وہ کب سے دروازے سے یونہی ٹیک لگائے بیٹھی تھی آنسو بھی کب کے خشک ہوچکے تھے.
جس شخص کے لیے میں نے اپنی محبت قربان کی اسی نے مجھے دھوکہ دیا وہ بھی تو بھول سکتا تھا اپنی محبت کو جس طرح میں بھولی تھی وہ کیوں نہیں بھولا۔کیا میں واقعی اس کے دل میں جگہ نہیں بنا پائی کہاں کمی چھوڑی ہے میں نے ۔۔۔۔۔اس کا دماغ اسی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔جب دروازے پر دستک ہوئی جو اسے سوچوں سے باہر کھینچ لایا ۔
رجا بیٹا دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔
زمیل حمدانی کی بات سن کر وہ اٹھی خود کو نارمل کیا اور دروازہ کھولا ۔۔۔
ماموں آپ کوئی کام تھا میں آنے والی تھی بس۔وہ اپنی آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولی ۔
میں اندر آجاؤں ۔وہ بولیں ۔
جی جی ضرور آئیں نہ ۔ وہ سائیڈ پر ہو کر بولی ۔
بیٹا مجھے معاف کردو میں تمہارا گنہگار ہوں ۔۔ میں جانتا ہوں میں نے تم سے اور راہم سے ناانصافی کی ہے مجھے تم بہت پیاری ہو بلکل آپا کی کاپی ہو بلکل میں تمہیں دورنہیں کرنا چاہتا تھااس لیے تمہاری اور راہم کی شادی کردی میں جانتا تھا وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا ۔مجھے معاف کردو۔وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولے۔
ماموں یہ کیا کررہے ہیں آپ ان سب میں آپکا قصور تھوڑی ہے یہ سب تو شاید میرا نصیب تھا یہ میری کوئی آزمائش۔وہ بولی ۔
اسکی بات سن کر وہ خاموش ہوگئے ۔
*********************
رانیہ کیا سوچ رہی ہو۔حاذق نے رانیہ سے پوچھا ۔
کچھ نہیں ۔اس نے سرجھکا کر بولا۔
ادھر دیکھو ۔اس نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
اب بولو ۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔
کچھ نہیں بس بابا کی یاد آرہی تھی کاش آج وہ نھی ہوتے تو ہم سب کو ایسے دیکھ کر کتنے خوش ہوتے۔وہ اداس ہوکر بولی
اسکی بات سب کر وہ ایک منٹ کے لیے خاموش ہوگیا۔پھر گہرا سابس لے کر بولا ۔
رانیہ وہ جہاں بھی ہونگے بہت خوش ہونگے۔تمہارا اداس ہونا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچارہا ہے۔تم بس ان کے لہے دعا کیا کرو اس سے انکو وہاں راحت ملے گی۔وہ بولا۔
رانیہ اسکے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں صرف سنجیدگی تھی ۔شاید وہ پہلی دفعہ اتنا سنجیدہ تھا ۔آچھیی۔۔۔۔۔۔۔حاذق کی چھینک اسے خیالوں سے باہر کھینچ لائی ۔
یار اتنی محبت سے دیکھ رہی تھی نظر لگ گئی مجھے ۔وہ منہ بنا کر بولا۔
اس وقت وہ ایک کیوٹ بچہ لگا۔
ہیں۔۔۔۔۔۔چھینک آنے کا مطلب نظر لگنا تو نہیں ہوتا ۔وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بولی۔
ہوتا ہے ہوتا ہے۔وہ آنکھیں بند کر کے سر کو ہاں میں ہلا کر بولا
کس نے کہا ۔۔۔۔۔وہ ایک آئبرو اوپر کر کے بولی۔
تمہارے اس ڈیشنگ ہزبینڈ نے ۔وہ کالر جھاڑ کر بولا ۔
کبھی نہیں سدھر سکتے۔وہ سر نفی میں ہلا کر آہستہ سے بڑبڑائی اورمسکرادی۔
********************
راہم کا دو دن سے کچھ اتا پتا نہیں تھا ۔رجا کو بہت فکر ہورہی تھی اس نے زمیل حمدانی سے کہا توانھوں نے کہا ہوگا کہیں دماغ جب درست ہوگا تو آجائے گا۔
