حسن بھی اندر کمرے میں آگئے تھے رومانہ نے اک نظر انکو دیکھا پھر روشانے کو۔۔۔۔۔ روشانے نے اسکو پھر اپنے سینے سے لگالیا۔۔۔۔ رومانہ بھی رورہی تھی آج حقیقی معائنوں میں اسکو اسکی ماں مل گئی تھی۔۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر حسن کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور انہوں نے کہا۔۔” جس کو میں بیٹی بناکر لایا تھا وہ تو حقیقت میں میری ہی بیٹی نکلی۔۔۔۔۔ رومانہ روتے ہوئے اپنی ماں سے الگ ہوئی وہ دونوں اک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھی رہیں پھر روشانے نے کہا چلو کھانا کھاؤ چل کے میں آج خود کھلاؤں گی اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھ سے۔۔۔۔۔ وہ تینوں اٹھ کر کھانے کی ٹیبل کے پاس چلے گئے تھے۔۔۔۔روشانے نے رومانہ کو اپنے ساتھ والی کرسی پہ بٹھایا اور اسکو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے لگی۔۔۔۔۔ رومانہ سے ضبط نہ ہورہا تھا وہ تو ماں باپ کے وجود کو ترس گئی تھی، پھر رونے لگی۔۔۔ روشانے نے اسکو سنبھالا اور کہا میری جان۔۔۔۔ میری گڑیا بس اب نہیں رونا۔۔۔۔۔ اب تمہاری ماں تمہارے پاس ہے نا اب کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔۔!!!
آسیہ بیگم رومانہ سے ملکر سونے کے لیے جاچکی تھیں اور سرمد آغا بھی جلدی سوجاتے تھے اسلیے ان دونوں کو اس واقعہ کا کچھ علم نا ہوسکا تھا۔۔۔۔۔
اس رات روشانے نے رومانہ کو اپنے ساتھ سلایا۔۔۔۔۔ صبح فجر کے وقت آسیہ اور سرمد اٹھ گئے تو روشانے نے رومانہ کے بارے میں بتایا جس پہ وہ بھی اس سے مل کے بہت خوش ہوئے اور آسیہ بیگم بھی اس پہ صدقے واری جارہی تھیں۔۔۔۔
******
روشانے نادر شاہ کے کمرے سے نکل کر باہر کی طرف جانے لگی تو اسکو اپنے بیگ کا خیال آیا اسنے ڈرائنگ روم سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگی اسکے بیگ میں اسکے فلیٹ کی چابی بھی تھی وہ بھاگتے بھاگتے اپنے فلیٹ پہ پہنچی اور دروازے کا لاک کھولا پھر اندر گئی الماریاں کھولیں مگر وہاں اک روپیہ بھی نہیں ملا اسکو۔۔۔۔۔ شاہ میر جاتے ہوئے سب کچھ لے گیا تھا۔۔۔۔۔ مگر اسکو علم نا تھا کہ شاہ میر مر چکا ہے۔۔۔۔۔ وہ اک بیگ میں چندضرورت کی اور ادھر رکھی ہوئی کچھ قیمتی چیزیں، اور اپنے کپڑےرکھنے لگی کہ ضرورت پڑنے پہ ان چیزوں کو بیچ سکے۔۔۔ اور پھر اپنے کمرے میں آئی جہاں شام تک وہ اپنی بچی کے ساتھ تھی۔۔۔ مگر اب اسکی بچی پتہ نہیں کہاں تھی۔۔۔ نادر شاہ نے بتایا تھا کہ شاہ میر اسکو اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔۔۔۔ وہ یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہورہی تھی کہ پتہ نہیں وہ میری بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرے گا کیا حال کرے گا میری بچی کا۔۔۔۔۔۔ اسکو رونا آرہا تھا مگر وہ وہاں بیٹھ کر اپنا وقت مزید برباد نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ شاہ میر نے تو سوچا ہوگا کہ اسنے مجھے نادر شاہ کے حوالے کردیا تو اسکے بعد میں تو اپنی جان دےدوں گی مگر یہ شاہ میر کی بھول تھی میں اپنی عزت کا سودا کبھی نہیں کرسکتی۔۔۔ وہ یہ سب خود سے کہنے لگی اور اس فلیٹ سے باہر نکل آئی اور دروازہ بند کردیا۔۔۔۔ اب جو بھی ہوتا اس فلیٹ کا اسکو کیا پرواہ۔۔۔۔۔
