آپ غور کر کے دیکھیں آپ کے سامنے میں ایک بات بیان کر سکتا ہوں۔ دینِ اسلام! اسلام کیا چیز ہے؟ ’دین‘ کا جو لفظ آیا کرتا ہے اور مذہب کا، اس کے اندر تین جُز ہوا کرتے ہیں ؛ ایک عقیدہ ہوتا ہے، ایک عمل ہوتا ہے، ایک اخلاق ہوتا ہے تین چیزوں سے یہ چیز مرکب ہوا کرتی ہے، اس مرکب چیز کا نام مذہب اور دین ہے۔ آپ ہر مذہب کو دیکھ لیجئے اس میں کچھ عقائد ہوتے ہیں جسے ہم لوگ ایمانیات کہتے ہیں۔ کچھ اعمال ہوا کرتے ہیں جو جوارح سے کئے جاتے ہیں، اعضاء سے کئے جاتے ہیں، کچھ عادات اور خصلتیں ہوا کرتی ہیں ان کو ’اخلاق‘ کہا کرتے ہیں بس ان تین چیزوں کے مجموعہ کا نام مذہب ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی یہی تین چیزیں ہونی چاہئیں اور یہ تینوں چیزیں ہیں۔
پہلا جُز اس کا عقیدہ ہے عقیدے جتنے ہیں ان سب میں سے بڑا جو عقیدہ ہے وہ اسلام کے اندر توحید کا مسئلہ ہے، ٹھیک ہے نا؟ سب مسلمان کلمہ گو جانتے ہیں عقیدہ کے اعتبار سے توحید کے مسئلہ سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ سب سے بڑا عقیدہ ہے یہ اسلام کا عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ کو اگر آپ دیکھیں گے تو بہت سے غیر اسلامی مذاہب میں جوں کا توں موجود ہے۔ براہمہ کا ایک گروہ ہے ہندوستان میں ان کے ہاں ایسی توحید ہے جیسی مسلمانوں کے ہاں ہے کوئی فرق نہیں ہے، ماتھے پر تین نشان لگایا کرتے ہیں، آپ نے قشقہ ہندوستان میں دیکھا ہو گا وہ براہمہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے ہاں توحید کامل ہے نبوت کے منکر ہیں توحید کامل ہے۔ جتنے آسمانی مذاہب ہیں سچے سب میں توحید موجود ہے۔ اور آسمانی مذاہب کے ماننے والے اس وقت اس دنیا میں موجود ہیں اور کُل مسلمانوں کے نزدیک وہ جہنمی ہیں یا نہیں؟ جو اس وقت سچی انجیل پر عمل کرے وہ بھی آپ کے نزدیک کافر ہی ہے نا؟ سچی توریت پر عمل کرے تو کافر، صحف ابراہیم پر عمل کرے تو کافر، انجیل کو سچا جانے تو کافر۔ تو توحید کا مسئلہ اکثر غیر اسلامی مذاہب میں موجود ہے۔ آپ جو اسلام کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہمارا مذہب حق ہے جب آپ ان لوگوں کے پاس جا کر کہیں گے تو وہ کہیں گے۔ ’یہ ہمارے پاس موجود ہے، آپ نئی حقانیت کیا لائے؟ ہمارے ہاں یہ موجود ہے۔‘ سمجھ میں آ گیا نا؟ نبوت کا مسئلہ جو ہے جو تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہے۔
عمل کے لئے جزا کا مسئلہ ہے۔ تقریباً تمام مذاہب میں سوائے دہریہ کے موجود ہے، دہریے خدا کے قائل نہیں ہیں باقی ہر مذہب خدا کا قائل ہے۔ عمل کے لئے بدلہ ہے وہ بدلہ خواہ تناسخ کے ذریعہ ہو، خواہ روحانی ہو، کسی اور ذریعہ سے ہو یا جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں میرا بھی یہ عقیدہ ہے، خدا میرا اور آپ کا اسی عقیدہ پر انجام کرے کہ قیامت کے ذریعہ دوبارہ اُٹھنا پڑے گا۔ تو قیامت کے بھی بہت کثیر کافر قائل ہیں عیسائی بھی، موسائی بھی، بہت سے لوگ ہیں تو جتنے بھی اعتقادی مسئلہ آپ لیں گے وہ کُل کے کُل یا اجزاء کی حیثیت سے متفرق غیر اسلامی مذاہب موجود ہیں۔ آپ کہیں گے کہ اسلام قرآن ہے، ٹھیک ہے، یہ حق ہے۔ آپ کہیں گے، قرآن کو ہاتھ میں لے کر کہیں گے کہ: الٓمّٓ (1) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ (سورت البقرۃ 2 آیت 2) ’اس کتاب میں شک نہیں ہے۔‘ یہی معنی ہیں نا ٹھیک ہے، اگر کوئی یہودی توریت غیر محرف ہاتھ میں لے کر کہے: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ تو آپ کیا کہیں گے؟ کچھ تو بولو ایسا ہی ایمان لانا پڑے گا جیسا قرآن پر ہے ذرا سا فرق کرتے ہی کافر ہو جائے گا۔ عیسائی غیر محرف انجیل ہاتھ میں لے کر کہے: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیبَ مسلمان کیا کہے گا؟ ’اٰمَنَّا‘ ٹھیک ہے نا۔ کیا بات ہوئی؟ کتاب وہاں بھی موجود ہے، قرآن میں اور اس میں کیا فرق ہوا؟ ہُدًى لِّلْمُتَّقِینَ ہدایت ہے متقیوں کے لئے، اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیہَا ہُدًى وَّ نُوْرٌ (سورت المائدہ 5 آیت 44) ’ہم نے توریت نازل کی تھی اس میں بھی ہدایت اور روشنی تھی۔‘ تو قرآن جو چیز پیش کر رہا ہے وہ دوسری جگہ غیر مسلموں میں موجود ہے جن کو آپ کافر اور جہنمی بتا رہے ہیں۔ تو اوّل سے لے کر آخر تک جتنے بھی عقائد ہیں یا متفرق طور پر یا مجتمع طور پر دوسری جگہ موجود ہیں۔
اب رہ گیا اخلاق، اخلاق کُل کے کُل جتنے ہیں جوں کے توں مذہب اور لا مذہب دہریہ اور غیر دہریہ سب میں مشترک ہیں۔ کسی شخص کے نزدیک ماں باپ کا ستانا اچھی چیز نہیں ہے، کسی شخص کے بھی نزدیک مُحسن کشی، احسان کرنے والے کے ساتھ بُرائی کرنی خواہ دہریہ ہو، فلسفی ہو سب بُرا سمجھتے ہیں۔ غرض ’اخلاقی‘ جتنے علوم ہیں وہ سب کے سب تمام مذاہب میں موجود ہیں۔
اب رہ گئے ’عبادات اور معاملات‘ جو ہیں تقریباً سب مذاہب میں موجود ہیں، عبادات کے ادا کرنے کا جو طریقہ ہے وہ کچھ مختلف ہے اور باقی نوعیت سب جگہ موجود ہے۔ نماز ہمارے ہاں بھی پڑھی جاتی ہے اور کلیسا میں دوسرے طریقہ سے پڑھی جاتی ہے، روزہ ہمارے ہاں جس طریقہ سے رکھا جاتا ہے ان کے یہاں بھی دوسرے طریقہ سے رکھا جاتا ہے، حج کرنے کے لئے ہمارے ہاں مکہ جانا پڑتا ہے وہاں کاشی اور سومنات جاتے ہیں سب کے ہاں یا ترا ہے۔ آپ سمجھ گئے؟ کونسی چیز آپ پیش کر رہے ہیں جو ان کے ہاں نہیں ہے؟ جو آپ کہیں یہ اچھی چیز ہے، جو چیز آپ کے پیش کریں گے وہ کہیں گے یہاں موجود ہے۔ تو اسلام تو وہ ہونا چاہیئے جو غیر مسلم کے پاس نہ ہو تو قرآن کو اوّل سے آخر تک الم سے والناس تک آپ اُٹھا کر دیکھیں تمام اغیار میں مذاہبِ باطلہ میں وہ تقسیم ہو گیا کچھ نہیں بچا، کوئی چیز آپ نہیں بتا سکتے۔ قصصِ اوّلین و آخرین آپ کہیں گے وہ بھی دوسروں کے ہاں موجود ہیں، تو پھر قرآن کیا چیز رہا؟ اسلام کیا چیز رہا؟ کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ سمجھ گئے نا؟ خدا آپ کو توفیق دے اور ہدایت دے کوئی غلط بات نہ سمجھو۔
