وہ جب گھر آئی تو سب ہی جمع تھے وہ بھی سلام کرنے کے بعد خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھ گئی کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ بات کس سے کرے اور کیسے ؟؟
رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ نماز کے لیے اٹھ گئی ۔۔۔۔
نماز کے بعد بھی وہ اسی بات کو سوچ رہی تھی کہ فریال اس کے کمرے میں آئی ۔۔۔۔ ان دونوں کی عادت تھی کہ وہ رات کو دیر تک باتیں کرتی تھیں۔۔۔۔
آج کا دن کیسا گزرا ؟؟
بہت اچھا۔۔۔ مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
ہاں کہو!
مجھے کسی نے پرپوز کیا ہے!!! پھر اسے ساری بات بتا دی ۔
اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟؟
اُس کی ساری بات سننے کے بعد فریال کچھ دیر چپ رہی اور پھر کسی نتیجے پہ پہنچنے کے بعد گہری سانس لے کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
فریال نے گہری سانس لی اور اس کو دیکھا اور بولی۔۔۔۔
” رابیل یہ جو نامحرم مرد کی محبت ہوتی ہے نا وہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی اس دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی رسوائی ملتی ہے اللہ نے جس بات سے منع کیا ہے اگر ہم بہانے بنا کے تاویلیں دے کے اُس سے اپنی مرضی کا رزلٹ نکالیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم اللّہ کے حکم سے انحراف کریں گے ۔اور پتا ہے اِس محبت میں سکون نہیں ملتا اور پتا ہے ایسا کیوں ہے ؟؟
اس نے اپنی نظریں اٹھا کے اُسے دیکھا جو سانس روکے اُسے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔
” کیونکہ ہم اللہ کو ناراض کر کے اُس کی حدود کو توڑ کے اُس کے فیصلوں سے انحراف کر کے ایک غیر مرد سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی محبتیں کبھی کامیاب بھی نہیں ہوتی”
اگر وہ تم سے محبت کرتا ہے تو رشتہ بیجھے ہمارے بڑے فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے ۔۔۔۔
اور سب سے ضروری بات ! وہ ابھی تک سانس روکے اسے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس سے موبائل پہ یا آفس میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اوکے۔۔۔۔
“آجکل کے زمانے میں اگر کوئی آپ کو سمجھائے تو ہم اسے دقیانوسی کہہ کر یا یہ کہہ کر کے آج کے زمانے یہی سب ہو رہا ہے ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں اس کی بات کو ریجکٹ کر دیتے ہیں لیکن رابی ! ہم درسروں کی غلط باتوں کو ہی کیوں اپنائیں ؟؟ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات!!!
“ہا۔۔۔۔ہاں میں سمجھ رہی ہو فری ! اور تم مجھ پہ بھروسہ رکھو میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس سے میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو
اور جس کے پاس تم جیسی بہن ہو وہ کبھی کچھ غلط کر سکتی ہے ” آخر میں وہ شرارت سے بولی !
فریال نے بےاختیار اسے گلے لگایا۔۔۔۔ مجھے تم پہ پورا یقین ہے رابیل !
وہ فریال سے یہ نہیں کہہ سکی تھی کے وہ ناچاہتے ہوئے بھی اُس شخص کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی ۔۔۔ مگر اُس نے سوچ لیا تھا کہ اِس بات کی خبر وہ کبھی کسی کو نہیں ہونے دے گی۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
کھانے کی میز پہ بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ بابا سے بات کیسے کی جائے۔۔۔۔ حسن صاحب نے دو تین دفعہ اسے دیکھا مگر وہ ابھی تک اسی الجھن میں گرفتار تھا ۔۔۔۔
عائدون کیا پرابلم ہے ؟؟؟
وہ چونک کر سیدھا ہوا۔۔۔۔ نہیں بابا کچھ نہیں ۔۔۔
تو پھر کھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟؟ اب کی بار آمنہ بولی !
