جانے ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ زندگی ریاضی کے سوالوں کی طرح بہت الجھی نظر آتی ہے اورمائنس (-)پلس(+)کے چکر میں کچھ کا کچھ ہوجاتاہے ۔ہار سنگھا ر کے درخت سے ٹیک لگائے ریاضی کی صخیم کتاب بند کرتے ہوئے شعاع نے سوچا ۔ جیسے بے پنا ہ جاذب ، مقناطیسی کشش ، محسوساتی مسکراہٹ اورگہری روشنی آنکھوں والے راجو بھیا کے ساتھ ہوا ۔ اف!! کس قدر نشہ طاری کردینے والی شخصیت تھی ۔ان کی کس قدر سحر انگیز تھی ان کی آواز ۔جابر ۔ وحشی ۔ ظالم ۔ اس کے وجود پر ایک ناقابل بیان سنسنی چھاگئی۔
جب سے پتہ چلا تھاکہ سراج ایڈز کا مریض ہے شعاع کے اندر ایک نامعلوم سی کپکپاہٹ رہنے لگی تھی ۔ ایک انجانی پھڑ پھڑ اہٹ ،بالکل اس چڑیا کی طرح جو لڑکپن میں کسی دن سراج اپنی مٹھی میں بند کرلایا تھا ۔ وہ آئے دن یونہی کوئی نہ کوئی پرندہ دبوچ لاتا تھا حالانکہ چاچی کا حکم تھا کہ غریب بے زبان پرندوں کو نہ ستایا کر مگر وہ سنتا کہاں تھا ۔ ؟
’’دیوانی دیکھ کتنی رنگین چڑیا ہے ‘‘وہ اپنے کارنامے پر سدا کی طرح نازاں تھا ۔ شعاع نے دیکھا ۔ مٹھی میں بند دھک دھک کر تی چڑیا ۔ تڑپ تڑپ کر فریاد کرتی چڑیا ۔ ’’یہ آپ نے اچھا نہ کیا ‘‘وہ تڑپ کر بولی ’’چھوڑیئے اسے ‘‘
’’ارے واہ کیوں چھوڑ دوں ‘‘وہ اکڑگیا ۔
’’میں چچی سے کہوں گی‘‘شعاع نے اسے دھمکی دی ۔
’’خبردار جو امی سے کہا ۔ ورنہ دیکھ تیری چٹیا کاٹ لوں گا‘‘
پھڑ پھڑ کرتی چڑیا ساکت ہوگئی تھی ۔ اس کے بھورے کا لے بدنگ آنسو شعاع کی آنکھوں میں جمع ہوگئے ۔ اوراس نے چچی سے شکایت کی تو سراج نے سچ مچ اس کی چٹیا کاٹ لی ۔ اس کی ٹھکائی تو ضرور ہوئی لیکن اس کی وہ بہیمانہ حرکت شعاع کے اندر خوف کا ایک ایسا تاثر چھوڑ گئی کہ وہ عمر بھر کے لئے اپاہچ ہوگئی ۔ وہ اتنا شہ زور نہیں تھا وہی شاید بہت ڈرپوک تھی اس حادثے کے بعد وہ کبھی سراج کے جبر و استبداد کے خلاف احتجاج نہ کرسکی اس نے چھوٹے بڑے بہت ظلم کئے ۔شعاع کے اندر بہت سی دہشت پھیلائی مگر وہ چچی سے کبھی شکایت نہ کرسکی کبھی بھی نہیں ۔ اس وقت بھی نہیں جب وہ کسی کاکروچ یا مینڈک کی طرح اس کے مردانگی کے تجربوں میں شامل کی جاتی رہی ۔
ہوا کا ایک بے درد جھونکا آیا اورہار کے سنگھار کے سفید ننھے منے پھول ٹوٹ کرزمین پر آگرے اورشعاع کے ہونٹوں سے آہ سی نکل گئی ۔ سراج کا اولین تجربہ اس کو کسی ڈرائو نے خواب کی طرح یاد آیا ۔ وہ کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی ۔اورایک گرم سلگتی دوپہر جب گھر پر کوئی نہیں تھا سراج نے اسے دبوچ لیا ۔ وہ پھڑ پھڑ کرتی رہی ۔ اورسراج نے کوئی لجلجی سے شئے چڑھائی اوراس کے کنوارے بدن کی دھجیاں اڑادیں ۔ رشتوں کے تقد س کو پامال کردیا ۔ و ہ کپکپاتی رہی۔ پھڑ پھڑ اتی رہی ۔ وہ لذت میں بھیگتا رہا عورت کے جسم سے تعارف حاصل کرتا رہا۔ وقت رک گیا ۔ تھم گیا ۔ اورشعاع ساکت ہوگئی۔
