نماز پڑھ کر وہ گھر کو لوٹا۔۔۔۔
سامنے جاناں لان میں چہل قدمی کر رہی تھی ۔۔۔
مسکراتا ہوا وہ اسکے پاس آ ٹھہرا
۔۔۔۔۔
بس کر دو۔۔۔۔
اتنا چلو گی تو تھک جاؤ گی ۔۔۔
اسکو مسلسل واک کرتا دیکھ کر اس نے بولنے میں پہل کی۔۔۔۔
نہیں تھکتی میں۔۔۔۔!
وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔
مگر اسکی آواز سے جھلکتی نمی جان سے چھپی نا رہ سکی۔۔۔۔
جان جاناں۔۔۔؟؟
رو کیوں رہی ہو تم۔۔۔؟؟
اسکا رخ اپنی طرف موڑتے ہوئے وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
تم۔۔۔۔!!
تم وجہ ہو میرے رونے کی۔۔۔۔
اسکے ہاتھ اپنے شانے پر سے ہٹاتی وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔
“میں ہمیشہ تمھارے ہنسنے کی وجہ بننا چاہتا ہوں جان جاناں ۔۔۔۔
رونے کی نہیں۔۔۔۔”
وہ ذرا تھکے تھکے لہجے میں بولا ۔۔۔۔
وہ خاموش رہی۔۔۔۔
کیا چاہتی ہو ۔۔؟
جان کو بتاؤ۔۔۔۔
میں دنیا کی ہر خوشی تمھارے قدموں میں ڈھیر کر دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔
مجھے مما بابا کے پاس جانا ہے ۔۔۔
ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتی وہ ذرا التجائیہ لہجے میں بولی ۔۔۔
بس۔۔۔۔؟؟ اتنی سی بات۔۔۔؟؟ جاؤ تیار ہوجاؤ پھر ۔۔
اتنی سی بات کے لئے تم نے اپنے اتنے قیمتی آنسو ضائع کئے۔۔۔
وہ ناراضگی سے بولا۔۔۔۔
جاناں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔۔
یہ شخص چاہے اسے ستاتا تھا۔۔۔۔ رلاتا تھا ۔۔۔۔
مگر اسکے ہر انداز میں اسکے لئے محبّت ہوتی تھی۔۔۔۔
سچی۔۔۔۔؟؟
اسے لگا شاید جان پھر سے اسے تنگ کر رہا ہے۔۔۔
مچی۔۔۔۔!! جاؤ ریڈی ہو جاؤ۔۔۔۔
ہم نکلتے ہیں۔۔۔۔
پھر مل کہ واپس آ جائیں گے۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔
وہ خوشی سے اندر بھاگ گئی۔۔۔۔
جان یوسف کون تھا اسکے ساتھ کیوں تھا فلحال اسے یہ سب بھول گیا تھا
______________________________
السلام و علیکم۔۔۔۔۔!!
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اونچی آواز میں بولی۔۔۔۔
جاناں بیٹی۔۔۔۔۔؟؟
نور بیگم کچن سے نکلتیں خوشی سے اسکی طرف لپکیں۔۔۔۔
اسکے پیچھے جان بھی داخل ہوا۔۔۔
میری بچی۔۔۔۔؟؟
کیسی ہو۔۔۔۔؟؟
اسے اپنے ساتھ لگاے وہ بے تابی سے اس سے پوچھ رہی تھیں۔۔۔
کیسے ہو بیٹا۔۔۔۔؟؟
انہوں نے جان کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
الحمدلللہ ٹھیک ٹھاک۔۔۔!
