مظفر حنفی(دہلی)
ہمیں للکارنے والے بہت ہیں
ہمارے ہاتھ میں چھالے بہت ہیں
مناسب ہے کہ دل کی بات مانو
تمہارے ذہن میں جالے بہت ہیں
ٹھہرنا ہو تو سورج ایک حیلہ
مسافر کو ندی نالے بہت ہیں
تمہیں کو سوچنا ہے نیزہ بازو
مِرا سر ایک ہے،بھالے بہت ہیں
سخاوت سے کہا تھا مصلحت نے
کہ مٹھی بند رکھ،پیالے بہت ہیں
اندھیری رات میں جنگل کے جگنو
سحر کرنے کو اجیالے بہت ہیں
مظفرؔ خون کو جمنے نہ دینا
ابھی آفت کے پرکالے بہت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی میرا نہیں ہے، جی سے یہ دھڑکا نکل جائے
اگر ساتھی پلٹ کر دیکھ لیں،کانٹا نکل جائے
پہاڑوں کا سندیسہ لے کے جانا ہے سمندر تک
منادی ہے کہ ریگستان سے دریا نکل جائے
دلاسہ دینے والو، شکریہ، لیکن ذرا سوچو
جسے تم گھر سمجھتے ہو،اگر صحرا نکل جائے
ستارے توڑنے کی میری خواہش تجھ سے پوری ہو
دعا ہے میرے قد سے تو بہت اونچا نکل جائے
بھلی صورت کی وہ لڑکی نہایت کج ادا نکلی
بگڑ جاتا ہے منہ،بادام اگر کڑوا نکل جائے
جُنوں آواز دے تو جسم کی دیوار توڑیں ہم
سفر آغاز ہو تو پاؤں کا چھالا نکل جائے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے مظفرؔ شعر کہنے میں
کہ جیسے ہاتھ آکر کوئی جگنو سا نکل جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر اُونچا،آنکھیں روشن،لہجہ بے باک ہمارا
تلوے زخمی،ہاتھ بریدہ،دامن چاک ہمارا
دریا کی تہہ میں ہم اُترے،ناؤ کی شوبھا تھا وہ
ساحل پر سب موتی اُس کے ہیں،خاشاک ہمارا
ریت کے اوپر نقش بنا کر چھوڑ گیا ہے کوئی
تیز ہوا کے دو جھونکوں میں قصہ پاک ہمارا
جی بھر کر خوشبو پھیلائیں،رنگ پھوار اُڑائیں
ہونا ہے اک روز نتیجہ حسرت ناک ہمارا
سادہ لَوحی خوابوں کی تعبیریں کیا کرتی ہیں
خوابوں کا تو دشمن ہے گہرا ادراک ہمارا
چشمۂ حیواں،وادیٔ ظلمت،سب جنجال تھے جی کے
زہرِ ہلاہل ہی نکلا آخر تریاک ہمارا
میرؔ کا جیون روتے روتے بِیتا اس نگری میں
دلّی میں سمّان مظفرؔ ہوتا خاک ہمارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائقِ دید وہ نظارہ تھا
لاکھ نیزے تھے،سر ہمارا تھا
ایک آندھی سی کیوں بدن میں ہے
اُس نے شاید ہمیں پکارا تھا
بادباں سے اُلجھ گیا لنگر
اور ہاتھ پر کنارا تھا
شکریہ ریشمی دلاسے کا
تیر تو آپ نے بھی مارا تھا
صاحبو! بات دسترس کی تھی
ایک جگنو تھا،اک ستارا تھا
آسماں بوجھ ہی کچھ ایسا ہے
سر جھکانا کسے گوارا تھا
اب نمک تک نہیں ہے زخموں پر
دوستوں سے بڑا سہارا تھا
آپ منسوب ہیں مظفرؔ سے
پھول، خوشبو کا استعارا تھا