رات کے نو بج رہے تھے اس وقت کوئی سواری ملنا بھی مشکل تھا مگر اسنے ہمت نا ہاری اور وہ چلتی گئی مین روڈ تک جیسے تیسے پہنچ گئی مگر وہاں کوئی سواری نظر نہیں آرہی تھی وہ پریشان ہورہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔۔ پیدل چلنے کے سوا کوئی راستہ نا تھا وہ اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہتی تھی اور ادھر سے انکے گھر کا کافی فاصلہ تھا سو وہ پیدل ہی چلنے لگی۔۔۔۔۔ تقریبا اک گھنٹہ لگتا اسکو وہاں پہنچنے میں اور وہ آزاد تھی اب اسکی خوشی میں اسکو اس تھکن کی بھی پرواہ نہیں تھی۔۔۔۔ وہ چلتی چلی جارہی تھی۔۔۔۔ تھک گئی تو تھوڑی دیر رک گئی اور اک جگہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ مگر پھر اٹھی اور چل پڑی۔۔ اور آخر کار وہ اپنے ماں باپ کے گھر کے پاس پہنچ گئی مگر جتنی تھکن اسکو پیدل چل کر آنے میں ہوئی تھی اس سے زیادہ گھر کے گیٹ پہ تالا دیکھکر ہورہی تھی وہ حیران پریشان دیکھ رہی تھی کہ امی بابا یہ لوگ کہاں گئے۔۔۔۔؟؟؟ اسنے برابر پڑوس کے گھر کا دروازہ بجایا انکی پڑوس بھی بہت اچھی تھی نفیسہ اکثر جاتی رہتی تھیں انکے گھر۔۔۔۔۔۔ دروازہ انکے چھوٹے بیٹے نے کھولا اسنے جیسے ہی روشانے کو دیکھا اک دم چلایا۔۔۔ امی امی روشانے باجی آگئیں۔۔۔۔۔ اسکی امی بھی اندر سے آگئیں اور حیران ہوتے ہوئے کہنے لگیں۔۔” روشانے بیٹا تم۔۔۔۔۔ آؤ اندر آؤ۔۔۔۔۔
آنٹی امی بابا سعد یہ لوگ کہاں ہیں۔۔۔ تالا کیوں لگا ہوا ہے گھر کے باہر۔۔۔؟؟ روشانے باہر کھڑے ہوکر ہی پوچھنے لگی۔۔۔۔ انہوں نے کہا بیٹا تم اندر آجاؤ میں بتاتی ہوں تمہیں سب۔۔۔۔!!! روشانے کا دل کسی انہونی کے ہونے کا سوچ کر ڈر رہا تھا وہ اندر چلی گئی۔۔۔۔ وہ اسکے لیے پانی لیکر آئیں۔۔۔۔ اس نے گلاس انکے ہاتھ سے لیا اور پانی پینے لگی اسکو پیاس بھی لگ رہی تھی۔۔۔۔ پانی پینے کے بعد وہ اس سے پوچھنے لگیں۔۔۔”بیٹا تم کچھ کھاؤ گی کھانا لگواؤں تمہارے لیے۔۔۔؟؟؟
آنٹی آپ بتائیں نا کہ یہ سب کہاں گئے۔۔۔؟؟؟؟ روشانے نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
بیٹا ایسا کرو تم منہ ہاتھ دھولو میں کھانا لگاتی ہوں تمہارے لیے۔۔۔۔ پڑوس والی آنٹی نے کہا۔۔۔۔
آنٹی پلیز آپ بتائیں مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟ آپ مجھ سے کیا چھپا رہی ہیں۔۔۔؟؟؟ پلیز مجھے سچ سچ بتادیں۔۔۔۔۔ روشانے منتی لہجے میں بولی۔۔۔
وہ آنٹی سوچنے لگیں کہ کیسے بتائیں وہ روشانے کو سب۔۔۔۔۔!!!
