ڈاکٹر انیس صدیقی(گلبرگہ)
ریاست کرناٹک میں اردو شعرو ادب کی تاریخ جن صاحبانِ فضل و کمال کے کارناموں سے روشن ہے ان میں ناظم خلیلی کا نام نہایت ممتاز و معتبر ہے۔
ناظم خلیلی عمر میں مجھ سے کئی سال بڑے ہیں۔ اس لئے میں انہیں اپنا بزرگ دوست مانتا ہوں۔ اگر وہ عمر میں مجھ سے کئی سال چھوٹے بھی ہوتے تو بھی میں ان کی خوش فکری و خوش مزاجی ، خوش پوشی و خوش قامتی، خوش صورتی و خوش ذوقی اور خوش خلقی و خوش گفتاری کی بناء پر انہیں اپنا بزرگ دوست ماننے میں تامل نہ کرتا۔
ناظم خلیلی کا غائبانہ تعارف کم و بیش پچیس سال قبل محترم حسن رضا مرحوم نے مجھ سے شہر رائچور کے ذہین باذوق اور خوش فکر شاعر و افسانہ نگار کی حیثیت سے کروایا تھا۔ جس کے نتیجے میں میں نے ناظم خلیلی کو اپنے ادبی رسالہ ’’نوائے عصر‘‘ کے لئے جس کی میں ادارت کیا کرتا تھا قلمی معاونت کی درخواست کرتے ہوئے خطوط لکھے۔ جو اباً انہوں نے اپنی گراں قدر تخلیقات سے نوازا اور وہ ’’نوائے عصر‘‘ کے شماروں میں شائع بھی ہوئیں۔ لیکن ناظم خلیلی سے پہلی شخصی ملاقات ابھی ایک سال قبل روزنامہ ’’دور حاضر‘‘ کے دفتر میں ہوئی۔ مدیر دور حاضر جناب حامد اکمل نے جب میرا تعارف ان سے کروایا تو فورا انہیں بیس برس پرانی خطوط کے ذریعے ہوئی آدھی ادھوری ملاقاتیں یاد آئیں اور بے اختیار انہوں نے مجھے گلے سے لگالیا۔ اس دوران روزنامہ دور حاضر کی جانب سے مجھ خاکسار پر اک گوشۂ ادب کی ترتیب کا کام زیر نگرانی ڈاکٹر محمد غضنفر اقبال مرتب گوشہ ادب چل رہا تھا۔ ناظم خلیلی سے بھی جب انہوں نے اس ذیل کچھ تحریر کرنے کی درخواست کی تو ناظم خلیلی نے اگلے ہی دن ایک خوبصورت نظم مجھے سے متعلق قلمبند کی۔ اس نظم کو جس کا عنوان انہوں نے انیس صدیقی: شخصی خدو قلمی خال ! رکھا تھا کافی سراہا گیا۔ پھر یہ ملاقاتیں جو کبھی فون پر اور کبھی بالمشافہ ہوتی تھیں بڑھتی گئیں اور بے غرض ہونے کے سبب رفتہ رفتہ دوستی میں تبدیل ہوتی گئیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے انتہائی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تخلیقی سفر میں مگن ناظم خلیلی ۳۰؍دسمبر ۱۹۵۴ء کو اتر پردیش کے ضلع بجنور کی ایک بستی نگینہ کے علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ذہنی و فکری تربیت کا آغاز وہیں ہوا اور تعلیم کی بارگاہ میں پہلا قدم بھی انہوں نے وہیں رکھا۔ پھر ان کے والد بزرگوار کو ملازمت کے سلسلے میں نقلِ مکانی کرنی پڑی۔ اور ناظم خلیلی اپنے والدین اور بھائی بہن کے ہمراہ حیدرآباد سے ہوتے ہوئے رائچور منتقل ہوگئے۔ تعلیم کامنقطع سلسلہ پھر شروع ہوا۔ لیکن یہ نصابی و تعلیمی تعلق زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ بی۔اے سالِ دوئم تک کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نامساعد گھریلو حالات تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں مانع ہوئے۔ حالات کی حوصہ شکنی اور مالی دشواریوں پر قابو پانے کے لئے انہوں نے ادھر ادھر چھوٹی موٹی ملازمتیں تک کیں۔ لیکن ناظم خلیلی نے بالیدگیٔ شعور کی منزلیں اپنے ذوقِ جستجو اور ذہنی و فطری ریاضت کی بنیاد پر ہی طئے کیں جسے انفرادی مطالعہ اور شوقِ کتب بینی نے اور انگیز کیا۔
