اس کے یوں سوال کرنے پر ایک دم سے سناٹا چھا گیا۔شعیب کو یوں لگا جیسے انجانی آواز اس کے پورے بدن سے آ کر لپٹ گئی ہو۔اورا س کا دامن تھام کر اس سے سوال کر رہی ہو۔سو اس نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ہاں نادیہ۔!مجھے اگر تم سے محبت نہ ہوتی تو میں اس حویلی کی جانب ایک قدم بھی نہ بڑھاتا۔مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
’’تو پھر اسی محبت کا واسطہ،آپ میری لاج رکھیں گے۔۔میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ میری کزن دلاور شاہ کی بیٹی فرح سے شادی کر لیں۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔!‘‘دلاور شاہ ایک دم سے چیخا۔سبھی چونک گئے جیسے ا س نے کوئی انہونی کہہ دی ہو۔
’’آپ نے میری بات ماننا تھی پیر سائیں۔جیسے میں نے آپ کی بات مانی۔ اگر آپ کو میری بات منظور نہیں تو پھر میں بھی آپ کی پابند نہیں۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔بولیں جواب دیں۔‘‘
’’نادیہ۔!یہ تم بہت غلط کر رہی ہو۔میں تمہاری اس۔۔۔‘‘
’’یہ غلط ہے یا سہی۔۔سوچ لیں۔مغرب تک کا وقت ہے آپ کے پاس۔مغرب کے بعد جہاں میرا نکاح ہو گا،وہاں فرح کا بھی ہو گا۔میں جا رہی ہوں اپنے کمرے میں ۔۔نانی اماں،شعیب میرا مہمان ہے ، خاطر مدارت کی جائے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی خاموشی چھا گئی۔زبیدہ کا چہرہ ایک دم سے کھل گیا۔جبکہ دلاور شاہ کا چہرہ غصے میں سرخ ہو چکا تھا۔وہ اٹھا اور باہر نکل گیا۔اس کے پیچھے ہی زہرہ بی بھی چلی گئیں۔کمرے میں وہ تینوں رہ گئے۔
***
پیر سائیں اپنے کمرہ خاص میں بیٹھا ہوا تھا۔اور دیوان ہاتھ باندھے سامنے کھڑا تھا۔دونوں کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔انہیں نادیہ کی شرط نے حیران و پریشان ہی نہیں گنگ کر کے رکھ دیا تھا۔ پیر سائیں بہت غصے میں حویلی سے اٹھ کر مردانے میں اپنے کمرہ خاص تک آیا تھا تا کہ وہ اس پر پوری طرح سوچ کر کوئی فیصلہ دے سکے۔
’’تمہارا ذہن کیا کہتا ہے۔۔‘‘پیر سائیں نے دیوان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میرا تو مشورہ یہی ہے کہ نادیہ بی بی کی بات مان لی جائے۔۔‘‘اس نے کہا تو پیر سائیں نے چونک کر دیکھا،چند لمحے سوچتا رہا ،پھر بولا۔
’’کیوں۔؟کیوں مان لیں اس کی بات۔۔؟‘‘
’’نادیہ بی بی نے شرط ہی اس لیے رکھی ہے کہ آپ یہ بات نہ مانیں اور پھر وہ اپنی مرضی کرنے میں آزاد ہو گی۔دیکھیں پیر سائیں ماحول اور حالات وہ نہیں رہے جس میں آپ اپنی بات زور دے کر یا حکم دے کر منوا سکتے ہیں۔نادیہ بی بی کی بغاوت ہی اس لیے ہوئی کہ شعیب کا وجود سامنے آ گیا۔اگر شعیب نہ ہوتا تو پھرشاید یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے،ماحول ہی کچھ دوسرا ہوتا۔‘‘
’’ہم ان حالات کو اپنے حق میں کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘پیر سائیں نے پوچھا۔
’’شاید نہ کر سکیں۔یہ گمان بھی نہیں تھا کہ شعیب آپ کے خاندان کاخون بھی ہو سکتا ہے۔قدر ت کے اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ایسے حالات سامنے آ رہے ہیں کہ جن کے بارے میں گمان بھی نہیں تھا۔اگر لاہور میں نادیہ بی بی آپ کو نہ ملتی۔۔؟تب سے لے کر اب تک حالات جس طرح پل پل بدلے ہیں۔یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتے۔۔یہ قدرت کے اشارے ہیں،انہیں مان لیں۔۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ بازی پھر آپ کے ہاتھ میں رہے گی۔۔‘‘
’’کیسے۔۔۔‘‘پیر سائیں نے تیزی سے پوچھا۔
