We two boys together clinging,
One the other never leaving,
Up and down the roads going,
North and south excursions making,
Power enjoying, elbows stretching, fingers clutching,
Arm’d and fearless, eating, drinking, sleeping, loving.
Now law less than ourselves owning, sailing, soldiering, thieving, threatening,
Misers, menials, priests alarming, air breathing, water drinking, on the turf or the sea-beach dancing,
Cities wrenching, ease scorning, statutes mocking, feebleness chasing,
Fulfilling our foray.
Walt Whitman –
عیاشی کا صحیح مطلب ممبئی والوں ہی کو معلوم ہے۔ رنڈی بازی کس شہر میں نہیں ہوتی، بڑے شہروں سے لے کر قصبوں تک یہ دکانیں چوری چھپے رات کے اندھیرے میں جگنوؤں کی طرح چمکتی مل جاتی ہیں۔ ظاہر ہے میٹرو شہروں میں یہ زیادہ منظم صورتوں میں ملتی ہیں۔ یوں تو اب بھی کہیں کہیں روایتی مجرے سننے دیکھنے کو مل جاتے ہیں لیکن ممبئی کے جیالوں نے اسے جس طرح ڈانس بار کی شکل میں ترقی دی، اس کی نظیر ملک بھر میں ملنی مشکل ہے۔ ان ڈانس باروں کی شہرت اور ان کے عاشقوں کا ہجوم دیکھ کر ایک زمانے میں اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی تھی کہ لوگوں کو جسموں کے پیچ و خم اور گہرائی و گیرائی میں اترنے چڑھنے سے کے مقابلے عشوہ طرازیاں زیادہ پسند ہیں ، جس کے لیے وہ ہر رات ہزاروں نہیں، لاکھوں لٹا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اتنے لٹے کہ فٹ پاتھ پر آگئے اور فٹ پاتھ پر بیٹھی رنڈیاں ڈانس بار میں پہنچ کر کئی عالیشان فلیٹوں کی مالک بن گئیں۔ شاید یہ مرد کی فطرت میں ہے کہ وہ abuse ہونا پسند کرتا ہے، اور یہ فطرت دور قدیم سے آج تک قائم ہے، بس نوعیت میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
کشیپ صاحب بھی مرد تھے اور انھیں بھی abuse اور seduce ہونے اور کرنے کا پوراحق حاصل تھا، یہ الگ بات ہے کہ انھیں اس کا احساس اس وقت ہوا جب ممبئی کے ڈانس بار پر ریاستی حکومت نے تالا جڑ دیا۔ اگرچہ یہاں آج بھی فارس روڈ، فاک لینڈ اور بچو بھائی کی واڑی وغیرہ جیسی کئی بامراد بستیاں روشن ہیں لیکن یہاں ’اول طعام بعدہٗ کلام‘والا نسخہ ہی چلن میں ہے، یہ الگ بات ہے کہ طعام کے بعد بھی یہاں کلام کی نوبت نہیں آتی، دسترخوان بڑھا دیا جاتا ہے۔اس لنگر کو فروغ دینے کی غرض سے حکومت نے انھیں لائسنس دے رکھا ہے۔ اب چونکہ ڈانس بار ہماری اس شاندار روایت کا حصہ نہیں تھے ، تو انھیں کیوں کر برداشت کیا جا سکتا تھا۔ یوں بھی ہمارے معاشرے کے اخلاقی نظام کی عمارت منافقت کی نیو پر ہی ایستادہ ہے۔
کشیپ صاحب کے لیے یہ نیا تجربہ تھا۔ وہ ڈانس بار میں میک اپ میں لتھڑی ’’بار بالاؤں‘‘ کے حصار کافی پُر جوش نظر آ رہے تھے۔ ان کی پوری کوشش یہی تھی کہ وہ اس جگہ ’’نئے‘‘ نہ لگیں۔ نیا لگنا کئی جگہ باعث شرم بھی ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر ویسے ہی ڈانس کرنے کی کوشش کرر ہے تھے ، اور پھر یہاں کم بخت کس کو ڈانس کرنا آتا تھا۔ ذرا دیر بعد ہی ان کی سمجھ میں آگیا کہ سب ان ہی کی طرح ہیں۔ اس خیال نے انھیں ایسی تھپکی دی کہ وہ آرکسٹرا کے پاس لگے اس سرخ بلب کو بھی نہ دیکھ پائے جو خطرہ بن کر جھلملانے لگا تھا۔وہاں موجود سارے لوگ، سوائے کشیپ صاحب کے، بڑے سے کاؤنٹر کے پیچھے جا چھپے ۔ وہ احمقوں کی طرح وہیں کھڑے کھڑے صورت حال کا جائزہ لینے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے، انھوں نے دیکھا کہ سفید لباس میں پولس کا ایک جتھا اندر داخل ہوا۔ پولس کے ساتھ ڈانس بار کا مالک شیٹی بھی تھا۔
’’دیکھ لو صاب۔ ادھر کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی آپ کو غلط خبر دیا ہوگا۔‘‘ شیٹی نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ پولس انسپکٹرکو مخاطب کیا۔
انسپکٹر نے اس کی سنی ان سنی کردی، اس کی نظر وہاں کھڑے کشیپ صاحب پر پڑی۔
’’کون ہے بے تو؟ یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘
کشیپ صاحب کا دماغ ہی تو گھوم گیا تھا، آج تک ان سے اس طرح کوئی مخاطب نہیں ہوا تھا۔ ’’دیکھیے مسٹر، ابے تبے اور تو تڑاک سے تو ہم سے بات مت کیجیے۔ ہم بھی یہاں چورسیا سے دو سو روپے کا پان لے کر آئے ہیں، کوئی مفت میں نہیں آئے۔ سمجھے؟‘‘
شیٹی کی ساری خود اعتمادی دھری کی دھری رہ گئی، وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ اس نے جلدی سے کشیپ صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’ابے تیری تو…‘‘ لیکن پھر موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس نے پینترا بدلا، ’’آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے شاید…دادا، ادھر اب ڈانس وانس کہاں ہوتا ہے۔‘‘ شیٹی نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کشیپ صاحب کو آنکھ مارتے ہوئے چپ رہنے کے لیے کہا لیکن وہ اگر ان کے مزاج سے واقف ہوتا تو ایسی کوشش ہرگز نہ کرتا۔ کشیپ صاحب اور طیش میں آگئے۔
