نقصان نہ پہنچا سکے۔ لیکن اگر تم نے یا یوسفزئی خاندان نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو یاد رکھنا تم بچپن کے دوست کو کھو دوگے اور مشوانی قبیلہ یوسفزئی قبیلے کے مقابلے میں کھڑا ہوگا۔”
داؤد کی آواز میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔
” داؤد تم غصہ نہ کرو تم ایسا کرو پلان نمبر دو پر عمل کرو۔” شاہ نے کہا جس پر داؤد نے طنزیہ قہقہہ لگایا تھا۔
” وہ تو آج کرنے جا رہا ہوں مگر مجھے نہیں لگتا یہ کامیاب ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو فول پروف نہیں یہ پلان تو جانتا ہے وہ میرے قابو میں نہیں آئے گی۔”
“سب جانتا ہوں میں کہ تم کتنے پانی میں ہو تمہارا اس سے اتنا قریبی رشتہ ہے مگر تم پھر بھی کچھ نہیں کر پاتے وجہ معلوم ہے مجھے۔” شاہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا
“رشتے کی بات نہ کرو قریبی رشتہ تو تمہارا بھی بنتا ہے مہمل خان سے۔ کہاں تک نبھایا ہے تم نے؟ ”
داؤد نے تیکھے لہجے میں پوچھا تو شاہ ہمیشہ کی طرح اس بات پر فون بند کر چکا تھا۔
“عبدالکریم! ” داؤد نے آواز لگائی۔
“جی لالہ! ” عبدالکریم نے کہا۔
“مورے لوگوں کو لے جاؤ اور میں آفس جا رہا ہوں جب مورے لوگ واپس آ جائیں تو انھیں کہنا مجھ سے بات کر لیں۔” داؤد نے اسے مصروف سے انداز میں سب سمجھایا تھا۔
“لالہ آپ بے فکر ہو جائیں میں خانم بی بی کو کہہ دوں گا۔” عبدالکریم نے کہا جس پر وہ سر ہلاتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
رقیہ بیگم نے دروازہ کھولا تو ان کے منہ سے نکلا تھا۔
“آپ؟؟؟”
“اندر آنے کو نہیں کہو گی رقیہ جہانگیر خان۔” سامنے موجود خاتون نے کہا تھا۔
“ارے نہیں آپ آئیں اندر!” رقیہ بیگم نے انھیں راستہ دیا۔
“رقیہ یہ میری بیٹی ہے پلوشہ گل اور یہ میری دوسری نند تمہیں معلوم تو ہے نا کہ یہ کون ہے؟” سامنے موجود خاتون نے ان سے کہا۔
“جی زرش خانم مجھ سے زیادہ کون جانتا ہو گا ماہ گل کو آپ کی چھوٹی نند ہیں یہ۔”
رقیہ بیگم نے آنے والی زرش خانم سے کہا اور انھیں لے کر اندر چلی گئیں۔
” بیٹھیں میں آپ کے لئے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔” رقیہ بیگم مڑنے لگیں تو ماہ گل بولیں تھی
“ہمارے پاس بیٹھو ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔”
” ماہی میرا مطلب ماہ گل آپ لوگ یہاں کیوں آئیں ہیں۔” رقیہ بیگم نے اپنی زبان کو روکتے ہوئے کہا۔
“رقیہ تم جانتی ہو کہ مشوانی قبیلے نے تمہاری بہت مدد کی اور تمہارے یہاں آنے کے بعد بھی خیال رکھا۔ تم شاید بے خبر ہو کہ تمہیں سلائی کیلئے بہت سے کپڑے ہم بھیجا کرتے تھے تاکہ تمہاری عزت نفس مجروح نہ ہو اور تمہارا گھر چل سکے۔ کاش تم اس وقت ہماری بات مانتی اور وہیں رہتی ہمارے پاس مگر تمہاری ضد تھی پشاور چھوڑنے کی جو ہم نے مانی لیکن تمہیں تنہا نہیں چھوڑا خان نے۔”
زرش خانم نے کہا جس پر رقیہ بیگم نے سر اٹھایا اور بولیں۔
“آپ کے احسانوں کیلئے میں آپ کی شکرگزار رہوں گی۔ لیکن اس سب کا مقصد؟”
“آج ہم ان احسانوں کا بدلہ چاہتے ہیں۔” انھوں نے کہا تو رقیہ بیگم کے چہرے پر الجھن تھی۔
“میں غریب کیا بدلہ دے سکتی ہوں؟” آپ کو رقیہ بیگم نے بے بسی سے کہا تھا۔
“مہمل!” پہلی بار پلوشہ گل نے کچھ کہا تھا۔
جی ؟؟؟ رقیہ بیگم نے نا سمجھی سے پوچھا۔
“میں پلوشہ کے بھائی، ماہ گل کے بھتیجے یعنی اپنے بیٹے داؤد مشوانی کیلئے مہمل کو مانگنے آئی ہوں۔” زرش گل نے بم پھوڑا تھا۔