’’گستاخی معاف پیر سائیں۔!آپ کے خاندان میں کوئی ایسا لڑکا نہیں ہے،جس سے آپ اپنی صاحبزادی کی شادی کر سکیں۔۔نادیہ بی بی کی شادی اگر ظہیر شاہ سے ہو جاتی ہے تو وہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا جو آپ نے سوچا ہے،دوسرا شعیب نے اپنے حصے کا مطالبہ کرنا ہی کرنا ہے۔وہ آج کرے یا کل۔۔۔چاہے صلح ہو یا نہ ہو۔۔اگر آپ کی صاحبزادی کا نکاح شعیب سے نہ ہو سکا تو پھر ساری زندگی۔۔۔وہ حویلی ہی میں پڑی رہے گی۔۔اس کی زندگی کا بھی تو سوچیں۔بجائے شعیب کو دور کرنے کے ،آپ سے قریب کریں۔۔اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘
’’ہاں۔!اس کا اشارہ تودادی اماں بھی مجھے دے چکی ہیں۔‘‘پیر سائیں نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’تو بس پھر اللہ کا نام لے کر آپ ہاں کر دیجئے۔۔نادیہ بی بی تو بچی ہے۔۔اس نے تو سوچا ہے کہ آپ کا انکار ہو گا اور وہ شعیب سے شادی کرے گی۔۔اس طرح آپ ۔ ۔ فائدے میں نہیں نقصان میں رہیں گے۔۔جائیداد کے حصے دار الگ ہو جائیں گے تو پھر آپ کے پاس کیا رہ جائے گا۔۔۔فائدہ ہاں کرنے ہی میں ہے۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔مغرب کے بعد میں بیٹی کا نکاح دے دیتا ہوں۔۔‘‘پیر سائیں نے بمشکل کہا اور اٹھ گیا۔اسے یہ اچھی طرح ادراک ہو گیا تھا کہ وہ شرط جس سے اس کی انا کو ٹھیس پہنچی تھی۔درحقیقت وہ اس کے لیے فائدہ مند تھی۔جائیداد کے معاملات کو اگر سامنے رکھا جائے اور ان پر ذرا سا بھی سوچا جائے تو بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے۔اسے اب شعیب پر ایسی بھر پور نوازشات کرنی تھیں کہ وہ نہال ہو جاتا۔ یہاں تک کہ وہ نادیہ کی محبت کو بھول کر فقط اس کا دم بھرتا۔ایسا آفیسراس کے لیے بہت سارے فائدوں کا باعث بن جاتا۔۔اور پھر سب سے بڑی بات ۔اس کی بیٹی ،جس کے بارے میں وہ پریشان ہو جایا کرتاتھا،بیٹھے بٹھائے اس کی خوشگورا زندگی کے امکان پیدا ہو گئے تھے۔وہ دھیرے سے مسکرادیا۔اس نے سوچ لیا کہ مغرب کے بعد اس نے کیا کرنا ہے۔
***
حویلی کی دوسری منزل پر اگرچہ سب موجود تھے لیکن ان کے درمیان وہی سناٹا تھا جو اس حویلی کی پہچان بن چکا تھا۔پیر سائیں نے سب کو وہیں جمع ہونے کے لیے کہا تھا اور پھر مغرب کے بعد وہ سب وہیں تھے۔ان میں صرف دو وجود نہیں تھے،ایک نادیہ اور دوسری فرح،اماں بی ،زبیدہ ،زہرہ بی،ظہیر شاہ اور شعیب وہاں موجود تھے۔پیر سائیں ان میں آکر بیٹھ گیا تھا۔سبھی اس کے فیصلے کے منتظر اسی طرف دیکھ رہے تھے۔وہ کچھ دیرخاموش رہا۔پھردادی اماں سے پوچھا۔
’’کیا نادیہ ہماری بات سن رہی ہے؟‘‘
’’جی پیر سائیں۔!میں یہیں اس کمرے میں ہوں اور آپ کا فیصلہ سننے کی منتظر ہوں۔‘‘دوسرے کمرے میں سے نادیہ کی آواز ابھری۔تو پیر سائیں پر سکون ہو گیا۔جبکہ شعیب نے اضطراب سے پہلو بدلا۔
’’نادیہ بیٹی۔!تم نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا جو شرط ہی ہے۔کیا زبیدہ آپا کی بھی اس میں خواہش ہے،کیا تم نے ان سے پوچھ لیا ہے۔اگر وہی انکار کردیں تو۔۔‘‘پیر سائیں نے پوچھا۔
’’پھوپھو آپ کے سامنے تشریف رکھتی ہیں۔آپ چاہیں تو ان سے پوچھ لیں۔ان کے انکار یا اقرار کے بعد صورت حال جو ہو گی،پھر اس پر بات کر لیں گے۔‘‘نادیہ نے اوٹ ہی سے جواب دیا۔
’’جی،زبیدہ آپا۔!تو پھر کیا کہتی ہیں آپ۔۔آپ نادیہ کی بات سے اتفاق کرتی ہیں یا انکار۔؟‘‘پیر سائیں نے پوچھا اور زبیدہ کی طرف دیکھنے لگا جو پہلے ہی شعیب کی طرف دیکھ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا،نادیہ بولی۔