’’آنکھ مت مارئیے ہم کو۔ I am not that type of man ، سمجھے؟ اتنا زوردار ڈانس یہاں چل رہا تھا،پھر پتہ نہیں اچانک کیا ہو گیا کہ سب سالے کاؤنٹر کے پیچھے گھس گئے؟‘‘
شیٹی نے اپنا سر پیٹ لیا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ انسپکٹر نے اپنے ماتحتوں کو اشارہ کیا اور اگلے ہی پل پولس کا پورا جتھا کاؤنٹر کے پیچھے جھانک رہا تھا۔ ایک کانسٹبل کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی، ’’ ادھر تو پورا ’کھوپچا‘بنائے لا ہے صاب۔ نکل سالے باہر، کُتریا۔‘‘
سارے لوگ زرد چہرے اور سست قدموں سے باہر آگئے۔ سب کشیپ صاحب کو گھور رہے تھے۔ کانسٹبل اب بھی کسی شخص کو کاؤنٹر سے باہر نکالنے کی کوشش کررہا تھا، انسپکٹر نے اسے آواز لگائی، ’’کیا ہوا،اور کتنے ہیں؟‘‘
’’ایک ہی بچا ہے صاب۔ سالا نکل نہیں رہا ہے ‘‘ ، کانسٹبل نے اس بار کاؤنٹر کے پیچھے چھپے شخص کو گھڑکی لگائی، ’’ سالے نکلتا ہے یا ڈنڈا ڈالوں تیرے اندر؟‘‘
تھوڑی سی جد وجہد کے بعد کاؤنٹر کے پیچھے چھپا شخص باہر نکل آیا جسے دیکھ کر کشیپ صاحب تقریباً اچھل ہی پڑے۔ پھر انھوں نے طنز آمیز نظروں سے جوہر کو دیکھا۔
’’اچھا تو آپ بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں؟ کیوں کیا ہوا، آپ کے variables کی value اچانک dip کیسے کرگئی؟ Equation میں کوئی strong constant emerge ہو گیا کیا؟
بے چارہ جوہر تقریباً رو ہی تو پڑا تھا۔ ’’ میری equation آپ کے چکر میں spoil ہوئی ہے مسٹر کشیپ۔ مرین والے جب میکانیکل والوں کی سطح پر آنے کی غلطی کرتے ہیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔‘‘
’’آپ مرین والے اتنے time competent ہیں تو sea-link خود ہی کیوں نہیں بنا لیا؟ آپ کی equation نے جن variables کو poil s کیا ہے، وہ external نہیں ہیں بلکہ آپ کے internal constants ہیں۔ constant no.1: denial, number two: self-inflation, number three: ego-biases, number four: false narrative of intention…”
انسپکٹر سمیت وہاں موجود تمام لوگوں کا منھ کھلا ہوا تھا ، شاید ان کے کان اپنا کام کرنا بھول گئے تھے۔ انسپکٹر زور سے چلایا، ’’چووووووپ…دماغ کا دہی کردیا سالوں نے…کیسے کیسے لوگ اب آنے لگے ہیں ایسے اڈوں پر‘‘۔اس نے کانسٹبل کو حکم دیا، ’’سب کا آئیڈینٹی ٹی کارڈ لے اور گاڑی میں بٹھا بہن چودوں کو۔‘‘
گالی سن کر جوہر کے رونے کی آواز مزید بلند ہوگئی تھی۔ لیکن پولس والے ایسی چیزوں کے عادی تھے، لوگوں کو ہوٹل کے باہر کھدیڑنے لگے، درمیان میں حسب توفیق گالیوں سے ان کی تواضع بھی کرتے رہے۔
کشیپ صاحب کے لیے بھی یہ صورت حال نئی اور نازک تھی لیکن کسی مسئلے کے آگے ہتھیار ڈالنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔وہ تو صرف یہ سوچ رہے تھے کہ پٹری سے اتری ریل کو کس طرح دوبارہ ٹریک پر ڈالا جائے، لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ انسپکٹر جو دور کھڑا ان سب کی آئی۔ ڈی چیک کر رہا تھا، اس نے انھیں آواز دی، ’’یہ اے۔ کشیپ کون ہے؟‘‘
کشیپ صاحب نے فوراً اپنا ہاتھ اوپر اٹھادیا۔انسپکٹر نے انھیں پہلے تو غور سے دیکھا ، پھر یوں مسکرایا جیسے وہ سرکس کے کسی جانور کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا ہو۔
’’ میں سمجھ گیا تھا کہ تو ہی ہوگا۔‘‘پھر اس نے ’’سرکس کے جانور‘‘ کو قریب سے دیکھنے کے لیے قدم بڑھایا، ’’میٹرو کا انجینئرہے؟‘‘
کشیپ صاحب نے اقرار میں سر ہلایا۔
’’تو میٹرو کا آدمی ہے، اس لیے تیرے کو میں ابھی چھوڑ رہا ہے۔تیرے کو اندر کرے گا تو پتہ نہیں سالا یہ پروجیکٹ اور کتنا کھنچے گا۔ پورے ٹریفک کا پانچ سال سے ’ واٹ‘ لگا کے رکھیلا ہے تم لوگ۔ چل اب نکل، میٹرو پہ دھیان دے۔ ‘‘
’’سر ہمارا ایک فرینڈ بھی ہے وہاں…‘‘
’’پتہ ہے۔‘‘ انسپکٹر نے کانسٹبل کو آواز لگائی، ’’اے ساونت، وہ دوسرے ’پاؤلی کم‘ کو بھی ادھر لے کے آ۔‘‘
پولیس جیپ میں سبکتے ہوئے جوہر کی سسکیوں میں اچانک ایمرجنسی بریک لگ گیا۔ کانسٹبل کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی وہ گاڑی سے کود پڑا۔ اب ان آنکھوں میں کشیپ صاحب کے لیے شکایت نہیں بلکہ عقیدت جھلملارہی تھی۔ کشیپ صاحب ان لوگوں میں نہیں تھے جو ’’نیکی کر اور دریا میں ڈال‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے جوہر پر احسان کیا تھا تو اسے اس کا احساس دلانا بھی ان کا فرض بن گیا تھا۔
’’ہماری وجہ سے پھنسے تھے تو ہماری وجہ ہی سے آپ چھوٹے بھی۔‘‘
جوہر چپ چاپ کار ڈرائیو کرتا رہا، خاموشی میں ہی عافیت تھی۔
’’لوگ ٹھیک کہتے ہیں، مرین والوں میں ‘Gay-angle‘ آ ہی جاتا ہے‘‘ اس بار کشیپ صاحب کی ضرب براہ راست جوہر کی عزت نفس پر تھی، ’’ ایک پبلک پلیس میں آپ ایسے عورتوں کی طرح روئیے گا تو پوری انجینئر برادری کی ناک کٹے گی۔‘‘
جوہر کے لیے اب خاموش رہنا مشکل ہوگیا تھا، ’’ادھر پولیس وین میں cheap لوگوں کے ساتھ جب بیٹھے تھے تو بڑی ناک اونچی ہو رہی تھی؟‘‘
