ایک سال میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا تھا۔
نہیں بدلہ تھا تو وہ فہیم کا ندا کے ساتھ سرد رویہ تھا جو پہلے دن سے بر قرار تھا۔ فہیم کے ساتھ اب کوئی بھی اپنا تعلق رکھنے کے لئے راضی نہ تھا۔
دوست، چچا جان، چچی جان، ماں باپ اور سب سے بڑھ اس کی جان سے پیاری بہن۔
باقی سب اسے ندا کے ساتھ کئے گئے سلوک کے لئے تو معاف کر سکتے تھے مگر اس نے شعیب کی مدد کی، کسی کی بہن کی عزت کا سودا کیا، اس کے لئے کوئی بھی اسے معاف کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ عنایہ کو اپنے بھائی سے نفرت محسوس ہورہی تھی۔
اور فہیم اس سب کا قصوروار ندا کو ٹھہراتا تھا کہ نہ وہ اسے ٹھکراتی نہ یہ سب ہوتا۔
سعد نے رزلٹ کے آنے تک وقار صاحب کے ساتھ ان کے بزنس میں ہاتھ بٹایا تھا۔ مگر پھر رزلٹ کے آتے ہی اس نے تھوڑے چینج کے لئے باہر ملکوں میں جاب کے لئے اپلائی کردیا تھا۔ اسکے اچھے رزلٹ کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں اسے لندن سے ملٹی نیشن کمپنی سے کال آگئی تھی۔ اور اب وہ ایک عرصے سے لندن میں مقیم تھا۔
وہاں وہ وقار صاحب کے اپنے لئے بزنس ڈیلز کے لئے خریدے گئے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہتا تھا۔
کوکنگ جا شوق بھی اسے شروع سے تھا اس لئے شیف رکھنے کی بجائے اس نے خود کوکنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ابھی بھی وہ کچن میں کھڑا اپنے لئے پاستا بنا رہا تھا جب اس کے موبائل پر پاکستان سے سعدیہ بیگم کی کال آنے لگی۔
سعد نے مسکراتے ہوئے اپرن سے ہاتھ صاف کئے اور کال اٹینڈ کرکے سپیکر پر ڈال دی اور خود ساتھ ساتھ کام بھی کرتا گیا۔
” السلام علیکم ماما!! کیسی ہے آپ؟” سعد نے کال پک کرتے ہی سلام کیا۔
” وعلیکم اسلام۔ اللّٰہ کا شکر ہے بیٹا۔ تم سناؤ۔ کیسے ہو؟ کیا کر رہے ہو؟ پھر کچن میں گھسے ہوئے ہو کیا؟؟ سعدیہ بیگم نے آخری سوال ڈانٹنے والے انداز میں پوچھا تو سعد ہنس دیا۔
” میں الحمدللہ ٹھیک ٹھاک ہوں۔ اور آپ کو پتہ ہے نہ نجھے باہر کا کھانا زیادہ سوٹ نہیں کرتا اس لئے خود بناتا ہوں اور شوق بھی پورا کرتا ہوں” سعد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
” سعد میری جان.. کب تک ایسے خود کا اذیت دو گے۔ دوسروں کے کئے گئے جرم کی سزا خود کو کب تک دو گے” دوسری طرف سے سعدیہ بیگم کی دکھ بھری آواز سنائی دی تو سعد مو بھی افسوس ہوا۔ اتنے عرصے میں پہلی دفعہ سعدیہ بیگم نے یہ بات کی تھی۔
” ماما۔ مجھے سمجھ نہہں آئی آپ کیا کہنا چاہ رہی ہے؟” سعد جان کر انجان بن گیا۔ اس نے دھیمی آواز میں پوچھا تھا۔ کام کرتے اس کے ہاتھ سست پڑ گئے تھے۔
