ڈاکٹر وزیر آغا کی طویل نظم”آدھی صدی کے بعد“ اور جوگندر پال کا ناول”نادید“دو ایسے تخلیقی شہپارے ہیں جنہوں نے مجھے عرصہ تک اپنے جادو میں باندھے رکھا۔میں دونوں کتابوں پر اپنی رائے لکھنا چاہتا لیکن ان کا تخلیقی حسن قلم اُٹھانے کی مہلت ہی نہیں دیتا تھا۔ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت سوانح عمری ”شام کی منڈیر سے “چھپ کر آئی توایک امکان بنا اورپھر جب طویل نظم”اک کتھا انوکھی“آئی تب کہیں جا کر مجھے ”آدھی صدی کے بعد “پر مضمون لکھنے کی اپنی آرزو پوری کرنے کا موقعہ ملا۔۳۸۹۱ءمیں چھپنیوالے جوگندر پال کے ناول”نادید “پر پوری ایک دہائی گزرنے کے بعد اب مضمون لکھنے کے قابل ہو رہا ہوں۔ایسی جادوگر کتابیں بہت کم ہوتی ہیں جو اپنے قاری کو حیرت اور مسرت سے شرابور کر دیں اور وہ اپنی کیفیت کو عرصے تک بیان ہی نہ کر پائے۔
جدید اردو فکشن کے حوالے سے اگر مجھے دس اچھے ناولوں کا نام لینے کو کہا جائے تو مجھے دس بار غور کرکے ان ناولوں کے نام بتانے پڑیں گے،لیکن اگر مجھ سے جدید اردو فکشن کے سب سے اچھے ناول کا نام لینے کو کہا جائے تو میں بلا تامل ”نادید“کا نام لوں گا۔
”نادید“کی کہانی ایک بلائینڈ ہاؤس (اندھوں کے گھر)سے شروع ہوتی ہے۔اس گھر کا نگران بھی ایک نابینا بابا ہے۔دوسرے افراد میں شرفو،رتنے،بھولا،پرمیشور، پیشوا،سنگھا، راجو،رتی، رونی، دادی ، کالیا،راج دوت،شیرو،لکھی،سمجھے ماموں وغیرہ شامل ہیں۔ شرفو حد درجہ شریف انسان ہے،اسی لیے اسے دوسروں کی کمینگی میں بھی شرافت محسوس ہوتی ہے۔بھولا اپنے نام کے برعکس بے حد چالاک ہے۔یہ سارے لوگ زمانے کے دکھوں کے مارے ہوئے ہیں اور ”اندھوں کا گھر“ان کی پناگاہ ہے۔اندھوں کے اس گھر میں آنکھوں والے بھی ہیں۔ایک ننھی منی اور پیاری سی بچی لکھی جو رونی کی بیٹی ہے۔اور ایک سنگھے کا کتا جو اتنا ذکی الحس ہے کہ بد نیت کو دور ہی سے بھانپ لیتا ہے۔بھولا بھی نابینا ہونے کے باوجود تھوڑی بہت بینائی رکھتا ہے،لیکن کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔اندھوں کے گھر کا نگراں بابا ایک بار بالائی منزل کی سیڑھیوں سے پھسل کرگرتا ہے اور اس چوٹ سے اس کی کھوئی ہوئی بینائی لوٹ آتی ہے،لیکن وہ کسی پر یہ بات ظاہر نہیں کرتا۔اندھوں کے گھر کے ہر فرد کے ساتھ دُکھوں کی کتنی ہی کہانیاں جُڑی ہوئی ہیں لیکن اندھوں کا گھر ان کے لیے ایسی جنت ہے جہاں دکھوں کی یاد تو ہوتی ہے لیکن ان کی اذیت کا احساس نہیں ہوتا۔
”اندھا وہ ہوتا ہے جسے حال میں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔بے چارے کی آنکھوں پر ماضی کا پردہ پڑا ہوتا ہے،اس لیے اسے نظر نہیں آتا۔بس اونگھ ہی اونگھ میں نہ جانے اپنے پیچھے کہاں پہنچا ہوتا ہے۔“(ص ۵۱)
”ہمیں ساری دنیا نظر نہیں آتی،کوئی ہرج نہیں۔پر ہمارا خدا دنیا تو نہیں،وہ کیوں نظر نہیں آتا“(ص۶۲)
جب بابا کی بینائی لَوٹ آتی ہے تب بھی وہ اندھا بنا رہتا ہے۔کیونکہ اسے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ میرے اندھے ساتھی پھر مجھے اپنے میں شمار نہیں کریں گے۔لیکن بناوٹی اندھا بنے رہنے سے پھر اسے بڑے دلچسپ تجربات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
