ایک چھوٹا بچہ تین سال سے بھی کم عمر کا ماں باپ کی بدسلوکی اور غفلت کا شکار ہوتا ہے۔ ریاست مداخلت کرتی ہے اور بچے کو حقیقت ماں باپ سے لیکر دوسرے کسی جوڑے کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ نئے ماں باپ اسکو بہت پیار سے پالتے ہیں اور وہ سب کچھ کرتے ہیں جس سے اسکو گھر کا ماحول مل سکے۔ وہ بچہ اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی انکے ساتھ گزارتا ہے۔ بعض اوقات ایسے افراد ایک ہنس مکھ اور نارمل زندگی گزارتے ہیں لیکن زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا۔ وہ افراد جو بچپن میں بدسلوکی اور غفلت کا شکار رہے ہوتے ہیں بڑے ہوتے ہوئے ان میں ذہنی مسائل کے امکانات عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کے اندر نشہ اور ادویات کا استعمال، ڈپریشن اور خودکشی کے امکانات بھی عام لوگوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک بار پھر وہی سوال ہمارے سامنے ہے۔ آخر کیوں ابتدائی بچپن کی بدسلوکی اور غفلت کے اثرات سے لوگ نہیں نکل پاتے؟ ایسا کیوں ہے جو چیز دہائیوں پہلے بچپن میں ہوئی اسکے اثرات جوانی میں موجود ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو ان بھیانک واقعات کے بارے کچھ یاد نہیں ہوتا پھر بھی اسکے اثرات جسمانی اور ذہنی طور پر وہ ساری زندگی سہتے ہیں۔
صرف ڈی این اے کافی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تینوں حالتیں ہمیں مختلف نظر آتی ہیں۔ پہلی کا تعلق زیادہ تر غذا سے ہے، خصوصاً ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کے حوالے سے۔ دوسری حالت جینیاتی طور پر ایک جیسے افراد کے اندر پیدا ہونے والے اختلاف کے حوالے سے ہے۔ تیسری بچپن میں بد سلوکی اور غفلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لمبے عرصے کے نفسیاتی نقصان کے حوالے سے ہے۔ لیکن یہ کہانیاں ایک بنیادی حیاتیاتی سطح پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ تمام ایپی جینیٹکس کی مثالیں ہیں۔ ایپی جینیٹکس ایک نیا میدان ہے جو بیالوجی کے اندر انقلاب لارہا ہے۔ جب بھی جینیاتی طور پر ایک جیسے کوئی بھی دو افراد کسی طرح سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں جسکا ہم پتہ لگاسکتے ہیں، یہی ایپی جینیٹکس ہے۔ جب ماحول کےاندر ہوئی کوئی تبدیلی حیاتیاتی طور پر لمبے عرصے کیلئے اپنے اثرات چھوڑتی ہے حالانکہ تبدیلی خود پرانی یادوں میں کہیں کھو چکی ہوتی ہے تو ہم ایک ایپی جینیٹک ایفیکٹ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ایپی جینیٹکس کے اثرات ہماری روز مرہ زندگیوں میں ہمارے اردگرد دیکھے جاسکتے ہیں۔ سائسندانوں نے اب تک ایپی جینیٹکس کی بہت سی مثالیں دریافت کی ہیں ان میں سے کچھ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ جب سائنسدان ایپی جینیٹکس کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ہر وہ واقعہ ہوتا ہے جہاں جینیاتی کوڈ اکیلے اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتا کہ کیا ہو رہا ہے، اسکے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ جب وہ چیزیں جو جینیاتی طور پر ایک جیسی ہوں لیکن مختلف نظر آئیں۔ یہ ایک طریقہ ہے جس سے ایپی جینیٹکس کی تعریف کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک میکانزم بھی ہونا چاہئے جو جینیاتی سکرپٹ اور حتمی نتائج کے درمیان تضاد پیدا کرتا ہے۔ یہ ایپی جینیٹک اثرات کسی قسم کی طبعی تبدیلی یا پھر ان مالیکولز کے اندر ردوبدل کہ وجہ سے ہوسکتے ہیں جن پر تمام جانداروں کے خلیات مشتمل ہوتے ہیں۔ اس ماڈل میں ہم ایپی جینیٹکس کی تعریف اس طرح سے کر سکتے ہیں ” جینیاتی مادے کے اندر ترامیم کا مجموعہ جسکی وجہ سے جینز کے آن اور آف ہونے کے پیٹرن میں تبدیلی آتی ہے لیکن بذاتِ خود جینز میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