’’جوہر صاحب! انھیں cheap نہیں، ’کرُو ‘لوگ کہتے ہیں۔ممبئی کرُو لوگوں کی respect کرتی ہے۔ یہ بولتی ہے، کر…گاوسکر، تندولکر، کشیپ کر…ادھر دو ہی لوگ ہیں، ایک ممبیکر اور دوسرے جوکر۔ اپنا attitude بدلیے جوہر صاحب، ورنہ ابھی تو periodic ٹیبل پر جوہر اور جوکر ایک ہی گروپ کے elements لگتے ہیں۔‘‘
جوہر نے گاڑی میں ایک زور دار بریک لگایا۔ کشیپ صاحب نے اس جارحانہ انداز پر سرزنش کرنے کے لیے جوہر کی طرف دیکھاجو انھی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کا بنگلہ !‘‘
کشیپ صاحب نے ’ تھینک یو‘ کہہ کر کار کا دروازہ ابھی کھولا ہی تھا کہ جوہر کی آواز نے انھیں روک لیا، ’’ کم سے کم ہم ’سڑک۔ چھاپ۔ کر‘ اور ’شرمندہ۔کر‘ کے elements تو نہیں کہلائیں گے نا مسٹر کشیپ؟…آپ نے ہمارے گھر پر Ftv چلتا دیکھ لیا، کچھ میگزین دیکھ لی اور یہ نتیجہ نکال لیا کہ آپ کی Periodic table کے ہم کون سے element ہیں؟ معاف کیجیے گا لیکن ہم نے مرین انجینئرنگ میں اس سے بہتر scientific study کی ہے۔گڈ نائٹ۔‘‘
کشیپ صاحب مہر بلب گاڑی سے اتر گئے، وہ اتنے دل شکستہ لگ رہے تھے کہ انھوں نے جوہر کے ’’گڈ نائٹ‘‘ کا جواب تک نہیں دیا۔ جوہر کا آخری جملہ تیر بن کر ان کے دل پر ترازو ہوچکا تھا۔ انھوں نے فریج سے بئیر کی ایک ٹن نکالی اور اسے ایک ہی گھونٹ میں پورا خالی کردیا۔ بڑی دیر خالی ذہن بیٹھے رہے لیکن اچانک کچھ ہوا، کیوں کہ ان کی آنکھوں میں زندگی ایک بار پھر جگمگانے لگی تھی۔ وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے بڑبڑائے،’’آپ کو element کہنا Periodic table کی بے عزتی ہے جوہر صاحب۔ elements اوریجنل اور unique ہوتے ہیں لیکن آپ سسرے وہ کمپاؤنڈ ہیں جسے دنیا ’چوتیم سلفیٹ‘ کہتی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے آنکھیں موند کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کی۔ دراصل وہ جوہر کے فیس بک کے ہوم پیج کو یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو انھوں نے اس دن اس کے لیپ ٹاپ پر کھلا دیکھا تھا۔ ذرا دیر بعد ہی انھیں یاد آگیا۔ جوہر کے فیس بک کا پروفائل نام “KJO” تھا ، جس پر ٹائٹینک (Titanic) کی تصویر لگی ہوئی تھی۔
جوہر کے لیے آج کا سانحہ ٹائٹینک ڈوبنے سے کچھ کم نہ تھا۔ شراب کے کئی چھوٹے بڑے پیگ بھی اسے بھلانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس کا لیپ ٹاپ سامنے ہی کھلا پڑا تھا ،اس نے جھنجھلا کر شراب کا ایک بڑا پیگ بنایا اور بغیر پانی ملائے ہی گٹک گیا۔ اسی وقت اس کے فیس بک پروفائل پر ایک friend request نمودار ہوئی۔ جوہر نے بے اعتنائی سے اس پیغام پر نظر ڈالی، کوئی عورت “JLO” کے نام سے اس سے دوستی کی خواہش مند تھی۔ دوستی کی یہ پیشکش جوہر کے درد کا درماں ثابت ہوئی۔ نیکی اور پوچھ پوچھ، اس نے فوراً اس پیشکش پر صاد کردیا۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس کے فیس بک اکاؤنٹ میں کچھ ایسی تصویریں بھی موجود ہیں جو اس دوستی کے آگے رکاوٹ کھڑی کرسکتی تھیں اور اس کی شخصیت کو کسی بھی شریف عورت کے لیے مشتبہ بنا سکتی تھیں۔ جوہر نے جلدی جلدی ان تصویروں کو وہاں سے ہٹانا شروع کر دیا، ابھی صفائی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ کمپیوٹر اسکرین پر اس اجنبی عورت کا پہلا سلام بھی آپہنچا۔ جوہر نے ہڑ بڑا کر پورا گلاس ایک ہی گھونٹ میں ختم کر ڈالا ، پھر پہلو بدلا اور کمپیوٹر کے ’کی ۔بورڈ‘ پر اس کی انگلیاں پھسل پڑیں۔ جوہر نے جوں ہی سلام کا جواب دیا، تھوڑی دیر بعد ہی ادھر سے باقاعدہ گفتگو شروع ہوگئی۔
’’ابھی تک جاگ رہے ہیں؟‘‘
’’سونے ہی جا رہا تھا کہ آپ کا میسج آگیا۔‘‘
’’سوری، آپ کو ڈسٹرب کیا، بائی۔‘‘
جوہر اس اچانک افتاد سے بے چین ہوگیا، ’’ارررے…نہیں…کوئی بات نہیں…کیا آپ مجھے جانتی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن جاننا ضرور چاہتی ہوں۔ دراصل سمندر میں جہاز کے اوپر آپ کی پکچر دیکھی تو سوچا کہ شاید میرا اور آپ کا کوئی رشتہ نکل آئے؟‘‘
’’تو کیا آپ کا بھی سمندر اور جہاز سے کوئی رشتہ ہے؟‘‘
’’بڑا درد بھرا رشتہ ہے جناب۔ ایک ملاح کی بیوی ہوں۔ اور پھر شاید آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرا تنہائی سے کتنا درد بھرا رشتہ ہوگا۔‘‘
’’میں سمجھ سکتا ہوں۔ I am a marine engineer ‘‘
’’آپ لوگ کیا سمجھیں گے ان کی پیاس کو، جن کے چاہنے والوں کو یہ سمندر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔‘‘
’’آپ بہت شاعرانہ باتیں کرتی ہیں۔ لیکن ایک بات بتائیے کہ آپ کی پروفائل بالکل فریش ہے، لگتا ہے ابھی ابھی بنائی ہے۔‘‘
کشیپ صاحب جوہر کے اس سوال پر ہڑبڑا کررہ گئے، لیکن پھر انھوں نے خود کو سنبھالا اور کچھ سوچتے ہوئے ٹائپ کرنا شروع کردیا، ’’ جی ہاں، یہ نئی پروفائل دراصل میری زندگی کے نئے chapter کا آغاز ہے۔ اپنے شکی شوہر، جھکی رشتے دار اور خصی دوستوں سے دور ایک نئی دنیا…جہاں میں صرف ان سے ملوں گی جو میری پیاس کا مفہوم سمجھتے ہیں اور تم اس دنیا میں میرے پہلے دوست ہو۔‘‘