اُس نے گہرا سانس لیا اور اپنے ماں باپ کو دیکھا پھر سر جھکا کر بولا۔۔۔۔
میں شادی کرنا چاہتا اور لڑکی بھی پسند کر لی ہے وہ وکیل ہے انکل کے آفس میں دیکھا تھا ۔۔۔۔ وہ سر جھکا کر کہہ رہا تھا ابھی اُس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ حسن نے اسے ٹوکا۔۔۔۔
رابیل نام ہے اس کا ۔۔۔۔ اس کے تایا اور باپ بزنس مین ہیں وہ اکلوتی ہے تین کزن بھی ہیں اُس کے ۔۔۔۔ باپ کا نام بھی بتاؤں یا جانتے ہو۔۔۔۔ حسن صاحب آرام سے گویا ہوئے۔۔۔۔
اور اس کو جیسے کرنٹ لگا۔۔۔ آ۔۔۔آپ کو کیسے پتا یہ سب ؟؟؟ آپ کیسے جانتے ہیں؟؟؟
بیٹا جی ! آپ کو کیا لگا آپ کسی لڑکی کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہیں شادی کرنا چاہتے ہیں اور مجھے کچھ پتا نہیں چلے گا ۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ دبا کر گویا ہوئے۔۔۔۔
وہ شرمندہ ہوا !
میں نے تو پہلے ہی اتنی دفعہ اسے شادی کا بولا تھا مگر یہ کب مانتا تھا اب شکر ہے اللہ کا اسے کچھ عقل آئی ہے ۔۔۔۔ آمنہ بولی ۔۔۔۔
وہ ہنسا ! چلیں اب تو آپ کی خواہش پوری ہو گئی ہے نا۔۔۔۔
ہاں اور اب ہم نے دیر نہیں کرنی بس جلدی سے شادی کر دینی ہے وہ ماں کی بےتابی دیکھ کے مسکرا دیا ۔۔۔۔
انشااللہ ۔۔۔ حسن صاحب بےساختہ بولے۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
وہ کھانے کے بعد کمرے میں آیا اور معیز کو کال ملائی۔۔۔۔
اسلام علیکم ! وہ پر جوش آواز میں بولا۔۔۔
وعلیکم اسلام ! آج ایس پی صاحب کو ہماری یاد کیسے آ گئی؟؟؟ وہ طنز سے بولا۔۔۔
میں شادی کر رہا ہوں سوچا تمہیں بھی بلا لوں ۔۔۔۔
دوسری طرف یہ بات سن کر معیز اچھل ہی پڑا تھا ۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔ کیا۔۔ کیا کہا تم نے ؟؟؟ وہ بے یقینی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
جبکہ عائدون اس کی حالت کا سوچ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
ہاں میں شادی کر رہا ہوں ۔۔۔
کس سے ؟؟؟ معیز کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔
تم سے ۔۔۔ وہ جل کر بولا۔۔۔
ظاہر ہے کسی لڑکی سے ہی کروں گا نا۔۔۔۔
او میرا مطلب ہے کس لڑکی سے یار ؟؟
رابیل !
وہ وکیل! معیز بے ساختہ بولا۔
معیز کچھ دن پہلے اس کے ساتھ آفس گیا تھا وہاں اس نے رابیل کو دیکھا تھا۔۔۔
ہاں وہی !
بہت اچھے یار وہ لڑکی واقعی بہت اچھی ہے ۔۔۔۔ میری دعا ہے تم ہمشہ خوش رہو۔۔۔ آمین!
اچھا تم کہا تک پہنچے ؟؟؟
یار وہی پہ جہاں تھا۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا اشارہ کس بات کی طرف ہے ۔۔۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولا۔۔۔
تم انکل آنٹی سے بات کروں نا۔۔۔۔
ہا۔۔۔ وہ سن ہی نا لے میری بات ۔۔۔ وہ طنز سے بولا
چلو اللہ بہتر کرے گا ۔۔۔ خدا حافظ!
خداحافظ!!