صرف ایک ہی قضیہ ہے اسلام اور قرآن میں جو غیر مسلم کے ہاں نہیں ہے، وہ ہے ’محمد الرسول اللّٰہ‘ بس یہ ایک ہی قضیہ ہے اسی کا نام قرآن، اسی کا نام اسلام ہے یہی غیر مسلم کے ہاں پیش ہو گا یہ اس کے ہاں نہیں ہے اس کا وہ منکر ہے۔ جس چیز کا وہ منکر ہے وہ چیز آپ کی نہ رہی جس چیز کا وہ منکر ہے وہ ہے آپ کی حقیقت وہ ہے اسلام۔ وہ کیا ہے؟ بس ’محمد الرسول اللّٰہ‘ صلی اللہ علیہ و سلم۔ توحید کوئی چیز نہیں ہے اگر محمد الرسول اللہ کذب کی دعوت دے دیں وہ حق ہوتا۔ لہذا انہوں نے کہا ’خدا واحد ہے‘ ان کے کہنے سے توحید عقیدہ بنا۔ عیسیٰ رسول اللہ اور روح اللہ ہیں ان کے کہنے سے عیسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ اور روح اللہ مانا ہے اگر وہ نہیں کہتے تو نہیں مانتے۔ انہوں نے کرشن جی کے متعلق کچھ نہیں کہا اس لئے نہیں مانتے، اگر وہ ان کے متعلق کہتے کہ نبی اللہ ہیں ہم ان کو بھی عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مان لیتے۔ انہوں نے کہا موسیٰ کلیم اللہ اور رسول اللہ، ابراہیم خلیل اللہ ہر نبی کو ان کے کہنے سے مانا، ہر عقیدہ کو ان کے کہنے سے مانا، خدا کو وحدہ لاشریک ان کے کہنے سے مانا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ کتاب مجھ پر نازل ہوئی‘ مجرد ان کے کہنے سے ہم نے مان لیا۔ قرآن پاک کا جو حصہ مکہ میں نازل ہوا تھا وہ پہلے ہونا چاہیئے تھا جو مدینہ میں نازل ہوا تھا وہ پیچھے ہونا چاہیئے تھا مدنی سورتوں کو مقدم کر دیا۔ سورت البقرۃ پہلی سورت مدنی ہے، سورت آل عمران مدنی یہ ترتیب و ترکیب کے بالکل خلاف ہے، انہوں نے کہا یونہی حق ہے ہم نے کہا ٹھیک ہے، جو یہ کہیں وہ حق، کہا کہ ’خدا کی طرف سے یہ قرآن نازل ہوا‘ ہم نے کہا بالکل حق ہے، انہی کے کہنے سے ’خدا کو وحدہ لاشریک مانا” انہی کے کہنے سے ’مُردہ کا زندہ ہونا مانا‘ انہیں کے کہنے سے ’کُل اخلاق کو مانا‘ بس یہی اصل الاصول ہے جو پورے اسلام اور حقائق کو گھیرے ہوئے ہے۔ اگر یہ بندش نکال دی جائے جس طرح جھاڑو میں سے تیلیاں منتشر ہو کر اِدھر اُدھر چلی جاتی ہیں آپ کا سارا مذہب منقسم ہو جائے گا کچھ باقی آپ کے پاس میں نہیں رہے گا۔ اصل الاصول ہے جڑوں کی جڑ ’محمد الرسول اللّٰہ‘ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ نَبِی الْکَرِیم
