نعیمہ ضیا ءالدین جرمنی میں مقیم اردو کی ادیبہ ہیں۔ان کا انگرےزی ادب کا مطالعہ خاصا گہرا ہے۔کسی زمانے میں وہ ڈائجسٹوں کے لئے انگرےزی سے اردو میں ترجمے کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ایک بار انہوں نے میری بعض کہانیوں (گھٹن کا احساس ‘بابا جمالی شاہ کا جلا ل وغیرہ) کی تعریف کی اور پھر اپنے افسانوں کے بارے میں میری رائے چاہی۔میں نے محتاط انداز میں انہیں چند مشورے دئیے‘جنہیں ان کے شوہر ضیاءالدین صاحب نے تو پسند کیا لیکن نعیمہ صاحبہ کو وہ مشورے پسند نہیں آئے۔ایک اور موقعہ پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ چھپنے والا ہے۔میں مسودہ پڑھ کر اپنی تحریری رائے لکھ دوں۔تب میں نے ان سے سلیقے سے معذرت کر لی۔تب سے نعیمہ صاحبہ سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔
اسی دوران نعیمہ ضیاءالدین کی دو کہانیاں ایسی سامنے آئیں جن میں مجھے محسوس ہوا کہ میرے اوّلین مشوروں کو خصوصی طور پر ملحوظ رکھنے کی کاوش کی گئی ہے ۔انداز تحریر میں بہتری تو آئی مگر وہ دونوں کہانیاں طبعزاد نہیں ہیں۔پہلی کہانی”کاغذ کی کتاب“کے عنوان سے ”اوراق“لاہور شمارہ جنوری فروری ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی جبکہ دوسری کہانی ”گیان“کے عنوان سے ”شاعر“ممبئی کے شمارہ جون ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔اگر یہ دونوں کہانیاں طبعزادہیں تو اردو افسانے میں ایک اہم اضافے کا امکان ابھرا ہے۔اور اگر توارد یا سرقہ ہیں تو اس سے نعیمہ ضیاءالدین احمد کی بحیثیت افسانہ نگار پوزیشن مشکوک ہوتی ہے ۔یوں وہ جیسی شاعرہ ہیں ویسی ہی افسانہ نگار ثابت ہوتی ہیں۔
نعیمہ ضیا ءالدین کی کہانی ”کاغذ کی کتاب“ کا مختصر سا خلاصہ یوں بنتا ہے کہ میگی ایک مغربی بچی ہے‘مصطفی ایک ایشیائی بچہ ہے جس کے دادا‘پردادا یورپ میں آن بسے تھے۔یہ ایک صدی سے بھی زائد عرصہ بعد کے زمانے کی کہانی ہے۔دونوں بچے اپنے زمانے کے حساب سے ”مشینی استاد“ سے پڑھتے
ہیں۔ان کا اسکول ان کے کمپیوٹر کے ذریعے ان کے گھر آجاتا ہے۔ایک بار مصطفی‘میگی کو یہ حیران کن باتیں بتاتا ہے کہ پہلے زمانے میں کاغذ کی کتابیں ہوتی تھیں۔اسکول کی عمارت ہوتی تھی۔جہاں انسان ٹیچر بہت سارے بچوں کو ایک ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔کاغذ کی کتاب کا تجسس بڑھتا ہے تو مصطفی اپنے دادا سے پوچھ کر میگی کو بتاتا ہے کہ کا غذ کی کتاب دیکھنے کے لئے ہمیں میوزیم جانا پڑے گا اور پھر اگلے اتوار کو میوزیم جانے کا پروگرام بنا لیا جاتا ہے۔
یہ کہانی جنوری‘فروری ۱۹۹۸ء کے ”اوراق“میں چھپی ہے۔اب آپ دیوندر اِسّر کی کتاب”ادب کی آبرو“کے صفحہ نمبر۱۹۲۔۱۹۱پر درج آئزک عظیموف کی کہانی”the fun they had”(1957)کا خلاصہ
ملاحظہ کریں : Issic Asimovکی کہانیThe Fun They Had(1957)
۷۵۱۲ءکے دو اسکولی بچے زمانہءقدیم پر بات چیت کر رہے تھے۔
”جب تمام کہانیاں کاغذ پر پرنٹ ہوتی تھیں۔جب پڑھنے والے اوراق پلٹتے تھے اور الفاظ متحرک ہونے کے بجائے جامد ہوتے تھے۔جب کوئی ورق پیچھے کی جانب پلٹتا تھا تو اس پر وہی الفاظ ہوتے تھے جن کو اس نے پہلی بار پڑھا تھا“
گھر پر کمپیوٹر سے پڑھتے ہوئے ان میں سے ایک بچہ کہتا ہے ”اڑوس پڑوس کے تمام بچے اسکول کے آنگن میں کھیلتے اور شور مچاتے تھے۔کلاس روم میں اکٹھے بیٹھتے تھے اور اکٹھے ہی گھر واپس جاتے تھے۔وہ سب ایک جیسا سیکھتے تھے‘تاکہ وہ ہوم ورک میں ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں اور مدد کرسکیں۔اور استاد انسان ہوتے تھے۔“(ولیم ٹومان)
