“ہاں تمہاری چاچی میکے گئی ہیں اور احسن واپس شہر چلا گیا ہے۔۔۔ اس کی پڑھائی شروع ہو گئی تھی نہ۔”
وہ زرش کو ساتھ لگاتی ہوئی بولیں۔
“کچھ کھلاؤ پلاؤ بچوں کو۔۔۔ ”
رضی حیات گل ناز بیگم کو گھورتے ہوۓ بولے۔
“جی جی۔۔۔ میں ملازمہ کو کہتی ہوں۔”
وہ ہڑبڑا کر کھڑی ہو گئی۔
“نہیں امی ہم ناشتہ کر کے آئیں ہیں۔۔۔ ضرورت پڑے گی تو خود مانگ لیں گیں اپنا گھر ہے کوئی پرایا تو نہیں۔۔ ”
وہ گاہے بگاہے زرش پر نظر ڈال رہا تھا۔
“تم سناؤ بیٹا۔۔۔ یہ تنگ تو نہیں کرتا؟ میں نے بہت دعائیں کی ہیں ﷲ سے، کہ اسے عقل آ جاےُ۔”
وہ مدھم آواز میں زرش سے مخاطب تھیں۔
“الیکشن جیت ہی گئے پھر آپ۔۔۔”
وہ صوفے سے پشت لگاتا ہوا بولا۔
“تو تمہیں کوئی شک تھا؟”
وہ تنک کر بولے۔
“مجھے بھلا کیوں شک ہونے لگا۔ خیر میں کمرے میں جا رہا ہوں تھک گیا ہوں۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔”
وہ سر جھکا کر بولی۔
“امی کچھ دیر بعد زرش کو کمرے میں بھیج دینا تھک گئی ہو گی وہ۔”
وہ ہدایت دیتا زینے چڑھنے لگا۔
“خیال رکھتا ہے تمہارا؟”
وہ مسکرا کر بولیں۔
“جی۔۔۔ ”
وہ ہچکچا کر بولی۔
“تم بھی جا کر آرام کر لو۔۔۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا۔”
وہ اس کے سر بوسہ دیتی ہوئی بولیں۔
“جی اچھا۔۔۔ ”
وہ کہتی زینے چڑھنے لگی۔
“تمہاری بیٹی کی کمی تو پوری ہو گئی۔”
رضی حیات اخبار اٹھاتے ہوۓ بولے۔
“میری بڑی بہو ہے اب میں لاتعلق تو نہیں رہ سکتی اس سے۔”
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
“جاؤ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ میٹھا بناؤ بچوں کے لیے۔”
وہ چشمہ لگاتے ہوۓ بولے۔
“بلکل۔۔۔ کیوں نہیں۔”
وہ کہتی ہوئی سرعت سے نکل گئی۔
وہ دروازہ آہستہ سے بند کرتی بیڈ کی جانب چلنے لگی۔
وائز آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔
“اب پھر سے ایک ہی کمرے میں رہنا پڑے گا۔”
وہ بڑبڑاتی ہوئی صوفے پر نیم دراز ہو گئی۔
“شکر ہے جاگ نہیں رہا۔”
وہ وائز پر ایک نگاہ ڈالتی ہوئی بولی۔
جو بظاہر سو رہا تھا لیکن در حقیقت وہ جاگ رہا تھا۔
~~~~~~~~
“ہاں یہ سامان تم رکھ لو۔۔۔ ”
وہ بیڈ پر بیٹھی بول رہی تھیں جب وائز اندر داخل ہوا۔
“تم باہر جاؤ۔”
وہ ملازمہ کو دیکھتا ہوا بولا۔
وہ سب وہیں پر چھوڑ کر باہر نکل گئی۔
وائز دروازہ بند کر کے گل ناز بیگم کے پاس آیا اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
“کیا ہوا وائز؟ تم ٹھیک ہو؟”
وہ پریشان ہو گئیں۔
“امی کیا اس گناہ کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔۔ ”
وہ آنکھیں میچ کر کرب سے بولا۔
آنسو بند آنکھوں سے بہنے لگے۔
“میرے بچے کیا ہوا؟”
وہ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں۔
“کیا وہ کبھی مجھے معاف نہیں کرے گی؟ اس گناہ کی معافی کیوں نہیں ہے؟”
وہ ہچکیاں لیتا بول رہا تھا۔
“نہیں میرے بچے ایسا نہیں ہے اگر تو سچے دل سے توبہ کر لے تو بےشک ﷲ معاف کرنے والا مہربان ہے۔
سورۃ الزمر (آیت نمبر 35)
ترجمہ:-
میری جانب سے کہہ دو اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم ﷲتعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، یقیناً ﷲتعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے،واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والا ہے۔”
“معافی بھی تبھی ملے گی جب تمہارے دل میں ندامت ہو۔۔ ہر برائی سے دور ہو جاؤ۔۔ وائز میرے بچے جب تم نیک کام کرنے لگ جاؤ گے میرا رب تمہیں معاف کر دے گا۔”