یہ ہے نبی کی تعریف، یہ ہے اصلِ اسلام جو بھی آپ فرمائیں، خواہ وہ عقل کے مطابق ہو، خواہ وہ عقل کے خلاف ہو مجرد آپ کے کہنے سے مانا جائے گا۔ کبھی بھی عقل میں آتا ہے کہ آدمی کی گردن کٹ جائے، وہ زندہ ہو؟ دنیا کی طاقت اس کی زندگی ثابت نہیں کر سکتی، وہ مُردہ ہے اس کو دفن کر دیا جاتا ہے، نہیں کرتے دفن؟ انہوں نے کہا وہ زندہ ہے بَلْ اَحْیآءٌ ’وہ زندہ ہیں‘ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (سورت البقرۃ 2 آیت 154) ’تمہیں پتہ نہیں ہے۔‘ اس بات کا تو پتہ ہے کہ وہ مُردہ ہے دفن ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا نہیں، بالکل متضاد ہو گئی مُردہ کو زندہ کہہ رہا ہے۔ نبی کی یہی شان ہے جو تمہاری عقل میں نہ آئے وہ حق ہے اور عقل میں آنے کے بعد مانا تو پھر ضرورت کیا رہی نبی کی؟ عقل میں علم حاصل کرنے کی تو صلاحیت ہی نہیں ہے عقل بالکل ناقص چیز ہے۔
یہ نہیں سمجھے کہ عقلی علوم کیا ہیں اور ان کے کیا نتائج ہیں؟ عقل سے جو اب تک علم مُدون ہوئے ہیں حساب ہے، الجبرا ہے، اقلیدس ہے یہ علوم ریاضیہ ہیں۔ علم صحیح ہے جس کو سائنس کہتے ہیں جس کا رواج آج کل یورپ میں ہے۔ ایک علم ہے جس کو فلسفہ الٰہیات کہتے ہیں جس میں مابعد الطبیعت حالات بیان کئے گئے ہیں، یہ سب عقلی علوم کہلاتے ہیں، ان سب کے جو انجام ہیں ان سے اس دنیا کی زندگی کو سنوارنا ہے۔ انجینئرنگ ہے وہ مکانوں کے کام میں آ رہی ہے، عدد کا علم ہے آرتھمیٹک وہ لین دین اور قیمتوں کے تقرر میں کام آ رہا ہے، علمِ طب ہے ڈاکٹری کا علم وہ بدن کی صحت میں کام آ رہا ہے ہر علم کو آپ دیکھیئے طبعیات کے جو علوم ہیں سفر کو آسان کرنے کے لئے اصول مہیا ہو رہے ہیں یا موت کے اسباب مہیا کرنے کے اصول وضع ہو رہے ہیں۔ بہتر حال جو بھی ہے اس زندگی سے تعلق رکھتے ہیں عقل کے جتنے علوم ہیں۔
لیکن آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ بہت بڑی اکثریت ہے زندوں کی جن میں حیات ہے ذی حیات لوگوں کی بڑی اکثریت ہے کہ جن کی اکثریت کے مقابلے میں انسان کی اقلیت ہے، حیوانات کی اتنی اکثریت ہے کچھ انداہ ہی نہیں ہے حیوانات کے مقابل میں انسان کتنا قلیل ہے اتنی بڑی اکثریت جو ذی حیات نفوس کی بغیر عقل کی زندگی کو بسر کر رہی ہے، انسان تو بڑا بدنصیب ہے کہ ایک عقل کا بوجھ اور اپنے سر پر لاد کر زندگی بسر کر رہا ہے یہ تو بغیر عقل کے بھی گزر سکتی تھی انتہائی بے عقلی ہوئی ہے۔ مجھے تو معلوم ہو کہ عقل کا وجود لغو ہے، لیکن لغو نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہی مابین امتیاز ہے اگر لغو قرار دے دو تو انسان حیوان کی مثل ہو گیا۔ اگر اس سے صحیح کام نہ لیا تو اس سے بدتر ہو گیا، مابین امتیاز عقل ہی تو ہے۔ تو عقلی مضمون کے ذریعے تو مابین امتیاز ہو نہ سکی، صحیح کام نہ لیا جا سکا تو لابُد اس کو بتانے کے عقل سے باہر کوئی معلم ہونا چاہیئے، اسی معلمِ عقل کا نام نبی ہے۔ نبی کسے کہتے ہیں؟ معلمِ عقل کو۔
تجربے سے بھی آپ کو معلوم ہو جائے گا ہم نے بہت سی کتابوں کو دیکھا ان سے ہمارے دماغ میں مضمون آ یا اس کو ہم نے کتاب میں درج کر دیا، آپ اس کتاب کو دیکھیں اس سے آپ کے دماغ میں ایک مضمون آ جائے گا آپ اپنا مضمون دوسرے رسالے میں درج کر دیں۔ یہی ہو رہا ہے کتاب سے مضمون دماغ میں آ رہا ہے، دماغ سے کتاب میں جا رہا ہے برابر یہی ہو رہا ہے۔ یہ کتاب یہ دماغ، یہ دماغ یہ کتاب برابر یہ سلسلہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ ہر دماغ دو کتابوں کے بیچ میں آ گیا ایک کتاب سے تو ایک مضمون لیا اور دوسری کتاب کو دیا اور ہر کتاب دو دماغوں کے بیچ میں آ گئی۔ جیسے میں نے آپ کو کتاب دی ایک تو میرے دماغ کے بعد آئی اور ایک آپ کا دماغ دو (2) کے بیچ میں آ گیا۔ تو ہر کتاب دو دماغوں کے بیچ میں، اور ہر دماغ دو کتابوں کے بیچ میں اور بیچ کا تصور ہو نہیں سکتا جب تک پہلا کا تصور نہ ہو۔ بیچ جو ہے وسط نہیں معلوم ہو سکتا جب تک کہ ابتداء نہ ہو، وہ بیچ کیسے کہلائے گا؟ بیچ تو اوّل کے اعتبار سے ہے اگر اوّل نہیں تو بیچ کچھ بھی نہیں، تو لابُد اول ہونا چاہیئے، پہلی کتاب ہونا چاہیئے، پہلا دماغ ہونا چاہیئے۔ پہلی کتاب اللہ ہے، پہلا دماغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے، یہ وہ دماغ ہے کہ جس نے کسی انسانی کتاب میں سے مضمون نہیں لیا اور یہ وہی کتاب ہے کہ جو کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں۔
آپ غور کیجئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنی چیزیں بنائی ہیں انسانوں کی ضروریات کے اعتبار سے بنائی ہیں، جس شئے کی انسان کو زیادہ ضرورت ہے اس کا وجود زیادہ بنایا ہے جس شئے کی ضرورت کم ہے اس کا وجود کم بنایا ہے۔ جیسے غلہ کی ضرورت زیادہ ہے اسے زیادہ بنا دیا، پھلو کی ضرورت کم ہے اس لئے کم بنا دیا، تانبے، پیتل کی ضرورت زیادہ ہے اسے زیادہ بنا دیا، چاندی، سونے کی ضرورت کم ہے اسے کم بنا دیا، نمک کی ضرورت زیادہ ہے لا مرچ اور دیگر مصالحوں سے اسے زیادہ بنا دیا، پانی کی ضرورت کھانے سے زیادہ تھی پانی کے دریا کے دریا بہا دیئے، کنوئیں بنا دئے، ہوا کی ضرورت اس سے بھی زیادہ تھی اس کو زیادہ مہیا کر دیا۔ اس استقرار سے، اس تجسس سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ جتنی ضرورت زیادہ ہو گی اس شئے کا وجود اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ اب یہ نعمتیں ہیں، محاسن ہیں جو جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضرورت کی نعمتیں مہیا کی ہیں اگریہ آپ کو حاصل نہ ہوں کیونکہ یہ انسانی قدرت میں شامل نہیں ہیں، انسان کی قدرت میں اگر شامل ہوتے تو نعمتیں اپنے لئے ہر شخص حاصل کر لیتا۔ ایک پچاس روپے مہینہ پارہا ہے، ایک پانچ سو روپے مہینہ پا رہا ہے اگر پچاس روپے والے کی قدرت میں وہ ہزار روپے ہوتے تو وہ مہیا کر لیتا یا نہیں کر لیتا؟ہر شخص ان نعمتوں تک پہنچنے پر قادر نہیں ہے یا وہ نعمتیں اس حد تک پہنچنے کے لئے گویا تیار نہیں قدرت سے باہر ہے۔ تو جو شئے قدرت سے باہر ہو اور پہنچنا ضروری ہے اس نعمت تک خواہ وہ نعمت ہم تک پہنچے یا ہم اس نعمت تک پہنچیں یہ ضروری ہو گیا نا، اس کی زیادہ ضرورت ہوئی نا۔ جتنی بھی چیزیں ہیں بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہے نا؟ پیدا تو کر دیئے دریا کے دریا، لیکن پیاس کے وقت ایک گلاس ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔ تو زیادہ ضرورت اس کی ہوئی کہ وقتِ ضرورت مل جائے تو اس نعمت تک پہنچنا سب سے زیادہ ضروری ہو گیا۔ اس کی ضرورت سب سے زیاد ہو گئی تو نعمت تک پہنچنا سب سے زیادہ ضرورت کی چیز ہوا یا نعمت کا اس تک پہنچنا سب سے زیادہ ضروری چیز ہوا؟