اس سے یہ ابہام پیدا ہوتا ہے کہ ایپی جینیٹکس کے دو الگ الگ معانی ہیں لیکن دراصل یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ہم ایک ہی واقعہ کی دو الگ الگ سطح پر وضاحت کررہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک لینز لیکر پرانی اخبار پر کسی تصویر کو دیکھا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ یہ تصویر چھوٹے چھوٹے نقطوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم نے لینز استعمال نہ کیا ہوتا تو ہمیں کبھی پتہ نہ چلتا کہ تصاویر چھوٹے نقطوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور انکو کسیے بنایا جاتا ہے۔ اسکے برعکس اگر ہم صرف لینز کی مدد سے ہی اخبار کو دیکھتے تو ہمیں صرف نقطے ہی نظر آتے اور ہم کبھی نہ دیکھ پاتے کہ کیسے یہ نقطے ملکر ایک بڑی خوبصورت تصویر بنادیتے ہیں۔
حیاتیات میں جدید انقلاب یہ ہے کہ ہم پہلی مرتبہ ایپی جینیٹکس کے مظہر کو سمجھنا شروع کررہے ہیں۔
ہم اب صرف بڑی تصویر ہی نہیں دیکھ رہے بلکہ ہم ان چھوٹے نقطوں کو بھی دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو اس تصویر کو بنا رہے ہیں۔ اسکا مطلب ہے بالآخر ہم فطرت اور پرورش کے درمیان کی گمشدہ کڑی کو سلجھانا شروع کررہے ہیں، کیسے ہمارا ماحول ہم سے بات کرتا ہے ، ہمیں تبدیل کرتا ہے، بعض اوقات ہمیشہ کیلئے۔
ڈی این اے کے اوپر چھوٹے کیمائی گروپس خاص حصوں کے اوپر جوڑے جاسکتے ہیں۔ اسکےعلاوہ خاص قسم کی پروٹینز بھی ڈی این اے ہر موجود ہوتی ہیں۔ ان پروٹینز کے اوپر بھی مخصوص اضافی کیمیائی گروپس آکر جڑ سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئ بھی کیمیائی ترمیم نیچے موجود ڈی این اے کی ساخت کو تبدیل نہیں کرتی۔ لیکن ڈی این اے یا اس پر موجود پروٹین کیساتھ مخصوص کیمیائی گروپس کے جڑنے یا ہٹنے سے ساتھ موجود جینز کے اظہار میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ جینز کے اظہار میں یہ تبدیلیاں خلیات کے فنکشنز کو تبدیل کرسکتی ہیں اور خلیات کی فطرت کو بھی بدل سکتی ہیں۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈی این اے بلیو پرنٹ ابتدائی نقطہ ہے۔ لیکن یہ ذندگی کی تمام پیچیدگیوں کی ضروری وضاحت نہیں ہے۔ اگر ڈی این اے ہی سب کچھ ہے تو جڑواں بچے ہمیشہ ہر لحاظ سے ایک جیسے رہتے۔ اور غذا کی قلت کا شکار ماؤں کے بچے دوسرے بچوں کی طرح وزن میں نارمل ہوتے۔
ایک خلیے سے ہزاروں اقسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کا جسم پچاس سے ستر کھرب خلیات سے ملکر بنا ہے۔ تصور کریں ہم کسی شخص کو اسکے خلیات میں تقسیم کردیں اور اسکے بعد ان انفرادی خلیوں کو گننا شروع کریں۔ ایک خلیہ کو ایک سیکنڈ کے حساب سے گنا جائے تو کم از کم ہمیں پندرہ لاکھ سال لگ جائیں گے۔ یہ خلیات مختلف ٹشوز بناتے ہیں جوکہ تمام ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور اپنے کاموں کیلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ جب تک کہ کوئی بہت سنجیدہ مسئلہ نہ ہو جائے، گردے کبھی ہمارے سر سے نہیں ابھرتے ہیں نہ ہی ہماری آنکھوں کے اندر دانت نکلتے ہیں۔ یہ بہت واضح ہے،لیکن ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