اس طرح انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی زبان پر بھی نام نہاد سند یافتہ لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عبور حاصل کیا۔ اپنی غیر معمولی انگریزی استطاعت کو انہوں نے ذریعۂ معاش بناتے ہوئے ’’واصف ٹیوٹوریل‘‘ کے نام سے انگریزی ٹیوشنوں کی شروعات کی۔ ان پچیس برسوں میں بلالحاظ مذہب و ملت سیکڑوں طلباء و طالبات ناظم خلیلی کی انگریزی استعداد سے مستفید ہوئے۔ اور آج شہررائچور میں ناظم خلیلی کی مقبولیت اور محبوبیت انگریزی کی ایک مثالی استاد کی حیثیت سے ہے۔ اس درمیان رائچور کے ایک امدادی مدرسہ میں حاصل ہوئی ملازمت سے ان کی زندگی کو مزید استحکام حاصل ہوا۔ناظم خلیلی نے اپنے ٹیوشن اور ملازمت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شہر رائچور کی علمی، ادبی، تعلیمی اور سماجی زندگی سے اپنے آپکو وابستہ رکھا۔ وہ ہر محفل میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ناظم خلیلی جہاں اپنے اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہنے والے انسان ہیں وہیں بے حد آئیڈلسٹ بھی۔ خودبھی صاف ستھرے انسان ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی صاف ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ راست گوئی بے باکی اور نفاست و شائستگی ان کی شخصیت کی بنیادی صفات ہیں۔ ان کا گفتگو کا سلیقہ اور نشست و برخاست وہم نشینی کے آداب ہمیں قدیم لکھنوی تہذیب کی یاد دلاتے ہیں جو عہد حاضر کے صارف سماج میں محصور انسانوں میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ناظم خلیلی عام معمولاتِ زندگی میں بے حد بااخلاق اور بامروت انسان ہیں لیکن جہاں زبان کے غلط استعمال کا معاملہ ہو وہ بے مروت ہوجاتے ہیں۔ بھری محفل میں لفظ کے غلط استعمال پر ٹوک دیتے ہیں۔ غلط شعر، غلط محاورہ اور غلط تلفظ ان پر براثر ڈالتا ہے۔ خاص طور پر اساتذہ اور شعراء کی اس خامی کو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔
ایک اور بات جو ناظم خلیلی کو عام اردو شعراء و ادبا سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ناظم خلیلی عہد حاضر میں سائنس اور ٹکنالوجی کی روز افزوں ترقی سے باخبر رہنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ سائنس کے مختلف النوع علوم میں ہورہی جدید ترین تحقیقات و تجربات کی روشنی میں برق رفتاری سے تبدل سے دو چار دنیا کے مستقبل کا تصور اور اس کے زیر اثر آنے والے سماج کی ممکنہ تشکیل پر تبادلۂ خیال ناظم خلیلی کا محبوب موضوع گفتگو ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ فنکار اور اس کے فن کے درمیان کا فی فاصلہ ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اگر کوئی فنکار اپنے فن میں بلند ہے تو وہ انسان کے طور پر بھی بڑا ہو۔ لیکن ناظم خلیلی اس معاملے میں مختلف ہیں۔ ان کی ذاتی شخصیت ، ان کی فنکارانہ شخصیت کے ساتھ اس طرح تحلیل ہوگئی ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل نظر نہیں آتی۔ وہ جتنے اچھے شاعر و افسانہ نگار ہیں۔ اتنے ہی اچھے انسان بھی ہیں۔ شخصیت اور فن کے اس اتصال نے ناظم خلیلی کے فن کو تو نکھاراہی ہے۔ لیکن انسان کی شکل میں بھی انہیں ایک طرح کی شان اور خود اعتمادی کی صلاحیت عطاکی ہے۔ناظم خلیلی فن و ذات اور قول و عمل کے اعتبار سے دوہری زندگی گذارنے کے قطعی قائل نہیں۔ ان کی شخصیت ادبی سیاستوں سے پاک اور ان کا مزاج ہوس شہرت بیجا سے بے نیاز ہے۔