فون رکھنے کے بعد وہ رابیل کے بارے میں سوچ رہا تھا آج مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنے آفس کے کام میں بزی ہو گیا۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
ایک ہفتہ ہو گیا تھا اس با ت کو وہ معمول کی طرح اپنے کام میں مصروف تھی ہاں اس کی روٹین میں ایک چیز کا اضافہ ہوا تھا اور وہ تھی اُس شخص کی یاد جو ناچاہتے ہوئے بھی اسے آتی تھی ۔۔۔۔
“پتا نہیں کون سا جادو کیا تھا اُس نے کہ وہ اس کے جادو کے سحر میں گم ہو گئی تھی ۔۔۔”
اُس نے اس بات کی بھنک کسی کو نہیں پڑنے دی تھی وہ تو اپنے آپ سے بھی اعتراف کرتے ہوئے ڈرتی تھی ۔۔۔۔
وہ اب چیمبر میں بہت کم آتا تھا آتا تھا تو صرف انکل سے ملنے ۔۔۔۔ وہ اس کے آنے پہ اپنے آفس میں ہی رہتی تھی اس ڈر سے کہ کہیں اس کے دل کا چور باہر نا آجائے۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
فریال کا رشتہ آیا تھا سب سے زیادہ خوش رابیل ہی تھی رشتہ سب کو بہت پسند آیا تھا اور لڑکے کے گھر والے بھی بہت اچھے تھے ۔۔۔۔ لڑکے کے باپ کا اپنا کاروبار تھا اور وہ بھی اپنے آفس میں کام کرتا تھا۔۔۔۔ سب کی رضا مندی سے اس رشتے کو منظور کر لیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
میں تو ابھی سے بہت excited ہو رہی ہوں ۔۔۔۔ اف اف فری کتنا مزہ آئے گا نا تمھاری شادی پہ ؟؟ وہ پر جوش انداز میں اس سے پوچھ رہی تھی !
آپی کو کیا مزہ آئے گا رابی ان کی تو شادی ہے وہ تو بس ایک جگہ بیٹھی رہیں گی نا ۔۔۔۔
مجھے پتا تھا ایسی بکواس صرف تم ہی کر سکتے ہو زیان ! وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔۔۔۔
بہت شکریہ ! درہ نوازی ہے آپ کی ۔۔۔۔ وہ عاجزانہ انداز میں بولا۔۔۔۔۔
ان کی باتوں کے دوران فریال بلکل خاموش تھی ۔۔۔۔
آپی آپ کے بغیر میں بہت اداس ہو جاؤں گا ۔۔۔وہ دکھ بھری آواز سے بولا۔۔۔
ڈونٹ وری ہم تمہیں فری کو جہیز میں دیں دیں گے ۔۔۔۔ اب اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں ۔۔۔۔ اس کی بات پر سب کا قہقہ بےساختہ تھا ۔۔۔۔ فریال بھی ہنس دی ۔۔۔۔۔
زیان نے برا سامنہ بنایا اور ہنہ کہہ کر وہاں سے چل دیا۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
فری تم خوش ہو نا؟؟ رات کو وہ دونوں چائے پی رہی تھی جب رابیل نے اس سے پوچھا ۔۔۔
ہاں رابی میں خوش ہوں !
تو پھر اتنی چپ چپ کیوں ہو؟؟
“یار میں نے ابھی اس بارے میں سوچا نہیں تھا اتنا اچانک ہوا ہے یہ سب اس situation کو accept کرنے میں ٹائم تو لگے گا نا ”
اس کی بات سمجھ کر رابیل نے سر ہلادیا۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
معیز اُس سے ملنے اس کے آفس آیا تھا ۔۔۔۔۔
کیسے ہو میرے یار؟؟
میں ٹھیک ہوں تم سناؤ؟
میں بہت خوش ہوں !
ہاں تمہارے چہرے پہ صاف لکھا نظر آ رہا ہے ۔۔۔
کون سا قارون کا خزانہ مل گیا ہے وہ چائے اپنے آگے رکھتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔۔
“قارون کا خزانہ بھی اس کے آگے سامنے کچھ نہیں جو مجھے ملا ہے ”
ایسا کیا مل گیا ہے بھئ ؟ عائدون تعجب سے بولا۔۔۔۔
میری شادی ہو رہی اینڈ گیس واٹ ؟؟؟ اسی لڑکی سے جس سے میں چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ خوش ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
کیا ؟؟ مگر کیسے ؟ پوری بات بتاؤ؟؟؟
یار میں نے ماما سے بات کی تھی انہیں سب سچ بتایا تھا کہ میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں مگر وہ نہیں جانتی ۔۔۔۔ آپ بس رشتہ لے جائیں بتانے کی ضرورت نہیں انہیں کچھ بھی ۔۔۔۔ وہ دونوں گئے اور مجھے کوئی ریجکٹ کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔ بس رشتہ طے کے کر اٹھے ۔۔۔۔۔ اب شادی کی ڈیٹ فکس ہو گی ۔۔۔۔۔ وہ اپنے کارنامے پر بہت مسرور تھا۔۔۔۔۔
مبارک ہو یار ! عائدون نے اسے اٹھ کر گلے سے لگایا۔۔۔۔
معیز نے فریال کو ایک کالج میں دیکھا تھا اور اسے ریکھتے ہی اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔۔۔ وہ اسے پسند کرتا تھا مگر یہ بات کہنے کی ہمت نہیں تھی اس میں اور اب جب اس کا رشتہ طے ہو گیا تھا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں خوش گیپوں میں مصروف تھے اس بات سے انجان کے قسمت ان کے لیے کیا سوغات لے کے آنے والی ہے
※ ※ ※ ※ ※
وہ ان پیپرز کو بےیقنی سے دیکھ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے ریکٹ کرے ،،، خوش ہو یا پھر اپنی قسمت کو کوسے !!
وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔۔ مگر اس نے فیصلہ تو کرنا ہی تھا نا ۔۔۔۔۔۔ بہت سوچنے کے بعد آخرکار اُس نے فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔
معیز کو دو مہینوں کے لیے آفس کے کام سے امریکا جانا تھا اس کے جانے میں ایک ہفتہ تھا اور وہ چاہتا تھا کہ وہ نکاح کر کے ہی جائے اس سلسلے میں آج دونوں گھرانے جمع تھے حسان اور عثمان صاحب کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ہاں البتہ گھر کی خواتین خاصی پریشان تھی کہ اتنی جلدی تیاری کیسے ہو گی ۔۔۔۔۔
آج کل تو ہر چیز مارکیٹ سے مل جاتی ہے آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں انشااللہ سب انتظام ہو جائے گا ۔۔۔۔ عثمان صاحب بولے !
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر پھر بھی کتنے کام ہیں اور دن اتنے تھوڑے۔۔۔۔۔ منزہ بولی۔۔۔۔
مل جل کے سب ہو جائے گا آپ فکر نا کریں۔۔۔۔
رابیل جب گھر آئی تو یہ خبر سننے کے بعد چیخ ہی پڑی ۔۔۔
بس ایک ہفتہ ؟؟؟ وہ آنکھیں پھیلا کے پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔
ہاں بس نکاح ہو گا رخصتی معیز کے آنے کے بعد۔۔۔۔ ایدہ بولی ۔۔۔
فریال کہا ہے ؟؟
وہ اپنے کمرے میں ہے ۔۔۔۔
وہ اس کے کمرے میں آئی تو فریال سونے کی تیاری کر رہی تھی
لڑکی ایک ہفتے بعد نکاح ہے اور تم سونے لگی ہو ۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی خفگی سے بولی ۔۔
تو اور بھنگرے ڈالوں۔۔۔۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بولی ۔۔۔۔
ہاں ڈال لو آخر کو نکاح ہے تمہارا۔۔۔۔۔
رابی جاؤ پلیز مجھے سونے دو بہت نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔ وہ جمائی روکتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
ویسے یار لگتا معیز بھائی نا کچھ زیادہ ہی بے صبرے ہو رہے ہیں ۔۔۔ وہ اُس کی بات کو نظر انداز کر کے بولی ۔
وہ چپ رہی !
ملنے دو زرا مجھے ان سے اچھی طرح پوچھوں گی اب میں اپنی تیاری کیسے کروں گی فری؟؟؟ اس نے سوالیہ انداز میں فریال کی طرف دیکھا جو گہری نیند میں تھی ۔۔۔۔۔
پھر دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
تم نے اچھی طرح سوچ لیا ہے نا اس بارے میں ؟؟
وہ حسن صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا
جی ! میں نے بہت سوچ سمجھ کر اس بارے میں فیصلہ لیا ہے ۔۔۔۔
ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی ! میں تمہارے ہر فیصلہ میں تمہارے ساتھ ہوں !
وہ اس کا کندھا تھپک کر بولے ۔۔۔.
شکریہ بابا!
اپنی ماں سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں سمبھال لو گا ان کو ۔۔۔۔ خوامخوا ٹنشن ہو گی ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے وہ سعادت مندی سے بولا۔۔۔۔
آپ اب ریسٹ کریں ۔۔۔۔ شب خیر !
شب خیر بیٹا! اُس کے جانے کے بعد وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے!!!!