وہ اس کے بال سنوارتی ہوئی بول رہی تھیں۔
“امی ساری ساری رات جاگتا رہتا ہوں میں۔۔۔ اب افسوس ہوتا ہے بہت بار معافی بھی مانگ چکا ہوں۔۔۔ لیکن وہ تو سنگدل بنی ہوئی ہے اس کی یہ بے رخی مجھے اندر ہی اندر کھا رہی ہے۔ میں اسے خوش رکھنا چاہتا ہوں امی۔۔”
وہ اشکوں سے تر چہرہ اٹھاتا ہوا بولا۔
وائز کا یہ روپ ان کے لئے بلکل نیا تھا۔
“امی کیا آپ کو میرے یہ آنسو جھوٹ لگ رہے ہیں؟ پل پل مرتا ہوں میں۔۔۔ برے کام نہ؟ سب چھوڑ دوں گا میں ہر چیز چھوڑ دوں گا بس اسے کہیں مجھے معاف کر دے۔۔”
وہ ان کے ہاتھ پکڑ کر ان پر چہرہ رکھے بول رہا تھا۔
آنسو اس کے رخسار سے ہوتے ہوۓ گل ناز بیگم کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔
“کر دے گی معاف ہمت رکھ۔۔ اتنا آسان نہیں ہے اس کے لئے معاف کرنا۔ بیٹا ایک لڑکی کے لئے اس کی عزت ہی کل سرمایہ ہوتی ہے اب جس کا تم نے تمام تر سرمایہ چھین لیا مجھے بتاؤ وہ کہاں سے ہمت لاےُ تمہیں معاف کرنے کی؟ انسان اندر سے مر جاتا ہے اس کے بعد کچھ بھی اچھا نہیں لگتا،بیٹا اس کا قصور نہیں ہے اس میں،تم صبر سے کام لو۔”
وہ نرمی سے اسے سمجھا رہی تھیں۔
“امی وضو کیسے کرتے ہیں؟”
آنکھیں بند کیں تو اشک اس کے رخسار پر آ گرے۔
“آؤ میں تمہیں بتاتی ہوں۔۔ ”
وہ اس کے بال سنوارتی ہوئی بولیں۔
“جب تم ہر غلط کام چھوڑ دو گے تو زرش خود بخود تمہیں معاف کر دے گی۔”
وہ اس کا گیلا چہرہ تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔
“کاش یہ باتیں مجھے پہلے سمجھائی جاتیں۔”
وہ دونوں ہاتھوں چہرہ صاف کرتا باہر نکل گیا۔
“کاش تمہارے بابا سائیں مجھے نہ روکتے تو تم دونوں کی پرورش میں بہتر انداز میں کر پاتی۔”
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
” چاچی کھانا میرے کمرے میں بھیج دینا۔”
وہ زینے چڑھتا ہوا بولا۔
“اچھا۔۔۔ ”
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
وہ کمرے میں آیا تو زرش بیڈ پر بیٹھی تھی۔
وہ خاموشی سے بیڈ کے دوسرے کنارے پر جا بیٹھا۔
“یہاں کتنے دن رہنا ہے؟”
وہ اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
“کچھ دن تو رکیں گے اب۔۔۔ ”
وہ ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“مجھے واپس جانا ہے۔۔۔۔ تمہارے ساتھ ایک کمرے میں نہیں رہ سکتی میں۔”
وہ نظروں کا زاویہ موڑتی ہوئی بولی۔
“اتنا برا ہوں میں؟”
وہ کرب سے بولا۔
“اس سے بھی زیادہ۔۔۔ ”
وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی۔
“ایک دو دن تک چلے جائیں گے۔۔۔ ”
وہ چہرہ جھکا کر بولا۔
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
“آ جاؤ۔۔ ”
وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتا ہوا بولا۔
ملازمہ اس کے سامنے ٹرے رکھ کر چلی گئی۔
“تم نے کھانا کھایا؟”
وہ زرش کو دیکھتا ہوا بولا۔
“کھا لوں گی میں۔۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“ابھی کھاؤ۔۔۔ صبح سے ناشتہ کیا ہوا ہے تم نے۔”
وہ ٹرے اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔
“میں نے کہا نہ کھا لوں گی میں۔۔۔ ”
وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔
“پہلے کی بات اور تھی اب میں کچھ نہیں سنوں گا۔ چپ چاپ کھاؤ۔۔۔ ”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“وائز تم مجھ پر۔۔۔ ”