ناظم خلیلی کی شخصیت کا ایک جو ہر ان کا رجائی ہونا بھی ہے۔ زندگی کے نہایت نا موافق اور حوصلہ شکنی حالات میں بھی وہ امید اکا دامن نہیں چھوڑتے۔ ۱۹۹۶ء کے بعد ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ تیرہ سالہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا خاتمہ ناگزیر و جوہات کے سبب طلاق پر ہوا۔ پھر ۲۰۰۲اور ۲۰۰۴ء میں دو جاں سوز سڑک حادثوں سے دو چار ہوئے۔ (لیکن دونوں دفعہ بفضل خدا وہ بھر پورصحت کی طرف لوٹے)۔ آخر کار ایک اور واقعہ ان کی زندگی میں ایسا پیش آیا کہ انہیں اپنے ہی شہر رائچور کو عارضی طور پر خیر باد کہہ کر گلبرگہ آنا پڑا۔ عمر کے اک بڑے تفاوت کے باوجو دان ہی کی اک شاگر دہ نے رومانی انداز میں ان کی طرف پیش قدمی کی اور باوجود انکے کافی سمجھانے کے وہ انکی زندگی کا ایک جز بن گئی۔ لیکن قسمت چونکہ دونوں کے حق میں نہ تھی اس لئے معاملات اچانک الٹتے چلے گئے اور انہیں حالات کو مزیدبگڑنے سے روکنے کے لئے نقلِ مکانی کرنی پڑی۔ گلبرگہ کے کئی اک ادبا و شعراء انہیں ادبی طور پر تو بڑی حد تک جانتے ہی تھے انکی خوش اخلاقی و خوش ذوقی اور انکی علمی قابلیت کو دیکھ کر انہوں ناظم خلیلی کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور وہ یہاں کی ادبی و علمی مجلسوں میں باقاعدہ شریک ہونے لگے۔ نہ انہوں نے اپنی نصابی قابلیت کے تعلق سے کبھی کسی سے کوئی جھوٹ کہا تھا اور ناہی کسی سے اپنی پریشانیوں کی نوعیت ہی چھپائی تھی۔ قدرِ گوہر شاہ داندیا بداند جوہری، کے مصداق علم دوست حضرات نے انہیں آگے بڑھ کر اپنے سینے سے لگالیا اور گلبرگہ یونیورسٹی کے کئی اک علمی مقابلوں میں انہیں بحیثیت جج بھی مقرر کیا۔ آلام و مصائب کے ہجوم میں بھی وہ مایوس اور ناامید نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنی شخصیت کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچائے رکھا۔ اور ماضی کے کھردرے نقوش مٹا کر زندگی میں نئے رنگ بھرنے کے وہ ہمیشہ خواہاں نظرآئے۔ ناظم خلیلی کے والد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے تھے اور ایک نہایت عالم و فاضل شخصیت کے حامل ہونے کے علاوہ ایک بہت باکمال دینی شاعر بھی تھے۔ ناظم خلیلی نے انہی موروثی صلاحیتوں کے زیر اثر طالب علمی کے زمانے ہی سے شعر کہنے شروع کئے اور دوچار دفعہ اپنے والد سے اصلاح لینے کے بعد انہوں نے پھر کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
ناظم خلیلی شعر برائے شعر نہیں کہتے اور نہ مشق و مہارت کی بناء پر شعر کہتے ہیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اسی لئے شعرکہتے ہیں۔ حسرت موہانی نے اچھے شعر کی تعریف اپنی غزل کے مقطع میں یوں کی تھی۔
شعر دراصل ہے وہی حسرت : سنتے ہی دل میں جو اترجائے !