※ ※ ※ ※ ※
گھر میں نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں سب رشتےدار پہنچ گئے تھے گھر کی سجاوٹ ہو چکی تھی ۔۔۔۔ سب کزنز نے مل کر مہندی کا بھی چھوٹا سا function کر لیا تھا ۔۔۔۔ ہر طرف بےفکری اور ہنگامے تھے ایسے میں بس ایک وہ تھی جو خوش ہوتے ہوئے بھی پوری طری خوش نہیں تھی
اُس کا جوش و خروش مدہم پڑ گیا تھا فریال کے کتنی دفعہ پوچھنے پر بھی وہ اسے کچھ نہیں بتا پائی تھی اور ہر دفعہ بات ٹال گئی تھی ۔۔۔۔
وہ اَیدہ کو بلانے ان کے کمرے میں گئی تھی دستک کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کے اپنا نام سن کر رک گئی ۔۔۔۔۔
ماشااللہ سے فریال کا اتنی اچھی جگہ رشتہ ہو گیا ہے اتنے اچھے اور قدر کرنے والے لوگ ہیں ہماری بیٹی بہت خوش رہے گی ۔۔۔
ہاں انشااللہ ! عثمان صاحب بولے۔۔۔
اب فری کے نکاح کے بعد رابیل کا سوچنا ہے ۔۔
اَیدہ بولی ۔۔۔
سوچنا کیا ہے دو تین رشتے ہیں میری نظر میں بس زرا یہ نکاح ہو جائے پھر کچھ کریں گے ۔۔۔۔
اللہ خیر خیریت سے ہر کام نمٹا دے میری تو یہی دعا ہے ۔
آمین!! چلیں اب فنگشن شروع ہونے والا ہے ۔۔۔۔
جی آپ چلیں میں آتی ہوں ۔۔۔.
※ ※ ※ ※ ※
اور وہ تو جیسے ہلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی یہ سچ تھا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی جذباتی تعلق نہیں تھا نا ہی کوئی دونوں کے درمیان کوئی وعدے ہوئے تھے مگر پھر بھی وہ اس شخص کو سوچتی تھی اُس کے وعدے پہ وہ آج بھی بیٹھی ہوئی تھی اُس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی اس طرح کی situation کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
وہ ایک مہینے سے اس شخص کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ تو جیسے بھول ہی گیا تھا ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر آنسوں نے جیسے قسم کھا لی تھی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
لڑکے والے آ گئے تھے وہ بھی سب بھول بھال کر فنگشن کو انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے پنک کلر کی کلیوں والی فراک پہنی تھی جس کے دامن پر موتیوں سے خوبصورت کام ہوا تھا اس نے آج بھی ڈوپٹے کو نماز کے سٹائل میں لپیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
فریال سی گرین لہنگے میں ملبوس بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔ وہ ہمشہ ہی سادہ رہتی تھی آج تیار ہونے کے بعد نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اووو ۔۔۔۔فری ماشااللہ ماشاللہ تم بہت بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔ رابیل اس کی بلائیں لیتی ہوئی بولی ۔۔۔۔
وہ جھنپ کر مسکرا دی ۔۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے معیز بھائی نے آج ہی رخصتی کروا لینی ہے اُس کی ایک کزن بولی ۔۔۔
سب کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔۔۔۔۔
آج ماشااللہ پیاری بھی تو بہت لگ رہی ہے ۔۔۔۔ ماہین بولی ۔۔۔۔
قاضی صاحب اندر آنے والے ہیں ! زیان نے سب کو آ کے مطلع کیا۔۔۔۔
قاضی صاحب کے ساتھ عثمان ، حسان اور سعد تھے انہوں نے نکاح پڑھایا فریال نے کاپنتے ہاتھوں کے ساتھ سائن کیے ۔۔۔۔ سب خواتین کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔۔۔ کسی کی آنکھ میں خوشی کے آنسو تھے تو کسی کی آنکھ میں بچھڑ جانے کے خیال سے!!!!
وہ باری باری سب کے گلے لگی سب نے ہی اسے دعاؤں سے نوازا تھا ۔۔۔۔ کمرے میں مبارک باد کا شور اٹھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد فریال کو بھی سٹیج پر لایا گیا ۔۔۔۔
آج تو معیز بھائی بھی بہت پیارے لگ رہے
ماشااللہ! رابیل نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔ وہ چپ رہی !