“خانم اس سے پہلے کے میں کوئی گستاخی کروں آپ چلی جائیں۔ میں اپنی بیٹی کو کبھی بھی دوبارہ اس نظام کا حصہ نہیں بناؤں گی۔ میں نے قبیلہ صرف اسے فرسودہ روایات سے دور کرنے کیلئے چھوڑا تھا۔ اب میں اسے دوبارہ انہیں روایات کی زنجیر نہیں پہناؤں گی۔ اتنے برس میں نے ہر چیز کی قربانی اپنی مہمل کیلئے دی ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ بھی میری طرح بد نصیب نہ نکلے۔ آپ چلی جائیں میں غریب آپ کو کچھ نہیں دے سکتی۔” رقیہ بیگم نے کھڑے ہوتے ہوئے اونچی آواز میں کہا انکی آنکھوں میں آنسو تھے مگر وہ مہمل کو اس قبائلی نظام سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔
مہمل انکی آواز سن کر باہر نکلی تھی جب زرش بیگم کی نظر اس پر پڑی۔
خوبصورت آنکھیں سفید چہرہ ستواں ناک وہ واقعی کسی کی تصویر تھی زرش خانم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور باہر نکل گئیں جب پیچھے سے رقیہ بیگم نے مہمل کو کہا۔
“مہمل دروازہ سہی سے بند کر لو کہیں پھر کوئی بھول کر یہاں نہ آ جائے۔”
مہمل الجھن میں گھری دروازہ بند کرنے لگی جب باہر جاتی پلوشہ گل نے اسے کہا تھا۔
“میں داؤد مشوانی کی بہن ہوں مجھے خوشی ہوگی اگر آپ لالہ کا رشتہ قبول کریں گی۔”
مہمل کے کان اسکی بات سن کر سائیں سائیں کر رہے تھے۔ اس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ داؤد ایسا کچھ کرے گا وہ فوراً رقیہ بیگم کے پاس گئی اور پوچھا “آپ نے کہیں۔۔۔۔۔؟؟”
“نہیں مہمل میں نے انکار کر دیا ہے میں تمہیں کبھی اس نظام کا حصہ نہیں بناؤں گی۔ ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔” جبکہ مہمل وہیں تھک کر بیٹھ گئی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“داؤد کیا بنا؟” شاہ نے اسے فون کیا۔
” پلان ناکام ہو گیا شاہ وہی ہوا جسکی مجھے امید تھی لیکن اصلی طوفان تو ابھی آنا ہے۔” داؤد نے اسے مہمل کے ردعمل کا سوچ کر کہا تو وہ بولا۔
“تم سنبھال لینا سب اور اب کچھ اور سوچنا پڑے گا۔” شاہ نے پر سوچ انداز میں کہا۔
“میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ کام نہیں کرے گا۔” داؤد نے اسے یاد دلایا تو وہ بولا۔
“بس میں چاہ رہا تھا کہ ہو جائے کیونکہ وہ تمہاری سن بھی تو لیتی ہے۔”
“غلط وہ کسی کی نہیں سنتی ویسے تم وہ پلان کیوں نہیں آزماتے یقین کرو وہ کام کرے گا۔” داؤد نے اسے کہا تو وہ فوراً بولا “نہیں ایسا میں کبھی نہیں کروں گا۔”
“تم یقین کرو وہ صرف اسی پلان کو کامیاب کر سکتی ورنہ وہ ہر پلان ناکام ہی کرے گی۔” داؤد کے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
“وہ مجھ سے نفرت کرتی ہوگی۔” شاہ نے کہا تو داؤد ہنسا تھا اسکی ہنسی کھوکھلی تھی اسنے پھر شاہ کو کہا تھا۔
“کوئی شک نہیں اس میں لیکن وہ انتقام کی آگ میں اتنی اندھی ہے کہ وہ کوئی محبت قبول نہیں کرنا چاہتی اسے صرف نفرتوں کا بازار سجانا ہے۔”
“مگر۔۔۔۔۔” شاہ ہچکچایا۔
” شاہ مہمل خان کو مشوانی سے بہتر کوئی نہیں جانتا اسکی رگ رگ سے واقف ہوں میں یہ الگ بات ہے کہ کسی قابل نہیں ہوں میں۔
میری میٹنگ ہے ابھی بعد میں بات کرتا ہوں۔” داؤد نے عجیب لہجے میں کہا اور فون بند کر دیا۔
مجھے معلوم تھا محسن، وہ میرا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔
مگر دیکھو، مجھے پھر بھی محبت ہو گئی اس سے!
