سردی آج معمول سے کچھ زیادہ تھی ہر چیز سرد سرد لگ رہی تھی ۔ سب ہی اپنے کمروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ مریم نماز پڑھنے کے بعد کچن کی طرف آ گئی اور چائے کے لیے پانی رکھا۔ باقی سب سوئے ہوئے تھے۔ وہ چائے پی رہی تھی جب بیل کی آواز پر چونکی۔ پہلے اُس نے زائر کو جگانے کا سوچا پھر فوراً اپنے خیال کی تردید کی۔ اور گیٹ کی طرف چل دی۔
“خالہ لوگ تو آ گئے ہیں پھر اتنی صبح صبح کون آ گیا؟؟”۔ وہ سوچتے ہوئے باہر نکلی۔ باہر نکلتے ہی یخ بستہ ہواؤں نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے بےاختیار دونوں ہاتھ آپس میں رگڑے۔
گیٹ کھولتے ہوئے جو چہرہ اسے نظر آیا اس نے اس کا حلق تک کڑوا کر دیا تھا۔ موسم اسے کچھ زیادہ ہی سرد لگا تھا۔ بمشکل مسکراتے ہوئے اُس نے ملیحہ کو اندر آنے کی جگہ دی۔
وہ اسے لیے کچن میں ہی آ گئی اور تاسف سے اپنی چائے کو دیکھ رہی تھی جو ٹھنڈی ہو گئی تھی۔
“بیٹھو !!”۔ مریم اسے کہہ کر پھر سے چائے بنانے لگی۔
“تھینک یو “۔
“باقی سب کہاں ہیں ؟؟”۔ ملیحہ کے پوچھنے پر مریم نے بےاختیار گھڑی پر نظر ڈالی جو ساڑھے پانچ ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔
“سوئے ہوئے ہیں سب “۔ اس نے روکھے انداز میں کہہ کر پھر سے چائے کی طرف متوجہ ہو گئی۔
“او سوری “۔ مریم نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا اور خود بھی اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
“تم اتنی صبح میرا مطلب ہے ۔۔۔۔”۔
“میں ناردرن ایریاز گئی تھی اور ابھی واپس آئی ہوں کل کا فنگشن تو مس کر دیا تھا مگر آج کا نہیں کر سکتی تھی اس لیے صبح صبح پہنچی ہوں مرسلین بہت ناراض ہو رہا تھا۔ ارادہ تو میرا تھا کہ ایک دو ہفتے بعد جاؤں مگر سرپرائز دینے پہنچ گئی”۔ وہ ہنستے ہوئے بولی۔ مریم مروتاً مسکرائی۔
“ایک بات پوچھوں تم سے مریم ؟؟”۔ مریم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ملیحہ کچھ دیر اپنے کپ پر نظریں جمائے خاموش رہی ۔
“تمہاری شادی زائر سے ۔۔۔ آئی مین آپ دونوں کی لو میرج تھی ؟؟”۔ اپنے کپ پر نظریں جمائے اس نے پوچھا۔ مریم مسکرائی اور اُسے دیکھا۔
بلکل !! ہماری پسند کی شادی تھی ایکچویلی جو بھی ہمارا کپل دیکھتا ہے وہ یہی کہتا ہے ۔۔۔۔ اور ہمیں دیکھ لگتا بھی یہی ہے ہے نا۔۔۔۔” کھل کر مسکراتے ہوئے مریم نے اس سے پوچھا۔ ملیحہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے چائے کے گھونٹ بھرنے لگ گئی جو اسے کڑوے ہی لگے تھے۔
“اگر کوئی کپل ایوارڈ ملے نا تو ہم لوگوں کو ملے۔۔۔۔ زائر اتنا پیار کرتا ہے مجھ سے اور کئیرنگ بھی بہت ہیں “۔ ملیحہ نے بےزاری سے اسے دیکھا۔
“میں تو کہتی تم بھی شادی کر لو ہمیں ہی دیکھ لو کبھی ہم میں جھگڑا نہیں ہوا لوگ تو ہماری مثالیں دیتے ہیں “۔ جھوٹ کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے وہ ملیحہ کو بتا رہی تھی۔
(آہا، اب آیا نا مزہ )۔
“میں بھی اسی کوشش میں ہوں مجھے وہ مل جائے جس کے ساتھ پر لوگ ہماری بھی مثالیں دیا کریں “۔ وہ بظاہر مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
“زائر نے تمہیں شادی پر کیا تحفہ دیا تھا ۔۔۔ ایکچولی مجھے پتا نہیں یہاں شادی پر کیا دیتے ہیں میں چاہ رہ رہی تھی ہادیہ کو بھی ویسا ہی تحفہ دے دوں !!”۔ مریم کے سوالیہ انداز پر اس نے تفصیل بتائی۔
(اللّٰہ !! مجھ سے تو بریسلیٹ گم گیا ہے اب کیا بتاؤ اسے اگر اس نے زائر کے سامنے اس بارے میں کچھ کہہ دیا تو ۔۔۔)
“زائر نے مجھے بریسلیٹ دیا تھا”۔
“کیا تم مجھے وہ دیکھا سکتی ہو؟؟ میں ایک نظر دیکھنا چاہتی ہوں اس سے ملتا جلتا لے لوں گی “۔
“مگر وہ بہت ایکسپینسیو (Expensive ) ہے “۔
اٹس اوکے میں خرید لوں گی ویسا ہی مس مریم !!”۔ مریم سوچ میں پڑ گئی۔
“اگر آپ نہیں دیکھنا چاہتی تو اٹس اوکے “۔
“وہ ۔۔۔۔ “۔
“آپ نے لگتا ہے اپنے تحفے کی حفاظت نہیں کی “۔ اُس کی بات پر مریم نے چونک کر اسے دیکھا۔
“کیا مطلب ؟؟”۔
“نہیں کچھ نہیں !! میں چلتی ہوں پھر فنگشن پر بھی جانا ہے سی یو ۔۔۔”۔ مریم کی پرسوچ نظریں اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
※••••••※
ہادیہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے بیٹھی بالوں میں برش کر رہی تھی جب مرسلین اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔
گڈ مارننگ مسز !!
