آیت اور ولید حویلی واپس آگئے تھے اور ولید کی وہی روٹین تھی یونیورسٹی سے آفس پھر زمینوں پر ایک چکر لگانا۔ان کے خاندان کا بزنس بہت زیادہ تھا اور بابا جانی کی خواہش تھی کہ ولید ہر ایک ذمہ داری ابھی سے سنبھال لے۔ولید کے دو ہی دوست تھے جن کو اس نے ساتھ کام پر لگایا ہوا تھا۔دونوں ہی عام سے خاندان کے تھے۔خالد اور عاطف۔ عاطف سے ملاقات کم ہوتی مگر وہ بھی اس کی بہت مدد کرتا تھا۔آیت اس وقت لان میں بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی جب بابا جانی آئے۔
“میرا بیٹا کیسا ہے۔”
بابا جانی نے بہت پیار سے آیت کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔آیت نے فورا سے سر پر ڈوپٹہ لیا۔
“میں ٹھیک ہوں بابا جانی۔”
آیت فورا سے کتاب بند کر کے اندر جانے لگی۔
“میرا بچہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھ جائو نہ۔”
“نہیں بابا جانی مجھے ولید نے منع کیا ہے۔میں اگر اپنے کسی بھی گھر والے سے ملتی ہوں تو مجھے بہت سخت سزا ملتی ہے اور مجھ میں اب اور سہنے کی ہمت نہیں ۔آپ چچا اور چچی سے مل لیں اور پلیز مجھے ملنا چھوڑ دیں میں جینا چاہتی ہوں میری سانسیں چلتی رہنے دیں۔ روح آپ ختم کر چکے ہیں۔”
آیت اندر کی طرف بھاگ گئی۔پیچھے بابا جانی آوازیں دیتے ہی رہ گئے ۔حویلی میں بہت رونق تھی۔آج پورے ایک ماہ بعد مہر آئی تھی۔آیت کچن میں ہی تھی۔ سارا دن آیت کی چچی نے اسے بہت بار کمرے میں بھیجا۔آیت کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر تنگ آجاتی تھی اس لیئے اس نے خود کو کچن میں مصروف کر لیا۔مہر کی ہنسی اس کے دل کے زخم ہرے کر دیتی تھی۔اس کا بھائی اس کے ساتھ کتنا خوش بیٹھا ہوا تھا۔یہی سوچتے ہوئے یہ چمچا یہ ہانڈی میں ہلا رہی تھی وہ سٹیل کا ہونے کے باعث گرم ہوتے ہی اس کو جلا گیا۔ہاتھ سرخ ہوگیا تھا آیت کا۔اس نے چولہے کے بلکل قریب سے چمچ کا دوسرا سرا پکڑ کر ہانڈی سے باہر نکالا۔
“ارے خان بیگم آپ کا ہاتھ جل گیا ہے۔”
“کچھ نہیں ہوتا رہتا ہے تم کام کرو اپنا۔”
“کچھ لگا تو لیں۔”
“کہا نہ ٹھیک ہوں اپنا کام کرو ۔”
آیت سب کچھ چھوڑ کر باہر چلی گئی۔
“ارے ماں میں کیا بتائوں صبح شاہ بخت ہی مجھے اٹھاتے ہیں زبردستی۔اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں اور پھر مجھے ہسپتال بھی چھوڑ کر آتے ہیں ۔سب اتنے حیران ہوتے ہیں وہاں کہ میرے شوہر میرا کتنا خیال رکھتے ہیں ۔”
“ارے بس ایسے ہی میری بیٹی کا گھر بنا رہے۔بلکل بھی اپنے شوہر کو اپنے قابو سے مت نکلنے دینا۔تھوڑا تیار رہا کرو جتنا اس کے قریب رہو گی اتنا اچھا ہوگا۔”
“ارے مورے آپ پریشان کیوں ہوتی ہیں وہ تو میری مٹھی میں ہیں اور اس مٹھی کو کوئی کھول نہیں سکتا ۔آپ کو پتا پے میں نے کتنا انتظار کیا تھا کہ کب میری شاہ بخت سے شادی ہو۔اب نہ میں نے اس حویلی میں آنا نہ یہاں کے اصول مجھ پر اور میری اولاد پر لاگو ہوں گے۔”
“تیرے بابا جانی تو پوتے سے بہت محبت کرتے ہیں ۔”
“بس وہ محبت کرتے رہیں مگر ان کا پوتا میرا ہے۔ویسے ولید کا رویہ آیت کے ساتھ کیسا ہے۔یقین کریں مورے کبھی کبھی دکھ ہوتا ہے میری محبت کی خاطر وہ میرے جنونی بھائی کے ساتھ رہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ۔اب اس کی شادی ہو گئی ہے تو برداشت کر لے گی وہ بھائی کو بھی۔”