جوہر کے جسم میں ایک پھریری دوڑ گئی، اس نے ایک بار پھر اپنا پورا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کردیا۔ لیکن اس بار اُدھر سے جو پیغام آیا، وہ کھلی ہوئی عام دعوت ہی تو تھی جسے جوہر تو کیا ، دنیا کا کوئی مرد انکار کر ہی نہیں سکتا تھا۔
’’ دیکھو، اگر تمھیں sexual liberation ڈھوندتی ہوئی ایک تنہا عورت سے دوستی کرنے میں کوئی پرابلم ہے تو پلیز ابھی بتادو تاکہ میں اپنا ٹائم تم پر برباد نہ کروں۔‘‘
’’ sexual liberation…آپ کا مطلب جنسی آزادی؟‘‘
’’ہاں، مجھے اب ایسا دوست چاہیے جس کے ساتھ میں اپنے جسم کی سرگوشیاں شیئر کر سکوں۔‘‘
جوہر نے اس بار ایک بڑا پیگ مار لیا۔
’’جسم کی سرگوشیاں؟‘‘
’’ Yes, my fantasies ، میرے جسم کے تقاضے، میری پیاس، سب کچھ۔‘‘
جوہر کا پورا جسم آگ کی بھٹی بن کر دہکنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، لیکن کم بخت شعلے تھے کہ چاروں طرف اپنی سرخ زبانیں لپلپارہے تھے۔ جوہر کا صبر جواب دینے لگا، اس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کردیے ، صرف انڈروئیر پر رحم کھا کر اسے چھوڑدیا۔
کمپیوٹر اسکرین پر اس اجنبی حسینہ (کشیپ صاحب) کے کئی پیغام نظر آ رہے تھے جن میں جوہر کی طویل غیر حاضری پر اسے بار بار آواز لگائی جارہی تھی۔ بالآخر جب جوہر نے ان پیغامات کا جواب دیا تو دوسری طرف کے ردعمل سے ایسا محسوس ہوا جیسے بے چینی کو قرار نصیب ہوگیا ہو۔
’’میں نے سوچا، تم مجھ میں interested نہیں ہو۔ اس لیے دوسرے دوستوں کو تلاش شروع کردی تھی۔‘‘
’’ن ن نہیں…اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم نے پہلی بار میں ہی jackpot مار دیا۔ تمھیں میری ضرورت ہے، صرف میری۔‘‘
’’اچانک کہاں چلے گئے تھے؟‘‘
’’کپڑے بدل رہا تھا۔‘‘
’’کیا پہنا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ بس ایک ذرا سا انڈر وئیر ہے، اور تم نے؟‘‘
اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے کشیپ صاحب اس سوال پر مسکرائے۔
’’وہی جو تم نے پہنا ہے۔‘‘
’’اوہ گاڈ…اوہ گاڈ…سچ مچ پورا ماحول گرم ہوگیا ہے ۔‘‘ جوہر نے اچھل کر ائیر کنڈیشن کا سوئچ دبایا۔ لیکن تب تک ادھر سے پیغام آچکا تھا۔
’’میں بس تمھاری تصویر دیکھ رہی ہوں اور تمھارا لمس اپنے جلتے جسم پر محسوس کر رہی ہوں۔ اوہ ۔ ‘‘
’’جسم پر؟ کون سے حصے پر ؟‘‘
کشیپ صاحب جیسے جیسے جواب دیتے رہے، جوہر بے قابو ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنا بچا کھچا انڈر وئیر بھی اتار پھینکا اور وہیں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ہوا ایک ہاتھ سے جلق لگانے لگا اور دوسرے ہاتھ سے پیغام ٹائپ کرنے لگا۔
’’مجھے تم سے ملنا ہے جان۔‘‘
’’مجھے بھی۔‘‘
’’کل اندھیری برسٹا کیفے میں۔ شام چار بجے۔‘‘
’’ اوکے۔ yellow rose لے کر آؤں گی تاکہ تم اپنی اس کنیز کو پہچان سکو۔ بائی۔‘‘
جوہر کے جلق لگا نے کی رفتار بڑھ گئی، اس کا چہرہ بگڑنا شروع ہوگیا، پورا بدن اینٹھنے لگا ۔ اس کے منھ سے ایک زور کی سسکاری نکلی، اتنی زور کہ وہ کمرے کے باہر تک پہنچ گئی۔
کشیپ صاحب دوسروں کو شکل سے خواہ کتنے ہی چغد نظر آتے ہوں لیکن ایک خوبی تو ان میں ایسی تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ مردم شناس تھے۔ اگرچہ انھوں نے پہلے ہی دن جوہر کو دیکھ کر اندازہ لگالیا تھا کہ اس شخص کے چاروں کھونٹ مضبوط نہیں ہیں، لیکن لیڈس بار کے واقعے نے ان کے اس اندازے کو پختہ یقین میں بدل دیا تھا کہ جوہر کا شمار ان شریف زادوں میں ہوتا ہے جو لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے ہیں۔
چنانچہ کوئی دوسری وجہ نہیں تھی، جو جوہر کو برسٹا کیفے پر پہنچنے سے روک پاتی۔ اس کی بے قراری کا عالم یہ تھا کہ وہ وقت مقررہ سے کافی پہلے وہاں پہنچ گیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ اس سے بھی پانچ منٹ پہلے کشیپ صاحب وہاں پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے جوہر کو آتا ہوا دیکھا تو مسکرائے بغیر رہ نہ پائے۔ بزنس سوٹ میں ملبوس جوہر ، کشیپ صاحب کی موجودگی سے بے خبر برسٹا کے اندر داخل ہورہا تھا۔ کشیپ صاحب بڑبڑائے، ’’دیکھو سالے چرکٹ کو۔ ایسا تیار ہو کر آ یا ہے جیسے کہیں کی AGM کواٹینڈ کرنے آیا ہو۔ کون لونڈیا ان کو گھانس ڈالے گی؟ تمھارے دل کے ارمان، سالے باتھ روم کی نالیوں میں ہی بہیں گے۔‘‘
کشیپ صاحب برسٹا کیفے کے بالکل سامنے لیکن ایک ایسی جگہ پر کھڑے تھے جہاں سے کیفے کے شیشے کے اندر بیٹھے جوہر کی ہر حرکت انھیں نظر آ رہی تھی۔ ایک کار وہاں رکی اور اس سے ایک خوبصورت عورت باہر نکلی۔ کشیپ صاحب نے دیکھا کہ وہ کیفے کی طرف بڑھ رہی ہے ، جب کہ اس کا شوہر کار کو پارکنگ لاٹ کی طرف لے جارہا ہے۔ کشیپ صاحب نے موقع غنیمت جانا اور جیسے ہی عورت اس کے پاس سے گذری، انھوں نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں تاخیر نہیں کی۔
“Good Afternoon M’am…Happy anti-eveteasing day to you.”