یہاں سے ناامید ہوچکی تھی وہ۔
عنبر آپ چائے کو دیکھ لیں ۔سینڈوچز تیار ہیں ۔اس وقت وہ کچن میں کھڑی شام کی چائے ہی تیاری کررہی تھی اسی اثنا میں راہم گھر میں داخل ہوا ملازم نے رجا کو خبر دی وہ بھاگی بھاگی راہم کے پاس پہنچی۔
کہاں تھے آپ معلوم نہیں میں کتنا پریشان تھی آپ کے لیے ۔آپ کو میری۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی ٹون میں بول رہیےھی جب اسکی نظر راہم کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی پرپڑی جس نے چادر سے خود کو کور کیا ہوا تھا اور حجاب لیا ہوا تھا وہ کچھ سہمی ہوئی تھی۔آنکھیں بھی سرخ تھیں ۔ایسا لگتا تھا جیسے بہت روئی ہو اور رات بھر کی جاگی ہوئی ہوں۔
کون ہے یہ لڑکی۔رجا کے پیچھے سے زمیل حمدانی کی کڑک آواز آئی۔
انکی آواز سن کر وہ لڑکی راہم کے پیچھے ہوگئی ۔ رجا تو ایک دم ساکت کھڑی تھی۔
ڈیڈ یہ شمائل ہے پرسوں ہمارا نکاح ہوا ہے۔
اسکی بات سن کر رجا دو قدم پیچھے ہوئی ۔زمیل حمدانی کبھی بے یقینی سے راہم کو دیکھتے تو کبھی شمائل کو۔
ایک نظر رجا پر ڈال کر وہ وہاں سے چلے گئے۔
*****************************
میں آج پھر آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بیٹھا ہوں ۔
میں آپ سے پھروہی مانگنے آیا ہوں جو پہلےمانگا تھا آپ اپنے باغیچے کا ایک پھول میری کیاری کو دے دیں تاکہ وہاں پر بھی رونق ہو۔مراد ابشام شاہ کے سامنے بیٹھا یہ باتیں کررہا تھا۔
مراد سیدھے سیدھے بولو۔۔۔ابشام شاہ بولے ۔
وہی ارتضی کے لیے حیا بیٹی کا ہاتھ چاہتا ہوں ارین بیٹی اور علی بیٹےکے نصیب جڑے ہوئے تھے اس لیے انکی شادی ہوگئی ۔اس میں تو میں کچھ کہہ ہی نہیں سکا مگر اب تو میں حیا کو اپنی بیٹی بنا کر ہی مانو گا۔
مراد پر امید لہجے مہں بولا۔
ہممم ہم تمہاری بات پرنظر ثانی کر کے تمہیں جواب دیں گے۔
جی جتنا مرضی چیک کرلیں مگر جواب ہاں میں ہی چاہیے مجھے ۔۔وہ پر حوش ہو کر بولا
یہ تو نصیب کی بات ہے اگر حیا اور ارتضی کے نصیب جڑے ہوئے تو ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا ۔
**********************************
کیا یہ وہی ہوگیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ میں کچھ بھی نہ کرپایا۔ماضی میں جو کچھ مراد نے کیا اسکا حساب اب کیا رجا سے لہا جارہا ہے ۔
یااَللّٰه رحم فرما رجا تو بے قصور ہے میں تجھ سے ہی معافی مانگتا ہوں میں نے تب مراد کا ساتھ دے کر جو گناہ کیا ہے اسکی۔
کسی نےصحیح کہا درد کیا ہوتاہے حقییقت میں تب معلوم ہوتا ہے جب خود کو چوٹ لگتی ہے۔
انسو انکے چہرے کوبھگورہے تھے ۔ ایک گہرا سانس لےکر وہ اٹھے اور وضو کر کے جاہ نماز کی طرف گئے ۔
دو رکعت نماز ادا کر کے وہ سجدے میں گر گئے۔
اَللّٰه میرے پاس الفاظ نہیں میرے مہربان اپنا کرم فرمادے میرے مولا رحم فرمادے کرم کردے مولا رجا تو بے قصور ہے مرادکی اعمال کا حساب اس سے مت لینا میرے کریم رب وہ ایک نیک پرہیزگارماں کی بیٹی ہے یارب اس کی عبادتوں کے صدقے اس کی بیٹی کو اس آزمائش سے بچالے۔ وہ رودیے الفاظوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔اب وہاں صرف وہاں آنسو تھے جن میں چھپے الفاظ صرف اس کا رب سمجھ سکتا تھا ۔