“ایسے نہ کہہ مجھے یقین ہے ولید اسے بڑی محبت دے گا۔تھوڑی پابندیاں لگاتا ہے آیت پر مگر خیال بھی اتنا ہی رکھتا ہے۔ہر دن اس کے لیئے کچھ نہ کچھ لاتا ہے اس کی ہر ضرورت بن مانگے پوری کرتا ہے۔”
“ارے مورے جیسے مجھے نہیں نہ پتا۔اس سے تو خاندان کی کوئی لڑکی شادی نہ کرتی یاد نہیں جب ایک بار ولید نے پھوپھی کی بیٹی کو مارا تھا بچپن میں تو کیسا شور مچایا تھا پھوپھو جی نے۔ وہ تو شکر ہے بابا جانی کے سامنے وہ کچھ نہیں بولتے تھے۔دادی خود تو چلی گئی ایک پاگل پیچھے چھوڑ گئی۔”
“چپ کر جا بھائی کے بارے میں ایسی باتیں کرتی ہے۔”
“جیسے میں تو اسے جانتی ہی نہیں نہ مورے۔تمہیں تو ایک گائے مل گئی ہے جو نہ تمہارے آگے کچھ بولتی ہے نہ سنتی ہے۔”
“بس کر مہر وہ بہت اچھی ہے۔تو اس سے بہت مختلف ہے میں نے اسے اپنی بیٹی مانتی ہوں۔”
آیت آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔کیا ان لوگوں کی خوشیاں ساری عمر یوں ہی برقرار رہیں گی۔کسی کا دل توڑنے والے کتنا خوش رہتے ہیں نہ۔آیت کے لیئے مہر کا یہ انداز نیا تو نہ تھا۔بچپن سے ہی تو اسے چھین کر لینے کی عادت تھی ۔اس کے ساتھ اس کی ماں تھی اور ابو تھے جو اس نے اس حویلی کے خلاف جا کر اپنی پسند سے شادی کی اور آیت کے ساتھ کون تھا۔۔۔۔کوئی بھی نہیں ایسی بے آسرا لڑکیوں کے ساتھ یہی تو ہوتا آیا ہے آیت جانتی تھی تو پھر رونا کیسا۔آج اس نے سوچا تھا کہ یہ ایک موبائل کا کہے گی ولید سے جس سے یہ اپنی سہیلیوں سے بات کر سکے تاکہ یہ سانس تو لے سکے اس فضا میں ۔
___________________________
اپنی الماری کو کھولے کھڑی آیت نے سوچا تھا کہ یہ بیٹھ کر کس چیز کا غم منائے۔اپنے بھائی اور بھابھی کو دیکھاتی کہ یہ ناخوش ہے اور ان کی آنا کو تسکین ملے۔یہ حیقیت ہے کبھی کوئی بھابھی یا کزن اپنی ہوئی اور بھائی جو بھابھیوں کے آنے کے بعد ہی بدل جاتے ہیں وہ بھی اپنے نہیں ہوتے۔مگر ماں باپ وہ تو اپنے ہوتے ہیں اور آیت کے ماں باپ۔۔۔۔آیت نے الماری سے پنک رنگ کا خوبصورت سا کام سے بھرا ہوا کرتا نکالا ۔یہ دل کھول کر تیار ہوئی۔ہاتھوں میں اس نے ڈائمنڈ کی جیولری پہنی تھی۔اس نے اپنے پیروں میں وہی پائل پہنی تھی جو شادی والی دن کی تھی۔یہ پیاری تھی مگر آج خود کو سوار کر یہ گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔اسے مہر کو دیکھانا تھا کہ یہ کمزور نہیں ہے ہر وقت روتی دھوتی عورتوں کی طرح ۔یہ مضبوط ہے اور مہر کی آنا کو یہ کبھی تسکین حاصل نہیں کرنے دے گے۔تیار ہوکر یہ باہر آئی۔نیچے اس کے ماں باپ بھی آئے تھے ان کی بھی دعوت تھی۔اس نے ہال میں قدم رکھا تو اسی لمحے ولید بھی آگے سے آیا۔مہر اور سب ان دونوں کی جانب متوجہ ہوگئے۔
“جان دل آج کس کا دل چرانے کا ارادہ ہے ہاں۔”
ولید نے اسے تھام کر پیشانی پر بوسہ دیا۔ولید اکثر ہی آفس سے واپسی پر اسے پیشانی پر بوسہ دیتا مگر آج پہلی بار سب کے سامنے اس نے آیت کو پیار دیا تھا۔
“میں فریش ہو کر آتا ہوں ان لوگوں سے ملنے کی ضرورت نہیں ۔”ولید آیت کے کان میں بھی کہہ گیا۔مہر کو نجانے کیوں ان کا کپل مکمل لگا۔حالانکہ شاہ بخت اس کے پیچھے پاگل تھا مگر آیت آج کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔آیت کچن میں چلی گئی اور ملازمہ سے ٹیبل پر کھانا لگاونے لگی۔