گڈ مارننگ اینڈ اسلام علیکم !! وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“یار کبھی کبھی تو تم اردو کی ٹیچر ہی بن جاتی ہو “۔ مرسلین کی بات پر ہادیہ نے اسے گھورا۔
“میں آج تم سے جھگڑنا نہیں چاہتی اس بات کا جواب میں تمہیں دو دن بعد دوں گی “۔ اس کی بات پر مرسلین ہنس دیا۔
“شکریہ میری عزت کرنے کا “۔
“ویسے تم آج بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہو “۔ وہ اس کے بالوں کی لٹ اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
“آج تم میرے ساتھ نہیں ہو “۔ اس کی بات پر مرسلین پھر ہنس دیا۔
تم واقعی میں بہت خوبصورت ہو گو کہ بیوی کے سامنے تعریف نہیں کرنی چاہیئے مگر میں بعد کے نتائج بھگت لوں گا ۔۔۔ ” وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“تم شاید میری تعریف کرنے لگے تھے “۔ اس کے دوسری بات کرنے پر وہ خشمگیں لہجے میں بولی۔
“کر تو دی ہے تعریف اب اور کیا کہوں”۔ وہ مسکراہٹ چھپائے بولا۔
“تم ۔۔۔ تم کبھی نہیں سدھر سکتے بہت فضول ہو تم ۔۔۔”۔ ہادیہ غصے سے مٹھیاں بینچتے ہوئے بولی۔
“اچھا رکو ۔۔۔ سنو تو یار ۔۔۔” اُس نے باہر جاتی ہادیہ کا بازو پکڑا۔
ہادیہ نے خفگی سے اسے دیکھا۔
“یار تمہاری کیا تعریف کروں تم تو ہو ہی اتنی اچھی اور خوبصورت کیونکہ میں بہت خوبصورت ہوں ہینڈسم ہوں ۔۔۔۔”۔ ہادیہ کھلکھلا کے ہنس دی۔
“اچھا چلو باہر چلیں سب انتظار کر رہے ہوں گے “۔ مرسلین کے کہنے پر ہادیہ نے اپنا بازو چھڑوایا۔
“تم جاؤ اور مومل کو بھیج دینا پلیز “۔ اس کے کہنے پر مرسلین نے نفی میں سر ہلایا۔
“تم میرے ساتھ ہی جاؤ گی چلو “۔
“مرسلین پلیز !!”۔
ہادیہ کے کچھ اور کہنے سے پہلے ہی مرسلین نے اس کاہاتھ پکڑ اور ہادیہ کے احتجاج کے باوجود وہ اسے لیے باہر کی جانب چل دیا۔
※••••••※
ولیمہ کی تقریب بھی شاندار رہی تھی ۔ہر کوئی ان دونوں کے کپل کی بہت تعریف رہا تھا۔ ملیحہ بھی اس تقریب میں شامل تھی اور اُس کی بہت منتوں کے بعد مرسلین مانا تھا۔ اپنی پوزیشن کا خیال کیے بغیر وہ کمر پر دونوں ہاتھ رکھے ملیحہ سے لڑ رہا تھا۔ بمشکل وہ مانا تھا۔ اور ملیحہ نے شکر ادا کیا تھا ۔ فنگشن ختم ہونے کے بعد زائر نے مریم ، صائم اور فاطمہ کو عمر کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا زائر نے کچھ دیر رک کر جانا تھا۔ مریم جانا تو نہیں چاہ رہی تھی مگر زائر کے کہنے پر اسے وہاں سے جانا پڑا۔
زائر ایک گھنٹے بعد وہاں سے نکلا تھا احمد اور ملیحہ بھی اس کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کو وہ چھوڑ کر جب گھر آیا تو سب کو وہاں لاؤنج میں نا پا کر اُس نے گہرا سانس لیا ایک نظر اپنے اوپر ڈالی اور کمرے کی طرف چل دیا۔
مریم جاگ رہی تھی زائر پر نظر پڑی تو ٹھٹھک کر وہ ادھر ہی رک گئی زائر نے ایک نظر اُس پر ڈالی جو سکتے میں کھڑی تھی اور جلدی سے خون آلودہ شرٹ اتارنے لگا۔ مریم کا سکتہ ٹوٹا بےاختیار آنسو اُس کی آنکھوں میں آ گئے وہ تیزی سے اُس تک آئی۔
“کیا ہوا ہے یہ زائر۔۔۔۔۔ یہ خون شرٹ پہ ۔۔۔آپ تو بلکل ٹھیک ۔۔۔ کیا ہوا ہے زائر ؟؟”۔ وہ آنسوؤں کے درمیان بےربط انداز میں بولتے بولتے آخر میں چیخی تھی۔ زائر اسے نظر انداز کیے اپنے کندھے پر زخم دیکھ رہا تھا۔
مریم منہ پر ہاتھ رکھے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو مکمل طور پر اسے نظر انداز کیے اب واش روم میں جا رہا تھا ۔
مریم ایک بار پھر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی جو آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی گردن پر سے شیشے کے ٹکڑے چن رہا تھا۔ مریم نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ ہٹا کر آہستگی سے اس کی گردن پر سے شیشے کے ٹکڑے چن رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے بہت خواہش ہونے کے باوجود بھی اس نے زائر سے دوبارہ کچھ نہیں پوچھا تھا ۔
اُس کے چہرے کے تاثرات ہی ایسے تھے مریم کی دوبارہ ہمت ہی نہیں ہوئی اُسے مخاطب کرنے کی۔۔۔!!
بینڈیج کرنے کے بعد مریم ہاتھ دھونے چلی گئی زائر نے ایک سرد نظر مریم کے وجود پر ڈالی۔
وہ کمرے سے سیدھا کچن میں چلی گئی ۔
گرم دودھ کا گلاس وہ زائر کے لیے لائی۔
“مجھے نہیں پینا “۔
“زائر آپ کو چوٹ ۔۔۔۔”۔
“Will you please shut up??”.
