آج یونیورسٹی کے بعد احدیہ کو کوئی کام تھا کچھ ڈاکیومینٹس لینے تھے بابا سے تو وہ واپسی پہ آفس آگئی ۔ایلاف کو بھی ساتھ کھینچ کے اندر لے گئی ۔ایلاف کا بلکل موڈ نہ تھا کل والے واقعہ کے بعد ازمیر کا سامنا کرنے کا مگر احدیہ کے سامنے ایک نہ چلی ۔
“اسلام علیکم ۔آپ کدھر لیڈیز ۔” پیچھے سے ولید کی آواز آئی ۔وہ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے ہی آیا تھا۔
” کچھ ڈاکیومینٹس لینے تھے بابا سے “احدیہ بولی ۔
“ہم۔وہ ابھی کسی کلائنٹ کے ساتھ بزی ہیں۔میرے ساتھ آؤ تب تک ۔”ولید بولا اور اپنے کیبن کی طرف ہو لیا۔ایلاف دل ہی دل میں اس سے سامنا نہ ہونے کی دعا کر رہی تھی ۔
“آؤ بیٹھو۔”وہ دونوں بیٹھ گئی ۔اور ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگی ۔اس دوران چائے بھی آگئی۔تھوڑے دیر میں وہ سکندر صاحب کے کمرے میں جانے لگے ولید ساتھ ساتھ ایلاف کو آفس دیکھا رہا تھا ۔احدیہ آگے بڑھ گئی۔اور ایلاف کی نظر ایک منظر پہ ہی ٹکی رہ گئی۔وہ دشمن جان سامنےبیٹھا ہنس رہا تھا ۔ساتھ ایک بے حد ماڈرن لڑکی تھی وہ بھی ہنسی میں شریک تھی۔گلاس وال ہونے کی وجہ سے ایلاف نے صاف منظر دیکھا تھا اور اسکے آنکھوں میں جیسی کسی نے مرچیاں بھر دی ہوں۔
“گھر تو موصوف بہت شریف بنے پھرتے یہاں دانت ہی بند نہیں ہو رہے ۔گھر تو آگ برستی منہ سے ۔ہونہہ مجھے کیا۔”اسنے جل کے سوچا اور دل کو سمجھایا۔مگر اب کہاں ۔۔۔
“ازمیر کی اور میری خالہ زاد علیزے ہے۔”ایلاف کی محویت محسوس کرکے وہ اسکے چہرے سے اسکے اندر کا حال جان گیا کہ معاملہ اگر زیادہ نہیں تو کم ہی سہی خراب یہاں بھی ہے۔شرارتی انداز میں اطلاع دی۔
“جج۔جی ۔وہ آج سے پہلے کبھی دیکھا نہیں تو بس اسلئے ۔”اسے اپنی حرکت پہ بے حد غصہ آیا ۔جانے ولید کیا سوچے گا۔انکی زندگی ہے وہ جو مرضی کریں ۔مجھے گھر میں رکھا میں کیوں یہ سب سوچ رہی۔ میں کہاں ان شاہانہ لوگوں کے لائق۔ پھر سے محرومی کا احساس ہوا۔
“ابھی اسکی سٹڈیز مکمل ہوئی ہیں تو کام سیکھنے تشریف لا رہی ہیں یہ محترمہ ۔”ولید نے اسکے تاثرات سے محفوظ ہوتے اطلاع دی۔
“ازمیر تیری تو خیر نہیں ۔سٹوری سٹارٹ ہونے سے پہلے ہی ٹویسٹ ۔”ولید منہ میں بڑبڑایا۔
جب ازمیر نے باہر کی طرف دیکھا پہلے تو یقعین نہ آیا اور یقعین آنے پر روح تک خوشی ہو گئی۔آج ہی تو اسنے محبت نامی جذبے کے سامنے ہاری مانی تھی اور اس نا قابل تسخیر انسان کے فاتح سامنے کھڑی تھی۔
“ایکسیکوزمی۔”کہہ کہ وہ تیز سے باہر آیا ۔علیزے کو اسکا یوں اٹھ کے جانا کھولا تھا آخر گیا کہاں سامنے دیکھا جدھر وہ جا رہا تھا ۔
“یہ کون ہو سکتی ہے۔”ولید کے ساتھ کھڑی لڑکی کو ناگواری سے دیکھا۔
“اسلام علیکم ۔اینڈ ویلکم ٹو مائی آفس ۔”ازمیر کی آنکھوں میں چمک ہی آگئی تھی ۔ایلاف نے سلام کا جواب دیا سر جھکا ہی تھا ۔
“ولید تم نے بتایا مجھے ۔”ازمیر کا دل کیا ولید کا گلا دبا دے اب تو اسکو سب پتہ تھا۔
“تم بزی تھے۔کیوں ایلاف۔”ولیدکو یہ موقع بار بار تو نہیں تھا ملنا وہ اسکی ٹانگ کھینچ رہا تھا ۔ازمیر نے گھورا مگر آدھر پرواہ کس کو تھی۔
“جی ۔بلکل۔”ایلاف کی بھی آواز آئی۔
اتنی دیر میں احدیہ بھی چلی آئی۔ایلاف کا موڈ بری طرح خراب ہو چکا تھا ۔لیکن کیوں اسے خود پہ ہی غصہ آرہا تھا۔