” سعد کب تک ایسے خود کھانا بنانے کا ارادہ ہے۔ کسی کو لے کیوں نہیں آتے جو اپنے ہاتھوں سے تمھیں کھانا بنا کر دیں اور تمھاری تنہائی بھی دور کردیں” سعدیہ بیگم کی بات سن کر اس نے گہری سانس لی اور کام روک کر پوری طرح سے فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔
” ہمم ٹھیک کہہ رہی ہے آپ۔ چلیں پھر ایسا کریں کہ آپ ہی کسی کو ڈھونڈ لیں جو صبح، دوپہر شام میرے لئے کھانا بنائے بھی اور اپنے ہاتھوں سے کھلائے بھی۔” سعد نے شرارتی لہجے میں کہا۔ دوسری طرف وہ خوشگوار حیرت لئے اس کی شرارت بھری بات سنی گئی۔ ورنہ اس کی شرارتیں تو اس دن نکاح کے ساتھ پی ختم ہو گئی تھی۔
” کیا ہوا ماما۔ مشکل کام کہہ دیا کیا۔ ” وہ انہیں خاموش دیکھ کر ایک بار پھر شرارت سے کہنے لگا۔
” ہاں۔۔ نہیں۔۔ بلکل نہیں۔۔۔ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔۔ بلکہ میں نے ڈھونڈ بھی لی ہے۔ تم پکی والی ہاں کرو تو میں اس سے بات کر لوں؟؟” دوسری طرف سے سعدیہ بیگم نے خوشگوار لہجے میں کہا تو سعد نے حیرت سے فون مو گھورا۔
” کیا مطلب۔۔ کب ڈھونڈی آپ نے۔۔ کون ہے وہ”
” تم پہلے بتاؤ۔۔ جس سے کہوں گی اس سے شادی کروں گے؟” سعدیہ بیگم نے مان بھرے لہجے میں پوچھا۔
” جی۔ مجھے معلوم ہے آپ میرے لئے کبھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کر سکتی مجھے یقین ہے” سعد نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مگر دوسری طرف سے نام سننے کے بعد وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔
” بولو؟؟ منظور ہے۔۔ بات کروں؟؟” سعدیہ بیگم نے اس کی حالت سے محفوظ ہوتے کوئے پوچھا۔
” نہیں۔۔ نہیں۔۔۔۔ مطلب ہاں۔۔ میں پہلے خود بات کروں گا۔ پھر دیکھے گے”
” Good۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ جیسے تمھیں ٹھیک لگیں۔ مگر جلدی کر لینا۔”
” جی۔ انشاء اللہ”.. اور پھر تھوڑی دیر اور بات کرکے اس نے فون رکھ دیا۔ فون رکھ کر وہ اس لڑکی کو سوچتے اپنا کام مکمل کرنے لگا۔
موئذ اور مایا اس وقت سعد کے گھر موجود تھے۔ ان دونوں کی فیملیز چونکہ ایک دوسرے کو سعد اور موئذ کے بچپن سے ہی جانتی تھی اس لئے ان دونوں فیملیز کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ موئذ کے والدین کی وفات کے بعد سعد کے والدین نے ہی ان کا خیال رکھا تھا۔ وہ دونوں بھی انہیں اپنے ماں باپ ہی سمجھتے تھے۔
اس وقت وہ سب ڈنر کرنے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔
” انکل اصل میں میں یہاں آپ سے ضروری بات کرنے آیا ہوں۔” موئذ نے چائے کے دوران ہی وقار صاحب کو مخاطب کر کے کہا۔
” ہاں بلکل ںیٹا بولو۔ کیا بات ہے؟”
” دراصل انکل مجھے بشنس ٹور پر لندن جانا ہے۔ میرے ساتھ آفس کے دو اور لوگ بھی ہوگے اور مجھے ان کے ساتھ ہی رہنا ہے پروجیکٹ کمپلیٹ کرنے کے لئے۔ اس لئے میں ماہی کو نہیں کے جا سکتا۔ اس لئے میں نے سوچا یہاں چھوڑ جاتا ہوں۔ آپ سے زیادہ اعتبار اور مجھے کسی پر بھی نہیں ہے آپ جانتے ہیں” موئذ اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔
” بلکل بیٹا۔۔ بلکل ٹھیک سوچا تم نے۔ ماہی میری بیٹی ہے۔ تم۔اچھا ہے میں بھی اکیلے بور ہو جاتی ہو۔ دونوں مل کر وقت گزاریں گے۔ تم بلکل بے فکر ہو کر جاؤ” سعدیہ بیگم نے محبت بھرے انداز میں ساتھ بیٹھی مایا کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ موئذ پر سکون انداز میں مسکرا دیا۔
” بہت شکریہ آنٹی۔ مجھے واقعی اب فکر نہیں رہے گی”
” کب کی فلائٹ ہے تمھاری؟” وقار واحب نے پوچھا۔
” کل رات کی۔ اور ایک ہفتے کا سٹے ہے وہاں پر۔۔ اور پھر واپسی انشاء اللہ۔۔ اور آنٹی آپ سعد کو مت بتائیں گا میرے لندن جانے کا۔ میں اسے وہاں پہنچ کر سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔”
” ٹھیک ہے بیٹا۔ وہ بھی خوش ہوجائیں گا”
” جی”… موئذ نے جواب دیا۔ اور پھر باتیں کرتے وقت گزرتا گیا۔ وہ تقریبا پونے گھنٹے بعد اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے جب فہیم کمرے میں داخل ہوا۔وہ اکثر ہی راتوں میں کافی لیٹ گھر آتا تھا۔ اندر آکر وہ ندا کو خلاف معمول جاگتا دیکھ کر وہ دک گیا۔ اور پھر اپنا بیگ وہی پھینک کر غصے سے اس کی طرف بڑھا اور ندا کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔
” مسئلہ کیا ہے تمھارے ساتھ ۔ ہاں۔ اس طرح میرا انتظار کر کے کیا ثابت کرناچاہتی ہو تم۔ سب کی نظروں میں مظلوم بن کر اور مجھے ظالم ثابت کر کے سمجھتی ہو کہ بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے۔ ایک لمحہ لگے گا مجھے تمھیں سب کے سامنے مجرم ثابت کرنے میں۔ تمھاری وجہ سے ہوا جو بھی ہوا۔نہ تم مجھے ریجیکٹ کرتی نہ مجھے شعیب کی مدد لینا پڑتی نہ مجھے شعیب کی مدد کرنی پڑتی اور نہ ہی میری بہن اغوا ہوتی۔ سب صرف اور صرف تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔ تم ہو فساد کی جڑ..” فہیم کی گرفت ندا کے بازو پر سخت ہوتی جا رہی تھی۔
” یہ سب تمھاری گھیٹہ دماغ کی گھٹیہ سوچیں ہیں جن میں تم خود ہی پھنس کر رہ گئے۔ تم اس وقت خود نہیں جانتے کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے تمھیں۔ مجھے قصوروار ٹھہرانے سے اچھا ہےکہ پہلے اپنی اس غلطی کو پہچانو جس کی وجہ سے سب تمھیں نظر انداز کرتے ہیں، تم پر غصہ ہے اور پھر جا کر سب سے معافی مانگو۔ اس طرح مجھ پر چلانے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جو حقیقت تم اپنی نام نہاد انا کی وجہ سے قبول نہیں کرتے کہ تم تو غلط ہو ہی نہیں سکتے اسے قبول کرو۔۔ پہچانو۔ اس غلطی کو قبول کرو۔ تمھیں معلوم ہے مکافات عمل کسے کہتے ہیں۔ وہی جو تمھاری بہن کے ساتھ ہوا۔ تم کسی اور کی بہن کی زندگی برباد کرنے جا رہے تھے اور دیکھو وہ تمھاری اپنی بہن۔۔” ندا فہیم کی بات کاٹ کر چلاتے ہوئے بولی تھی۔ اس بات فہیم کے اندر مزید سننے کی سکت نہ رہی تھی۔ وہ اس کی بات بیچ میں ہی جاٹ کر چلایا۔ ندا کو زورداد جھٹکا دے کر اپنے قریب کیا۔
