اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اگر اپنی کسی حس کی قربانی دینا پڑے تو شاید ہر کوئی سونگھنے کی حس کا انتخاب کرے گا۔ ایک سروے کے مطابق تیس سال سے کم عمر کے لوگوں میں نصف نے اپنے موبائل فون اور سونگھنے کی حس میں موبائل فون کو ترجیح دی۔ لیکن یہ لاعلمی کی بنیاد پر ہے۔ ہماری خوشی اور اچھی زندگی میں سونگھنے کی حس کا کردار اس سے بہت زیادہ ہے جتنی اس کی قدر کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونیل کیمیکل سینس سنٹر اس حس کے بارے میں دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی مرکز ہے۔ یہاں کے پروفیسر گیری بوشامپ کہتے ہیں کہ “سماعت اور بصارت پر ہر سال دسیوں ہزار پیپر شائع ہوتے ہیں جبکہ قوتِ شامہ پر ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ بھی سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ اسی طرح اس پر ہونے والی تحقیق کی فنڈنگ بھی کم ہے”
اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اس بارے میں ہمارا علم بھی کم ہے۔ ہمیں مکمل طور پر معلوم نہیں کہ ہم سونگھتے کیسے ہیں۔ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو کسی شے کے مالیکیول ہماری سانس کی نالی کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہ olfactory epithelium سے چھوتے ہیں۔ ہمارے اس حصے میں اعصابی خلیات ہیں جن میں 350 سے 400 اقسام کے ریسپٹر ہیں۔ اگر ٹھیک قسم کا مالیکول ٹھیک قسم کے ری ایکٹر کو فعال کر دے تو دماغ کو ایک سگنل چلا جاتا ہے اور دماغ اس کی تعبیر بّو کے طور پر کرتا ہے۔ یہ ہوتا کیسے ہیں؟ اس پر اتفاق نہیں۔ کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ مالیکیول ریسپٹر میں اس طرح فِٹ ہوتے ہیں جیسا تالے میں چابی۔ لیکن اس تھیوری کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ کئی مالیکیول الگ کیمیائی شکل رکھتے ہیں لیکن بو ایک ہی ہوتی ہے جبکہ کئی مالیکیول تقریباً ایک ہی شکل رکھتے ہیں لیکن بو میں فرق ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شکل کی سادہ وضاحت درست نہیں۔ ایک اور متبادل اور پیچیدہ تھیوری ہے جس میں ریسپٹر کا فعال ہونا ایک اور عمل سے ہوتا ہے جو resonance ہے۔ ریسپٹر شکل سے نہیں بلکہ مالیکیولز کے ارتعاش سے فعال ہوتے ہیں۔
اور ہم جیسے عام لوگوں کو (جو سائنسدان نہیں) اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔ جاننے کے لئے اہم یہ ہے کہ بو پیچہد ہے اور اس کی ساخت معلوم کرنا مشکل کام ہے۔ بو والے مالیکیول عام طور پر کسی ایک ریسپٹر کو فعال نہیں کرتے بلکہ کئی کو کرتے ہیں۔ ویسے جیسے ستار بجانے والے کے تار بج رہے ہوں اور یہ تار بے شمار ہوں۔
مثال کے طور پر، ایک کیلے میں تین سو قسم کے بو والے فعال مالیکیول (volatiles) ہیں۔ ٹماٹر میں چار سو جبکہ کافی میں کم از کم چھ سو۔ اس بات کا پتا لگانا کہ ان میں سے کونسا مالیکیول محسوس ہونے والی بو میں کتنا کردار ادا کرتا ہے، بہت دشوار ہے۔ اور اس میں سادہ ترین سطح پر بھی نتائج بڑے عجیب ہیں۔
مثلاً، انناس میں تین volatiles ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک کی بو انناس سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ یا پھر جلے ہوئے بادام کی بو کو 75 بہت مختلف طریقوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے جن میں کچھ بھی مشترک نہیں۔ ان میں واحد مشترک چیز یہ ہے کہ انسانی ناک کو یہ ایک ہی جیسی لگتی ہیں۔