کسی شعر میں دل میں اتر جانے والی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب قاری یا سامع اس شعر کو پڑھے یا سنے اور وہ اس کے احساس پر حاوی ہوجائے تاثر قبول کرنے کا تعلق براہ راست احساس سے ہے دماغ سے نہیں۔ لہذا وہ شاعری جو احساس کو متاثر کرتی ہے نمبر ایک پر رہے گی اور جو دماغ کے میزان پر تولی جاتی ہے وہ نمبر دو پر ۔ اس تناظر میں جب ناظم خلیلی کی شاعری کا جائیزہ لیں تو واضح ہوگا کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو کبھی ادق الفاظ اور بھونڈی تراکیب سے بوجھل نہیں کرتے اور ناہی فسلفیانہ خیالات کو جذباتی رد عمل سے معرا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناظم خلیلی کے کلام میں کسی مخصوص ادبی نظریئے سے وابستگی کے آثار و علائم بھی نظر نہیں آتے۔ ویسے ان کے کلام میں جدید رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ اور ترقی پسندی کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان کی شاعری کو پڑھ کر پہلا احساس یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعر اپنی بات کہہ رہا ہے جو اس کے حسی تجربوں اور جمالیاتی اقدار کی رہین منت ہے۔ناظم خلیلی کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری میں بھی تضع نہیں ہے۔ ایک جدید لب و لہجے کے مالک ہونے کے باوجود انہوں نے خال خال ہی اپنی شاعری کو معمہ یا چیستاں بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور میرے نزدیک یہ ناظم خلیلی کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ تقریباً ہر اہم صنف سخن میں طبع آزمائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے تثلیثات و قطعاتِ تاریخ بھی لکھے ہیں اور جگہ جگہ ان کی بے انتہا فنکارانہ سلیقگی کا اظہار ملتا ہے۔ انکی ایک تثلیث سے جسے بے شمار لوگوں نے سراہا انکے انداز فکر وفن کا دریچہ و اہوتا ہے :
مندروں مسجدوں پہ لڑتے ہیں
کتنے پاگل ہیں لوگ بھارت کے
پاؤں سے تتلیاں پکڑتے ہیں
اور ان کا ایک شعر جو شہررائچور میں زبان زد خاص وعام ہوتے ہوئے اتنا آگے گیا کہ روزنامہ سیاست (حیدرآباد) میں صرف ایک مثالی شعر کی حیثیت سے شائع ہوا یوں ہے :
آنے والے وقت کی تختی پہ اپنا نام لکھ تیرے دروازے کی تختی تو قضالے جائے گی
ناظم خلیلی کے اس مذکورہ شعر نے لوگوں کو اتنا متاثر کیا کہ شہررائچور کے ایک سابق ایم پی نے اپنے دروازے سے اپنی نیم پلیٹ ہٹا دی اور پھر کبھی نہیں آویزاں کی اور پھر ان کے یہ اشعار :
تمہارا حسن قلم کو جمال دیتا ہے مجھے ہمیشہ اچھوتا خیال دیتا ہی
بغیر مانگے خدا روز کاسۂ دل میں کسی کی یاد کا اک سکہ ڈال دیتا ہے
انکے تصور کی رنگینوں کو بڑی کامیابی سے اجاگر کرتے ہیں۔ الغرض ناظم خلیلی کا شمار اردو کے ان معدودے چند شعراء میں کیا جاسکتا ہے جنہیں شعر گوئی، شعر فہمی اور اصلاح شعر تینوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ لیکن شاعری ناظم خلیلی کی تخلیقی صلاحیتوں کی آخری حد نہیں ہے۔ ان کے پاس مشاہدات، تجربات اور واردات قلبی کے اظہار کے اور وسائل بھی ہیں جن میں افسانہ نگاری جیسا موثر وسیلہ اظہار بھی شامل ہے۔ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار بھی ہیں اگر چہ افسانہ نگاری کا آغاز ناظم خلیلی نے ۱۹۷۵ء میں یعنی شاعری کے سات سال بعد کیا لیکن بیسیوں افسانے لکھے جن میں سے بیشتر ہندوستان اور پاکستان کے مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوئے۔ یہی وجہ ہیکہ ناظم خلیلی کی شناخت شاعر کے مقابلے میں افسانہ نگار کی حیثیت سے زیادہ ہے۔