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
” نور تم پاگل ہو تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟” فون کے دوسری طرف سے کہا گیا
“میں جو کر رہی ہوں مجھے معلوم ہے۔ میرے باپ مت بنو تم میں اپنی مرضی سے کام کرنا چاہتی ہوں مجھے کرنے دو۔” نور نے غصے سے جواب دیا تھا۔
“تم شاہ کو کیسے چھوڑ سکتی ہو تمہیں معلوم ہے تم کس لئے گئی تھی اور اب تم شاہ کو بچا رہی ہو۔” دوسری طرف انتہائی غصے سے کہا گیا تھا۔
“ہاں بچا رہی ہوں کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔” نور نے آرام سے بے پرواہ لہجے میں کہا۔
” نور تم۔۔۔۔۔۔۔۔”
اس سے پہلے کے آگے سے کچھ کہا جاتا نور نے کہا۔ “گھر آ کر بات کرتی ہوں۔” اور فون بند کر دیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل گھر سے شدید غصے میں نکلی تھی وہ سیدھی داؤد کے آفس پہنچی تھی۔
“میڈم آپ کہاں جا رہی ہیں سر اس وقت میٹنگ میں ہیں۔” باہر بیٹھی لڑکی نے اسے روکا مگر وہ اسے دھکا دیتی سیدھا میٹنگ روم کے اندر داخل ہوئی تھی۔
داؤد جو پراجیکٹ پہ بات کر رہا تھا اسے دیکھ کر چونکا
اسے امید تو تھی کہ وہ آئے گی مگر اتنی جلدی یہ اسے اندازہ نہیں تھا۔
مہمل نے اسے دیکھا تو سیدھی اسکے پاس آئی اور اسکا گریبان پکڑ کر بولی “یہ کیا حرکت تھی مشوانی تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ گے۔”
“مہمل تماشہ مت کرو سب دیکھ رہے ہیں۔”
اسنے مہمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جو اسکے سامنے کھڑی اسکا گریبان پکڑے ہوئے تھی۔
“ان سب کو بھیجو یہاں سے مجھےبات کرنی ہے تم سے۔” مہمل نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا اور اسکا گریبان چھوڑا تھا۔
“معذرت مجھے کچھ ضروری کام ہے ابھی ہم بعد میں میٹنگ کریں گے۔” داؤد نے سب لوگوں کو کہا جو حیرانی سے سب دیکھتے وہاں سے جا چکے تھے۔
مہمل نے سب کے جانے کے بعد فوراً اسکو پکڑ کر دیوار سے لگایا تھا اور بولی۔
“کیوں کیا تم نے ایسا؟”
داؤد مسکرایا تھا جس پر مہمل تپی تھی۔
اچانک داؤد نے اسکو کلائی سے پکڑ کر گھمایا تھا اور اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ مہمل دیوار کے ساتھ لگی تھی اور داؤد اسکے سامنے کھڑا تھا۔
“تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا، تمہیں معلوم ہے میں اونچی آواز برداشت نہیں کرتا اور تم میرا گریبان پکڑنے چلی ہو۔” داؤد نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے سختی سے کہا تھا۔
مہمل دانت پیستی بس اسے دیکھ رہی تھی جب داؤد نے انتہائی غیر متوقع بات کی تھی جس کو سن کر مہمل کا دماغ صحیح معنوں میں گھوما تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...