“لگتا ہے ولید تمہیں کچھ زیادہ ہی پیار کرتا ہے۔”
مہر آیت کے ساتھ ہی ٹیبل پر پلیٹیں رکھتے ہوئے بولی۔
“اب میرا شوہر ہے تو ظاہری سے بات ہے مجھے پیار ہی کرے گا نہ اس کی خان بیگم ہوں میں تو۔ مجھے خان بیگم بنانے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔یقین کرو مجھے خوشی ہوتی ہے ولید کی خان بیگم بن کر۔ اس حویلی کا عیش و سکھ سب میرا ہے۔نہ ولید ساری عمر شادی کرے گا نہ اس حویلی کا سکھ میرے پاس سے جائے گا ۔تم خان بیگم بھی نہیں بن سکتی اب لالہ دستار کے حقدار تو ہیں نہیں ۔دھیان رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کوئی اور ہی لالہ کو لے اڑے بڑے دل پھینک ہیں ۔”
“اب تمہاری طرح تو نہیں ہوں میں شکر ہے۔پتا ہے ہسپتال جاتی ہوں وہاں ہائوس جاب اتنی اچھی چل رہی ہے مگر تمہیں دیکھو نہ لالہ کے حکم پر گھر میں ہی رہنا پڑتا ہے۔”
“میرے لیئے میرا گھر ہی میری جنت ہے تم اپنی فکر کرو ۔سنا ہے جو عورتیں گھر پر دھیان نہیں دیتی شوہر کو کھانا وغیرہ بنا کر نہیں دیتی تو انہیں کسی اور کے ہاتھ کے ذائقے کی عادت پڑ جاتی ہے۔”
“تمہیں زیادہ پتا ہوگا شاید ولید سے بڑی جو ہو۔اسے قابو رکھنے کو تمہیں بہت جتن کرنے پڑتے ہوں گے۔اب ڈھلتی عمر کو بھی تو روکنا ہوگا نہ۔”
“بڑا ہی افسوس ہے مہر تم پر۔میرے پاس سب کچھ ہے مگر تمہارے پاس نہیں ۔کل کو تمہارے اور میرے بچے اسی حویلی میں کھڑے ہوں کے مگر لوگ جس کا نام لیں گے وہ خان ولید کے بچے ہوں گے تمہارے بچے تو شہری ہوں گے۔اپنے باپ دادا کی گدی کو سنبھالنے والے میرے بچے ہوں گے۔خیر تمہارا بہت شکریہ تم نے مجھے ولید دیا۔اس کی قربت بہت سکون بخش ہے۔مجھے اس کے پاس دنیا بھر کا سکون ملتا ہے جو شاید تم کبھی سمجھ پائو۔اپنے ساس سسر کو بلا لو کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا۔”
آیت نے سر پر ڈوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے مہر کو اور آگ لگائی۔یہ۔دونوں بچپن کی سہیلیاں بھی تھی مگر آیت مہر سے زیادہ خوبصورت تھی۔ضد میں کبھی کبھار آیت کی کوئی نہ کوئی چیز توڑ دیتی تھی مہر اور آج اس نے پوری کے پوری آیت کو ہی توڑ دیا تھا۔سانپ تھی یہ دوست کے روپ میں تو آج آیت نے اسے اس کی اصل اوقات دیکھائی تھی۔ ولید بھی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔آیت کی والدہ اور والد بیٹی کو دیکھ رہے تھے جس نے ان کو اور بابا جانی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ٹیبل پر سب کھانا ڈال رہے تھے۔شاہ بخت نے مہر کی پلیٹ میں کھانا ڈالا۔
“ارے جان دل آپ کا ہاتھ جل ہوا ہے اور آپ کام کر رہی تھی یہ تو غلط بات ہے نہ۔آئندہ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے جو چیز آپ کے لیئے اچھی نہ ہو۔”
“خان بس چھوٹی سے چوٹ لگ گئی تھی۔”
آیت کو ولید کے اس انداز پر حیرت ہورہی تھی جو بہن اور آیت کے گھر والوں کے سامنے بدل گیا تھا۔
” میں تمہیں کھلا دیتا ہوں۔”
“خان سب دیکھ رہے ہیں ۔”
“ارے ان سے لیا شرمانا۔اب وہ زمانے گئے جب ہم کمروں میں چھپ چھپ کر بیوی سے پیار کا اظہار کرتے تھے۔جب اس گھر کی بیٹیاں آواز اٹھا سکتی ہیں اپنی محبت کی خاطر تو بیٹے اپنی بیوی کو پیار کیوں نہیں جتنا سکتے۔ کیوں بابا جانی کیا کہتے ہیں آپ۔”
بابا جانی آگے سے مدہم سا مسکرائے۔ولید نے آیت کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانا شروع کیا۔شاہ بخت اور اس کے والدین خاموشی سے آیت کے ساتھ ولید کا لاڈ بھرا رویہ دیکھ رہے تھے۔مہر کو تو اندر سے آگ لگی ہوئی تھی شاہ بخت یوں سب کے سامنے اسے نہیں کھلا سکتا تھا ورنہ یہ ولید کو اچھا جواب دیتی۔ولید تمسخر سے ہنستے ہوئے مہر کی طرف دیکھنے لگا جیسے وہ اس کے دل کے جذبات جانتا ہو۔
“ولید بیٹا آیت کو بھیجو نہ کسی دن ہمارے گھر ۔مجھے آیت کی بہت یاد آتی ہے نہ یہ فون کرتی ہے نہ آتی یے۔ایسا لگتا ہے ہم نے بیٹی دی ہے تو اس سے ہمارا اب کوئی تعلق نہیں ۔”
“تعلق تو خیر سے واقع ہی نہیں ہے تائی۔فرصت ملتے ہی آیت کو لائوں گا میں آپ کی طرف۔”آیت خاموشی سے کھانا ولید کے ہاتھ سے کھا رہی تھی۔مہر جو سب کو دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کی زندگی خوبصورت ہے اب اس کا غصہ آسمان چھو رہا تھا۔
“آیت آپ کمرے میں چلیں میں آرہا ہوں۔”
“بیٹا کچھ دیر اسے میرے پاس بیٹھنے دو نہ۔”
آیت کی والدہ نے بڑی امید سے ولی سے التجا کی ۔
“نہیں تائی وہ دی ہے نہ مہر آپ کو اس سے باتیں کر لیں ۔مجھے نیند آرہی ہے اور آیت کے بغیر میں کمرے میں نہیں جائوں گا اس لیئے سب سے معذرت۔”ولید آیت کو تھامے ٹیبل سے اٹھ گیا۔سب دیکھتے ہی رہ گئے۔آیت کی والدہ نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی۔کمرے میں آتے ہی ولید الماری سے ٹیوب نکال کر لایا۔
“اگر ہاتھ جل گیا تھا تو کھانا بنانے کی کیا ضرورت تھی۔”
معمولی سا ہے کچھ نہیں ہوگا خان۔”
“بیٹھو یہاں میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے۔”
ولید کا رویہ سخت تھا۔آیت نے خاموشی سے ٹیوب لگاوئی۔
“میں چینچ کر لوں ۔”
“نہیں بیٹھو یہاں پر۔اتنے دنوں بعد تیار ہوئی ہو ایسا لگتا ہے کہ ہر وقت ماتم کرتی رہتی یو۔بیٹھی رہو یہاں ۔”
آیت خاموشی سے بیٹھ گئی۔ولید نے کوئی کتاب کھولی اور آیت کا سر اپنے سینے پر رکھوایا۔آیت کو الجھن ہو رہی تھی مگر وہ ولید ہی کیا جو آیت کی بات مان جائے۔
“صبح میرا ٹیسٹ ہے دعا کرنا اچھا ہو۔”
“آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں خان۔”
“جی بلکل کمرے میں کوئی اور نہیں ہے۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم جان بوجھ کر مجھے احساس دلاتی ہو کہ شادی تمہاری مرضی کی نہیں ہوئی۔”
“نہیں خان ایسا نہیں ہے۔”
“ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے جو چیز ایک بار خان ک ہوتی ہے وہ کسی کے پاس نہیں ہوسکتی تم تو پھر میری بیوی ہو۔سو جائو تم میں رات دیر تک پڑھوں گا۔”
ولید نے آیت کے اردگرد ایک بازو رکھا ہوا تھا ۔آیت تھوڑی دیر بعد سو گئی تھی۔جب آیت سو گئی تو ولید نے اس لٹایا ۔آیت اسے بہت پسند تھی اگر مہر وہ سب نہ کرتی تو آیت اس کے پاس ہوتی اسی رشتہ سے مگر مقررہ وقت پر۔مہر اور شاہ بخت نے اس کے دل میں نفرت کی دیوار بنا دی تھی یہ انسان تھا جس کی نیچر ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے اسے صیح اور غلط نظر نہیں آتا ۔ایسے ہی اسے بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ آیت کہیں نہیں جائے گی اور یہ ہمیشہ اسے سب سے دور ہی رکھے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...