اُس نے برہم انداز میں کہا
مریم اس کے انداز پر سن رہ گئی تھی۔ آنسو پھر اس کی آنکھوں سے جاری ہو گئے تھے۔
گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ بیڈ کی دوسری طرف چلی گئی۔ فرسٹ ایڈ باکس میں سے میڈیسن نکال کر اُس نے دودھ کے گلاس کے ساتھ رکھ دی۔ ایک نظر زائر کو دیکھا جو آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا تھا۔
مریم دوسری سائیڈ پر آ کر بیٹھ گئی اُس نے بمشکل اپنی سسکیاں روکی تھی۔ زائر کا سرد رویہ اُس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ سوچ رہی تھی مگر باوجود کوشش کے اسے ایسا کچھ نہیں مل سکا تھا جس کی وجہ سے زائر کا موڈ خراب ہوتا ۔ اُس سے کیا غلطی ہوئی تھی۔ سوچ سوچ کر اُس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا مگر کوئی سرا اُس کے ہاتھ نہیں نہیں آ سکا تھا۔
※••••••※
صبح ہونے پر مریم سب سے پہلے فاطمہ کے پاس گئی تھی رات کا واقعہ انہیں بتایا فاطمہ تو دل تھام کر بیٹھ گئی۔ زائر پر پہلے بھی حملہ ہو چکا تھا۔ وہ مریم کو ساتھ لیے کمرے میں آئیں زائر واش روم سے باہر نکل رہا تھا۔
“کیا ضرورت تھی بیٹا نہانے کی اور کیا ہوا تھا کل رات مجھے تو بچی نے ابھی بتایا ہے۔۔۔۔ میرا تو مانو دل ہی رک گیا ؟؟”۔ فاطمہ پریشانی سے بولی۔ زائر نے ایک سرد نظر بچی پر ڈالی جو سر جھکائے کھڑی تھی۔ اور پھر فاطمہ کی جانب متوجہ ہوا ان کو کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا۔
“کچھ نہیں امی بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا مجھے تو چوٹ بھی نہیں آئی دیکھ لے آپ کے سامنے بیٹھا ہوں “۔فاطمہ نے بےاختیار دل پر ہاتھ رکھا۔
“امی بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا زیادہ کچھ نہیں ہے اب ٹھیک ہوں میں !!”۔ فاطمہ کی نم آنکھوں کو دیکھ کر وہ بولا۔
“مگر پھر بھی ایکسیڈنٹ تو ایکسیڈنٹ ہوتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا ۔۔۔۔ مریم تم جاؤ اس کے لیے سوپ بنا کر لاؤ اور تم خبرداد آج باہر نکلے تو آفس بھی نہیں جاؤ گے “۔ مریم کو ہدایت دے کر وہ زائر سے بولی۔
“جیسے آپ کا حکم ۔۔۔”۔ وہ فرمابرداری سے بولا۔
فاطمہ نے بےاختیار اس کا ماتھا چوما۔
“دھیان سے گاڑی چلایا کرو بیٹا”۔ وہ مریم کے آنے تک اسے نصیحت کرتی رہی ۔
سوپ کا پیالہ فاطمہ کے ہاتھ میں پکڑا کر مریم وہی کھڑی ہو گئی۔
“تم ہمارے سروں پر کیوں کھڑی ہو اور کوئی کام نہیں ہے تمہیں ؟؟”۔ زائر کے تلخ لہجے میں جہاں مریم کو سبکی کا احساس ہوا اُس کی آنکھیں بےاختیار نم ہو گئی تھی۔وہی فاطمہ کو بھی جھٹکا لگا۔
“زائر تمیز سے بیٹا یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا “۔ انہوں نے ناگواری سے اسے ٹوکا۔
“اور وہ کیوں جائے کہیں اور یہ اُس کا بھی کمرہ ہے “۔
“رکو مریم اور بیٹھو یہاں “۔ انہوں نے باہر جاتی مریم کو روکا ۔
“نہیں خالہ میں ناشتہ بناتی ہوں پہلے ہی لیٹ ہو گیا ہے “۔ زائر لب بینچے ان دونوں کی باتوں کو سن رہا تھا۔
فاطمہ نے تاسف سے بیٹے کو دیکھا جس کےچہرے پر شرمندگی کے تاثرات بھی نہیں تھے وہ خاموشی سے سوپ پینے میں مگن تھا۔
“آئندہ میں تمہیں مریم سے اس طرح بات کرتے نا دیکھو ۔۔۔۔ اسے میری وارننگ سمجھ لو ۔۔۔۔ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا اگر آئندہ تم نے اس طرح حقیر لہجے میں میری بیٹی سے بات کی ۔۔۔۔”۔
“میں بھی آپ کا ہی بیٹا ہوں “۔
تم تینوں سے زیادہ عزیز ہے وہ مجھے اگر زرا سا بھی دکھ دینے کا سوچا تو میں بھول جاؤں گی کہ تم میرے بیٹے ہو ۔۔۔۔ وہ تمہاری نوکرانی نہیں ہے ۔۔۔۔ ایک پڑھے لکھے ، میچور بندے کو یہ سب سوٹ کرتا ہے ؟؟ یہ تربیت دی ہے میں نے تمہیں ، یہی تہذیب سیکھائی ہے تمہیں ؟؟؟ ہاں ؟؟”۔ فاطمہ برہم لہجے میں بولی۔ وہ سر جھکائے ان کی لعن طعن سن رہا تھا۔
“سوری امی “۔
“سوری مجھ سے نہیں اُس سے کرو جس سے بدتمیزی کی ہے تم نے “۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
“اس سے بھی کر لوں گا مگر پلیز سوری بس ایسے ہی منہ سے نکل گیا تھا میں آئندہ خیال رکھو گا آپ بیٹھیں “۔
“میں کچن میں مریم کی ہیلپ کرواتی ہوں کوئی چیز چاہیئے ہو گی تو بتا دینا “۔ وہ کچن میں آئی تو ان کے اندازے کے مطابق مریم رو رہی تھی۔ انہوں نے چائے والا برنر بند کیا اور بےاختیار مریم کو گلے لگا لیا۔ وہ جو رات سے اس کے اندر لاوا پک رہا تھا وہ فاطمہ کے کندھے سے لگے باہر نکل آیا تھا۔ وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی فاطمہ گم سم سی اس کو تھپک رہی تھی۔