اس عورت نے حیرت سے کشیپ صاحب کی طرف دیکھا جو اسے زرد گلاب پیش کررہے تھے۔ اس نے جھجکتے ہوئے گلاب لے تو لیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کشیپ صاحب سے کچھ پوچھتی، کشیپ صاحب جست لگاکر وہاں سے گذرتے ہوئے ایک دوسرے شخص کو دوسرا زرد گلاب پیش کردیا۔ اس عورت نے اپنے کندھے اچکائے اور زرد گلاب سمیت کیفے میں داخل ہوگئی۔ کشیپ صاحب نے کن انکھیوں سے اسے جاتا دیکھا اور اپنے منصوبے کی کامیابی پر دل ہی دل میں قہقہہ لگایا۔ ان کا کام ہوچکا تھا، بقیہ کام ان کا زرد گلاب کرنے والا تھا۔
ہوا بھی یہی، کیفے کے اندر بیٹھے جوہر کی نظر جب زرد گلاب پر پڑی تو اس کا دل جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ گھبراہٹ میں منھ میں رکھا گٹکا اس نے نگل لیا، نتیجتاً کھانسی کا دورہ پڑگیا۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے جوہر کو مڑ مڑ کر دیکھنا شروع کردیا، اس عورت نے بھی اس پر ایک نگاہ غلط ڈالی۔ جوہر نے اپنی جگہ سے ہی اسے ہاتھ ہلا کر خوش آمدید کہا۔ لیکن افسوس، اس بت طناز نے جوہر کو جواب تک نہیں دیا بلکہ ایک شان بے اعتنائی کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ جوہر نے خود کو چست درست کرنے کی کوشش کی اور پانی کا ایک گلاس حلق کے اندر انڈیلا، پھر براہ راست اس عورت کے پاس پہنچ کر اسے مخاطب کیا، ’’ ہائے، JLO ‘‘۔
عورت نے گھور کر اسے دیکھا، “JLO?”
“This is KJO from the last night.”
“KJO from the last night?”
حیران عورت نے مڑ کر کیفے کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں اس کا شوہر کھڑا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ حسب توقع تھا۔ اس پیکر خوش جمال کے خاوند آتش خو نے اپنے ہاتھوں سے اس عاشق صادق کے چہرے پر ایسی نقش پردازی کی کہ تھوڑی دیر بعد وہ کیفے کے باہر چاروں خانے چت پڑا تھا لیکن وہاں داد خواہی کے لیے کوئی موجود نہ تھا۔
کشیپ صاحب دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، ان کا منھ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔ شاید انھیں اپنی کاوشوں کے اس غیر متوقع ثمرمراد کا اندازہ نہ تھا۔ ذرا دیر بعد انھیں احساس ہوا کہ اس زخم خوردہ عاشق کی عیادت ان پر واجب ہے، چنانچہ وہ جوہر کی طرف یوں بڑھے جیسے وہاں سے ان کا اتفاقاً گذر ہوا ہو۔ حتیٰ کہ وہ جوہر کو دیکھ کر کچھ اس طرح چونکے کہ ان کی اداکاری پر داد دینے کے لیے وہاں کوئی بالی ووڈ کا ہدایت کار موجود نہ تھا ، ورنہ اپنی فلم میں چھوٹے موٹے رول کے لیے انھیں موقع ضرور دیتا۔
’’ارے جوہر صاحب!کیا ہوا؟ وہ سانڈ آپ کو کیوں مار رہا تھا؟‘‘
’’آپ نے دیکھ لیا کیا؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا…شام کے لیے بئیر لینے نکلا تھا ، دیکھا کہ کوئی چرکٹ پٹ رہا ہے…پاس آیا تو آپ نکلے۔‘‘
’’کچھ نہیں، چھوٹی سی misunderstanding ہو گئی تھی۔‘‘
’’چھوٹی سی؟ ایک شریف ، سوٹ اور ٹائی لگانے والے مرین انجینئر کو فٹ پاتھ پر کتوں کی طرح کوئی سڑک چھاپ سانڈ پیٹے ؛ اسے آپ چھوٹی سی misunderstanding کہتے ہیں؟‘‘
’’اب چھوڑیے بھی، کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔‘‘
کشیپ صاحب نے لوہا گرم دیکھ کر پینتر ا بدلا، ’’ارے جانے کیسے دوں، یہ کیفے ہے یا غیر قانونی ڈانس بار؟ آپ آئیے ہمارے ساتھ، سالوں کو ہم ابھی اپنا status بتاتے ہیں۔‘‘
بلی تھیلے سے باہر آنا شروع ہوگئی تھی۔
’’آپ سمجھتے کیوں نہیں کشیپ صاحب۔ غلطی ہماری تھی۔ سالی ایک لونڈیا کے چکر میں…‘‘
’’ہائیں۔ لونڈیا کے چکر میں …اور آپ جیسا High-valued taste والا انسان؟‘‘
جوہر سمجھ گیا تھا کہ یہ اڑیل ٹٹو اس طرح نہیں مانے گا ، چنانچہ اس نے وہی کیا جو ہمارے کلچر کا ایک انفرادی اور شناختی جزو ہے یعنی رشوت کا پانسا پھینکا۔وہ کشیپ صاحب کی بانہہ پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے اس دیار ملامت سے دور لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ارے یار۔ بئیر کا موڈ ہے نا آپ کا؟…چلیے آپ کو پلاتا ہوں۔ اب پلیز یار یہاں سے چلو۔‘‘
بئیر پینے کے دوران بار بار کشیپ صاحب جوہر کی پٹائی کا ذکر چھیڑ دیتے تھے اور جوہر ہر بار بات بدلنے کی کوشش کرتا۔ کشیپ صاحب کو اس چوہے بلی کے کھیل میں عجب ابلیسی لذت مل رہی تھی جو بئیر کے نشے سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جوہر ہر بار کوئی نہ کوئی صفائی پیش کرتا اور کشیپ صاحب اس کی صفائی پر اپنا ہاتھ صاف کردیتے۔