آنٹی پلیز بتائیں کیا سوچ رہی ہیں۔۔۔؟؟؟
بیٹا بات ہی کچھ ایسی ہے ۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔۔۔!!!
کیا بات ہے۔؟؟ مجھے بتائیں۔۔۔۔
روشانے نے جلدی سے کہا۔۔۔!!
بیٹا تمہارے یہاں سے جانے کے چند مہینے بعد تمہاری امی کی دیتھ ہوگئی تھی اور تمہاری پھپھو تمہارے ابو کو اپنے ساتھ کراچی لے گئیں۔۔۔۔۔!!!!
روشانے اک دم سکتے کی سی کیفیت میں آگئی۔۔۔۔ اتنی بڑی قیامت ٹوٹ چکی تھی۔۔۔ اسکی ماں مر چکی تھی وہ بھی صرف شاہ میر کی وجہ سے۔۔۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پہ رکھ کے رونے لگی۔۔۔۔ وہ آنٹی اٹھیں انہوں نے اسکو سنبھالا اسکو حوصلہ دیا۔۔۔۔
وہ اسکے لیے کھانا لیکر آئیں مگر وہ کچھ نہیں کھارہی تھی۔۔۔۔ بس روئے جارہی تھی۔۔۔۔ انہوں نے زبردستی اسکو دوچار نوالے کھلائے۔۔۔۔ اس نے کہا کہ آنٹی میں کراچی جانا چاہتی ہوں اپنے بابا کے پاس۔۔۔۔ روشانے نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا چلی جانا۔۔۔۔ صبح میں ٹکٹ منگوادوں گی ابھی تو تمہیں رات کو یہیں رکنا پڑے گا۔۔۔ انہوں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا بس اسکو تسلی اور دلاسے دیتی رہیں، وہ رات روشانے نے روتے ہوئے جاگ کر گزاری۔۔۔۔
صبح ہوئی تو آنٹی نے ٹکٹ منگوادیا اسکی شام کی ٹرین تھی اسکا دل چاہا کہ وہ اڑ کر پہنچ جائے۔۔۔۔ اس نے کہا آنٹی میرے پاس پیسے نہیں ہیں اسنے اپنے بیگ سے چند چیزیں نکالیں اور کہا کہ یہ ہیں اسکو بکوادیں۔۔۔۔ انہوں نے کہا بیٹا کوئی بات نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے تم بھی میری بیٹی کی طرح ہو اس سب کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔
پھر شام کو وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ اسکو اسٹیشن چھوڑنے گئیں وہ ان سے گلے ملی اور ٹرین میں چڑھ گئی۔۔۔۔۔۔ اسکو جہاں خوشی تھی کہ وہ دوسال بعد اپنے باپ سے ملے گی مگر وہاں اک غم بھی تھا کہ وہ صرف اپنے باپ سے ملے گی ماں سے نہیں۔۔۔۔۔ اسی غم سے اسکا دل پھٹ رہا تھا۔۔۔۔۔
کراچی اسٹیشن پہ وہ اتری اور اک رکشہ روکا اپنی پھپھو کے گھر کا پتہ بتایا اور بیٹھ گئی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد رکشہ اسکو اسکی مطلوبہ جگہ پہنچا چکا تھا۔۔۔۔ پڑوس والی آنٹی نے اسکو چلتے ہوئے بھی کچھ پیسے دے دیے تھے جن پہ وہ انکی بہت شکر گزار ہورہی تھی۔۔۔۔ اسنے انہی پیسوں سے رکشہ کا کرایہ ادا کیا اور اپنا سامان اتار لیا۔۔۔۔۔ پھر اپنی پھپھو کے گھر کی بیل بجادی۔۔۔۔۔ اندر سے پوچھنے پہ اس نے کہا پھپھو میں روشانے ہوں تو آسیہ بیگم نے بےیقینی کی کیفیت میں دروازہ کھولا اور اسکو دیکھتے ہی گلے سے لگالیا۔۔۔۔۔ وہ اسکو پیار کررہی تھیں۔۔۔۔ دروازہ بند کرکے اسکو اندر لے آئیں اور کہا سرمد آغا دیکھو تو سہی کون آیا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟ سرمد آغا بھی باہر آگئے تھے۔۔۔۔۔ انہوں نے باہر آکر پوچھا کون آیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ مگر جیسے ہی ان کی نظر روشانے پہ پڑی انکو اپنی آنکھوں پہ یقین نا آیا۔۔۔۔۔ روشانے کو وہ بہت کمزور لگے وہ دوڑ کر ان سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔کافی دیر ایسے ہی گزرگئی وہ اسکو اپنے ساتھ لگائے اندر لے گئے۔۔۔ آسیہ اسکے لیے کھانا لے آئیں تھیں، سرمد آغا نے اسکو اپنے ہاتھ سے نوالے بنا کے کھلائے۔۔۔۔۔ آسیہ نے کہا بیٹا تم کپڑے بدل لو فریش ہوجاؤ اور پھر آرام کرلو مگروہ اٹھنا نہیں چاہتی تھی وہ بس اپنےبابا کے پاس ہی بیٹھے رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ سرمد آغا نے بھی اس سے پیار سے کہا جاؤ میری گڑیا فریش ہوکر تھوڑی دیر آرام کرلو پھر ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔۔۔ وہ انکی بات مانتے ہوئے اٹھ گئی۔۔۔۔۔ سرمد آغا اور آسیہ بیگم دونوں نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ انکی بیٹی آج انکے پاس آگئی۔۔۔۔
حسن پڑھائی کے سلسلے میں اس وقت ملک سے باہر تھا اس کو نفیسہ کے انتقال کا بھی بہت بعد میں معلوم ہوا تھا سرمد آغا نے آسیہ کو منع کردیا تھا کہ وہ حسن کو اس سارے واقعہ کے بارے میں کچھ نا بتائیں حسن سے آسیہ کی بات ہوتی رہتی تھی مگر انہوں نے سرمد کے کہنے پہ اسکو کچھ نا بتایا تھا مگر اک روز حسن کی کال آئی آسیہ اس سے بات کررہی تھیں مگر سرمد لاعلم تھے کہ حسن کا فون آیا ہوا ہے وہ آسیہ کو آواز دیتے ہوئے کمرے میں چلے آئے حسن نے جب سرمد کی آواز سنی تو خوش ہوگیا اور خوشی سے پوچھا کہ ماموں کی فیملی آئی ہوئی ہے؟؟ آسیہ نے کہا نہیں بس سرمد ہیں تو اسنے اپنے ماموں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی، سرمد آغا نے سوچا کہ بھانجے سے بس خیر خیریت کرکے بات ختم کردیں گے مگر حسن نے جب پوچھا۔۔۔۔” ماموں آپ اکیلے کیوں آئے ہیں مامی،سعد اور روشانے کو کیوں نہیں لائے تو وہ چپ ہوگئے پھر بات کو ٹالنے والے انداز میں کہا بیٹا روشانے اور سعد کی پڑھائی تھی تو بس اسلیے۔۔۔۔ حسن سے وڈیو کالنگ پہ بات ہورہی تھی اسنے کچھ محسوس کیا اور کہا ماموں کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں سب ٹھیک ہے نا۔۔۔؟؟؟؟