اُس کے رونے سے فاطمہ نے اندازہ لگایا تھا کہ بات صرف ابھی والی نہیں تھی۔
“مریم بیٹا بس کرو ۔۔۔ کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو “۔ فاطمہ نے اسے کرسی پر بیٹھایا اور پانی کا گلاس اسے پکڑایا۔ دو گھونٹ لینے کے بعد اُس نے ٹیبل پر گلاس رکھ دیا تھا ۔
اُس کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھی۔ چھوٹی سی ناک بھی سرخ ہو رہی تھی۔ فاطمہ نے بےاختیار اس کا ماتھا چوما۔
“کیوں رو کر خود کو اتنا ہلکان کر رہی ہو ؟؟ اُس نے غلطی سے کہہ دیا ہو گا ابھی تم سے معافی بھی مانگے گا”۔
“خالہ وہ رات سے ہی ڈانٹ رہے ہیں مجھے ۔۔۔۔ حالانکہ میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔ پتا نہیں کیوں ۔۔۔۔”۔ وہ سسکیوں کے درمیان بولی۔
تم فکر مت کرو پریشان ہے وہ کسی بات سے اسی لیے چڑچڑا ہو رہا ہے اس کی پریشانی ختم ہو گی تو غصہ خودبخود اتر جائے گا ۔۔۔ اور اگر آئندہ اُس نے میری بیٹی کو کچھ بھی کہا تو دیکھنا کیا کرتی میں ۔۔۔ تم اٹھو اور منہ دھو کر آؤ شاباش ۔۔۔”۔ فاطمہ کے زبردستی اٹھانے پر وہ کچن سے نکل گئی۔ فاطمہ نے فکر مندی سے اسے دیکھا اسے تو انہوں نے تسلی دے دی تھی مگر درحقیقت زائر کا رویہ انہیں الجھا رہا تھا۔
※••••••※
اور تین دن بعد وہ واقعی پاکستان پہنچ گیا تھا۔
اُس کے باپ کے آدمی اُسے باحفاظت اس کی رہائش گاہ پر لے گئے تھے۔ ضرورت کی ہر چیز اس گھر میں موجود تھی۔ اپنی کامیابی کا اسے سو فیصد امکان تھا۔ زائر نے جو کیس ان لوگوں کے خلاف دائر کیا تھا اس کی پیروی کی جا رہی تھی۔ وہ لوگ بری طرح اس میں پھنسنے والے تھے۔ ایک کیس ہونے کی وجہ سے باقی کے کیس جن پر وقت کی دھول پڑ گئی تھی وہ بھی ری اوپن ہو گئے تھے۔ اصغر خان برُی طرح سے جکڑا گیا تھا۔
“وہ کہتے ہیں نا !! کہ اولاد بھی ماں باپ کے نقشے قدم پر چلتی ہے “۔ اسی مقولے کو عمیر خان بھی فالو کر رہا تھا۔ اصغر خان کی زیادہ تر جائیداد عمیر کے نام پر ہی تھی۔ عمیر خود بھی بہت ساری ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھا جس سے وہ ہمیشہ اپنے باپ کی وجہ سے چھوٹتا رہا تھا۔
وہ پورے پلان کے ساتھ پاکستان آیا تھا اُس نے دو ، تین دن زائر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی تھی وہ کب جاتا ہے ، کب واپس آتا ہے ، چینل پر پروگرام کے علاوہ وہ کیا کیا کرتا ہے ۔۔۔۔ اس بارے میں بہت ساری انفارمیشن اسے اسد شاہ سے ملی تھی جو اس کے باپ کے ساتھ کام کرتا تھا۔
آج سے ہی اُس نے اپنا کام شروع کر دیا تھا اب وہ تاک میں تھا کہ کب وہ اس پر وار کرے گا۔۔۔۔ اور یہ زخم پہلے زخموں کی نسبت بہت زیادہ جان لیوا اور گہرا ہو گا اس بات کا یقین تھا اُسے ۔۔۔۔ گھر واپسی پر اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
احمد کو گھر چھوڑ کر وہ اپنے گھر کے راستے پر تھا جب پیچھے آتی ایک گاڑی نے اسے اوورٹیک کیا زائر نے گاڑی کو بمشکل کنٹرول کیا تھا۔ سامنے والی گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی تھی جس میں گارڈز تھے۔ ماتھے پہ بل ڈالے زائر گاڑی سے نکلا تھا۔ سامنے والی گاڑی سے جو لڑکا نکلا زائر اسے پہچان نہیں سکا تھا۔ وہ قدم قدم چلتا زائر کے سامنے آیا وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے گارڈز بھی اس کے پیچھے کھڑے تھے جسے اُس نے ہاتھ کے اشارے سے ہٹنے کا کہا۔ دونوں گارڈز چپ چاپ پیچھے ہٹ گئے۔ رات کے اس پہر سڑک پر اکا دکا گاڑی تھی۔
زائر ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا جو خاموشی سے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
“حیرت ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں ۔۔۔۔ “۔
“اگر تم اپنا تعارف کروا دو بہتر ہے “۔ زائر سرد آواز میں بولا۔
“عمیر اصغر خان !! اصغر خان کا بیٹا “۔ زائر تلخی سے مسکرا دیا۔
“میں تو اصغر خان کا انتظار کر رہا تھا حیرت ہے اُس نے تمہیں بھیج دیا “۔
“میرے خیال میں ، میں یہ کام بہتر طریقے سے کر سکوں گا “۔
“میں کیس کسی بھی قیمت پر واپس نہیں لوں گا مسٹر عمیر ، تم نے اپنا آنا ضائع کر دیا “۔
عمیر ہلکے سے ہنسا۔
“زائر عباس ، آجکل موت اتنی آسان ہو گئی ہے کہ راہ چلتے کسی کی بھی جان لے لیتی ہے اور ستم تو یہ کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا،”
“موت اور زندگی کا فیصلہ اس خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے ان زمینی خداؤں سے کون ڈرے ۔۔۔”۔ زائر اس کی بات کاٹ کر بولا۔
“اپنی بیوی سے پوچھنا کہ عمیر خان کون تھا “۔
اس کی بات پر زائر نے ایک بھرپور تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ عمیر دو قدم پیچھے کو ہٹا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے گارڈز پھرتی سے آگے آئے جسے ہوش میں آتے ہی عمیر نے پیچھے دھکیل دیا اس کے باپ کی نصیحت تھی ورنہ وہ دیکھتا کہ زائر اس حرکت کے بعد زندہ کیسے جاتا ہے ۔
“میری بیوی کا نام بھی مت لینا میرے گھر کے کسی فرد کا نام بھی تمہاری زبان آیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا “۔ اُس نے انگلی اٹھا کر غرا کر کہا۔
“اور تم سمجھتے ہو کہ تم کوئی بھی بکواس آ کر کرو گے اور میں مان لوں گا ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم مریم کے کلاس فیلو ہو اس سے زیادہ مجھے کچھ بھی جاننے یا تم سے کچھ بھی سننے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ اپنے دماغ میں ایک بات بیٹھا لو اور اپنے باپ کو بتا دینا کہ میں کیس واپس نہیں لوں کسی بھی قیمت پر مجھے موت قبول ہے مگر اپنے اصولوں پر میں سمجھوتا نہیں کرو گا آئی ہوپ تم سمجھ گئے ہو گے “۔ زائر نے اسے ایک ہاتھ سے پیچھے ہٹایا اور گاڑی نکال کر لے گیا۔
عمیر مٹھیاں بینچے اس کی گاڑی کی دھول کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریا نکل رہی تھی۔ اس نے غصے میں گاڑی کے بونٹ پر مکا مارا۔
پھر کچھ سوچ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اسد شاہ کے گھر کی طرف موڑ لی۔
زائر نے پہلی دفعہ اتنی ریش ڈرائیونگ کی تھی ایک ہاتھ سٹیئرنگ پر ایک ہاتھ سے ماتھا مسلتے ہوئے وہ گہری سوچ میں تھا سٹیئرنگ پر رکھے ہاتھ کی نسیں ابھری ہوئی تھی۔ ماتھے پر بل ڈالے وہ اندھا دھند گاڑی چلا رہا تھا۔ اسی ذہنی انتشار کی وجہ سے وہ سامنے سے آتی گاڑی نہیں دیکھ پایا تھا جس کے نتیجے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اس کا سر سٹیئرنگ پر لگا تھا ونڈ سکرین ٹوٹ گئی تھی اور اس کی کرچیاں زائر کے سر اور گردن میں گھس رہی تھی۔ گاڑی نزدیکی گیراج میں چھوڑ کر وہ وہی سے ایک لڑکے کے ساتھ گھر آیا تھا۔
※••••••※
ملیحہ ایک مہینے کے لیے آئی تھی اس کی فلائٹ آج رات کی تھی۔ احمد، مرسلین ، ہادیہ اور ملیحہ چاروں اس وقت زائر کے گھر پر تھے۔ وہ چاروں زائر کے کمرے میں ہی دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
“تم نے کام ہی بنا لیا یار ہر دوسرے دن بستر پر پڑ جاتے ہو “۔ مرسلین کی بات پر ہادیہ نے اسے گھورا اور شرمندگی سے زائر کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
“تم تو کبھی پڑے نہیں بستر پر میں نے سوچا تمہارے حصے کا بھی میں ہی پڑ جاؤں “۔
“بہانے باز !! اگر اتنا ہی آرام کرنے کا دل کرتا ہے تو ویسے ہی کر لیا کرو ضرور سب کو پریشان کرنا ہوتا ہے “۔ احمد نے بھی اسے گھورا۔
“تم لوگ کیا لو گے چپ ہونے کا ؟؟”۔
“واہ بھئی واہ ، ایک تو ہم عیادت کرنے آئیں ہیں اور اوپر سے ہم سے ہی بدتمیزی !! “۔ ہادیہ ایک اور گھوری سے مرسلین کو نوازا۔
“زائر بھائی آپ ان لوگوں کو چھوڑیں یہ بتائیں آپ کی طبیعت کیسی ہے اب ، زیادہ گہری چوٹ تو نہیں آئی؟؟”۔
“بس معمولی سا ایکسیڈنٹ تھا بھابھی اب تو بہت بہتر ہوں “۔ مریم ان سب کے لیے چائے لے آئی۔
“ارے بھابھی اتنا تکلف ہم کون سا مہمان ہیں “۔ احمد کے کہنے پر مریم مسکرا دی۔
“تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے زائر بہت لاپرواہ ہو تم ۔۔۔ اب تو تمہاری بیوی بھی آ گئی ہے اسے بھی چاہیئے کہ تمہارا خیال رکھے ۔ مجھے اُس دن پتا چلا تھا کہ تمہاری لو میرج ہے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی سن کر !!”۔ ملیحہ کی بات پر زائر کے ساتھ ساتھ احمد اور مرسلین نے بھی چونک کر ملیحہ کو دیکھا تھا۔ کچھ فاصلے پر ہادیہ سے بات کرتی مریم نے بھی اس کی طرف دیکھا جس کی پشت مریم کی طرف تھی۔ مریم نے ایک نظر زائر کے چہرے پر ڈالی جو الجھن سے ملیحہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہادیہ نے ناگواری سے ملیحہ کو دیکھا۔
مریم نے بےاختیار ہاتھ مسلے۔ اگر اس نے ایسی ویسی کوئی بات بول دی تو۔۔۔۔ اس کے آگے بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ اگر زائر کا موڈ بہتر ہوتا پھر بھی یہ بات اسے پتا نہیں چلنی چاہیئے تھی اور اب تو۔۔۔۔ !!
ان سن کے درمیان !! یااللّٰہ۔۔۔۔ !!میں نے تو بس ویسے ہی کہہ دیا تھا۔
“ملیحہ آصف کی کال آئی تھی کیا تمہیں وہ آجکل کس کیس پر کام کر رہا ہے ؟؟”۔ مرسلین بات بدلتے ہوئے بولا اس نے مریم کے چہرے کا رنگ بدلتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اسے ملیحہ پر غصہ بھی بہت آیا تھا۔
“ہاں ۔۔۔ نہیں مجھے نہیں پتا “۔
“چلو بچوں آ جاؤ کھانا لگ گیا ہے “۔ فاطمہ نے آ کر اطلاع دی مریم نے تشکر سے پہلے مرسلین کو اور پھر فاطمہ کو دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھی جسے چھپانے کے لیے وہ سر جھکا گئی تھی۔
احمد اٹھا اور باقی سن نے اس کی پیروی کی تھی ہادیہ بھی مریم کے ساتھ اٹھی تھی۔ ملیحہ زائر کے پاس ہی بیٹھی تھی۔
“تم نہیں جاؤ گی ؟؟”۔
“تمہاری ایک چیز ہے میرے پاس “۔ اس نے بیگ میں سے بریسلیٹ نکال کر زائر کے ہاتھ میں رکھا۔
“یہ تمہارے پاس کیسے ؟؟”۔ زائر شدید حیرت سے بولا۔
“میرے پاس یہ ایک ہفتے سے ہے مجھے یہ باہر جاتے ہوئے لان سے ملا تھا میں نہیں جانتی تھی یہ کس کا ہے میں نے سوچا کہ بعد میں دے دوں گی اور ابھی مجھے یاد آیا ہے “۔ زائر نے لب بینچ لیے۔ یہ وہی بریسلیٹ تھا جو زائر نے مریم کو گفٹ دیا تھا۔
“کیا ہوا زائر اینی پروبلم ؟؟”۔ وہ معصومیت سے بولی۔
“اونہہ !! کچھ نہیں “۔ وہ سر نفی میں ہلا کر بولا۔
“تم بہت اچھے ہو زائر کاش میں پاکستان میں ہی رہ سکتی ہمیشہ کے لیے “۔
“تو رہ جاؤ کون روک رہا ہے تمہیں “۔ زائر مسکرا کر بولا۔
“اب کوئی فائدہ نہیں “۔ وہ اس پر نظر جمائے بولی۔
“تم بھی کھانا کھا لو پھر فلائٹ ہے تمہاری “۔ اُس کی بات کو نظر انداز کر کے زائر بولا۔
“تم بھی چلو “۔ زائر نے ایک نظر اسے دیکھا اور گہری سانس لے کر اس کے پیچھے چل دیا۔
※••••••※
ملیحہ کو ائیرپورٹ چھوڑنے مرسلین اور احمد گئے تھے جبکہ ہادیہ نے جانے سے انکار کر دیا تھا وہ مریم کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گئی۔ عمر اور صائم بھی وہی آ گئے جبکہ زائر کمرے میں تھا۔
“آپی آپ کو کافی پینی ہے ؟؟”۔ عمر نے ہادیہ سے پوچھا۔
“ہاں ضرور “۔
“چلو صائم کافی بناؤ ، آپ کو پتا ہے یہ بہت اچھی کافی بناتا ہے بھائی تو پیتے ہی اس کے ہاتھ کی کافی ہیں “۔ صائم دانت پیستے ہوئے اٹھا تھا۔
ہادیہ ہنس دی۔
“تمہاری بہت تعریف سنی ہے میں نے مرسلین سے “۔ ہادیہ مسکراہٹ دبائے بولی۔
“ہاہ!! واقعی میں ہوں ہی اتنا اچھا کوئی تعریف کرے بغیر رہ ہی نہیں سکتا “۔
“آنٹی میرا خیال ہے اب اس کی شادی کر دینی چاہیئے پڑھائی تو اس کی مکمل ہو گئی ہے ، جاب بھی مل جائے گی ، تو اب شادی کر دیتے ہیں اس کی۔۔۔”۔ فاطمہ اس کی بات پر مسکرائی۔
“تم دھونڈھنا عمر کی دلہن ، کیوں عمر کیا خیال ہے تمہارا؟؟”۔ مریم نے پہلے ہادیہ کو اور پھر عمر کو مخاطب کیا جو شرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
“میں مشرقی لڑکا ہوں اب اپنے منہ سے کیا کہو”۔ وہ تینوں اس کی بات پر ہنس دیں۔
“یہ لیجئے کافی “۔ صائم نے سب کو کافی پکڑائی۔
“زبردست بہت اچھی کافی بنائی ہے “۔
“بہت شکریہ میم “۔
مرسلین اور احمد کے آنے تک وہ سب باتوں میں مصروف تھے۔
مریم نے ملیحہ کے جانے پر شکر ادا کیا تھا۔ اُن کے آنے کے بعد زائر بھی کمرے سے نکل آیا تھا۔
کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مرسلین اور ہادیہ چلے گئے جبکہ احمد اور زائر باتوں میں مصروف تھے۔
※••••••※
مریم رات کے دس بجے کمرے میں داخل ہوئی تھی زائر ٹی وی دیکھ رہا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے نظریں گھما کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے نظریں ٹی وی پر جما دی۔ مریم نے کافی کا کپ سائیڈ پر رکھا اور اپنے بجتے فون کی طرف متوجہ ہو گئی شائستہ کا نمبر دیکھ کر بےساختہ مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر آئی۔
“اسلام علیکم امی کیسی ہیں آپ اتنے دن ہو گئے ہیں آپ آئی ہی نہیں “۔ وہ ایک سانس میں بولی۔
“وعلیکم اسلام ، میں ٹھیک ہوں بیٹا بس تمہارے ابو کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وقت نہیں ملا تم بتاؤ کیسی ہے میری بیٹی؟؟”۔
“میں ٹھیک ہوں امی !! کیا ہوا ہے ابا کو اور آپ نے بتایا ہی نہیں “۔ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
“بیٹا ہلکا سا بخار تھا اب تو ٹھیک ہیں “۔
“میں کل آؤ گی اباّ سے ملنے آپ انہیں میرا سلام دیجیے گا”۔
اُس نے الواداعی کلمات کے بعد فون بند کر دیا۔
وہ بیڈ پر بیٹھی سوچ میں گم تھی جب زائر نے بریسلیٹ اس کی گود میں پھینکا۔ اس نے چونک کر پہلے زائر کو دیکھا اور پھر بریسلیٹ کو ۔اس نے حیران ہوتے ہوئے بریسلیٹ ہاتھوں میں اٹھایا۔