”چوری کرنے والا ہی چور نہیں ہوتا،چور وہ بھی ہوتا ہے جو چوری چوری چور کو چوری کرتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔میرے سادہ لوح اندھوں کو بھنک بھی نہیں پڑتی اور میں ان کی ساری برائیاں صاف صاف دیکھ لیتا ہوں اور اس وقت مجھے اپنا آپ نرا پُرا چور معلوم ہوتا ہے۔“(ص۶۴)
”ساری عمر آنکھوں کے بغیر دیکھنے کی عادت رہی۔اب آنکھوں سے دیکھنا پڑ گیا تو اندھا ہو جاؤں گا“
(ص ۱۰۲)
”اگر کوئی دیکھ رہا ہو تو اس سے نظر بچائی جا سکتی ہے لیکن جب کوئی بھی نہ دیکھ پا رہا ہو توچور کو اپنی ہی نظر باندھ لیتی ہے۔“(ص ۱۳۹)
بابا اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت ایسی سطح پر آجاتا ہے جہاں پہنچ کر کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کے لیے اپنا بھرم قائم رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔بابا اپنے بارے میں جو کچھ کہتا ہے اس میں عصرِ حاضر کے تمام سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے الگ الگ چہرے ایک ہوکر دِکھنے لگتے ہیں:
”میرا مسئلہ اپنی بدکاریوں سے نجات حاصل کرنا نہیں۔میرا مسئلہ صرف یہ ہے کہ میری نیک نامی بنی رہے۔میں کتنا ہی برا کیوں نہ ہوں، میرے اندھے مجھ پر بھروسہ کرتے رہیں۔میری یہی نیکی باقی رہ گئی ہے کہ جیسے بھی ہو ا میں نے اندھوں کے ایمان کو زک نہ پہنچنے دی۔“(ص ۱۴۰)
ایک بار ایک غیر ملکی مسٹر فٹ مین بابا سے اندھوں کے گھر میں ملتا ہے۔رابطہ بڑھتا ہے اور تیسری دنیا کے ملکوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی آڑ لے کر بابا کو پھانس لیا جاتا ہے۔ہندوستان میں مہا گورو غیر ملکی ایجنٹوں کا باس ہے۔بابا اس دلدل میں گرتا ہے تو پھر گرتا ہی چلا جاتا ہے۔اوپر کے اشارے پر بابا کو راجیہ سبھا کا ممبر بنا لیا جاتا ہے۔وہاں بابا کی پہلی کار کردگی پرائیویٹ انڈسٹریز کے لیے سہولتوں کی مانگ سے نمایاں ہوتی ہے۔بابا کی تقریر کو تمام بڑے اخبارات نے شہ سرخیوں سے شائع کیا کیونکہ ان تمام اخبارات کے مالکان پرائیویٹ سیکٹر کے بڑے بڑے صنعتکار تھے۔
مسٹر فٹ مین سے بابا کے رابطے کے بعد بڑی طاقتوں کی سازشوں اور تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کی حالت سے یوں لگتا ہے جیسے یہ ساری دنیا اندھوں کا گھر ہے اور صرف ”بلائینڈ ہاؤس“میں آنکھوں والے رہتے ہیں۔سیاسیات،اقتصادیات اور دیگر عالمی مسائل پر اندھوں کے روشن خیالات دیکھیں:
”ہمارے باپ دادا نے کیا اسی لیے باہر والوں سے دیش آزاد کروایا تھا کہ اندر والے غلاموں کی منڈیاں کھولتے چلے جائیں؟۔۔۔یا کہیں ایسا تو نہیں ہوارہا کہ باہر والے اب ہماری ماؤں کی کوکھوں میں ہی ان کے بچے تلف کر دیتے ہیں اور ان کی جگہ آپ پیدا ہو جاتے ہیں۔“(ص ۱۲۶)
”سبھوں کو کچھ نہ کچھ ملتا رہے تو سبھی ایک دوسرے سے محبت کرتے رہیں۔فساد تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی سب کچھ اپنے لیے سمیٹ لینا چاہتا ہے۔سب کچھ میرا ہے“ (ص ۱۳۳)