*********************
رجا.وہ کھڑکی کے اس پار چاند کو دیکھ رہی تھی جب کسی نے اس کا نام پکارا۔
اس آواز کو سن کر اس نے آنکھیں بند کر لی دو موتی ٹوٹ کر اس کی گال پر گرے ۔
میں جانتا ہوں اس وقت مجھے تمہارے سامنے بھی نہیں آنا چاہیے مگر میں جانتا ہوں تم مجھے سمجھو گی۔
رجا جب میں پرسوں گھر سے گیا تو ایک ہوٹل میں بیٹھا اپنا غصہ ٹھنڈا کررہا تھا ایک ان نون نمبر سے مجھے کال آئی میں نے پک نہیں کی دو تین بار دوبارہ آئی مگر میں نے پک نہیں کی شام کو جب میں گھر لوٹ رہا تھا تو مجھے دوبارہ کال آئی میں نے پک کرلی وہ کال شمائل کے ڈیڈ کی تھی۔ شمائل میرےکالج کی محبت ہے میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں میں شادی بھی کرنا چاہتا تھا مگر ڈیڈ نے تم سے شادی کروادی مگر میں اسکو بھلا نہیں پایا۔جب میں نے انکی کال سنی تو وہ مجھے ایمرجنسی میں ہاسپیٹل بلایا میں ڈر گیا کہیں شمائل کو کچھ نہ ہوگیا ہو۔میں بھاگا بھا گا گیا ۔وہاں جاکر معلوم ہوا کہ انکل کی حالت بہت سیریس ہے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں میں بہت شاکڈ تھا مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرا نکاح کب ہوا ہے ۔انکل کا انتقال اسی رات کو ہوگیا تھا میں کل سارا دن وہی تھا رجا تم مجھے سمجھ رہی ہو نہ وہ میری محبت ہے میں اسے نہیں چھوڑ سکتا تم نے کبھی محبت نہیں کی نہ اس لیے تمہیں معلوم نہیں۔ رجا پلیز بابا کو منالو وہ تمہاری بات سنتے ہیں۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ بابا کو منالو۔وہ ہاتھ جوڑ کر اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
میرے صبر کی انتہا پوچھتے ہو
وہ میرے سامنے رویا بھی تو کسی اور کے لیے
وہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی پھر چہرہ دوسری طرف کر کے بولی۔
ٹھیک ہے میں ماموں سےبات کرونگی۔یہ کہتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے اس کا دل پھٹ جاۓ گا۔
تم واقعی نہت اعلی ظرف ہو۔تم تو مجھ جیسے شخص کو ڈیزرو بھی نہیں کرتی رجا مجھے سمجھ نہیں آرہا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔تم واقعی بہت اچھی ہو۔خوشی سے وہ پھولے نہیں سمارہا تھا
اسکی بات پر اس نے سر جھکا لیا آنکھوں اور ہونٹوں کو سختی سے دبالیا ۔وہ وہاں سے جا چکا تھا اس دیکھے بغیر
******************۔
تھکا ہارا وہ اس وقت گھر میں داخل ہوا ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا امان نو اس نے ہر جگہ ڈھونڈا جہوں جہاں شک تھا وہاں وہاں سے پتا کروایا مگر سب بے سود ۔
سر لیارا سر آپکو بلارہے ہیں۔ملازم نے کہا ۔
اوکے میں آتاہوں۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
اس وقت وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے تھے جب جوزف کمرے میں داخل ہوئے ۔
انکل آپ نے مجھے بلایا ۔اس نے کہا ۔
بیٹھو ۔ وہ گھمبیر لیجے میں بولے ۔
تم ہمیشہ پوچھتے ہو نہ کہ تم کون ہو آج میں تمہارے سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔
تمہارا نام بھی اصلی نہیں تم جوزف نہیں یوسف ہو ۔جنیفر سمتھ کے بیٹے ۔
جینی اور میرا بچپن پاکستان میں گزرا ایک ساتھ کھیلے بڑے ہوئے ۔جینی مجھ سے دس سال چھوٹی تھی۔جب میں بیس سال کا تھا اور وہ دس سال کی تب ہمارےپیرنٹس کا ایک ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوگی تھی ۔تب سے میں نے ہی جینی کو پالا پوسا بڑا کیا وہ اٹھارا کی تھی جب میں پہلی دفعہ ماسکو آیا ا2ر ادھر بزنس سیٹ اپ کیا اسے وہیں رہنا پسند تھا اور وہ وہی رہی ۔
ایک دن مجھے اس کا فون آیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔میرا اور اس کا رابطہ ختم تھا میں اس سے ناپراض تھا مگر میں نے اسکو بچوں کی طرح پالا ہے کیسے اتنی دیر دور رہ سکتا تھا دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور اس سے ملنے چلا گیا مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش تھی ۔ کچھ ہی دنوں بعد میں واپس آگیا پھر مجھے فون آیا کسی حلیمہ صاحبہ کا جینی کی شادی کے بارے میں خیر اسکی شادی ہوگئی ۔ پھر مجھے تمہاری پیدائش کا معلوم ہوا مگرمیں آنہیں سکا ۔ جب تم تین چار ماہ کے تھے تب میں اپنی فیملی کے ساتھ آیا تھا کے ساتھ آیا تھا ۔ جیمی جو آٹھ ماہ کا تھا اور اپنی وائف روزی کے ساتھ اس رات میرا اور روزی کا باہر کا پلان تھا زیخا نے منع کردیا تھا ۔ میری زیادہ ضد پر تمہیں آنے دیاجیمی کوٹھنڈ لگ رہی تھی تو زلیھا نے اسے اپنے ساتھ رکھ لیا جب ہم واپس آئے تو دیکھا جیمی اور تمہاری ماں زحمی تھے ۔تمہاری ماں اور اسکو لے کر جب ہم ہاسپٹل گئے تو تمہاری ماں نے حقیقت بتائی اسے مارنے والا کوئی اور نہیں تمہارا باپ تھا ۔
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے ۔۔۔
تمہاری حفاظت کے لیے تمہیں بچاتا آرہا تھا میں اسی لیے تم سے سب حقیقت چھپائی تمہاری پہچان چھپائی ۔
***********************
رات کانٹوں پر گزارنے کے بعد اب اس نے نماز پڑھی
کون کہتا ے خدا نظر نہیں آتا
وہی نظر آتا ے جب کچھ نظر نہیں آتا
یارب دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ہیں عشق مجازی نے ٹھکرادیا ہے مجھے میرے مولااس نے ٹھکرادیا مجھے جس کی چاہ میں میں نے اپنی محبت ٹھکرائی دیکھ میں تیرے پاس تب آئی ہوں جب مجھے دنیا والوں نے دھو کہ دیا۔ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں نہ دنیا کی محبت میں کھو کر تجھ کو بھلا دیتے ہیں ۔مگر جب دنیا سب در بند کردیتی ہے تو تیرے در پر بیٹھ کر گلے شکوے کرتے ہیں۔
مولا میں جانتی ہوں میں بہت گنہگار ہوں لیکن میں نے یہ بھی جانتی ہوں تیری رحمت تیرے غضے ہر حاوی ہے ۔
یا رب میں نے تو اس سے وفا کی تھی پھر یہ بے وفائی کیوں ہوئی میرےساتھ ۔
ایک منٹ کے لیےرک گئی۔
کیا سچ میں بےوفائی ہوئی ہے؟؟اس کےاندر سے کسی کی آواز آئی۔
کیا بے وفائی کی ہےاس نےدوسرا نکاح گناہ تو نہیں۔تم تواسکی محبت بھی نہ تھی پھر بھی تمہاری خوشی کو اپنی خوشی بنالی اب جب اسے اپنی خوشی ملی تم اسے بےوفا کہہ رہی ۔یہ اس کے دل کی آواز کی تھی ۔
ہاں وہ بے وفا نہیں تھا ۔دیکھ میرے خدا میں اب بھی صرف اپنے مطلب کے کیے تیری بارگاہ میں آئی ۔اس نے سجدہ کیا ندامت کا سجدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...