وہ نرمی سے بولا۔۔۔
بابا۔۔۔۔۔
باپ کو دیکھ کر جاناں انکی طرف لپکی۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے بیٹی کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
شور کی آواز سن کر عامر کمرے سے نکلا۔۔۔
سامنے جاناں اور جان کو ساتھ دیکھ کر اسکی آنکھیں جل اٹھیں۔۔۔
سکن اور پرپل کلر کے امتزاج میں مکمل جوڑا پہنے جاناں چہکتی ہوئی اکرام صاحب سے لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔
اور وہ خوشی سے رو رہے تھے۔۔۔۔
ساتھ ہی جان صوفے پر بیٹھا ٹانگ پے چڑھاۓ مسکراتا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
اسکی مسکراہٹ سے عامر کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
اسکے ایک ایک انداز سے شاہانہ پن جھلکتا تھا۔۔۔۔
گہری سانس لے کر اس نے خود کو کمپوز کیا۔۔۔۔
اور شرافت کا لبادہ اوڑھے انکے پاس چلا آیا۔۔۔۔
سب سے پہلے جان کی نظر اس پر پڑی۔۔۔۔
ایک تمسخرانہ مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ وہ اسے دیکھنے لگا ۔۔
جاناں کے چہرے پر نفرت اور دکھ جھلکنے لگے ۔۔۔
اسے اب عامر کی موجودگی اسکی شکل سے بھی نفرت محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔
جھکی جھکی نظریں لئے اس نے مصافحہ کے لئے جان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔
جوابا وہ اٹھا اور اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔
عامر تو عامر۔۔۔۔ وہاں پر بیٹھے تمام نفوس حیرت سے کنگ ہوگئے۔۔۔
ارے آپ سب خاموش کیوں ہو گئے ۔
قمیض جھاڑ کر بیٹھتا وہ ذرا حیرانی سے سب سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
عامر اپنی حیرت چھپاتا وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔
چلیں میں آپکو ایک شعر سناتا ہوں۔۔۔۔ امید ہے آپکو پسند آۓ گا۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا
” عامر کو اپنے بچوں کا ماموں بنانا چاہتا ہوں۔۔۔
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔۔”
کس قدر مصومیت تھی اسکے لہجے میں۔۔۔
پہلے پہل تو بلکل خاموشی چھا گئ۔۔۔
اور پھر بے ساختہ اکرام صاحب کا قہقہہ گونجا۔۔۔۔
نور بیگم کچن کا کہ کر وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔
جب کہ جاناں کا چہرہ ہنسی روکنے کی شدّت سے لال ہو رہا تھا۔۔۔
اسکا بدمعاش شوہر کہیں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔۔۔۔
سرخ چہرہ لئے عامر نے جان کی طرف دیکھا جو بجاۓ مسکرانے کے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے وہ اٹھا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔
______________________________
دن گزرتے گئے۔۔۔۔
جان اور جاناں کی اجنبیت بلکل ختم ہوتی گئی۔۔۔۔
جاناں جو پہلے اس سے نفرت کا بھرم بھرتی تھی۔۔۔۔
خود ہی اسکی محبّت کے پنجرے میں قید ہوگئی۔۔
وجہ اسکی بے پناہ پاکیزہ محبّت تھی۔۔ ۔ اس نے کبھی جاناں سے اپنا حق نہیں مانگا تھا۔۔۔۔
تھوڑی بہت نوک جھوک بھی ان کے بیچ چلتی رہتی تھی۔۔۔۔
وہ ہر روز اسے مما بابا سے ملوانے جاتا تھا۔۔۔۔
ہر روز رات کو گھر واپس آنے کے بعد اسکے لئے گفت لاتا تھا۔۔۔۔
کوئی دن ایسا نہیں تھا۔۔۔۔جب وہ اسکے لئے گفت نا لایا ہو ۔۔۔۔بظاہر تو وہ ناک منہ چڑھا کر تحفہ تھام لیتی تھی۔۔۔۔ مگر دل تھا کہ خوشی اور محبت سے بھر جاتا تھا۔۔۔۔۔
جب کبھی وہ اسے گھر سے باہر گھمانے لے کر جاتا تو اپنے ہاتھوں سے اسے چادر اوڑھاتا تھا ۔۔۔
اور اسکی یہی عادت تھی۔۔۔۔ جس نے جاناں کو اسکی طرف مائل کیا تھا۔۔۔ اسکی قدر تھی جو جاناں کے دل میں بڑھ جاتی تھی۔۔۔
یہ ستائسواں روزہ تھا۔۔۔۔۔
جان بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔۔۔۔۔
عصر کا وقت تھا۔۔۔۔
وہ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بناتی کچن میں پہنچی۔۔۔
ملازمہ سارے کام کر کہ جا چکی تھی۔۔۔
پتیلی پر سے ڈھکن اٹھا کر وہ کھانے کی مہک محسوس کرنے لگی۔۔۔۔
جوں ہی اس نے لاؤنچ میں قدم رکھا۔۔۔۔
وہاں عامر پہلے سے موجود تھا ۔۔۔
تم اور یہاں۔۔۔۔؟؟
وہ عامر کو دیکھ کر ٹھٹھکی۔۔۔
ہاں میں جان سے ملنے آیا تھا ۔۔۔
کہاں ہے وہ۔۔۔؟؟؟
ضروری کام تھا۔۔
وہ مسکراتے ہوئے جاناں سے پوچھنے لگا ۔۔
گھر پر نہیں ہے وہ ۔۔۔تم جاؤ یہاں سے۔۔
اسے عامر کی موجودگی سے ڈر لگنے لگا۔۔۔
ساتھ ہی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔
کہ سامنے پڑے صوفے کو نا دیکھ سکی ۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ گرتی۔۔۔۔
عامر نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔۔۔۔
جاناں کی کمر اسکی بازو پر ٹکی ہوئی تھی۔۔
ایک جھٹکے سے وہ اس سے دور ہوئی۔۔۔۔
پورا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا تھا۔۔۔۔
وہ واپس کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔
کہ عامر نے اسکا پلو پکڑ کر اسے روک لیا۔۔۔۔
بس تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔
اتنا کہ کر وہ رکا نہیں۔۔۔۔وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
ایک نا ختم ہونے والی بے چینی نے اسے آ گھیرا ۔۔۔۔
بھاگ کر وہ کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
اور اندر گھس کر کنڈی لگا لی۔۔۔۔
______________________________
سنئیے جی۔۔۔۔
آپ نے دیکھا تو ہوگا ہماری جاناں کتنی خوش لگ رہی ہوتی ہے روز۔۔۔۔
میں کہتی تھی نا آپ سے۔۔۔۔قدرت کے ہر فیصلے میں حکمت ہوتی ہے۔۔۔۔
یقین مانیں۔۔۔ اپنی بیٹی کو چہکتا دیکھ کر میرا تو سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔
چاۓ کا کپ اکرام صاحب کو پکڑا کر وہ انکے ساتھ ہی بیٹھ گئیں
اکرام صاحب کے چہرے پر خوشی سے بھر پور مسکان آ ٹھہری ۔۔۔
ٹھیک کہتی ہو بیگم۔۔۔۔
جان واقع ہی بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔
انکے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔۔۔
بھئ ہم تو پوری رسمیں کریں گے۔۔۔۔۔
خالی ولیمے پے نہیں ٹرخانا اس خوشی کو۔۔۔۔
وہ ان سے اپنی خوشی شیئر کرنے لگیں۔۔۔۔
وہ دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔
اس بات سے انجان کہ دو حسد سے بھری نظریں انکی خوشیوں کو آگ لگانے کو کافی تھیں۔۔۔۔۔
______________________________
سنو پھولوں کے زیور کا ایک مکمّل سیٹ دو۔۔۔۔
اور تمھارے پاس جتنے بھی گجرے ہیں سب پیک کرو۔۔۔۔۔
بٹوے سے ہزار کے کئ کڑک دار نوٹ نکالتا وہ مصروف انداز میں پھولوں والے سے مخاطب تھا ۔ ۔
یاسر مسکراتے ہوئے اپنے باس کو دیکھنے لگا ۔۔۔
جو روز اپنی بیگم کے لئے گفت اپنے ہاتھوں سے لیتا تھا ۔۔۔۔۔
یہ لو یہ سارے رکھ لو۔۔۔۔
دکان دار کے ہاتھ میں پیسے تھماتا وہ سیل نکال کر مسیج چیک کرنے لگا۔۔۔۔
اسکے “خاص بندے” کا مسیج تھا ۔ ۔
کچھ پکس اسے سینڈ کی گئی تھیں۔۔۔۔
وہ وہیں کھڑا انہیں اوپن کرنے لگا۔۔۔۔
انہیں دیکھتے ہی جان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔
جبڑے تن گئے تھے۔۔۔۔
عامر اور جاناں کی اتنی قریب کی تصاویر دیکھ کر اسے اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
پھولوں کو وہیں پھینکتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
یاسر بوکھلا کر اسکے پیچھے بھاگا ۔ ۔۔
اس عامر کو تو میں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔
مگر جاناں تم اپنی خیر مناؤ ۔۔۔۔!!
سرخ آنکھوں سے سامنے کی طرف گھورتا وہ تصور میں جاناں سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔ جان کو غصہ بہت کم آتا تھا۔۔۔۔مگر جب بھی آتا تھا تباہی لاتا تھا۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...