“اگر چیزوں کو سنبھال نہیں سکتی تو بہتر ہے انہیں پھینک دیا کرو “۔ وہ سرد آواز میں بولا۔
“میں پہن کے رکھتی تھی اسے پتا نہیں کیسے گر گیا تھا میں نے ڈھونڈھا بھی تھا مجھے نہیں ملا آپ کو کہاں سے ملا؟؟”۔ زائر نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔
“میری دی ہوئی چیزوں کی جو وقعت ہے تمہارے سامنے میں نے دیکھ لی ہے ، اور یہ مجھے اس سے ملا جس کو تم اپنا دشمن گردانتی ہو “۔ وہ اپنے سابقہ انداز میں بولا۔
مریم نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا ۔
“زائر میں نے کون سے چیز نہیں سنبھالی آپ کی ۔۔۔۔ میں بس رکھ کر بھول گئی تھی کہیں ۔۔۔ میں نے بہت ڈھونڈھا بھی تھا مگر مجھے نہیں ملا ۔۔۔ اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں اور بلکل ٹھیک کرتی ہوں اگر وہ اتنی اچھی تھی تو یہ بریسلیٹ وہ مجھے دیتی آپ کو نہیں “۔ نم آنکھوں سے بےاختیار وہ بولتی چلی گئی۔
زائر طنز سے مسکرایا۔
“بہت اچھا سلوک کرتی تھی نا آپ اُس سے”۔ مریم نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔ آنسو بےاختیار اس کی آنکھوں سے جاری ہو گئے۔
“آپ اسے مجھ پر فوقیت دے رہے ہیں ؟؟ “۔
“انف پلیز !! اب اس بات کو ختم کرو اور آئندہ اس کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرنا”۔ اس کی بات سن کریک دم مریم اٹھ کر کمرے سے نکلنے لگی تھی جب زائر نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔
“اس وقت تماشہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے جو بھی کرنا ہے صبح کرنا “۔ زائر خشمگیں لہجے میں بولا۔
مریم نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ ڈھانپ کر رونا شروع کر دیا۔ زائر نے ایک تلخ نظر اس پر ڈالی اور ٹیرس پر چلا گیا۔
※••••••※
اصغر خان ، عمیر پر برس رہا تھا۔ موسیٰ نے ساری رپورٹ اصغر خان کو پہنچائی تھی۔
“تم اس وجہ سے پاکستان گئے تھے ، نہایت گھٹیا انسان ہو تم عمیر۔۔۔ اُس کی بیوی تمہاری کلاس فیلو تھی اور تم لوگوں کی بات چیت ہوتی تھی یہ ایسی بات تھی جس کی بنیاد پر تم اس کو اس کیس کو واپس لینے پر مجبور کرتے ۔۔۔۔ تم پاگل انسان تم نے سوچا بھی کیسے ۔۔۔۔ بہت دعوے کر کے گئے تھے نا تم لعنت ہو تم پر “۔ وہ غصے میں کف اڑا رہا تھا۔
“پاپا۔۔۔”۔
“شٹ اپ جسٹ شٹ اپ !! تمہیں معاملہ حل کرنے کے لیے بھیجا تھا اور تم نے الٹا معاملہ خراب کر دیا اب تو وہ تم پر بھی کیس کر دے گا خود کو کیسے بچانا ہے تم میں یہ اب تم خود سوچ لینا”۔ اصغر خان نے سرد آواز میں کہا۔
“پاپا مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ اس معاملے کو اتنا لائٹ لے گا ہم اسے بلیک میل بھی کر سکتے تھے میں نے تو سوچا تھا کہ ۔۔۔”۔
“شٹ اپ اور اب اس معاملے کو میں خود ہینڈل کرو گا تم نے اگر وہاں رہنا ہے تو رہو اگر واپس آنا ہے تو واپس آ جاؤ “۔
“جی پاپا !!”۔
“اور ہاں اب اسد کو یا کسی اور کو تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے “۔
“اوکے پاپا “۔ اور اس کی کوئی اور بات سنے بغیر ہی فون بند کر دیا۔
وہ صوفے پر گر گیا اور آنکھیں بند کر کے صوفے سے ٹیک لگا لی ۔
“پاپا میں پاکستان رہو گا اور اپنا کام مکمل کر کے ہی لوٹوں گا اور یہ میرا وعدہ ہے زائر عباس کو سبق بھی میں ہی سیکھاؤں گا”۔ وہ خود کلامی کے انداز میں بولا۔
※••••••※
مرسلین حیدر انویسٹی گیٹو جرنلسٹ!!
مرسلین حیدر چار سال سے اس فیلڈ میں تھا اس نے کوئی ایسا کرپٹ سیاست دان ، کوئی ایسا کرپٹ بزنس مین ، بیوروکریٹ نہیں چھوڑا تھا جس کی کرپشن کا کٹھا چٹھا اس نے نا کھولا ہو!!
جب سے وہ اس فیلڈ میں آیا تھا ہر چند دن بعد اس پر مقدمہ ضرور ہوتا تھا، اور بہت بہادری سے وہ اس کا سامنا بھی کرتا تھا۔
جرنلزم اس کا جنون تھا!!
عشق کرتا تھا وہ اپنے پروفیشن سے !!
اس فیلڈ میں اُس کے بہت سارے دشمن تھے وہی اس کے بہت سارے دوست بھی تھے۔
اپنی موت کو ہتھیلی پر رکھ کر وہ اپنا کام کرتا تھا۔مرسلین اپنے دوستوں سے کہتا تھا۔
“جب ایمانداری سے کام کرنا ہے تو ڈر کس بات کا ۔۔۔ ڈر اسے ہوتا ہے جو غلط کام کرتا ہے”۔
شاعری وہ دوسری چیز تھی جس سے عشق تھا مرسلین کو ۔۔۔۔۔ وہ اکثر یہ اشعار گنگناتا تھا گویا اپنے دل کی خواہش کو وہ ان اشعار میں ڈھالتا تھا۔
نہ آئے گا کہیں نظر
عدوئے جاں نظامِ زر
رہیں گے دُور خوف سے
ہمارے گھر ہمارے دٓر
جئے گا عزّو شان سے
مرے وطن کا ہر بشر
رہ نا پائے گی یہاں
بے کسی و مُفلسی
“حبیب جالب کی روح ڈھل گئی ہے تم میں “۔ زائر ہنس کر کہتا اُس نے زائر کی بات کو نظر انداز کر کے اگلے شعر پڑھے۔۔۔۔!!
نہ لُٹ سکیں گی محنتیں
نہ بِک سکیں گی حسرتیں
امیر اس دیار کے
نہ دیں سکیں گے ذلتیں
نصیب میں یہ سنگ دل
نہ لکھ سکیں گے ظُلمتیں
دیکھنا ستم زدو
غم کی رات اب ڈھلی
“انشااللّٰہ ان سب کے منہ سے بےساختہ نکلا”۔
ایک سال پہلے اسے ایک وزیر کے بیٹے کے خلاف کچھ ثبوت ملے تھے جو تین لڑکوں کے قتل میں ملوث تھا اس بات کا انکشاف مرسلین نے اپنے پروگرام میں کیا تھا۔
” وزیر کا بیٹا اپنی دولت کی طاقت کے نشے میں ڈوبا تین نوجوانوں کی جان لے گیا تھا اور یہ تقریباً پانچ مہینے پہلے کی بات ہے۔۔۔۔۔” مرسلین بول رہا تھا۔
“پانچ مہینے سے ان لڑکوں کے ماں باپ انصاف کے منتظر ہیں ۔۔۔۔ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے کے گھر ایک قاتل ہے “۔ مرسلین کے ساتھ ان تینوں لڑکوں کے والدین بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
اس وزیر کے گھر اور اس کے حلقہ احباب میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تھی ۔ اسے فون پر فون آ رہے تھے اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں اور اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے وہ حضرت فون پر دہائیاں دے رہے تھے۔
“ارے عاصم صاحب آپ جانتے ہیں مخالف پارٹی والے ایسی چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے رہتے ہیں آپ فکر مت کریں ایک دو دن میں اس موضوع پر بھی دھول پڑ جائے گی آپ کیوں فکر کر رہے ہیں ہماری پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا “۔ وہ صاحب اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ایک نظر اس نے ٹی وی پر ڈالی جہاں کچھ پیپرز دیکھائے جا رہے تھے۔
“یہ لڑکا ہے کہ فتنہ ۔۔۔۔۔ کہاں سے دبی راکھ نکال لی ہے اس نے “۔ وہ پریشانی سے بول رہا تھا۔
“آؤ آؤ اور دیکھو میری عزت کا جنازہ نکل رہا ہے کتنا کہا تھا تمہیں ایسے مت کرو زبان سے بات کرنا مگر نہیں ایک نہیں دو نہیں ، تہرے قتل ایک دن میں ایک وقت میں وہ (گالی) دیکھا رہا ہے تمہارا اعمال نامہ ۔۔۔۔ پھانسی چڑھو گے تم اور مجھ سے امید مت رکھنا کسی بھی سفارش کی ۔۔۔۔ میری اپنی نوکری خطرے میں پڑ گئی ہے پرائم منسٹر تک کا فون آ چکا ہے کیسے دباؤں اس معاملے کو “۔ وہ اندر آتے اپنے بیٹے سے بولا اور پھر پریشانی سے ٹہلنے لگ گیا ۔
“ڈونٹ وری بابا سائیں !! کچھ دنوں تک یہ معاملہ ختم ہو جائے گا سب اپنی مٹھی میں ہیں اور جہاں تک معاملہ ہے اس کا ۔۔۔۔ وہ مرسلین کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔ پیسے سے منہ بند کروا دیں بابا سائیں ۔۔۔۔ یہ تو کچھ پیسوں کی مار ہے”۔ اس نے اپنے بیٹے کو بےدریغ گھورا۔
“ولید تم جانتے نہیں ہو اسے وہ مرسلین حیدر ہے جس نے بیوروکریٹ رضا حسن کو جیل میں ڈلوا دیا ہے وہ اتنا پاور فل بندہ تھا ، اس کا بھائی پارلیمینٹ کا ممبر تھا، باپ بھی بہت اچھی پوزیشن پر تھا ، اس کا بیٹا ایس پی تھا وہ خاندان آج تک اس کا کچھ نہیں بیگاڑ سکے میں کیا خریدوں گا اسے ۔۔۔۔” اس نے سر جھٹکا۔
“تم اس معاملے کو اتنا لائٹ مت لو اور ، ہادی کا نمبر ملاؤ میں اس سے بات کرتا ہوں ۔۔۔۔ کچھ نا کچھ انتظام تو کرنا ہے اب ۔۔۔۔ “۔ (ہادی ان کا بھتیجا تھا جو ہائی کورٹ کا جج تھا)
“آپ انکل سلیمان سے بھی بات کریں نا وہ اسلام آباد میں ہیں وہ جلد ہی کوئی انتظام کر لیں گے “۔ سلیمان ، شاہ زیب کا بھائی تھا جو حکومت میں تھا وہ بھی وزیر تھا اور پارلیمینٹ کا ممبر بھی !!
“بھائی صاحب کو ابھی یہ خبر نہیں ملی ورنہ وہ فون ضرور کرتے تم ملاؤ ان کا نمبر “۔ ولید کے فون ملانے سے پہلے ہی سلیمان کا فون آ گیا تھا۔
“یہ کیا تماشہ چل رہا ہے ٹی وی پہ ۔۔۔۔۔ ولی میں نے تمہیں کہا تھا کہ کام بہت سوچ سمجھ کر کرنا ایک بھی پروف نہیں رہنا چاہیئے اور تم نے کیا کیا پانچ ماہ بعد ہی یہ کیس منظر عام پر آ گیا ہے ہم سب کی پوزیشن کو خطرہ ہے !! حد کر دی تم نے !! “۔
“انکل ہم نے تو کام ٹھیک ہی کیا تھا مگر ۔۔۔۔”۔
اچھا اب سنو ، ہادی آ رہا ہے تم اس کے ساتھ جاؤ گے اور آئی جی سے میں بات کر لیتا ہوں اپنا موبائل بھی بند رکھو کسی سے بھی کنٹیکٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری ضرورت کی ہر چیز وہاں ہے ، تم تیاری کرو اور شاہ زیب سے بات کرواؤ “۔ ولید نے بابا سائیں کو فون پکڑا دیا ۔
اور خود پیکنگ کے لیے اٹھ گیا۔ شاہ زیب غور سے سلیمان کو سن رہا تھا جو اگلہ لائحہ عمل بتا رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...