” بکواس بند کرو۔۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا میری بہن کو۔۔۔ خبر دار جو آئیندہ اس کا نام بھی لیا اپنی اس زبان سے۔ ورنہ کاٹ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گا میں تمھارے” یہ کہہ کر اسے جھٹکے سے خود سے دور کرکے بیڈ پر گرا دیا۔ اسے دھکہ دے کر وہ مڑا تو ٹٹھک کر رک گیا۔
” کیوں چپ کروا رہے ہیں بھابھی کو آپ۔ اپنی سچائی سنی نہیں جارہی کیا آپ سے۔ بس اتنی سی ہمت تھی آپ کے اندر۔ بس اتنی ہی ہمت ہوتی ہے آپ سب مردوں میں۔ زرا سا بھی سچ اپنے بارے میں آپ لوگ سہہ نہیں سکتے۔ پھر تو مجھے داد دینی چاہئے بھابھی کو جو پہلے فن سے آپ کو سہہ رہی ہے وہ بھی بے گناہ ہوتے ہوئے۔ شرم آنی چاہئے آپ کو۔ نفرت کرتی ہوں میں آپ سے۔ چلے جائے یہاں سے آپ۔ ہم سب سے دور چلے جائے” عنایہ جو دروازہ کھلے ہونے کی وجہ سے ندا کی آواز سن کر وہاں آئی تھی ندا کی بات سن کر وہی کھڑی رہ گئی تھی۔ اس سے مزید برداشت نہ ہوا۔ آج وہ اپنے عزیز از جان بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی نفرت کا اظہار کررہی تھی۔ فہیم صدمے کی حالت میں کھڑا اپنی بہن کے منہ سے اپنے لئے نفرت کا اظہار سنے گیا۔ ندا بھی گرنے کے بعد خود کو سنبھال کر کھڑی یو چکی تھی۔ عنایہ کی آواز سن کر وہاں حسن صاحب اور شگفتہ بیگم بھی آچکی تھی۔ جبکہ اپنی بات مکمل کر نے عنایہ روتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔ حسن صاحب نے افسوس بھری نظر سے فہیم مو دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ شگفتہ بیگم بھی ان کے پیچھے کمرے سے چلی گئی۔ فہیم نے فرش پر پھینکی اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور ایک بھی نظر ندا پر ڈالے بغیر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے جب سعد نے گاڑی اپنے اپارٹمنٹ کے سامنے روکی۔اس وقت بارش ہو رہی تھی اس لئے وہ ادھر ادھر دیکھےبنا ہی تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ اندر آکر اس نے اپنا گیلا کوٹ اتار دیا اور لگی کنٹی پر ٹانگ دیا۔ جوتے بھی اس نے وہی اتار دیے تھے کیونکہ وہ بھی گیلے ہو چکے تھے۔
یہ کوریڈور تھا۔ تھوڑا آگے جا کر مڑنے پر وہاں چھوٹا مگر فرنشد لاؤنج تھا۔
سعد راہداری سے اندر آیا تو وہاں صوفے پر بیٹھی شخصیت کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔
موئذ بھی سعد کو دیکھ کر مسکرا کر کھڑا ہوا۔
“What a pleasant surprise!