”آزاد وہ ہوتے ہیں جو غلام ہوں اور اس لیے اپنے فیصلوں کے پابند نہ ہوں“ (ص ۱۷۹)
”شکر ہے جانور صرف شور مچا سکتے ہیں۔اگر انہیں سچائیوں کے قابلِ فہم اعلان پر قدرت ہوتی تو بڑوں بڑوں کے پول کھل جاتے۔“(ص ۱۴۷)
”ملکوں کی آپسی لڑائیوں کا ایک ہی کارن ہے، آنکھیں۔آدمی اپنی آنکھیں پھوڑ لے تو جس ملک میں بھی رہے اسے وہی ملک ،اپنا گھر لگے۔“(ص۲۲۹)
راجیہ سبھا میں مختلف ممبران جس طرح اپنے چھوٹے چھوٹے نجی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دے رہے ہوتے ہیں،اسے دیکھ کر بابا کو ایسے لگتا ہے جیسے یہاں سب اندھے بیٹھے ہیں اور بابا کے سوائے کسی کو بھی دکھائی نہیں دے رہا۔لچھیدار تقریریں کرنے والوں کے بارے میں بابا کہتے ہیں:
”مقرر کو اگر عمل کی ذمہ داری قبول نہ کرنا ہو تو وہ بڑی اچھی تقریر کر لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اچھے مقررین کی نیّت کو میں نے اکثر اپنے شبہے کی گنجائشوں سے بالا تر نہیں پایا۔“(ص۱۹۲)
یو این او والے مدراس میں اندھوں کی بہبود کے لیے ایک عالمی کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔اس کے کامیاب انعقاد کے لیے بابا کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔کانفرنس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔بابا اپنے بلائینڈ ہاؤس کے پانچ ارکان کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز مدراس جانے والا ہوتا ہے کہ اسے مہاگورو کا خصوصی پیغام ملتا ۔اس کے مطابق بابا ایک دوا کھانے سے بیمار ہوکر حیدرآباد اتر جاتے اور ہوائی جہاز میں ٹائم بم فٹ کرجاتے۔وزیر خارجہ نے بھی اسی جہاز سے سفر کرنا تھا۔اس طرح جہاز حادثے کا شکار ہو کر تباہ ہو جاتا اور ایک غیر ملکی طاقت کو ناپسندیدہ وزیر خارجہ سے نجات مل جاتی۔بابا شدید ذہنی کشمکش سے گزرنے کے بعد اپنی ساری کہانی تحریر کرکے وزیر خارجہ کو بھیج دیتے ہیں اور ٹائم بم کو اندھے کنویں میں پھینک کر گھر آجاتیہیں۔یہاں گیتا کا آٹھواں ادھیائے پڑھ کر اپنے بستر پر آتے ہیں اور مہا گورو کی پیلی گولی جسے لائف بیلٹ کہتے ہیں اور جو موت کی گولی ہے،اسے حلق سے نیچے اتار کر لیٹ جاتے ہیں۔سازشیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے بابا نے آخر ان کی خطرناک سازش میں شریک ہونے پر موت کو ترجیح دے دی۔
جوگندر پال کو جزئیات نگاری میں جو مہارت حاصل ہے،وہ اس ناول میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔کمال یہ ہے کہ کہیں غیر ضروری پھیلاؤ اور بکھراؤ کا ہلکاسا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال یہاں درج کرتا ہوں۔شرفو نابینا ہونے کے باجود اپنی انگلیوں سے آنکھوں کا کام لیتا ہے اور سمجھے ماموں سے سیکھنے کے بعدبڑی خوبصورت ٹوکریاں بنانے لگا ہے۔یہ خوبصورت ٹوکریاں کیسے بناتا ہے،اس خوبصورت عمل کی تہہ داری دیکھیے:
”اس کا سر ذرا بڑا تھا تو کیا ہوا؟ ناک نقشے کی کتنی تیکھی تھی!۔۔۔اور وہ بھی پٹھان کی پٹھان تھی پر اُس گجراتی بنیے کے ہاتھوں ٹکوں کے بھاؤ بک گئی۔کوئی کابل کا سردار لے جاتا تو اس کا منہ ہر وقت میووں سے بھرے رکھتا۔۔۔اور وہ چھوٹی میم صاحب!کتنی پیاری نکل ا ٓئی تھی! جی چاہتا تھا اسے اسی کے کندھوں پر لٹکا دیا جائے۔“(ص ۲۵)