’’مجھے یقین ہے کہ شعیب میرا مان رکھیں گے۔‘‘
’’تو پھر فیصلہ ہو چکا۔۔جو تم چاہو گی،وہی ہو گا۔۔‘‘شعیب نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا۔تو زبیدہ دھیرے سے بولی
’’مجھے منظورہے۔۔اب تم کہو،کیا کہتے ہو۔‘‘
’’مجھے نادیہ کی شرط منظورہے۔‘‘پیر سائیں نے کہا تو ماحول پر چھایا ہوا تناؤ ایک دم سے ختم ہو کر رہ گیا۔بہت حد تک سب کے ذہن میںیہی تھا کہ وہ بات نہیں مانے گا۔لیکن وہ مان گیا تو ایک اضطرابی کیفیت بھی ساتھ میں در آئی تھی۔ظہیر شاہ اس سارے دورانیے میں بالکل خاموش رہا تھا۔اس نے ہنکارا بھی نہیں بھرا تھا۔تبھی زبیدہ نے کہا۔
’’تو پھر مجھے بھی منظور ہے دلاور شاہ۔‘‘
اس کے یوں قبول کرنے پر چند لمحے ان کے درمیان خاموشی رہی،پھر پیر سائیں نے شعیب کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے درمیان تعارف سے لے کر اب تک کوئی اتنا اچھا تعلق پیدا نہیں ہو سکا ۔اس کی بنیادہی میں کچھ ایسا ہو گا کہ جس میں کوئی اچھے جذبے پروان نہیں چڑھے بلکہ اس کے برعکس ہی ہوا۔ اب جبکہ تم ہمارے گھر کے فرد بننے جا رہے ہو۔ بلاشبہ وہ ساری باتیں بھلا دو گے جو انجانے میں ہمارے درمیان ہوئیں۔کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہارااور میرا تعلق اور رشتہ کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ اب تم اپنے دل میں کچھ نہیں رکھو گے۔‘‘
’’جی،نہیں ،میرے دل میں اب کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘شعیب نے آہستگی سے کہا اور خاموش ہو گیا۔تو پیر سائیں نیدادی اماں سے کہا۔
’’ٹھیک ہے ،نیچے دیوان نکاح خواں کو لے آیا ہو گا۔میں ،ظہیر شاہ اور شعیب جا رہے ہیں۔آپ نادیہ اور فرح کو تیار کر دیں۔اس نے کہا اور اٹھ کر چل دیا۔اس کے ساتھ ظہیر شاہ اٹھا تو شعیب کو بھی اٹھنا پڑا۔
حویلی کی نچلی منزل پر نکاح خواں کے ساتھ شہر کے دومعزیزین بھی موجود تھے۔تبھی شعیب کو خیال آیا کہ یہاں دو گواہوں کی بھی ضرورت ہو گی۔وہ اگر لاہور میں ہوتا تو ان میں سے ایک بھاء حمید ضرور ہوتا۔لیکن یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔اچانک اسے ثنا اللہ کا خیال آیا۔اس نے فون پر نمبر پش کیئے تو لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا ۔تب اس نے پوچھا۔
’’اس وقت کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیںآپ۔؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’میں گھر میں ہوں اور کچھ نہیں کر رہا۔۔‘‘ا س نے جواب دیا۔
’’پیر سائیں کی حویلی تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’بس ذرا سا وقت،خیریت تو ہے نا۔‘‘اس نے تشویش زدہ لہجے میں جواب دیا۔
’’تو بس پھر فوراً پہنچیں۔ساتھ میں کوئی ایسا با اعتماد شخص بھی لیتے آئیں جو ہمارا گواہ ہو۔‘‘شعیب نے کہا۔
’’جی،ابھی آیا۔‘‘اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔
نکاح خواں،تیار تھا۔سامنے پڑا رجسٹر کے پرت پُر کر لیے گئے تھے۔صرف ثنااللہ کا انتظار تھا دئیے گئے مخصوص وقت سے چند منٹ کی دیر سے وہ پہنچ گیا۔ملنے ملانے کے بعد انہوں نے احوال جانا تو ثنا اللہ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے مگر اس نے کوئی سوال نہ کیا۔اس نے اور اس کے ساتھ آئے شخص نے دستخط کر دیئے۔دیوان کے ساتھ ثنااللہ کو اندر بھجوادیا گیا۔وہاں سے تصدیق کے بعد ایجاب و قبول ہوا اور مختصر خطبے کے بعد دعا مانگ لی گئی۔