سرمد آغا کا غم اس وقت بلکل تازہ تازہ تھا وہ زیادہ ضبط نا کرسکے اور رو پڑے حسن گھبراگیا اور پوچھا کیا بات ہے ماموں بتائیں مگر انہوں نے کچھ نا کہا اور فون آسیہ کے حوالے کردیا۔۔۔۔۔ آسیہ نے ساری تفصیل اسکو بتادی وہ تو سر پکڑ کے بیٹھ گیا کہ اتنا سب کچھ ہوگیا اور مجھے خبر بھی نہیں کچھ بتایا بھی نہیں آپ لوگوں نے۔۔۔۔ مجھے اتنا غیر سمجھ لیا۔۔۔۔وہ ان پہ ناراض ہورہا تھا۔۔۔۔ آسیہ نے کہا بیٹا سرمد نے منع کردیا تھا کہ تم پردیس میں پڑھائی میں مصروف ہوگے تو پریشان ہوجاؤ گے۔۔۔۔ حسن نے کہا امی مجھے پڑھائی سے زیادہ اپنے سگے رشتے عزیز ہیں میں پاکستان آرہا ہوں بس۔۔۔۔۔۔ اسنے یہ کہہ کر فون بند کردیا۔۔۔۔۔ آسیہ کچھ دیر فون پکڑے بیٹھی رہیں پھر اٹھ کر سرمد کے پاس چلی گئیں اور انکو سب بتادیا۔۔۔۔ وہ بھی افسوس کرنے لگے کہ انکی ذرا سی بے دھیانی کی وجہ سے بےچارہ حسن پریشان ہوگیا۔۔۔ آسیہ نے انکو حوصلہ دیا اور کہا اک دن تو پتہ چلنا ہی تھا نا اور یہ ایسی بات ہے اس سے زیادہ دیر چھپائی نہیں جاسکتی تھی، روشانے سے اسکی منگنی ہوئی تھی اور عنقریب تھا کہ شادی ہوجاتی مگر اتنی بڑی بات ہوگئی کیسے نا پتہ چلتی اسکو۔۔۔۔ سرمد آغا چپ ہوگئے۔۔۔۔
حسن نے فلائٹ بک کروالی اور اگلے دن پاکستان آگیا اپنے ماموں سے ملا اور کہا ماموں آپ پریشان نا ہو میں روشانے کو اسکے چنگل سے آزاد کرواکر رہوں گا وہ زیادہ دیر اسکو اپنی قید میں نہیں رکھ سکے گا۔۔۔۔ سرمد نے کہا بیٹا وہ بہت خطرناک آدمی ہے مجھے تو اسکے نام کا بھی نہیں معلوم کہ وہ اصل ہے یا نہیں۔۔۔ اور اسکے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا اسنے بس زبردستی میری بیٹی سے نکاح کیا ہے پتہ نہیں کہاں ہوگی کس حال میں ہوگی میری بچی۔۔۔۔۔؟؟؟؟ انکی آنکھیں نم ہوگئیں حسن نے انکو حوصلہ دیا اور کہا ماموں صبر رکھیں بس روشانے جلد ہی آجائے گی۔۔۔۔
حسن نے اپنے طور پہ کوششیں کی شاہ میر کا پتہ لگوانے کی مگر اسکو ناکامی ہوئی کیونکہ شاہ میر جہاں رہتا تھا ادھر اسنے اپنا نام بدل کے رکھا ہوا تھا اصل نام بہت کم لوگ جانتے تھے۔۔۔۔۔ حسن کو مایوسی ہوئی اور وہ شرمندہ بھی ہوا۔۔۔۔ سرمد نے اسکو کہا بیٹا تم اپنی پڑھائی مکمل کرو مگر وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا وہ اک کوشش اور کرنا چاہتا تھا مگر سرمد نے اسکو روک دیا اور کہا بیٹا تم واپس چلے جاؤ۔۔۔۔۔ حسن کو نا چاہتے ہوئے بھی انکی بات ماننی پڑی اور وہ واپس چلا گیا۔۔۔۔۔
اسکے جانے کے دوسال بعد روشانے کراچی پہنچ گئی تو سرمد آغا نے حسن سے رابطہ کرکے خوشخبری سنائی جس پہ حسن نے فوری فلائٹ بک کروائی اور مستقل پاکستان آگیا یہاں آکر اسنے سب سے پہلے عدالت سے رجوع کیاکیونکہ روشانے ویسے بھی شاہ میر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی اسکے پاس نکاح نامے کی کاپی بھی تھی جو اسنے اپنے سامان کے ساتھ رکھ لی تھی، سرمد آغا،آسیہ, حسن اور روشانے ان چاروں نے عدالت میں یہ کیس دائر کیا، عدالت نے ساری تفصیل اور روشانے کی مرضی جاننے کے بعد اس نکاح کو فسخ قرار دے دیا اور یوں روشانے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئی۔۔۔۔
عدت کے دن گزارنے کے بعد اسکا نکاح حسن سے ہوگیا جس پہ وہ دونوں اک دوسرے کا ساتھ پاکر بہت خوش تھے۔۔۔۔۔۔مگر روشانے اپنی بیٹی کو یاد کرکے بہت روتی تھی۔۔۔۔ حسن کے کہنے پہ اس نے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کردی اور حسن نے بھی اپنی ادھوری چھوڑی ہوئی تعلیم پاکستان میں ہی مکمل کی۔۔۔۔۔
****
رومانہ نے روشانے کو اپنے گزرے ہوئے ماہ وسال کے بارے میں بتادیا تھا جس پہ روشانے اصغر اور سکھی کی شکر گزار ہورہی تھی کہ ان دونوں نے اسکی اتنی اچھی پرورش کی اور اسکے گزرے ہوئے ان دوسالوں پہ اسکو بہت افسوس بھی ہوا کہ اسکی بیٹی کیسی جگہ رہی لیکن اک بات پہ اسکو اپنی بیٹی پہ فخر ہوا کہ اس نے اس جگہ پہ رہتے ہوئے بھی اللّٰہ کو یاد رکھا۔۔۔۔ اور سکھی کی موت کا بھی بہت افسوس ہوا۔۔۔۔۔ رومانہ نے حسن سے کہا کہ وہ اصغر بابا سے ملنا چاہتی ہے پتہ نہیں وہ کس حال میں ہونگے کہاں ہونگے۔۔۔۔؟؟ روشانے نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ ہاں اصغر سے ملنا چاہیے اسنے آخر ہماری بیٹی کو پالا ،پڑھایا لکھایا اسکا حق ہے رومانہ پہ۔۔۔۔ حسن نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔۔ بلکہ میں تو سوچ رہا ہوں اصغر کو یہیں لے آؤں گا وہاں پہ تو اب وہ اکیلا ہوگا۔۔۔۔ رومانہ بھی اک دم خوش ہوگئی اور کہا ابو آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ حسن نے کہا ہاں بلکل سچ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ابو میں بھی آپکے ساتھ چلوں گی اور بابا کو یہاں لیکر آؤں گی۔۔۔۔۔ رومانہ نے کہا۔۔۔۔ تو حسن اسکو انکار کرنے لگے اور کہا کہ۔۔۔” بیٹا پتہ نہیں وہ اس علاقے میں رہتا ہوگا یا کہیں اور رہائش اختیار کرلی ہوگی کچھ پتہ بھی تو نہیں ہے نا اسکو کہیں ڈھونڈنا پڑا تو تم کہاں کہاں پھروگی میرے ساتھ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ مگر رومانہ نہیں مان رہی تھی۔۔۔۔اسکا کہنا تھا کہ وہ بابا کو لیکر آئے گی یہاں۔۔۔۔ آخر حسن نے ہار مان لی اور کہا کہ چلو ٹھیک ہے تم تیاری کرلو ہم کل کی فلائٹ سے لاہور جائیں گے۔۔۔۔۔ رومانہ خوش ہوگئی۔۔۔۔۔ حسن نے اسی وقت جاکر دو ٹکٹ کروالیے تھے اور اگلے دن انکی لاہور کی فلائٹ تھی وہ جلد از جلد پہنچنا چاہتے تھے اسلیے ٹرین میں جانے سے اجتناب کیا۔۔۔۔۔۔ لاہور ائرپورٹ پہ اتر کر انہوں نے اک کیب کی، رومانہ نے پتہ بتادیا تھا۔۔۔۔ اس نے پہلے کی طرح چادر اوڑھی ہوئی تھی اور چہرہ بھی ڈھکا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ٹیکسی اسکے بتائے ہوئے پتے پہ پہنچ گئی۔۔۔۔ رومانہ کو ایسا لگا جیسے وہ دوبارہ اپنے بچپن میں آگئی اسکو سب یاد آنے لگا اور اسکی آنکھیں نم ہوگئیں۔۔۔۔۔ ٹیکسی اصغر کے گھر کے پاس رکی مگر وہاں گیٹ پہ تالا لگا ہوا تھا حسن اور رومانہ پریشان ہوگئے رومانہ نے کہا ابو اس علاقے کے لوگ بہت مخلص اور ملنسار ہیں آپ ادھر پڑوس میں معلوم کریں کچھ نا کچھ پتہ چل جائے گاوہ دونوں ٹیکسی سے اتر آئے اور برابر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے کسی عورت نے پوچھا کون ہے۔۔۔؟؟
یہ اصغر کا پوچھنا تھا آپکے گھر کے برابر میں جو رہتا ہے وہ کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ وہ عورت دروازے پہ آئی اور دروازہ کھول کر کہا۔۔۔۔ صاحب وہ تو یہاں نہیں رہتا اب اسنے جہاں نوکری کی ہے وہیں پہ ہی رہتا ہے یہ گھر تو اسنے خالی کردیا۔۔۔۔ مگر آپ کون ہیں۔۔۔؟؟؟
اصغر کی بیٹی نے اس سے ملنا ہے اسلیے پوچھا ہے۔۔۔۔ حسن نے بتایا۔۔۔۔
وہ عورت اک دم جیسے خوشی سے بولی۔۔۔۔ اصغر بھائی کی بیٹی آگئی واپس۔۔۔۔!!!! صاحب مجھے سہی تو نہیں پتہ میں آپکو اپنے گھر والے کا نمبر دیتی ہوں آپ اس سے پوچھ لیں اسکو شاید سب معلوم ہو۔۔۔۔ اک منٹ رکو صاحب ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اندد چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد کاغذ پہ اک نمبر لکھا ہوا لے آئی اور حسن کو دے دیا۔۔۔ رومانہ آگے بڑھ کے اس سے ملی وہ بھی اس سے مل کے بہت خوش ہوئی۔۔۔۔ حسن نے اس نمبر پہ کال کی اور اصغر کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔۔ اسکو جب یہ معلوم ہوا کہ اصغر کی بیٹی آئی ہے ملنے تو وہ بھی خوشی سے نہال ہوگیا۔۔۔۔ یہ وہی رکشے والا تھا جو سکھی کو اصغر کے ساتھ ہسپتال لے کر گیا تھا اسنے کہا صاحب میں بس دس منٹ میں آتا ہوں آپ وہیں رکیں میں خود لیکر جاؤں گا آپکو ادھر جہاں اصغر نوکری کرتا ہے۔۔۔۔ حسن نے اوکے کہہ کر فون بند کردیا اور ٹیکسی میں سے سامان نکال کر اسکو کرایہ ادا کیا اور اسکا انتظار کرنے لگے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...