امریکہ اور برطانیہ میں کپاس کے علاقوں میں اب بدحالی ہے۔ جبکہ دسیوں لاکھ مزدور پاکستان، انڈیا، چین اور دوسرے ممالک میں ٹیکسٹائل ملوں کا رخ کرتے ہیں۔ دسیوں لاکھ کسان افریقہ، ایشیا اور امریکاز کے کھیتوں کا۔
امریکہ میں بنے کپڑوں میں 98 فیصد درآمد کیا جاتا ہے۔ چین اس کا چالیس فیصد مہیا کرتا ہے۔ اس کے بعد ویتنام، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، میکسیکو، کمبوڈیا، ہونڈرس، ال سلواڈور، پاکستان اور انڈیا کا حصہ ہے۔ برطانیہ اس فہرست میں کہیں نہیں۔
دھاگہ کاتنے اور کپڑا بنانے میں اس وقت دنیا میں چین، انڈیا، پاکستان اور ترکی دنیا میں سرِ فہرست ہیں۔ عالمی صنعت کا 82.2 فیصد اب ایشیا میں ہے۔ اس کا تقریباً نصف چین کے پاس ہے۔ شمالی امریکہ کا حصہ 4.2 فیصد ہے۔ جبکہ دنیا پر راج کرنے والے یورپ کا 0.7 فیصد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی قمیض کاٹن کی نہ بنی ہو۔ بیسویں صدی کے آخر میں مصنوعی ریشے نے کاٹن کو بہت سے جگہوں پر پچھاڑنا شروع کر دیا تھا۔ آج سوا پانچ کروڑ ٹن پٹرولیم سے بنا مصنوعی ریشہ سالانہ تیار ہوتا ہے۔ یہ نمبر کاٹن سے دگنا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ایشیا اور افریقہ میں آبادی کا بڑا حصہ کپاس پر منحصر ہے۔ صرف مغربی اور وسطی افریقہ میں ایک کروڑ کسانوں کا اس پر انحصار ہے۔ دنیا بھر میں گیارہ کروڑ خاندان اس کو اگاتے ہیں۔ نو کروڑ اس کی ٹرانسپورٹ، اوتنے اور سٹور کرنے سے۔ چھ کروڑ مزدور سپننگ اور ویونگ مشین چلانے میں۔ دنیا کی آبادی کے تین سے چار فیصد کا انحصار اس پر ہے۔ ساڑھے آٹھ کروڑ ایکڑ زرعی زمین اس کی کاشت کے لئے مختص ہے (یہ پورے جرمنی کے رقبے کے برابر ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی جگہوں پر جبر کی پالیسی استعمال کی جاتی ہے۔ ازبکستان اس کی مثال ہے، جو کپاس کی بڑے برآمد کنندگان میں سے ہے اور یہاں جبری مشقت کی روایت جاری ہے۔ یہاں پر کپاس کی پیداوار کی خاطر ارال سمندر خشک کیا جا چکا ہے اور ملک کو نمک والے پلین میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ ایک ازبک کسان نے صحافی کو کہا تھا، “ہم خود کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر ہم کپاس کیوں اگا رہے ہیں؟ اس سے ہمیں مل کیا رہا ہے؟”۔
نئے جینیاتی تبدیل شدہ بیجوں کی آمد نے کسانوں پر مزید مشکل ڈال دی ہے۔ نہ استعمال کریں تو خریدار نہیں۔ استعمال کریں تو بیج کے لئے قرض لینا پڑتا ہے۔ اس سے تاجکستان کے کسان ویسے چکر میں پھنس گئے ہیں جس میں انڈیا کے کسان ایک صدی پہلے پھنسے تھے۔ اور بڑا خطرہ یہ ہے کہ فصل کی ناکامی کی قیمت بھی مہنگی اٹھانی پڑتی ہے۔ جب 2005 میں انڈیا میں خشک سالی آئی تھی اور فصلوں کی ناکامی ہوئی تھی تو ایسے کئی کسانوں نے کپاس کے پودے کے کیڑے مارنے والی دوا خود پی کر خودکشیاں کی تھیں۔
کپاس کی پیداوار کئی بار بہت ظالم محنت ہے۔ نہیں، میری جراب کا میٹیریل آسانی سے نہیں بنا۔ یہ “زندگی کا نرم ملائم ریشہ” نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوگو اور ازبکستان کی کپاس جو ہانگ کانگ کی ٹیکسٹائل مل میں جائے، ویتنام میں جا کر سلے اور امریکہ میں کینساس کے شیلف پر بیچنے کے لئے سجی ہو ۔۔۔ یہ نیا نہیں۔ لیکن اس زنجیر کے کھلاڑی بدلتے جاتے ہیں۔
بیسویں صدی کے آخر سے ایک اس میں نیا ایکٹر زور پکڑنے لگا۔ حیران کن طور پر اس نے جلد ہی اس میں مرکزی کردار لے لیا۔ کارفور، میٹرو، والمارٹ ۔۔۔۔ ایسے ریٹیلر اب ٹھیکے داروں، کسانوں، کارخانوں، سب کانٹریکٹر، درزیوں کی زنجیروں پر حاوی ہیں۔ سمندر پار آپس میں جلد سے جلد اور سستے سے سستے کا مقابلہ اب یہاں سے کیا جاتا ہے۔ برانڈز اس کی مارکیٹ پیدا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی صدی کے کاٹن کنگز کے لئے اس سب پر چین کا غلبہ سب سے حیران کن ہوتا۔ وہ تصور نہ کر سکتے کہ ایک چین کا ایک نیم فوجی یونٹ (شن جیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کور) دنیا کی پانچ فیصد کپاس پیدا کرتا ہے!! آبپاشی، کھاد، مشینری وغیرہ پر بھاری ریاستی سرمایہ کاری نے یہ ممکن بنایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جدید تاجر ریاست پر منحصر نہیں رہے۔ صارفین سے لے کر کام کرنے والوں کا ایک بہت الجھا تانا بانا ہے۔ استعمال کرنے والوں کی بہت بڑی عالمی منڈی اور تربیت یافتہ ورک فورس جس کے لئے تنخواہ اور اجرت پر کام کرنا اجنبی نہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے مصنوعات کے برانڈ اور خرید و فروخت کے چینل ہیں۔ انیسویں صدی کے برعکس اب توجہ خام مال یا کپڑے کے بزنس پر نہیں۔ کاٹن، دھاگہ، کپڑا اور لباس کے لئے سستا ترین اور قابلِ اعتبار سپلائر تلاش کرنا اہم ہے۔ پرکشش، منافع بخش اور مشکل دوڑ ان کو بیچنے کے طریقے تلاش کرنے کی ہے۔ بڑے سٹور؟ انٹرنیٹ؟ مارکنٹنگ؟ ماڈلز؟ Addidas سے Carrefour اور Amazon تک۔ اس کاروبار کا ریاستوں پر انحصار بہت کم رہ گیا ہے۔
ناموافق حالات پر کاروبار کہیں اور لے جانا بے حد آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب ریاست کے ساتھ طاقت کا توازن الٹ چکا ہے۔ ریاستیں تاجروں کو اپنے ملک میں آنے کے لئے ترغیبات دیتی ہیں۔ اس زنجیر میں کسی کو بھی کسی ایک خاص ملک کی ضرورت نہیں رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب تبدیلیوں نے کپاس کی سلطنت کی شکل ایک بار پھر تبدیل کر دی۔ کیپٹلزم کا نہ ختم ہونے والا انقلاب جاری ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...