“ٹھیک ہے میں تمہارے لئے نہیں ہمارے بےبی کے لئے کر رہا ہوں۔ اب مزید ایک لفظ نہیں۔”
وہ انگلی اٹھا کر بولا۔
وہ لب آپس میں ملاتی اسے گھورنے لگی۔
“اگر تم خود نہیں کھاؤ گی تو میں خود کھلاؤں گا۔”
وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“اتنی فکر۔۔ ہوں۔۔۔”
وہ سر جھٹکتی کھانے لگی۔
وہ معدوم سا مسکرایا۔
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
ریلنگ پر ہاتھ رکھے نیچے جھک کر دیکھنے لگا۔
“امی میرے لئے کھانا تو بھیج دیں۔”
جونہی گل ناز بیگم پر نظر پڑی وہ بول پڑا۔
“اچھا میں بھیج دیتی ہوں تم دونوں کے لیے۔”
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
زرش سن چکی تھی۔
“کیا سچ میں اسے اس بچے کی اتنی فکر ہے؟”
وہ کھانے سے ہاتھ روک کر بڑبڑائی۔
“ان جیسے لوگوں کو کہاں کسی کی پرواہ ہوتی ہے۔۔۔ ”
وہ ہنکار بھرتی نوالہ منہ میں ڈالنے لگی۔
~~~~~~~~
کمرے کی لائٹ آف تھی۔
ایک چھوٹا سا نائٹ بلب مدھم سی روشنی بکھیر رہا تھا۔
اسے پیاس لگی تھی۔
وہ بیٹھ سے ٹیک لگاتی اٹھ بیٹھی۔
غیر ارادی طور پر نظر دائیں جانب پڑی تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
“یہ کہاں گیا؟”
وہ سوچتی ہوئی کمرے میں نگاہ دوڑانے لگی۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی جو کھڑکی کے پاس جاےُ نماز بچھاےُ بیٹھا تھا۔
کچھ دیر بعد اس کی معدوم سی سسکی سنائی دیتی۔
وہ شش و پنج میں مبتلا ہو گئی۔
“یہ سب سچ ہے یا ڈرامہ؟”
وہ پانی پئیے بنا واپس لیٹ گئی۔
“تم جیسا انسان کیسے سدھر سکتا ہے؟”
وہ ششدر تھی۔
~~~~~~~~~
“مجھے واپس کیوں بلا لیا؟”
احسن اندر قدم رکھتا ہوا بولا۔
“ہم آےُ اور تم چلے گئے؟”
وائز اس کے گلے لگتا ہوا بولا۔
“آپ نے مجھے مطلع کیا؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“بابا سائیں کہاں ہیں؟”
وہ گل ناز بیگم کو دیکھتا ہوا بولا۔
“گودام گئے ہیں کچھ حساب کتاب دیکھنے۔۔”
وہ اس کا ماتھا چومتی ہوئی بولیں۔
“آپ نے بتایا ہی نہیں آنے سے پہلے؟”
احسن بولتا ہوا وائز کے ہمراہ بیٹھ گیا۔
“ہاں بس امی کو معلوم ہوا تو فوراً بلا لیا۔”
وہ شانے اچکاتا ہوا بولا۔
“چلیں اچھا ہے۔۔ ”
وہ پانی پیتا ہوا بولا۔
وائز یک ٹک بنا پلک جھپکے زرش کو دیکھ رہا تھا جو گل ناز بیگم سے باتیں کرتی ہوئی مسکرا رہی تھی۔
اس عرصہ میں وہ پہلی بار اسے مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
فون پر میسج کی ٹون سنائی دینے پر زرش فون ان لاک کرتی دیکھنے لگی۔
یہ ایک ویڈیو تھی جو کسی انجان نمبر سے آئی تھی۔
جس کے اوپر ایک عبارت لکھی تھی۔
“تمہارے شوہر کی کچھ روز پرانی ویڈیو۔۔۔۔ ”
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگی۔
سٹیج پر لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں، لوگ ان پر پیسے لٹاتے ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وائز بھی انہی میں تھا۔
وہ اس ڈانسر کے ساتھ کھڑا تھا۔
وہ اسے چھو رہا تھا نجانے کہاں کہاں۔۔۔
زرش نے ویڈیو بند کر دی۔
“میں جانتی ہوں تم جیسا انسان کبھی نہیں سدھر سکتا۔”
وہ فون رکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
“خیر ہے بھائی گھر میں ٹائم نہیں ملتا؟”
احسن اس کی نظروں کا تعاقب کرتا شرارت سے بولا۔
“یہ بھی تو گھر ہی ہے۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا البتہ نگاہیں ابھی تک زرش پر تھیں۔
“آپ لوگ بیٹھیں میں فریش ہو کر آیا۔”