’’شعیب اپنے دوستوں کو روکنا ،یہ کھانا کھا کر جائیں۔‘‘پیر سائیں نے کہا اور اٹھ گیا۔تبھی شعیب نے ظہیر شاہ کی طرف دیکھا۔وہ اس کا رقیب تھا۔اگر اس کے دل میں بہت سارے خیال آ رہے تھے تو بلاشبہ وہ بھی اس کے بارے میں بہت سوچ رہا ہو گا۔اس کے دل پر کیا گذر رہی ہو گی۔اسے یہ تو معلوم ہی ہے کہ نادیہ فقظ میرے لیے حویلی چھوڑ کر لاہور چلی گئی تھی۔اگر دلاور شاہ اسے اپنی انا کا سوال نہ بناتا تو شاید اس کا نکاح ظہیر شاہ سے نہ ہو پاتا۔اور اس پر انہیں ایسی قیمت دینا پڑی ہے کہ فرح کا نکاح اس کے ساتھ کرنا پڑا۔وہ سوچوں کی وادی میں کھویا ہوا تھا۔لیکن دل میں کچھ کھو جانے کا احساس اس کے لیے چھبن بن رہا تھا۔اک اضطراب تھا کہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ماضی کے ان حوالوں کو یاد کرے جس میں نادیہ نے اپنی محبت کا وہ احساس دیا تھا جو نشہ بن کر اس کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا تھا۔ جبکہ اس کا ذہن موجودہ صورت حال کو قبول ہی نہیں کر رہا تھا۔وہ یہاں کیا کرنے آیا تھا اور کیا ہو گیا ،کہاں حویلی میں داخلے پر اجازت طلب کرنا پڑی تھی اور اب وہ اسی حویلی ہی کا حصہ تھا۔یہ انہونی تھی اور اس کی وجہ نادیہ ہی کی درخواست تھی۔
نادیہ کے کھو جانے کا احساس جہاں حسرت بن کر اسے مایوس کر رہا تھا،وہاں اسے یہ بھی دکھ ہو رہا تھا جس کے لیے دل میں محبت بھرے جذبات ابھرے ہیں،نہ اسے دیکھ سکا اور نہ ہی اسے پا سکا، ورنہ اس کی زندگی میں نجانے کتنے لوگ آئے اور گئے۔کسی کے لیے بھی اس کے من میں محبت بھرے جذبات نہیں اٹھے تھے۔یہ کیسی محبت تھی کہ جسے دیکھا بھی نہیں صرف چاہا ہی چاہا ہے،وہی اسے نہ مل سکا، یہاں تک کہ اس کی اپنی ہی محبت نے اسے انجان راہوں پر پھینک دیا۔جس کے بارے کوئی خبر نہیں تھی کہ کون سا راستہ کدھر جاتا ہے۔چند گھڑیاں پہلے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا،وہی اس کے ذات کا حصہ بن گئی تھی۔اس کے لیے وہ کسی کو بھی موردِالزام نہیں ٹھہرانا چاہتا تھابلکہ یہ سراسر اس کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا۔ایک ہی لمحے میں جو اس نے فیصلہ کیا تھا تو اس کے سامنے جہاں نادیہ کی ذات تھی،وہاں اسے اپنی ماں بھی دکھائی دے رہی تھی۔نادیہ کی شرط مان کر وہی اپنی ماں کو اس حویلی میں دوبارہ مقام دلا سکتا تھا۔وہ جو اسے دیکھنے کے روادار نہیں تھے،جس کے بارے میں بات کرنا تو کجا،اس کے وجود ہی سے انکاری تھے۔ اپنے تئیں انہوں نے زبیدہ کا مارد یا تھا۔زندگی سے نکال دیا تھا،اب اسے ہی قبول کرنے کو تیار تھے۔وقت ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ ان لمحات کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔اب اس کی ماں جب بھی حویلی میںآیا کرے گی تو ایک حیثیت اور مقام کے ساتھ،پہلے کی طرح صدر دروازے پر اجازت کی طلب گار نہیں ہوا کرے گی۔پیر سائیں جو اس کی جان کا دشمن تھا،اب اسے داماد کے طور پر قبول کر چکا تھا۔کیا یہ اعجاز محبت تھا یا وقت و حالات کی مہربانی، جو کچھ بھی تھا،اسے اپنی محبت قربان کر کے،اپنی ماں کے لیے بہت کچھ مل گیا تھا۔
وہ اپنی سوچوں میں کھویا ہوا تھا کہ اسے اندر سے بلاوا آ گیا۔اس نے سب کی طرف دیکھا اور اٹھ کر اندر چلا گیا۔حویلی کے درودیوار اس کے لیے اب اجنبی نہیں رہے تھے۔حویلی کی انہی دیواروں کے درمیان کہیں نادیہ موجود تھی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ اس کی محبت کو کبھی دل سے نہیں نکال پائے گی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...