’’مجھے پتہ تھا کہ وہ fake ہے۔ دس منٹ پہلے اس نے فیس بک میں وہ پروفائل بنائی تھی، اور ایک ہی فرینڈ اس میں شامل کیا تھا؛ وہ تھا میں۔‘‘
کشیپ صاحب بئیر کی چسکی لی، ’’پتہ تھا ؟ پھر بھی…‘‘
’’مجھے left brain سے برابر سگنل مل رہا تھا، جو کہہ رہا تھا : جوہر! ہوشیار رہنا۔ لیکن سالا right brain کے propellers کنٹرول سے باہر ہوگئے۔‘‘
کشیپ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ہمدردی دکھائی، ’’ہو جاتا ہے کبھی کبھی…دیکھیے وہ کیٹ ونسلیٹ (Kate Winslet) سوار ہوئی اور پورا ٹائٹینک (Titanic) لے ڈوبی۔‘‘
’’کیٹ ونسلیٹ کا چکر نہیں تھا کشیپ صاحب۔ دراصل لیفٹ اور رائٹ brainکے بیچ کا fluid الکحل سے amalgamate کر گیا۔ میں نے دو پیگ چڑھا رکھی تھی اور تیسرا ہاتھ میں تھا۔ اس سے دونوں کے بیچ کی absolute viscosity بدل گئی۔ دونوں brains کے بیچ میں coefficent of friction اتنا بڑھ گیا کہ thinking faculties بالکل suspend ہو گئیں اور احساسات auto-mode پر چلے گئے۔ سمجھے آپ؟‘‘
’’جی بالکل۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنی آسان سی بات اس کیفے والے سانڈ کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی۔ ویسے آپ نے اس brilliant explanations سے اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کرلی۔‘‘ کشیپ صاحب کا یہ کاری وار جوہر کی سمجھ میں نہیں آیا ، بلکہ اس نے تو ان کا شکریہ تک ادا کر ڈالا۔ کشیپ صاحب کو بھی تھوڑی مایوسی ہوئی ، کیوں کہ شکاری تو شکار کو تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ کشیپ صاحب نے پھر ایک چرکا لگایا، ’’ لیکن صبح تو الکحل de-amalgamate ہو گئی ہوگی، تب بھی آپ کی thinking faculties نے کام کرنا شروع نہیں کیا؟‘‘
’’ارے شراب اتری تو وہ چڑھ گیا تھا نا۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’سیکس۔ وہ chatting بہت hot تھی کشیپ صاحب۔‘‘
’’ اس کا مطلب آپ کے احساسات اس وقت تک auto-mode پر ہی رہے، جب تک اس سانڈ نے آپ کی ہڈی پسلی ایک نہیں کردی؟‘‘
کشیپ صاحب نے اس بار بالکل صحیح باؤلنگ کی تھی، جوہر کلین بولڈ ہوچکا تھا۔
’’میں اور بئیر لاتا ہوں۔‘‘
کشیپ صاحب بہت محتاط انداز میں جرعہ نوشی کررہے تھے لیکن جوہر کو ایک بار پھر شراب بہا کر لے گئی۔ کشیپ صاحب نے انھیں ٹوکا بھی لیکن اس نے ان پر اپنا احسان لاد دیا۔
’’وہ تو بس آج آپ کا موڈ تھا، اس لیے پی رہا ہوں ورنہ میں نے طے کرلیا تھا کہ اس کتّی چیز کو اب کبھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ یہ سالی thinking faculties کو suspend کر دیتی ہے۔‘‘
’’اور احساسات auto-mode پر چلے جاتے ہیں۔‘‘کشیپ صاحب ٹکڑا لگایا۔
جوہر نے زور زور سے اپنا سر ہلاتے ہوئے تائید کی، ’’بالکل صحیح۔‘‘
’’توجب آپ کے احساسات auto-mode پر چلے جاتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’فرائڈے (Friday) تک انتظار کرتے ہیں، اور کیا؟‘‘
کشیپ صاحب نے انھیں کریدا، ’’دیکھیے، پھر آپ ہم سے کچھ چھپا رہے ہیں۔ آپ جیسے brilliant لوگ Monday کی پرابلم کے لیے Friday تک انتظار کریں، یہ ہم نہیں مان سکتے۔‘‘
جوہر کو لگا جیسے اس کی ذہانت کو کسی نے چیلنج کردیا ہو، وہ جوش میں آگیا، ’’ یہ ہے نا…انٹرنیٹ…سارے مرض کی دوا۔‘‘
کشیپ صاحب کو یہ دوا غیر دلچسپ محسوس ہوئی ، ’’ارے ان نقلی چیزوں سے اصلی مریض کہاں ٹھیک ہونے والا ہے۔‘‘
جوہر نے کشیپ صاحب کو تمسخرآمیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا جیسے وہ اس معاملے میں اس کے سامنے طفل مکتب ہوں۔
’’نقلی صرف شوشل نیٹ ورکنگ ہے دادا۔ ابھی آپ نے انٹرنیٹ کا جلوہ دیکھا ہی کہاں ہے، آئیے دکھاتا ہوں۔‘‘
اپنی ذہانت اور تجربے کا رعب گانٹھنے کے لیے جوہر نے لیپ ٹاپ پر فحش سائٹس کھولنا شروع کردیا۔ کشیپ صاحب تجسس اور انہماک سے دیکھ رہے تھے۔
’’ارے یہ کیا clips دکھا رہے ہیں، آدمی کا موڈ (mood) بننے سے پہلے سسرا ختم ہوجاتا ہے۔‘‘
’’کشیپ صاحب! یہ تو صرف trailor ہیں۔ رکیے ، ابھی آپ کو انٹر نیشنل سیکس کی سیر کراتا ہوں۔ ‘‘
جوہر نے ایک فحش سائٹ کھول کر اس کی داخلہ فیس پر نظر ڈالی۔
’’۱۰۰ ڈالر؟ یعنی پانچ ہزار روپے۔ ‘‘ وہ پل بھر کے لیے جھجکا لیکن ایک بار پھر اس کے احساسات auto-mode پر چلے گئے، ’’ کوئی بات نہیں۔ پانچ ہزار میں آپ کو ہم یہیں بیٹھے بیٹھے پانچ سمندروں کے پانی کا مزہ دلا تے ہیں۔ ‘‘