“چلیں ایلاف ۔”احدیہ نے بولا۔
“ارے ارے آؤ میرے آفس میں کافی پیتے ہیں ۔”ازمیر فوراً بولا تھا ۔ولید کی ہنسی نہیں تھی رک رہی۔
“جی نہیں شکریہ ۔آپ اپنے مہمانوں کو ٹائم دئے اب ہم چلتے ہیں۔”ایلاف نے کہا ۔
“چلو میں ڈراپ کر دو تم لوگوں کو۔”ازمیر نے اگلی خدمت حاضر کی۔
“نہیں ۔خان بابا باہر ہماراویٹ کر رہے آپ کواور بھی کام ہوں گے۔”ایلاف بھی آج کسی رعایت کے موڈ میں نہ تھی ۔ازمیر خاموش ہو گیا۔
“ہیلو احدیہ ۔”عقب سے آواز پہ موڑیں دونوں۔علیزے کھڑی تھی ۔احدیہ اور اسکے درمیان رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا اس دوران علیزےکی نظریں ایلاف پہ ہی تھی۔
“ہوازشی۔”بالآخر علیزہ نے پوچھ ہی لیا۔
“یہ ایلاف ہے۔”احدیہ بولی۔
“اچھا اچھا ماما بتا رہی تھیں ۔بیچاری بہت دکھ ہوا آپکا سن کے ۔کوئی سہارا بھی نہںں رہابیچاری۔”
علیزےنےعجیب لہجے میں کہا۔
ایلاف کی آنکھوں میں آنسوں آگئےجنکو وہ پینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔وہ بے دردی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ازمیر کا دل جیسے مٹھی میں ہی آگیا ہو۔اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
“اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوئی یا جاب کی تو مجھے بتا سکتی ہو مجھے تمہاری مدد کر کے خوشی ہو گئی ۔اگر کبھی پیسوں کی۔”اسنے سفاکی کے حد کر دی تھی ۔
“چلو احدیہ ۔آؤ ایلاف دیر ہو رہی ہے ۔اور ہاں آپکو کسی کی فکر کی ضرورت نہیں۔”ولید اس سے زیادہ برداشت نہ کر سکا ۔اور انکو لے کے باہر آگیا۔ایلاف تو ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی ۔احدیہ نے کہا کہ وہ علیزے کی باتوں کو دل پہ نہ لے ۔مگر۔۔۔
ازمیر کا بس نہیں چل رہا تھا۔وہ خود پہ کنڑول کرتا آفس میں چلا گیا۔وہ یہاں آفس میں کوئی مسئلہ نہ چاہتا تھا ۔
ایس اگنورنس پہ علیزےغصے سےباہرنکل گئی۔۔۔
آج پھراسےاپنی محرومیوں کاشدت سےاحساس ہو تھا ۔بات تو سچ تھی کہ وہ بےسہاراتھی ۔لا وارث ۔اسےشدت سےروناآیا۔دل میں کہی امید تھی کہ وہ ابھی وہ بولے گا کہ نہ ہیں بے سہارا۔لا وارث ۔مگر وہ بھی چپ چاہ کھڑا سن رہا تھا ۔لیکن وہ بولتا کیوں آخر اس سے رشتہ ۔بات ہے تو سچ ۔۔۔
آج ولید کی فیملی ڈیٹ فکس کرنے آرہی تھی انگیجمنٹ
کی۔ایلاف بوکھلائی پھر رہی تھی۔ایک دفعہ وہ خود ثمینہ بیگم کے ساتھ آنکی طرف گئی تھی۔سب بہت اچھے سے ملے تھے ایلاف کے بھی وہ سادہ لوگ بہت اچھے لگے تھے ولید کی طرح۔وہ آج کسی قسم کی گڑبڑ نا چاہ رہے تھی اور صبح سے لگی ہوئی تھی۔
ازمیر بھی آج معمول سے جلد ہی آ گیاتھا اور لاونج میں بیٹھا ٹاک شو دیکھ رہا تھا ۔
“بس کر دو۔ایلاف بیٹا صبح سے لگی ہوئی ہو اب باقی کام پروین دیکھ لے گئی ۔تم جا کے فریش ہو جاؤں۔”ثمینہ بیگم نے لاونج میں داخل ہوتے کہا ۔
“بس کچھ دیر میں جاتی ہوں ۔تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔”کچن سے ہی بولی۔اورپھر سے کام میں مصروف ہو گئی۔
“میرے مالک نے مجھے میری کسی نیکی کا بدلہ ہی دیا ہے جو اسے مجھ سے ملوا دیا ۔”وہ پیار بھرے انداز میں ازمیر کے ساتھ کاوچ پہ بیٹھتے ہوئی بولی ۔وہ ہنس دیا ۔
“ایلاف آجاؤ ۔تھوڑی دیر ریسٹ کر لو تم بھی۔”انہوں نے پھر سے آواز دی ۔اب کے ایلاف انکے پاس آکے بیٹھی گئی۔
“آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں ۔میں ٹھیک ہوں۔”وہ بولی۔
“بس میں خود سارا کچھ کرنا چاہ رہی کہ سب کچھ اچھا ہو جائے ۔میں سب کچھ مینج کر لوں بس مجھے یہ ٹینشن ہے ۔ان لوگوں کو کوئی شکایت نہ ہو۔”ایلاف گویا ہوئی ۔ازمیر نے ایک نظر اٹھا کے اسے دیکھا ۔
“دیکھوں ذرا رنگت کیسی پیلی پڑ رہی ہےتمہاری ۔کیوں تم اپنا آپ تھکا رہی ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔”ثمینہ بیگم نے اسکو سمجھایا۔
“جی۔”ایلاف منمنائی۔
“میں تمہارے انکل کا پتہ کر لوں اور تم نے ہلنا نہیں یہاں سے میں پروین کو بولتےوہ تمہیں جوس دے کے جاتی ہے۔ازمیر دھیان رکھنا تم اسکا۔”وہ کہہ کے آگے بڑھ گئی تھیں ۔وہ بھی ٹی وی سکرین کی طرف دیکھنے لگی۔تھوڑی دیر میں جوس بھی آچکاتھا۔مگر وہ مگن تھی ۔سکرین پہ بھاگتے ڈوتے منظر دیکھنے میں ۔دھیان کہی اور ہی تھا۔
“آہم۔آپکا کیا خیال ہے یہ سٹیپ ملک کی بہتری میں کام آسکتا ہے۔”ازمیر نے ایسے اسکو مگن دیکھ کے پوچھا۔
“جی ۔کیا۔”اسنے ہونق سے لہجے میں پوچھا ۔
“کچھ نہیں آپ اپنا مراقبہ قائم رکھیں۔آپکا اسطرح دلچسپی سےان اصاحب کی باتوں کو سننا مجھے لگا کہ آپکو بھی انٹرسٹ ہے۔”وہ زیر لب مسکراتے پوچھ رہا تھا ۔
مگر وہ تو انکے چہرے بھی آج پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی ۔اسکو دلچسپی نہ تھی ان سب میں ۔وہ اٹھ کے جانے لگی ہی تھی کہ وہ بول اٹھا۔
“آپ ایسے نہیں جا سکتی ۔”ازمیر نے اسکو روکا۔
“جی۔وہ کیوں۔”اس نے حیران ہوتے استفسار کیا۔
“کیونکہ میری والدہ نے ایک کام مجھے سونپا ہے۔”اسنے اسے جوس کی طرف متوجہ کیا۔
“نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔”وہ جانے کو بے قرار تھی ۔
“بیٹھے اور ختم کریں ۔”ازمیر نے اس دفعہ اسکی کلائی کو تھام کے اسے سامنے بیٹھایا ۔
مجھے نہیں پینا۔”اسنے منہ پھلایا۔
“پئیں گئی خود یا یہ کام بھی میں ہی کروں۔”ازمیر نے دھمکایا۔ایلاف نے گلاس فوراً پکڑا ۔اس سے پہلے کہ وہ اس پہ عمل ہی نہ کر دے اس سے بعید بھی نہ تھی کوئی۔اس کے عمل سے ازمیر کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔
“دیکھو۔ہر چیز کو اتنا سوار نہیں کرتے حواسوں پہ ۔جتنا نگیٹو سوچوں گی اتنا ہی تم پیچھے رہ جاؤں گی دنیا کی بھیڑ سے۔جو ہوا اسکو ماضی کا حصہ ہی رکھو حال پہ سوار مت کرو۔”ازمیر اسکی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا ۔وہ بول رہا تھا۔ایلاف کے دل کو تسلی مل رہی تھی اسکے الفاظ سے ۔
“جی۔”ایلاف نے سر ہلا کے گلاس ہونٹوں سے لگایا۔
“اس جی کے علاوہ کچھ اور بھی بولنا آتا ہے یہ صرف ابھی یہاں ہی اٹکی ہیں۔”وہ شوخ ہوا۔
“جی۔”ایلاف کو اس سوال کا جواب جی ہی مناسب لگا اور ازمیر کاقہقہہ ابلا۔
“میرا مطلب اب کی دفعہ وہ والاجی نہیں تھا۔”ایلاف نے شرمندہ ہوتے بولی ۔
“اچھا۔تو پہلی دفعہ کیا مطلب تھا۔”وہ مسکراہٹ روکتے چہرے کو سنجیدہ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔جیسے یہ بہت بڑی انفارمیشن تھی۔
اس انسان کے سامنے وہ ہمیشہ شرمندہ کیوں ہو جاتی گی۔کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا بول کے۔ساتھ ہی گلاس اٹھا کے کمرے میں احدیہ کو دیکھنے آگئی۔