ناول کے اہم کرداروں بابا،شرفو،بھولا،رونی اور لکھی سے لے کر سنگھے کے پِلّے اور بھولا کے فالتو تک ہر کردار اپنی جگہ پر عین اسی طرح موجود ہے جس طرح اس کا کردار متقاضی ہے۔
”نادید“ میں سپر پاورز کی سیاسی اور اقتسادی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے،یوں تیسری دنیا کی پسماندہ اقوام کی طرف داری کی گئی ہے،لیکن یہ تو خرابی کا ایک اہم رُخ ہے جسے جوگندر پال نے نمایاں کیا ہے۔ان کا اصل مسئلہ تو پورے انسان کا مسئلہ ہے۔انسان جو مہذب طریقوں کی آڑ لے کر درندگی اور بہیمیت پر تلا ہوا ہے۔جنگلوں کیدرخت بھی اس کی تخریب سے محفوظ نہیں :
”جب میں درخت تھا تو ہمارا جنگل کا جنگل دَم سادھے پڑے رہتا تھا،کیونکہ جنگل کے کنارے آدم ذات آباد تھی۔آخر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔اپنی بستی کو پھیلائے جانے کے لیے ظالموں نے ہماری بستی کو آگ لگا دی۔ہم زندہ گڑے ہوئے تھے ورنہ دوڑ کر جانیں تو بچا لیتے،بس وہیں کے وہیں،ویسے کے ویسے جیتے جاگتے،دیکھتے ہی دیکھتے بھسم ہو گئے۔“(ص ۲۲)
بلائینڈ ہاؤس کے اندھے ،نابینا ہونے کے باوجود باطن کی روشنی سے آشنا تھے۔جبکہ روشن آنکھیں رکھنے والے انسان حرص و ہوس اور مفادات کی دوڑ میں اندھے ہو چکے ہیں۔کوئی قوم یا ملک سپر پاور بن جائے یا سپریم پاور،اس کی اصل شناخت تو اس کا انسان ہونا ہے۔خاندان ،قبیلے،عقائد،اقوام،اور اوطان۔۔۔یہ سب ہماری جزوی شناختیں ہیں۔ان سب کی اپنی اپنی حقیقت و اہمیت ہے۔یہ سب جزوی سچائیاں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں لیکن اس دھرتی پر بسنے والے انسان کی سب سے بڑی اور مکمل شناخت یہ ہے کہ وہ اس کرۂ ارض کا باشندہ ہے۔رنگ،نسل،عقیدے اور خطے کے کسی امتیاز کے بغیر بنیادی طور پر انسان ہے۔یہ کرۂ ارضجس کا تین چوتھائی حصہ پانی ہی پانی ہے اور بمشکل ایک چوتھائی حصہ جو خشکی کے چند جزیروں پر مشتمل ہے، بجائے خود ایک وطن ہے۔عالمی ثقافتی اکائی کا اقرار کرنے سے چھوٹے ثقافتی اور تہذیبی دائروں کی نفی نہیں ہوتی،بلکہ وہ سارے ثقافتی جزیرے بھی اندر ہی اندر کہیں نہ کہیں آپس میں ملے ہوتے ہیں۔جوگندر پال نے بڑے لطیف پیرائے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
”جزیروں کے سر ہی پانی کی سطح پر الگ الگ ہوتے ہیں۔پانی کے نیچے تو وہ ہاتھوں میں ہاتھ لیے ہوتے ہیں۔اپنی محبتوں کی اسی یکجائی کی بدولت ان کے سر الگ الگ آباد کاری کے منظر پیش کرتے ہیں“
(ص ۴۳)
کاش امریکہ سرکار اور دوسری بڑی طاقتیں عالمی ثقافتی اکائی کا ادراک کر لیں ۔اپنی محدود عظمتوں کے خبط میں مبتلا رہنے کی بجائے پورے کرۂ ارض کو ایک وطن مان لیں اور پورے انسان کی فلاح کو اپنا نصب العین بنا لیں،کیونکہ اسی میں خود ان کی فلاح ہے۔بصورت دیگر ایٹمی تباہی لانے والا ٹائم بم تو ہر بڑی طاقت کے پیٹ میں گرا پڑا ہے۔فانتظرو انی معکم من المنتظرین!
( مطبوعہ: جوگندر پال،ذکر،فکر فن مرتب کردہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم)