نہ دل لگی کا مِلا اور نہ عاشقی کا نچوڑ
ہماری زیست بے گویا کہ بے بسی کا نچوڑ
پڑا تھا نیم اندھیروں میں جِس نے دیکھا ہے
مِلا تو ایک اسی کو ہے روشنی کا نچوڑ
غمِ حیات کی قیمت ہے قہقہوں سے فزوں
یہ اشکِِ غم ہی تو ہوتے ہیں ہر خوشی کا نچوڑ
سمجھ میں آئیں تو کیسے ہمیں تِری باتیں
جو مِل سکا نہ اسی ایک ان کہی کا نچوڑ
قریب ہوتا اگر چاند ہوتی بات کوئی
فقط ہو فاصلہ کیوں اس کی دِلکشی کا نچوڑ
جو کہتے آئے تھے کرتے رہے اسی کا الٹ
ہمیشہ راز یہ دیکھا ہے زرگری کا نچوڑ
ہیں طرفہ تر ابھی دنیا میں رنگ وحدت کے
بھلا ہے خون وہ کِس کا؟ صنم گری کا نچوڑ
ہمیں یہ ”چاہیے“ اب ”ہے“ بنائے رکھنی ہے
مِلا ہے آج ہمیں یہ بھی شاعری کا نچوڑ
تعلّقات ہیں بےکل جو سر سری بہتر
یہی ہے ایک تمہاری بھی دوستی کا نچوڑ
***
بہت ناداں ہیں ہم اہلِ زمانہ
جویوں بےسودجانیں دےرہے ہیں
وہاں امن و اماں کی بات ہی کیا
جہاں قاتِل یہ تمغے لے رہے ہیں
***
خشک اب آپ ہوئے اشک جو بہتے بہتے
رہ گئے اور کئی کام ہیں رہتے رہتے
بھولے بِسرے تِرے ہر حسنِ عنایت کے عِوَض
خوگرِ جور ہیں ہم ظلم یہ سہتے سہتے
مشغلہ خوب ہے یہ عشق اگر چہ یارو
کھو گیا چاند مبادا کہیں گہتے گہتے
خود ستارے یہاں کر لیں گے نظارہ اِس کا
آن ٹکرائیں گے دھرتی سے وہ ڈھتے ڈھتے
آج بےکل ہمیں ازبر ہے وہ وعدہ اس کا
خود ہے خاموش کوئی بات جو کہتے کہتے
***
جہاں بھی ظلم ہو پلکیں سبھی کی بھیگتی دیکِھیں
یہ دِل مظلوم کی خاطِر جو صبح و شام روتے ہیں
کبھی بےکل جو خود کو دیکھ لیں آنکھوں سے اب اپنی
کہیں گے ہم جِسے دیکھیں اسی کی آنکھ ہوتے ہیں
***
سرد موسم ، شبِ ہجراں ہے اسے لے آؤ
دِل ہمہ وقت جو گِریاں ہے اسے لے آؤ
جب اِسے آئے نظر سرخ لبِ تر اس کے
تب دسمبر یہاں لرزاں ہے اسے لے آؤ
***