ہم جانتے ہیں ہمارے جسم کا ہر خلیہ ایک ابتدائی خلیہ جسکو زائیگوٹ کہا جاتا ہے سے تقسیم ہوکر آیا ہے۔ زائیگوٹ تب بنتا ہے جب سپرم ایک انڈے کیساتھ ملتا ہے۔ زائیگوٹ اسکے بعد دو خلیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، دو سے چار ، چار سے آٹھ اور اسی طرح تقسیم در تقسیم کے عمل سے ہمارا جسم جو کہ ایک آرٹ کا بہترین نمونہ ہے تشکیل پاتا ہے۔ جیسے جیسے تقسیم کا یہ عمل ہوتا جاتا ہے خلیات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے جاتے ہیں اور مختلف اقسام کے خلیات وجود میں آتے ہیں۔ اس عمل کو differentiation کہا جاتا ہے اور یہ تمام کثیر خلوی جانداروں کیلئے ایک اہم عمل ہے۔
اگر آپ خوردبین کے نیچے بیکٹیریا کو دیکھیں تو ایک نوع کے بیکٹیریا کے تمام خلیات بالکل ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن انسان کے اندر ایسا نہیں ہے مثلاً آنت کے اندر موجود خوراک جذب کرنے والے خلیات اور دماغ کے عصبی خلیات کو دیکھ کر یہ کہنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا یہ دونوں خلیے ایک ہی سیارے سے ہیں یا نہیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے اس میں ایسی کیا بڑی بات ہے۔ عجیب بات ہے وہ یہ کہ یہ تمام خلیات کو ایک دوسرے سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں اور الگ الگ کاموں کیلئے مخصوص ہیں تمام ایک ہی ابتدائی خلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اور تمام کے اندر ایک ہی بلیو پرنٹ ڈی این اے کی شکل میں موجود ہے۔
اسکی ممکنہ وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ تمام خلیات ایک جیسی معلومات کو الگ الگ طریقےسے استعمال کررہے ہیں لیکن درحقیقت کوئی وضاحت نہیں بلکہ پہلے سے معلوم چیز کو الگ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ خلیات ایک جیسی معلومات کو الگ الگ طریقےسے کیسے استعمال کرتے ہیں؟ بون میرو کے خلیات خون کے خلیات بناتے رہتے ہیں، جگر کے خلیات جگر کے خلیات ہی بناتے رہتے ہیں ایسا کیسے ممکن ہے؟
ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ جب خلیات مخصوص ہوجاتے ہیں تو وہ وراثتی مادے کو دوبارہ ترتیب دیتے ہیں اور ممکن ہے وہ ایسے جینز کو ختم کردیتے ہیں جنکی انکو ضرورت نہیں رہتی۔
جگر پانچ سو کے قریب فنکشنز پرفارم کرتا ہے جس میں آنت سے ہضم شدہ خوراک کی پروسیسنگ، زہریلے مادوں کو بے اثر کرنا اور تمام قسم کے اینزام تیار کرنا جو جسم کے مختلف حصوں میں کام کرتے ہیں شامل ہیں۔ لیکن ایک کام جو جگر کبھی نہیں کرتا وہ ہے آکسیجن کی ترسیل، یہ کام خون کے سرخ خلیات کرتے ہیں۔ خون کے سرخ خلیات میں ایک پروٹین ہیموگلوبن موجود ہوتی ہے جو آکسیجن کو اٹھاتی ہے۔ ایسے اعضاء جہاں آکسیجن کی زیادتی ہوتی ہے جیسے پھیپھڑے وہاں سے اسکو ایسی جگہوں میں پہنچایا جاتا ہے جہاں آکسیجن کم ہوتی ہے۔ لہذاٰ جب جگر آکسیجن کی ترسیل کا کام نہیں کرتا تو اسکے اندر ہیموگلوبن کے جینز موجود نہیں ہونے چاہیے۔
یہ ایک بھلی تجویز ہے ہوسکتا ہے خلیات وہ جینز ختم کردیتے ہوں جسکی انھیں ضرورت نہیں ہوتی یا پھر ان جینز کو آف کردیا جاتا ہے اور اسطرح سے آف کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آن نہ ہوسکیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...