اسے بیٹھانے کے بعد وہ معیز کی طرف مڑی ۔۔۔۔
اسلام علیکم ! معیز بھائی میں ہو آپ کی اکلوتی سالی ! کیسے ہیں آپ اور شادی کی بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔
وہ ساری باتیں ایک ہی سانس میں بول گئی ۔۔۔۔ جبکہ معیز ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
اسے پہلے تو سمجھ نہیں آئی کہ رابیل یہاں کیسے ۔۔۔۔۔
آپ مطلب آپ فریال کی سسٹر ہیں ؟؟
نہیں میں کزن ہو فری کی آپ سی آج ملاقات ہوئی ہے ۔۔۔۔
اچھا اچھا اس نے سمجھ کر سر ہلایا ۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ ؟؟
میں ٹھیک ! اپنی بیگم کا بھی حال پوچھ لیں ۔۔۔۔ وہ شرارت سے بولی
معیز ہنسا اور ایک نظر اسے دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔
سب کے سامنے پوچھوں لو کیا؟؟ وہ بھی شرارت سے بولا ۔۔۔۔
وہ اس کی بات سمجھ کے ہنسی ۔۔۔۔
مجھے فری سے مار نہیں کھانی ۔۔۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بولی ۔۔۔۔
معیز کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔۔
آج کا دن کا اختتام ہنسی خوشی ہوا تھا ۔۔۔۔
معیز کو اس اتفاق سے بہت خوشی ہوئی تھی کہ رابیل اور فریال دونوں کزنز تھیں ۔۔۔ یہ اتفاق اُس کے لیے کتنا جان لیوا ثابت ہونے والا یہ اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
مجھے فون کرنے کا خیال کیسے آ گیا تمہیں؟؟ وہ طنزیا آواز میں بولا۔۔
دوسری طرف کی بات سن کے وہ غصے سے بولا۔۔۔
میں سمجھوں اب بھی مجھے ہی سمجھنے کے لیے کہہ رہے ہو تم اپنا کارنامہ بھی تو دیکھوں اس بارے میں کیا خیال ہے تمھارا؟؟ وہ بہت کول رہتا تھا اسے غصہ بہت کم آتا تھا وہ بھی بس چند منٹوں کے لیے مگر اب تو جیسے اس کے غصے کی انتہا ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہہ رہا ہوں مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی ۔۔۔۔۔ تم جو چاہتے ہو وہ کروں باقی سب جائیں بھاڑ میں ۔۔۔
تم مجھے اپنی صفائی پیش نا کروں بہت مہربانی تمھاری ۔۔۔۔ وہ پھر غصے سے بولا!
تم نے جو کرنا تھا کر دیا اب کچھ بھی کہنے یا کرنے کی ضرورت نہیں ہے !
وہ اب خاموشی سے دوسری طرف سے سن رہا تھا ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کے زاویے ٹھیک ہوئے اب غصے کے جگہ فکر مندی نے لی ۔۔۔۔۔
تم ۔۔۔ تم تو ٹھیک ہو نا ؟؟ اس نے بےاختیار پوچھا!
دوسری طرف سے جواب سن کر اس نے شکر ادا کیا اور گہرا سانس لیا ۔۔۔۔
یہ آخری بار تھا آئندہ ایسا ہوا تو پھر دیکھنا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے معاف کیا مگر آخری بار ! دوسری طرف کی بات سن کر اس نے قہقہ لگایا ۔۔۔۔
تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے ۔۔۔۔۔
آہا ایسے تو نہیں بتاؤں گا ۔۔۔۔۔ وہ ہنسا اور پھر اس سے باتوں میں مشغول ہو گیا۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
آج چار مہینے ہو گئے تھے مگر اُس شخص کا کچھ اتاپتا نہیں تھا ۔ وہ کتنے ہی رشتوں کو ٹھکرا چکی تھی اور بہانا اس نے اپنی پریکٹس کا لگایا تھا ۔۔۔۔ وہ واضح الفاظ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس نے شادی کرنی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔
وہ اُس بےوفا شخص کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی اُس کے لیے آنسو نہیں بہانا چاہتی تھی مگر اس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔
اَیدہ اُس کے لیے سب سے زیادہ پریشان تھیں انہوں نے بھی اس سے بات کی تھی مگر بےسود۔۔۔۔ فریال کو بھی وہ ٹالتی رہی آج پھر فریال اس کے پاس آئی تھی اس سے بات کرنے ۔۔۔۔
رابیل ! تم مجھے سچ سچ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟
وہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر بولی ۔
کچھ نہیں !