ان ساری پیچیدگیوں کے سبب ہم اس سب کی سمجھ کے بس آغاز پر ہی ہیں۔ ملٹھی کی بو کے اجزا کا 2016 میں پتا لگایا گیا جبکہ بہت عام سی چیزوں کی بو کو ابھی تک decipher نہیں کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دہائیوں تک اس پر عام اتفاق تھا کہ انسا دس ہزار مختلف بووٗں کی شناخت کر سکتے ہیں۔ پھر، کسی نے اس دعوے کا سراغ لگانے کی کوشش کی اور معلوم ہوا کہ 1927 میں دو کیمیکل انجینرز نے یہ محض ایک تکا لگایا تھا۔ 2014 میں پیرس اور نیویارک کے محققین نے رپورٹ کیا کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ کم سے کم دس کھرب ہے۔ اور شاید اس سے زیادہ ہی ہو۔ لیکن کئی دوسرے سائنسدان اس کیلکولیشن سے متفق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونگھنے کے بارے میں ایک دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ہماری حواسِ خمسہ میں سے یہ واحد حس ہے جس میں hypothalamus کا کردار نہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ انفارمیشن سیدھی قوتِ شامہ کے کارٹیکس تک پہنچ جاتی ہے اور یہ جس جگہ پر ہے، وہاں پر ہماری یادداشتیں تشکیل پاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہماری اس حس کے بارے میں ایک اور غیرمعمولی بات یہ ہے کہ یہ حس ہر شخص کے لئے منفرد ہے۔ ہم 350 سے 400 ریسپٹر رکھتے ہیں لیکن ان میں سے صرف نصف ایسے ہیں جو سب میں مشترک ہیں۔ ہم ایک جیسا نہیں سونگھتے۔
مثال کے طور پر ایک ہارمون اینڈروسٹیرون ہے۔ ایک تہائی لوگوں کو اس سے کچھ بھی مہک محسوس نہیں ہوتی۔ ایک تہائی کو یہ پیشاب جیسی لگتی ہے اور ایک تہائی کو صندل کی لکڑی کی طرح کی۔ یعنک کہ کیا یہ خوشبودار ہے، بدبودار یا بغیر بو کے؟ اس پر بھی اتفاق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سونگھنے کی ہماری حس اس سے زیادہ تیز ہے جتنا ہمارا خیال ہے۔ کیلے فورنیا کی یونیورسٹی میں کئے گئے ایک تجربے میں پندرہ میں سے پانچ قسم کی بو کا پیچھا کرنے میں انسان کتے سے بھی بہتر تھے۔ ایک اور تجربے میں لوگوں کو کئی قمیضوں میں سے سونگھ کر یہ پہچاننا تھا کہ ان میں سے کونسی قمیض ان کے شریکِ حیات نے پہنی تھی۔ اس میں درست پہچان کا تناسب حیرت انگیز تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں دو فیصد سے پانچ فیصد لوگ ایسے ہیں جو مکمل یا جزوی طور پر بو محسوس نہیں کر پاتے۔ ایک اور بدقسمت بیماری cacosmia ہے جس کا شکار ہونے والے کو ہر طرح کی بو گندی محسوس ہوتی ہے۔
الزائمر کی بیماری کی ابتدائی علامات میں سے ایک اس حس کا متاثر ہونا ہے۔
بیوشامپ کا کہنا ہے، “جو لوگ اپنی قوتِ شامہ کھو بیٹھتے ہیں، ان کے لئے یہ بات باعثِ تعجب ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کس قدر متاثر ہوتی ہے۔ ہم اس کی مدد سے نہ صرف دنیا کے بارے میں معلومات لیتے ہیں بلکہ اس سے لطف بھی”۔
اور یہ بات خاص طور پر خوراک کے لئے درست ہے لیکن اس اہم موضوع تک جانے سے پہلے ہم منہ اور گلے کی طرف چلتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...