تو کب آیا۔ بتایا بھی نہیں مجھے” سعد بے اختیار آگے بڑھ کر اس سے
لپٹ گیا تھا۔ وہ لوگ ایک لمبے عرصے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔
” آج صبح ہی پہنچا ہوں یہاں۔ تجھے بتا دیتا تو تیرا یہ خوشی سے چمکتا چہرہ کیسے دیکھ پاتا میں۔ ویسے تو یہاں آکر اور بھی ڈیشنگ ہو گیا ہے۔” موئذ نے شرارتی لہجے میں کہا تو وہ بے اختیار ہنس دیا۔ اس وقت وہ بلیک دریس پینٹ اور بلیک ہی شرٹ پر رائل بلیو کلر کی ٹائی لگائے اور بڑھی ہوئی داڑی کے ساتھ واقعی خوبصورت لگ رہا تھا۔ اور آنکھوں پر لگی گول فریم والی بڑی عینک اس کی وجاہت میں اضافہ کررہی تھی۔
” ہاہاہا۔۔۔ چل بس کر۔۔۔ اب کیا نظر لگائیں گا تو مجھے” وہ دونوں اب صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔
” اور بتا۔ کیسے آنا ہوا۔ مایا کو اکیلا چھوڑ آیا ہے کیا۔ اور اور تجھے میرے گھر کا پتہ کیسے چلا۔ اور اندر کیسے آگیا تو” سعد نے ایک ساتھ کہی سوالات کئے تو مویذ ہنس دیا۔
حوصلہ بھائی حوصلہ۔ سب بتاتا ہوں۔ پہ پہلے کھانے کے لئے لے کر آ کچھ بھوک لگی ہے مجھے ”
” ہاں ہاں پیزا آدڈر کردیا تھا میں نے راستے میں اب آتا ہی ہوگا۔ اتنا تو مجھے جواب دیں”
” اچھا بابا۔ مایا کو انکل آنٹی کے پاس چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں میں آفس کے کام سے آیا ہوں دو اور لڑکوں کے ساتھ۔ اور مجھے ان کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اور تیرے گھر کا اڈریس میں نے انکل سے ہی لیا اور ڈپلیکیٹ چابی بھی ان سے ہی لی۔” موئذ نے بتایا تو سعد نے گھور کر اسے دیکھا۔
” ہمم۔۔۔ اچھا رک زرا میں چینج کر کے آتا ہوں۔ پھر آرام سے بات کریں گے۔” یہ کہہ کر سعد اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ موئذ مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھتا رہا۔
فہیم رات کے ڈھائی بجے چھت پر بیٹھا ایک کے بعد ایک سگریٹ پئیے جا رہا تھا… وہ چین سموکر تھا۔ غیر مرائی نقطے پر نظریں جمائے وہ گہری سوچ میں گم تھا۔
” نفرت کرتی ہوں میں آپ سے” عنایہ کا کہا گیا جملہ اس کے کانوں میں بھیجا۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وقت کو پیچھے لے جا کر سب کچھ ٹھیک کردے. سب کچھ ہاتھ سے جیسے پھسل گیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی کچھ ٹھیک نہیں کر پا رہا تھا۔
” یہ سب تمھادے گھٹیہ دماغ کی گھٹیہ سوچیں ہیں جن میں تم خود پھنس کر رہ گئے ہو” ندا کے کہے الفاظ اس کے دماغ سے ٹکرائے تھے۔
” ہاں ٹھیک کہا تم نے۔۔ مین واقعی خود میں ہی بری طرح سے الجھ گیا ہوں۔ مجھ سے میرے رشتے سب دوست چھن گئے۔ کس کو پکارو مدد کے لئے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ کیا کرو میں” اس نے آدھی پی ہوئی سیگریٹ کو بوٹ تکے مسل دیا تھی۔
” اللّٰہ۔۔ اللّٰہ کو بتاؤ اپنے دل کا حال۔ اس سے مدد مانگو۔ وہی تمھارا یارومددگار ہے” اس کے اندر کہیں بہت دور سے سرگوشی کی گئی تھی۔ وہ سر جھٹکتا اٹھ کھڑا ہوا۔ ضمیر ملامتی نظروں سے جاتا دیکھتا رہا۔
ندا سب کے کمرے سے چلے جانے کے بعد مضطرب انداز میں بیڈ پر آکر بیٹھ گئی تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ فہیم تقریبا ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تھا۔ واپس آنے کے بعد بھی وہ کمرے میں نہیں آیا تھا۔
” نجانے وہ کہاں ہے..”ندا نے بے چینی سے پہلو بدلہ تھا۔ کہیں بار اس کا دل کیا کہ وہ خود جا کر اس کو دیکھے مگر اس کی عزت نفس اس چیز کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اتنی زلالت کے بعد وہ اس وقت اس کا سامنا بلکل نہیں کرنا چاہتی تھی۔
تقریبا ایک گھنٹے بعد اسے باہر سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ فورا دروازے کی طرف پشت کئے کروٹ لے کر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر کے سوتی ہوئی بن گئی۔
فہیم بھی چپ چاپ اندر آکر الماری سے اپنے کپڑے لے کر باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔ ندا نے گہری سانس لی۔