افسانہ نگاری کے باب میں ناظم خلیلی نے اپنے افسانوں کی اساس احساسات و جذبات سے کہیں زیادہ مشاہدات اور تجربات پر رکھی ہے۔ انہیں واقعات میں رنگ بھر کرافسانہ بنادینے کا ہنر خوب آتا ہے۔ انکے افسانوں میں زندگی کا کوئی نہ کوئی رنگ ضرور موجود ہے۔ زندگی جہاں خوشیوں اورمسرتوں کا مخزن ہے وہیں غموں کی آما جگاہ بھی ہے۔ ناظم خلیلی کے افسانوں کے آئینے ایسی ہی زندگی کے عکاسی ہیں۔ خاص طور پر ان کے افسانے ’’تیرے اگّے ہریا۔ !‘‘ تیسر ی طوائف۔! رکا ہو ا خط ۔ ! منوں بوجھ۔ ! زردا۔! اور وہی بچہ وہی لوگ۔ !زندگی کے بے شمار رنگوں اور اس کے بہت سے چھوٹے برے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ اسلوبیاتی نقطہ نظر سے نیا مکان ۔! یہی وہ جگہ ہے۔ ! تیسری بیساکھی۔! اور ایک کہانی۔ ! افسانے پر کشش رواں اور واضح اسلوب کے حامل ہیں جب کہ ان کے علامتی افسانے ، اندر سے باہر۔ ! آئینے مرگئے۔ ! دھوپ پیتے ہوئے لوگ ۔ ! رنگ اور تختیاں اور سات چھلکے۔ ! مرزا غالب کے اشعار کی طرح تہہ درتہہ معنی رکھتے ہیں۔ مجموعی اعتبار سے ناظم خلیلی کے افسانوں کی زبان رواں اور سلیس ہے۔ مکالموں کی برجستگی اور عبارت کی خوش رنگی ناظم خلیلی کے افسانوی اسلوب کے امتیازات ہیں۔ناظم خلیلی کی ادبی زندگی میں بیسویں صدی کا ساتواں اور آٹھواں اور اکسیویں صدی کا پہلا دہا تخلیقی اعتبار سے بے حد زرخیز رہا ہے۔ بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں انکی شعری اور افسانوی تخلیقات ملک وبیرون ملک کے موقر رسائل و جرائد میں متواتر شائع ہوتی رہیں۔ یہی وجہ ہیکہ اس دوران جب انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تولا ہور کے ادبی حلقوں میں انہیں اپنا تعارف کروانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ممتاز شاعر قتیل شفائی اور معروف فکشن نگار اے ۔ حمید تک انکے نام اور کام سے واقف تھے۔ قیام پاکستان کے دوران انہیں قومی سطح کے ایک نعتیہ مشاعرے میں بہ حیثیت مہمان شاعر مدعو کیا گیا ۔ یقینا ان باتوں سے قلمکار کی ادبی زندگی میں مسلسل لکھنے اور شائع ہونے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ناظم خلیلی کے یہاں شاعری اور افسانوں کا اتنا وافر سرمایہ ہے کہ کم از کم تین شعری اور دو افسانوی مجموعے بہ آسانی شائع ہوسکتے ہیں ۔ لیکن احباب کے مسلسل اصرار کے باوجود انہوں نے کتابوں کی اشاعت کے ضمن میں کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ میں اس امید کے ساتھ اپنے تاثرات کے بیان کو ختم کرتا ہوں کہ ناظم خلیلی بہت جلد بے نیازی کے خول کو توڑ کرایک ضخیم شعری اور افسانوی مجموعے کی شکل میں اپنی فکری تابانیوں کے ساتھ افقِ ادب پر مجموعی شان و شوکت کے ہمراہ نمودار ہوں گے۔ تاکہ اربابِ نقدو نظر ادب کے منظر نامے میں ان کے مقام و مرتبے کا تعین کرسکیں۔ !