وہ وائز کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
“ہاں جاؤ تم۔۔۔ زرش میرے ساتھ آنا ذرا۔۔ ”
وائز کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“میں امی سے بات کر رہی ہوں۔۔۔ ”
اس کا مطلب انکار تھا۔
“نہیں نہیں جاؤ تم۔۔ اتنی اہم باتیں تو نہیں پھر ہو جائیں گیں۔”
گل ناز مداخلت کرتی ہوئی بولی۔
وہ زرش کو دیکھتا زینے چڑھنے لگا۔
وہ نا چاہتے ہوۓ بھی چلی گئی۔
“کیا کہنا ہے؟”
وہ بازو سینے پر باندھتی ہوئی بولی۔
“یہاں بیٹھو۔۔۔ ”
وہ اس کی بازو پکڑ کر بیڈ کی جانب لاتا ہوا بولا۔
وہ ہاتھ چھڑواتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
“اگر ہمارا بیٹا ہوا تو تم اسے ہرگز میرے جیسا مت بننے دینا۔”
وہ اس کے سامنے بیٹھا سر جھکاےُ بول رہا تھا۔
وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔
“میں نہیں چاہتا ایک اور وائز رضی حیات اس دنیا میں سانس لے۔۔۔ تم جیسے چاہو اس کی تربیت کرنا میں کچھ نہیں بولوں گا۔ چاہے تو مار بھی لینا لیکن مجھ جیسا مت بننے دینا۔”
اشک اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر بیڈ کی چادر میں جذب ہو گیا۔
زرش سے اس کے آنسو مخفی نہ رہ سکے۔
وہ حیران تھی اس کے بدلے ہوۓ روپ کو دیکھ کر۔
“کیا تم کبھی مجھے معاف نہیں کرو گی؟”
وہ تکلیف میں تھا۔
وائز نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
سرخی مائل آنکھوں میں تیرتا کرب نمایاں تھا۔
“کبھی نہیں۔۔۔ ”
وہ سختی سے بولی۔
“اتنی سنگدل ہو تم؟”
وہ شکست خور سا بولا۔
“تمہارے یہ چند آنسو میرے آنسوؤں کا حساب نہیں دے سکتے۔۔۔۔ جو تم نے کیا ہے وہ ناقابل معافی جرم ہے۔ وائز تم نے میرے اندر کے انسان کا قتل کیا ہے۔میری روح کو پامال کیا ہے؟”
اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
“ہاں میں گناہگار ٹھہرا لیکن کیا تم بے عیب ہو؟ تم سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا؟ مانتا ہوں میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہوں لیکن کیا تم اتنی نیک ہو؟”
وہ ہاتھ سے رخسار رگڑتا ہوا بولا۔
“کیا مطلب ہے تمہاری بات کا؟”
وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
“میرا مقصد تمہیں غلط ٹھہرانا نہیں ہے صرف سمجھانا ہے کہ انسانوں سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں۔۔۔ پیشمان بھی وہی ہوتے ہیں اور معافی بھی وہی مانگتے ہیں۔ اگر اتنی بار ﷲ سے معافی مانگی ہوتی تو شاید وہ معاف کر چکا ہوتا۔۔۔ ﷲ معاف کر دیتا ہے لیکن بندے نہیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“وائز تم نے۔۔۔ ”
“تم یونی جاتی تھی نہ؟ مذہب تو بےپردگی سے منع کرتا ہے۔کتنے مرد ہوتے تھے یونی میں ہیں نہ؟ مذہب تو مرد سے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا اور تم مردوں کے ساتھ پڑھتی تھی؟ غلط مت لینا۔۔۔ صرف کچھ سمجھا رہا ہوں۔ ہم دن میں نجانے کتنے گناہ کر جاتے ہیں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا۔ زرش میرے لئے نہ سہی ہمارے بےبی کی خاطر معاف کر دو مجھے۔۔۔ آزاد کر دو اس بوجھ سے۔ کبھی کبھی لگتا ہے میں مر جاؤں گا اس بوجھ تلے دب کے۔”
وہ التجائیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ خاموش تھی۔
“قصور میرے ماں باپ کا بھی ہے جنہوں نے مجھے عورت کی عزت کرنا نہیں سکھایا جنہوں نے مجھے یہ نہیں بتایا عورت ہیرے کی مانند انمول ہوتی ہے اور اس کی عزت کی حفاظت اس سے بھی زیادہ۔۔۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بھی قصور وار ہیں تو سزا صرف مجھے ہی کیوں؟”
