مظفر حنفی(دہلی)
ا،سی بنا پہ سب احباب نے کنارا کیا
کہ ہم نے دھارے میں بہنا نہیں گوارا کیا
ندی کے بیچ ہے ناسور سا جو اک منجدھار
وہاں سے کوئی مسلسل مجھے پکارا کیا
اندھیری رات کی سوغات جس نے بخشی ہے
اندھیری رات میں ہم نے اُسے ستارا کیا
جہاں کسی نے قصیدے پڑھے بہاروں کے
خزاں نے دیر تلک تذکرہ ہمارا کیا
کھلے وہ پھول سے،ہم اُڑ چلے کہ خوشبو ہیں
اُدھر کو ، بادِ سحر نے جدھر اشارا کیا
خطر پسند ہیں دو چار وسوسوں کے لیے
نہ وسوسے میں پڑے ہم نہ استخارا کیا
مظفرؔ آپ اگر محوِ خواب تھے کل رات
تو پھر یہ تودۂ شب کس نے پارا پارا کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روشنیٔ طبع نے دھوکا دیا ہمیں
اپنے لہو کی آگ نے جھلسا دیا ہمیں
کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آرہے ہیں ہم
یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں
آئے تھے خالی ہاتھوں کو پھیلائے ہم یہاں
دُنیا نے خالی ہاتھ ہی لَوٹا دیا ہمیں
ٹھنڈی ہوا نے توڑ دیا تھا درخت سے
پھر گرد باد آئے،سہارا دیا ہمیں
زخمی ہوئے تھے جنگ میں دشمن کے وار سے
احباب نے تو زندہ ہی دفنا دیا ہمیں
کاغذ کی ناؤ پر تھے،ہمیں ڈوبنا ہی تھا
جو موج آئی،ایک جھکولا دیا ہمیں
ہم تاکہ کائنات پہ قابو نہ پا سکیں
اُس نے طلسمِ ذات میں الجھا دیا ہمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُھد بُد سی کچھ کائنات میں ہوتی رہتی ہے
اور چھَٹی حس دِل میں کانٹے بوتی رہتی ہے
آسمان پر لاکھوں تارے چمکا کرتے ہیں
میری قسمت جب دیکھوتب سوتی رہتی ہے
رُکتا ہوں تو چلنے لگتی ہے پُروائی سی
چلتا ہوں تو دنیا آر چبھوتی رہتی ہے
اک رشتہ جو توڑ دیا تھا دور اندیشی نے
آشا اُس دھاگے میں پھول پروتی رہتی ہے
ساری بستی کی بدنامی،اپنے گندے ہاتھ
میرے حصے کی گنگا میں دھوتی رہتی ہے
روک لیے ہیں ہم نے اپنے آنسو پلکوں پر
ایک پیاسی چڑیا چونچ بھگوتی رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خداوندا یہ پابندی ہٹا کر خوش خرامی دے
کہ دریا سر کے بَل جائے،سمندر کو سلامی دے
نہ ایسے سست ہوں بادل کہ فصلیں سرد ہو جائیں
نہ موجوں کو سنامی جیسی بے حد تیز گامی دے
میں شاعر ہوں،تمنّا ہے مجھے مقبول ہونے کی
مگر مقبولیت سے پہلے مجھ کو نیک نامی دے
مِری حق گوئی خامی ہے خرد مندوں کی نظروں میں
یہ بے حد قیمتی خامی ہے مولا اور خامی دے
اگر درکار ہے تاثیر تجھ کو اپنے شعروں میں
انہیں رنگت مقامی دے،انہیں لہجہ عوامی دے
مظفرؔ کیوں بہاروں میں بھی کانٹے سوکھ جاتے ہیں
کوئی موسم انہیں بھی شادمانی،شادکامی دے