کشیپ صاحب سارے اصول و قواعد کو غور سے دیکھ رہے تھے، ’’اچھا تو سارا کھیل پیسوں کا ہے۔‘‘
جوہر نے ان کی بات کا جواب دیے بغیر اپنا کریڈٹ کارڈ نکالا اور ویب سائٹ کے فارم بھرنے لگا۔ کشیپ صاحب کو شاید جوہر پر رحم آگیا تھا یا پھر وہ حق حلال کی کمائی کو اس طرح لٹتے نہیں دیکھ سکتے تھے، انھوں نے جوہر کو ٹوکا۔
’’پانچ ہزار میں دور سے درشن؟….چھوڑیے جوہر صاحب۔‘‘
لیکن جوہر کا گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا تھا، اس کی لگام اب خود اس کے ہاتھوں میں نہیں تھی۔
’’دور سے درشن نہیں ، آپ کی گود میں بٹھا دیں گے…آپ تو بس یہ بتائیے کہ کہاں سے شروع کریں گے؟ روس، فرانس ، برازیل، افریقہ…اسکول گرل، آفس گرل، نرس، ڈاکٹر…موٹی، دبلی، لمبی، چھوٹی…کالی، گوری، بھوری…؟؟‘‘
کشیپ صاحب گنگ تھے، وہ مجسم بصارت بن چکے تھے۔ ان کے جسموں پر چیونٹیاں رینگنے لگی تھیں۔ جوہر کے لیپ ٹاپ پر دنیا بھر کی خوب صورتی جیسے سمٹ آئی تھی۔
دو شریف زادوں کی خر مستیاں اپنے شباب پر تھیں۔ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے لیپ ٹاپ پر خوش فعلیاں کرتے ہوئے porn stars ان کے ساتھ ہی ہوں۔ ان کے منھ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔ خوشی کی بے ہنگم آوازیں رفتہ رفتہ اتنی بلند ہوتی چلی گئیں کہ وہ بنگلے کی سرحد کو پار کرکے انجینئر انکلیو کے منیجر بھٹ صاحب تک پہنچ گئیں۔ ان کے کان کھڑے ہو گئے، انھوں نے جوہر کے بنگلے کی طرف نظر ڈالی جہاں سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر سوچتے رہے، پھر وہ دبے پاؤں جوہر کے بنگلے کی ٹوہ لینے کے لیے اس طرف بڑھ گئے۔
بھٹ صاحب کا تجسس اتنا بڑھ گیا کہ وہ بنگلے میں نقب لگانے سے بھی نہیں چوکے۔ انھوں نے کسی طرح ڈرائنگ روم کے روشن دان تک رسائی حاصل کرلی اور جو کچھ انھوں نے اندر دیکھا، اس سے ان کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اندر کشیپ صاحب اور جوہر صرف انڈر وئیر پہنے ناچ رہے تھے ۔
دن چڑھے تک کشیپ صاحب اور جوہر اب تک کمرے میں انڈر وئیر پہنے ٹوٹے بکھرے پڑے رہے۔ رات بھرکے جشن کی تھکن نیند کی شکل میں اب تک ان کی پلکوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن برا ہو اس شخص کا جس نے موبائل جیسا خلل انداز مضراب ایجاد کیا، جس کی ضرب خفیف بھی مضروب کے لیے کبھی کبھی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ جوہر کی نیند بھی آج اس کا شکار ہوگئی لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ کچھ دیر تک ٹالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پھر تنگ آکر اس نے فون اٹھا ہی لیا۔
’’ہیلو۔ ہاں کون ؟…کس بارے میں؟….‘‘ جوہر گھڑی کی طرف ایک نظر ڈالتا ہے، ’’سنیے مس رادھیکا آف ایچ۔ڈی۔ایف ۔سی…اکاؤنٹ اپ ڈیٹ کرنے (update) کے لیے آپ کو یہی وقت ملا ہے؟ رات کے ساڑھے بارہ بجے؟ …جی ؟؟؟‘‘
جوہر نے بستر سے چھلانگ لگائی اور کھڑکی کے پردے ہٹائے۔ دھوپ کی نکیلی کرنوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ جوہر کے چہرے پر پل بھر کے لیے شرمندگی نے اپنی ایک جھلک دکھائی اور اس کی جگہ تشویش نے لے لی۔ واقعی اس وقت رات کے نہیں بلکہ دن کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔
’’سوری میڈم…کیا کہہ رہی تھیں آپ؟ ‘‘ دوسری طرف سے پتہ نہیں کیا کہا گیا کہ جوہر کے چہرے پر زلزلے کے آثار دکھائی دیے۔ ’’جی؟؟…ایک سکنڈ…please hold on ‘‘
وہ اس وقت بالکل بدحواس لگ رہا تھا، پاگلوں کی طرح اپنے لیپ ٹاپ کی طرف لپکا جہاں اب بھی بہت سارے porn sites کھلے ہوئے تھے۔ اس نے جلدی جلدی سب کو بند کیا اور پھر تیزی سے اپنے بینک اکاؤنٹ کا آن لائن جائزہ لینے لگا۔ اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا۔
’’یہ غلط ہے میڈم۔ اتنے سارے transaction کیسے نظر آ رہے ہیں…میں نے تو صرف ایک transaction کیا تھا…ایک سو ڈالر کا…یہ…یہ سب کیا ہے؟‘‘ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس نے پڑھنا شروع کیا، ’’wildpussies.com …لیکن wild life
کی تو کوئی سائٹ ہم نے دیکھی ہی نہیں…آ پ ہنس رہی ہیں؟…‘‘ آپریٹر کی ہنسی نے جوہر کی بدحواسی جھنجھلاہٹ اور غصے میں بدل دیا، “Is this your professional attitude? You laugh at your customers?”