وہ بےچارگی سے بولا۔
“مانتی ہوں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ لیکن وائز میرے لئے وہ رات بھلانا ممکن نہیں۔ اتنا آسان نہیں یہ سب۔ہر رات سونے سے پہلے مجھے وہ رات یاد آتی ہے وہ تاریک اور سرد رات میری زندگی کو بھی تاریک کر گئی مجھے سرد مہر بنا گئی۔ اتنا حوصلہ نہیں لا سکتی میں۔ شوہر مانتی ہوں تبھی ساتھ ہوں تمہارے لیکن ایک لاپرواہ زندگی بسر کرنا تمہارے ساتھ۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی کھڑی ہو گئی۔
“کیا میری میت کو دیکھ کر بھی تم معاف نہیں کرو گی؟”
وہ مٹھی بند کرتا ہوا بولا۔
“پتہ نہیں۔۔۔ ”
کہہ کر وہ رکی نہیں اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ دانت پیستا دروازے کو گھورنے لگا۔
کچھ سوچ کر وہ کھڑا ہوا، چہرہ صاف کیا اور باہر نکل گیا۔
“بابا سائیں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ ”
زرش دستک دیتی ہوئی بولی۔
“ہاں بیٹا آؤ۔۔۔ ”
وہ اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
وائز اس کے پیچھے چلتا ہوا اِدھر آ نکلا۔
“میرا آپ سے ایک سوال ہے؟ ایک سیاسی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک باپ بھی ہیں۔”
اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
“ہاں بیٹا بولو کیا بات ہے؟”
وہ چشمہ اتارتے ہوۓ بولے۔
“ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر صرف عورت ہی کیوں قتل کی جاتی ہے؟ کبھی سنا ہے کسی باپ نے غیرت کے نام پر بیٹا قتل کیا ہو؟”
وہ ان کی آنکھوں میں دیکھتی بول رہی تھی۔
“میں سمجھ سکتا ہوں۔۔ تم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔”
وہ شرمساری سے بولے۔
“آپ نے کیوں اپنے بیٹے کا قتل نہیں کیا؟ اگر وائز کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو اب تک وہ اس دنیا میں نہ ہوتی۔۔۔ یہ تضاد کیوں؟ مذہب نے تو مرد اور عورت دونوں کو اجازت نہیں دی پھر قتل کے لئے عورت ہی کیوں؟ مردوں کی غلطیوں پر پردہ کیوں ڈالا جاتا ہے؟”
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
“نجانے یہ روایت کس نے بنائی ہے؟ ہم بھی تمہاری بات سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن شاید میری طرح ہر باپ ہی بیٹے کی محبت میں مجبور ہو جاتا ہو۔”
وہ سر جھکاےُ بول رہے تھے۔
“تو کیا بیٹیوں سے محبت نہیں ہوتی باپ کو؟ وہ اتنی ارزاں ہیں؟ صرف لڑکوں کی اہمیت ہوتی ہے؟ بیٹیوں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟مرد کچھ بھی کر لے کوئی کچھ نہیں بولے گا کیا مذہب اسے اجازت دیتا ہے؟”
وہ خاموش تھے کیونکہ وہ حق پر تھی۔
وائز دم سادھے ان دونوں کو سن رہا تھا۔
“اگر تم یہی چاہتی ہو تو پھر ایسا ہی سہی۔”
وہ انگلی سے آنسو صاف کرتا چلنے لگا۔
~~~~~~~~
“میں تمہارے کپڑے نکال دیتا ہوں تم فریش ہو کر آرام کر لو سفر میں تھک گئی ہو گی۔”
وہ اپارٹمنٹ کا دروازہ بند کرتا ہوا بولا۔
زرش صوفے پر بیٹھی پانی پی رہی تھی۔
وہ چابیاں ٹیبل پر رکھتا اس کے کمرے میں چلا گیا۔
“اگر یہ انسان سچ میں بدل گیا ہے تو مجھے خود پر رشک آ رہا ہے۔۔ لیکن اگر یہ صرف جھوٹ اور فریب ہے تو انتہائی گھٹیا ہے۔”
وہ گلاس میز پر رکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...