ہاں یاد آیا عائدون نہیں آیا رشتہ لے کر؟؟اس نے کب آنا ہے ؟؟ فریال اس سے سوالیہ انداز میں پوچھ رہی تھی
وہ سوال جو وہ آج تک خود سے نہیں کر سکی تھی وہ آج فریال نے کر کے اس کے ہر زخم کو تازہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
اُس کی آنکھوں میں بےاختیار آنسو آ گئےاور پھر وہ ہچکیوں سے رونے لگی ۔۔۔۔
رابی ! فریال اس کی حالت دیکھ کے دنگ رہ گئی
کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے ؟ کسی نے کچھ بولا ہے ؟؟ کچھ تو کہو مجھے پریشانی ہو رہی ہے !!!
اور پھر وہ فریال کو ہر بات بتانے لگی ۔۔۔۔۔
“میں اس سے محبت نہیں کرنا چاہتی تھی فری مگر پتا نہیں کیسے ” وہ پھر سسکنے لگی
کیا اسے پتا ہے اس بات ہے ؟؟؟فریال نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
نہیں !
اس نے گہرا سانس فضا میں چھوڑا اور رابیل کو بےاختیار گلے سے لگا لیا یہ بھی انداز تھا تسلی دینے کا۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※
فریال میں بہت بری ہو نا؟؟ وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
فریال نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے ۔۔۔۔
نہیں رابی تم بری نہیں ہو! کسی کو پسند کرنا غلط نہیں ہے تم نے کچھ غلط نہیں کیا ۔۔۔۔ اور ویسے بھی پسند نا پسند پہ کسی کو اختیار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اپنی مرضی سے کون محبت کرتا ہے ۔۔۔۔ یہ بےاختیاری عمل ہے ۔۔۔۔۔”پھر مجھے سکون کیوں نہیں ملتا ..میں کیا کرو ؟؟ وہ روتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔۔ تم میرے لیے دعا کرو ۔۔۔اللہ تمھاری دعا سنتا ھے تم میرے لیے سکون مانگو۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں اتنا درد اور کرب تھا۔۔۔۔۔ فریال نے اسے بےساختہ گلے سے لگایا۔۔۔۔
“اللہ سب کی سنتا ھے رابی ۔۔تم اس سے مانگو تو سہی وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے وہ تمہیں کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے ابھی بھی آنسو
گر رہے تھےوہ کھ رہی تھی۔۔۔
تم ٹھیک کہتی تھی فریال۔۔۔۔نامحرم کی محبت ایک ایسی دلدل ھے جس میں ھم دھنستے ہی جاتے ہیں ایک ایسی اندھیری گلی ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہےمجھے لگتا ھے اللہ مجھ سے بہت ناراض ھے۔۔۔میں نے اس کی حدود کو توڑا ہےمیں بہت گنہگار ھو۔۔۔۔مجھے اس کے سامنے جاتے ھوے بھی شرم آتی ھے ۔۔۔
آنسو اب بھی اس کی آنکھوں سے گر رہے تھے
رابی !!! وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے اگر اس نے تمہیں اس آزمائش میں ڈالا ہے وہی اس سے نکالے گا بھی ۔۔۔ تم صبر سے کام لو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔
اب میں کیا کروں فری ؟؟ وہ سوالیہ انداز میں اس سے پوچھ رہی تھی ۔
تم شادی کے لیے ہاں کر دو! رابیل نے بے یقینی سے اسے دیکھا
یہ تم کہہ رہی ہو فری !
ہاں یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔۔۔ ۔ فریال نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور تسلی دینے والے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔
یقین کرو رابی تم بہت خوش رہو گی ۔۔۔۔ سب گھر والے کتنے پریشان ہیں پلیز تم ہاں کر دو۔۔۔۔۔
میرا دل نہیں مانتا فری ۔۔۔۔۔ وہ سسکتے ہوئے کہہ رہی تھی
“رابیل! ہمیں دل کو اپنے تابع کرنا چاہیے نا کہ خود دل کے تابع ہو جائیں دل کی سرکشی کو قابو میں رکھنا چاہیے ورنہ یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی ”
وہ روتی رہی اور پھر وہ ہار گئی اس ایک شخص کے لیے وہ اپنے گھر والو کو دکھ نہیں دے سکتی تھی آج نہیں تو کل وہ اسے بھول جائے گی ۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولی ۔۔۔
ٹھیک ہے میں تیار ہوں ! ماما بابا جہاں چاہیں میری شادی کر دیں۔۔۔۔۔۔
“پتا نہیں یہ خون کے رشتے اتنا بلیک میل کیوں کرتے اور ان پہ کوئی قانون کیوں نہیں لگتا”
وہ سوچ رہی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...