دوسری طرف سے لائن منقطع ہوگئی۔ جوہر نے فون دیوار پر دے مارا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی سسکیوں کی آواز آنے لگی جو بتدریج بڑھتی رہی۔ اس کا پورا جسم زرد پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ کشیپ صاحب کی نیند بھی اس شور شرابے سے ٹوٹ گئی، وہ آنکھیں بند کیے تھوڑی دیر کنمناتے رہے، لیکن بالآخر انھیں آنکھیں کھولنی ہی پڑیں۔
’’کیا بوال ہے بھائی…ارے کپڑے کہاں گئے ہمارے؟‘‘
جوہر جھنجھلا گیا ، اس نے اپنے آنسوؤں سے لت پت چہرے کو اٹھا کر کشیپ صاحب کی طرف دیکھا، ’’ کپڑے پوچھ رہے ہیں آپ؟یہ پوچھیے، میرے اکاؤنٹ سے پیسے کہاں گئے۔‘‘
کشیپ صاحب سمجھ نہیں پائے، وہ جوہر کو ٹکر ٹکر دیکھتے رہے۔
’’کل ہم نے ایک transaction کیا تھا نا؟ یہ دیکھیے، یہاں کتنی فالتو entries نظر آ رہی ہیں…‘‘ جوہر نے اپنے لیپ ٹاپ کا اسکرین کشیپ صاحب کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
کشیپ صاحب اب تک یہ تو سمجھ چکے تھے کہ معاملہ رات کی عیاشی سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ کتنی سیریس ہے، اس کا اندازہ انھیں اب بھی نہ تھا۔
’’ہم کیا بولیں اس بارے میں؟…انٹرنیٹ تو آپ کی specialized field ہے…‘‘
’’باباجی کا گھنٹا ہے ہماری specialized field۔ آپ کی خواہش تھی تو میں نے سوچا ، چلوسالا دیکھتے ہیں…لیکن ایک ہی رات میں پورے ڈیڑھ لاکھ کا چونا لگ گیا۔‘‘
کشیپ صاحب کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا، ’’ڈیڑھ لاکھ؟‘‘
جوہر نے منھ بسورا، ’’پرسوں وائف آئے گی ، پوچھے گی تو کیا جواب دوں گا؟‘‘
کشیپ صاحب حیرت و استعجاب کے دریا میں غوطے لگانے کے بعد باہر آ چکے تھے۔ اب ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا، کوئی تاثر نظر نہیں آر ہا تھا؛ نہ ملال، نہ ہمدردی۔ انھوں نے اپنے کپڑے اٹھائے، ’’آپ کو جب اس کھیل کا پورا گیان نہیں تھا تو risk نہیں لینا تھا۔‘‘
جوہر ایک بار پھر ہتھے سے اکھڑ گیا، ’’پتہ کیا نہیں تھا مجھے؟ left brain مجھے لگاتار سگنل دے رہا تھا، Johar! be careful …انٹرنیٹ پر کریڈٹ کارڈ کی detail ڈالنا safe نہیں ہے۔ لیکن سالا right brain کے propellers ایک بار پھر آؤٹ آف کنٹرول ہوگئے۔ ٹیکنیکل پرابلم ہے میرے ساتھ، آپ کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘
کشیپ صاحب نے شرٹ کا بٹن لگاتے ہوئے اپنا سر اطمینان سے ہلایا ، ’’میں سمجھ رہا ہوں… لیفٹ اور رائٹ برین کے planes کے بیچ کا fluid الکوحل سے amalgamate کر گیا…Coefficient of friction بڑھ گیا…thinking faculties نے کام کرنا بند کردیا اور feelings جو تھیں، وہ auto-mode پر چلی گئیں۔‘‘
جوہر انھیں پلکیں جھپکائے بغیردیکھ رہا تھا ۔ وہ شاید اس پر حیرت زدہ تھا کہ کشیپ صاحب نے کتنے اختصار میں اس کی ذہنی کیفیت کا تجزیہ کر ڈالا۔
کشیپ صاحب، جوہر کے ساتھ جب بنگلے سے باہر نکلے تب بھی جوہر سبک رہا تھا۔ کشیپ صاحب نے پہلی بار ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’اب رونا بند کیجیے یار، اچھا نہیں لگتا۔‘‘
ہمدردی کے یہ ’’دو بوند‘‘ جوہر کو تر کر گئے، وہ بے اختیار ہو کر کشیپ صاحب سے لپٹ گیا اور بھائیں بھائیں رونے لگا۔ کشیپ صاحب اس کی اس بچکانہ حرکت سے ہڑبڑا کر رہ گئے، انھوں نے آس پاس کا جائزہ لیا کہ کہیں کوئی انھیں دیکھ نہ رہا ہو۔
لیکن کشیپ صاحب کی نظر منیجر بھٹ پر نہ پڑی جو اپنے آفس کے دروازے پر کھڑا یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھ رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا بھی جارہا تھا، ’’رات کو ننگا ناچ اور صبح یہ emotional scene…یہ کون سی فلم ہے پربھو؟‘‘
کشیپ صاحب نے روپیوں کا ایک بنڈل جوہر کے ہاتھ میں پکڑا دیا، ’’یہ پچیس ہزار ہیں، رکھیے۔ آفس جانے سے پہلے ہم اور پچاس آپ کے اکاؤنٹ میں ڈال دیں گے۔‘‘
جوہر نے تھوڑی راحت محسوس کی۔کشیپ صاحب مسکرائے، ’’ جب مستیاں share کی ہیں تو خرچ بھیshare کریں گے نا۔ sharing ہی اپنے two rail system کی کامیابی کا راز ہے جوہر صاحب…resouce sharing، load sharing ۔ اسی لیے Monorail ناکام ہے، too much load ایک سنگل سسٹم پر۔ چلتا ہوں۔ Have a nice day.”
کشیپ صاحب چلے گئے لیکن منیجر بھٹ اپنی جگہ جما رہا۔ اس نے کشیپ صاحب کو پیسے ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے منھ سے بے ساختہ سسکاری نکل گئی، ’’یہ کیا ہے؟ Dirty picture without Vidya Balan?”