نعیمہ ضیا ءالدین کی کہانی میں ”کاغذ کی کتاب“دیکھنے کے لیے میوزیم جانے کا ارادہ کرنے کے علاوہ ساری کی ساری کہانی آئزک عظیموف کی چالیس سالہ پرانی کہانی کا سرقہ ہے۔اگر یہ اتفاقیہ توارد ہے (معذرت چاہتا ہوں کہ یہاں ’حسنِ توارد‘نہیں لکھ سکتا)تو نعیمہ ضیا الدین کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔
نعیمہ ضیاءالدین احمد کی دوسری کہانی”گیان“کا مختصر سا خلاصہ یہ ہے کہ اعزاز عالم ایک کہانی کار ہے۔سادہ اور عام فہم زبان میں زندگی کے عوامی کرداروں کی کہانیاں لکھنے والا۔اس کی لکھی زندگی کی عکاس کہانیوں کو ناقدین ادب کوئی اہمیت نہیں دیتے۔آخر کار اعزاز عالم ایک نئی کہانی لکھتا ہے‘جو صفِ اول کے ضخیم ادبی جریدے میں چھپتی ہے اور سارے اڑیل‘بڈھے اور ضدی نقاد اس کی عظمت کے گُن گانے لگتے ہیں۔تب اعزاز عالم انکشاف کرتا ہے کہ یہ جرمنی کے تین نامور قلم کاروں کی تین مختلف تحریروں کے ٹکڑے ہیںجنہیں یکجا کردیا گیا ہے۔نہ آغاز ‘نہ انجام‘نہ چہرہ‘نہ شناخت۔
اب ایک کہانی کا خلاصہ اور ایک دلچسپ قصہ ملاحظہ کریں :معروف فلمی شاعر گلزار ‘فلمی دنیا سے ہٹ کر بھی بہت عمدہ شاعری کرتے ہیں‘اپنے ڈھب کے افسانے لکھتے ہیں۔ان کا ایک افسانہ ”کس کی کہانی“ماہنامہ”شاعر“ممبئی کے شمارہ نمبر۳‘(۱۹۹۳ء)میں شائع ہوا تھا۔اس میں اعزاز عالم کی جگہ انو(انل کمار چٹو پادھیائے)ایک افسانہ نگار ہے جو اپنے ارد گرد کے ماحول کی اور کرداروں کی کہانیاں لکھتا ہے۔لیکن پھر وہ ”جدید“افسانے لکھنے لگتا ہے اور بڑے ادیبوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔اب وہ فلسفہ بگھارتا ہے لیکن زندگی کے کرداروں سے بے گانہ ہوگیاہے۔چنانچہ گاؤں کے جو لوگ پہلے اس کی کہانیاں سن کر متاثر ہوتے تھے اب یہ پوچھنے لگتے ہیں کہ کس کی کہانی کی بات کر رہے ہو؟یہ تو تھا گلزار کی کہانی کامختصر ترین خلاصہ!۔۔۔۔۔۔اب ممتاز مفتی کی زندگی کا ایک دلچسپ قصہ سنئے۔یہ اَسّی کی دہائی کے ابتدائی برسوں کا قصہ ہے تب اخبارات کے ادبی صفحات پر اس کا خاصہ چرچا ہوا تھا۔میں نے۵۹۹۱ءمیں خود یہ قصہ نعیمہ صاحبہ اور ان کے شوہر ضیا ءالدین احمد کو سنایا تھا۔معروف افسانہ نگار محمد منشا یادبھی ممتاز مفتی صاحب کی اس خوبصورت شرارت میں ان کے شریک کار تھے۔اس قصے کا ذکر میرے ایک خط مطبوعہ ”اوراق“لاہور شمارہ جنوری‘ فروری ۱۹۹۸ء میں آیا ہے۔
”ممتاز مفتی نے ایک بار راولپنڈی یا شاید اسلام آبادکے ادبی حلقہ میں اپنا ایسا ہی جدید افسانہ سنایا تھا۔تب حاضرین اور ناقدین کی اکثریت نے اس افسانے میں تہہ در تہہ معانی تلاش کرنے میں خاصی بقراطیت دکھائی ۔اسے جدید افسانے میں گراں قدر اضافہ قراردیا گیا۔جب خوب واہ واہ ہو چکی تو ممتاز مفتی نے انکشاف کیا کہ صاحبو! میں نے کوئی افسانہ نہیں لکھا بس فلاں فلاں جدید افسانہ نگاروں کے مختلف افسانوں سے ٹکڑے لے کر انہیں جوڑ دیا ہے۔تب زمین آسمان کے قلابے ملانے والے بغلیں جھانکنے لگے“ (خط مطبوعہ”اوراق“شمارہ مذکور صفحہ نمبر ۳۷۹)
گلزار کی کہانی اور ممتاز مفتی کے عملی لطیفہ کو یک جا کرکے پھر غور کریںکہ کیا نعیمہ ضیاءالدین کے افسانہ
”گیان“کی تھیم اس کے اندر نہیں ہے؟۔۔۔۔۔اردو میں کسی کہانی سے متاثر ہو کر اگر کوئی کہانی لکھی گئی ہے تو خود اس کہانی میں اس کا تذکرہ موجود ہوتا ہے۔لیکن اس طرح کسی کہانی پر ہاتھ صاف کرلینا یا کسی کہانی اور لطیفے کو جوڑ کر کہانی گھڑ لینا سرقہ کے زمرے میںہی آئے گا۔لیکن کیا یہ واقعی توارد ہے؟ہے بھی یا
مجھے ہی غلط فہمی ہوئی ہے؟اس کا فیصلہ قارئین ادب بہتر طور پر کرسکیں گے!
( مطبوعہ ادبی صفحہ ڈیلی جنگ لندن ۔مورخہ ۷اکتوبر۱۹۹۹ء)