بحکم استقراء آپ سمجھ چکے ہیں کہ جس شئے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے اسے سب سے زیادہ ہونا چاہیئے۔ تو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ نعمت تک پہنچے اور نعمت تک پہنچنا یا نعمت کو منعم تک پہچانا اسی کے معنی ’رحمت‘ کے ہیں، اس کے معنی یہی ہیں کہ نعمت منعم تک پہنچ جائے، تو سب سے زیادہ ضرورت اس چیز کی تھی تو سب سے زیادہ اس کو ہونا چاہیئے۔ تو رحمت کا وجود سارے عالَم سے زیادہ ہونا چاہیئے کہ سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِینَ
(سورت الانبیاء 21 آیت 107) ’ہم نے تمہیں تمام عالَم کے لئے عالَموں کے لئے رحمت بنا کر بھیج دیا۔‘ اس نے کہہ دیا تو وہ سب سے زیادہ اہم چیز اور سب سے زیادہ بڑی چیز ہو گیا۔ ’رحمتُ اللعالمین‘ ہو گیا اس کی کیا تعریف کی جا سکتی ہے؟ کیا کہا جا سکتا ہے؟
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا وَمَوْلَنَا مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ
مسلمان قوم کا زوال کسی وجہ سے نہیں ہوا ہے کوئی وجہ نہیں ہے، صرف اس کو اپنے نبی سے علاقہ کمزور ہو گیا ہے، بے تعلقی سی ہو گئی ہے اور اس کے مختلف سبب بنے، تباہی کا سبب صرف یہی ہے اور کوئی سبب نہیں ہے۔ کسی وقت میں بھی مسلمان کے پاس اتنا روپیہ نہیں تھا جتنا اب اس کے دور میں ہے، کسی مدرسہ میں جتنا روپیہ اب تقسیم ہو رہا ہے کبھی کسی دور میں بھی نہیں ہوا اس کی آپ تحقیق کر لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی علاقہ مسلمان کو باقی نہیں رہا یا بہت کم ہو گیا۔
علاقہ کی مثال کے لئے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ حدیث شریف میں یہ آیا ہے کہ ایک یہودی نے یہ کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو مصطفیٰ بنا کر بھیجا، ایک صحابی تھے انہوں نے اس کو تھپڑ مار دیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی اصطفیٰ کیا ہے؟ انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسیٰ کی ذات کو اس نے مقصود کیا، اس نے استغاثہ کیا کہ میں ذِمِّی ہوں اس نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا تو مسلمان اس کی بات برداشت نہ کر سکا۔ حالانکہ وہ واقعہ اپنی جگہ صحیح تھا لیکن مسلمان اس کے لئے تیار نہیں تھا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے پر کسی نبی کو مصطفیٰ سمجھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...