مظفر حنفی(دہلی)
جہاں کوئی بھلی صورت نظر میں بیٹھ جاتی ہے
ہمیشہ کو نمی مٹی کے گھر میں بیٹھ جاتی ہے
ہر اک آئینۂ گل میں نظر آتا ہے وہ چہرہ
مِری وحشت ہر اک تتلی کے پر میں بیٹھ جاتی ہے
کبھی کانٹے مِرے دستِ ہنر میں ڈوب جاتے ہیں
کبھی دنیا مِرے پائے ہنر میں بیٹھ جاتی ہے
تعصب سخت جان ایسا کہ صدیوں تک نہیں مرتا
بھروسے کی عمارت لمحہ بھر میں بیٹھ جاتی ہے
تمہیں کیسے بتاؤں چاندنی پر شعر کہتا ہوں
تو ظلمت آکے میرے بام و در میں بیٹھ جاتی ہے
چبھی جاتی ہے میری آنکھ میں اخبار کی سُرخی
لہو کی بوند ہر تازہ خبر میں بیٹھ جاتی ہے
کسی فنکار کا شہرت پہ اترانا نہیں اچھا
کہ دورانِ سفر کچھ دھول سر میں بیٹھ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خون جم گیا سارا غم چھپائے رکھنے میں
کھپ گیا ہر اک آنسو دل جگائے رکھنے میں
دوسروں کے ہنسنے میں ساتھ کیوں نہیں دیتے
فائدہ سبھی کا ہے گل کھلائے رکھنے میں
اب نظر نہیں آتا دور دور تک صحرا
تاک ہو گیا وحشی گرد اُڑائے رکھنے میں
آج ہر تعلق میں یہ اصول نافذ ہے
مصلحت ہے کٹنے میں یا بنائے رکھنے میں
ڈوب جائے گا سورج،رات گھات میں ہو گی
کر لیا سفر کھوٹا سائے سائت رکھنے میں
وہ بھی دور آئے گا اور جلد آئے گا
عافیت نہیں ہو گی سر بچائے رکھنے میں
صبح کی ہوا اکثر زور آزماتی ہے
خیر ہے چراغوں کی لَو بڑھائے رکھنے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشتِ ظلمت میں بھی امکان کو زندہ رکھا
میں نے باطن میں اک انسان کو زندہ رکھا
تھا قبیلے میں وہی ایک دلاور جس نے
ڈھال سینے پہ نہ لی آن کو زندہ رکھا
اس قدر دل کو کیا صاف کہ خود ہو گیا خاک
آئنوں نے مِری پہچان کو زندہ رکھا
تاکہ وہ امن کے موسم میں ہمیں قتل کرے
ہم جو کٹتے رہے، سلطان کو زندہ رکھا
سوچتا ہوں تو تعجب مجھے خود ہوتا ہے
کیسے اس دور میں ایمان کو زندہ رکھا
واقعہ یہ ہے مظفرؔ کہ ترے لہجے نے
تجھ کو مارا ترے دیوان کو زندہ رکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کی راہ میں مرنا تو ہم بھی جانتے ہیں
ہمارے مسئلے کیا محترم بھی جانتے ہیں
عدالتیں اگر ان کو معاف بھی کر دیں
تو ان کے نام ہم اہلِ قلم بھی جانتے ہیں
ہمیں خوشی سے کوئی دشمنی نہیں لیکن
غریب لوگ ہیں توقیرِ غم بھی جانتے ہیں
خدا کے ساتھ محبت ہے آدمی سے ہمیں
پتہ ہے اہلِ حرم کو ، صنم بھی جانتے ہیں
ہمارے دور کے عاشق جنوں پسند نہیں
یہ بے غرض بھی ہیں اور بیش و کم بھی جانتے ہیں
وہ دست گیری نہ فرمائیں گے تو سن رکھیں
کہ ڈگمگانا ہمارے قدم بھی جانتے ہیں