’’اے دیوانی ‘‘وہ گرج کر بولا ‘ خبردا ر جو کسی سے کچھ کہا ۔ امی سے بالکل مت کہنا۔ پہلے تیری چٹیا کا ٹ لی تھی اب گردن ہی کاٹ دوں گا ۔ ‘‘
اس نے سچ مچ ایک تیز دھار والی چھری اس کے گلے پر رکھی تو شعاع بری طرح سہم گئی ۔ اپنے بازو پنکھ کی طرح پھیلائے اورگہری سانسیں لینے لگیں ۔ پھر وہ روحانی کرب سے گزری ۔ اس نے اپنے روئیں کی آہ و بکا سنی ۔ اس کاد ل جیسے مسل کچل گیا ۔مگر وہ سراج سے بری طرح خائف تھی ۔ کچھ نہ کر سکی ۔اس کو کئی صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔کئی حوصلہ شکن شب و روزسے دوچار ہونا پڑا ۔ جو غلط کام اس گرم سلگتی دوپہرکو اس کے ساتھ ہو اتھا وہی بار بار اس کے ساتھ ہوتا رہا ۔ سراج کسی لجلجی سی شئے کی مدد سے اس کے اندر آتا رہاجاتا رہا ۔ اس نے بتایا کہ وہ تجربہ کررہاہے ۔ اور ایسے کئی تجربے اس نے دوسری لڑکیوں کے ساتھ بھی کیے ہیں ۔ اوروہ ہمیشہ اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے گلے میں چیخیں دباتی رہی کپکپاتی رہی ،پھڑ پھڑ اتی رہی ۔
وہ بھورے کالے رنگ کی اداس چڑیا ،مٹھی میں بند فریاد کرتی چڑیا۔ وہ اس کے بھورے کالے بدرنگ آنسو ۔وہ آنسو اب بھی شعاع کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
تجربوں کے شوق میں راجو بھیا نے اپنے بدن کی مٹی خراب تو کی ہی تھی جانے اسے کونسی راہ پر چھوڑگئے ۔
اس نے اپنے بہتے ہوئے آنسو پونچھے اورریاضی کی کتا ب کھولی تو دیکھا اس میں بھی وہ غم زدہ چڑیا بیٹھی ہوئی ہے ۔ گٹھڑی بنی ،ساکت اپنی چھوٹی سیاہ آنکھوں سے ٹکرٹکر دیکھتی۔شعاع کے قویٰ پر اضمحلال طاری ہونے لگا ۔ اس کو یاد آیا سراج کے جبر و استبداد کے خلاف شعا ع کے دل میں نفرت ہی نفرت تھی ۔ وہ اس کی پرچھائیں تک اپنے آس پاس برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ ہمیشہ اپنے ذلیل تحقیر آمیز وجود کو یہ کہہ کر بہلاتی تھی کہ ایک دن وہ سراج سے انتقام لے گی ۔ بہت بھیانک سا انتقام ۔ اوراس کی یہ تمنا قدرت نے پوری کردی ۔ جب اس نے پہلی مرتبہ امی سے سنا کہ سراج کو ایڈز ہے تو اس کا دل خوشیوں سے ناچ اٹھا ۔ اس کا کا سئہ حیات لافانی مسرتوں اورطمانیت کے احساس سے مغلوب ہوگیا ۔ سراج کی چپ چپ کیفیت ، کھوئی کھوئی ہیئت زرد زرد رنگت دیکھ کر اس کو دلی سکون ملا۔ اس کی فرطِ غم سے اندر کو دھنسی آنکھوں کو دیکھا تو شعاع کو عجیب سی راحت کا احساس ہوا۔ لیکن یہ روح فرسا تغیریہ حوصلہ شکن انقلاب جو سراج کی دنیا میںآیا تھا وہ اس سے محفوظ کہاں تھی۔ وہ کسی کا کروچ مینڈک کی طرح اس کے تجربوں میں شامل کی جاتی رہی تھی ۔ اس نے گھبرا کر کتاب بند کردی۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس کے اندر ایک نامعلوم سی کپکپاہٹ ہونے لگی ۔ایک انجانی سی پھڑ پھڑاہٹ اس کا حلق خشک ہونے لگا۔ لجلجی سے شئے کا آسرا تو تھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ آگ سے کھیلیں اور آپ کا دامن محفوظ رہے۔کوئی ہلکی سی چنگاری ،کوئی ننھا سا شعلہ ۔کیا یہ ممکن نہیں کہ اس کے بدن کی مٹی بھی خراب ہوچکی ہو۔راجو بھیا کے تھوڑے سے کیڑے اس کے اندر بھی سرایت کرگئے ہو ۔ اس کے جسم کے خلئے بھی آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہو ں۔اس کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ ۔آہستہ خرامی سے مرتا جارہاہو۔ایسا ہو بھی سکتا ہے نہیں بھی۔وہ تو پل صراط پرکھڑی تھی۔ اس کو امی کی دلکش سی صورت یاد آئی تو وہ تڑپ سی گئی،اف اللہ !! کیا بیتے گی ان پر ۔ راجو بھیا کی گناہ آلودزندگی تو ان کی مردانگی تلے دب گئی ۔مگر وہ تو عورت تھی اور جو اس کو ایڈز ہوجائے تو یہ سماج اس کو جیتے جی مارڈالے گا ۔وہ ایک سوالیہ نشان بن جائے گی۔لوگ اس پر ہی نہیں اس کے والدین پر بھی انگلیاں اٹھائیں گے۔
شام ڈھل رہی تھی ۔درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے شورمچارہے تھے ۔ وہ بادل ناخواستہ اٹھی ۔ اندر جاہی رہی تھی کہ سامنا سراج سے ہوگیا مگر یہ کیا ؟؟ سراج کی مٹھی میں تو ایک چڑیا بند تھی دھک دھک کر تی ۔اتنا تشدد ۔ اتنی جارحیت ۔ اتنا ظلم۔اوروہ بھی موت کے کنارے کھڑے ہو کر۔ وہ بت سی بن گئی ۔
’’شعاع مجھے معاف کردو‘‘ وہ بولا توایک عجیب سااحساس شعاع کے رگ روپے میں سرایت کرتاچلاگیا ۔ سراج کا پور پور بول رہاتھا ۔ عضو عضوبول رہاتھا ۔ شعاع کے اندر کچھ کچھ ہونے لگا۔
خوف اورلذت کا ایک ملاجلا جذبہ اس کے اندر ایک لہر کی طرح بہنے لگا ۔ وہ اپنی اس کیفیت کو کوئی نام نہ دے سکی ۔ اپنے وجود کی الجھی گتھیاں وہ سلجھانہ پائی تو پہلی بار اپنی ہمت مجتمع کرکے پوچھ لیا ۔
’’وہ کون تھی ۔ ؟ ‘‘
سراج نے چونک کر اسے دیکھا ۔ کئی لمحے بغور دیکھتارہا ۔ جیسے اس کی آنکھوں سے اس کے دلی جذبات پڑھ رہاہو۔ اورپھر ایک درد انگیز خونیں آنسوں میں بھیگی ہوئی آواز میں بولا ۔ ’’بہت سی تھیں ۔ پتہ نہیں ‘‘
شعاع کا جی چاہا چلا کر کہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اپنے ساتھ ۔ میرے ساتھ۔ مگر اس کی آواز آج بھی اس کے گلے میں ہی گھٹ گئی ۔
’’ہر انسان کو اس کی مرضی کی زندگی نہیں ملتی دیوانی ‘‘وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا ’’پھر احساس زیاں کیسا ؟‘‘ میںنے تمہارے ساتھ کئے گئے تجربوں کی داستان امی سے کہہ دی ہے ۔ پگلی میں نے تمہاری چٹیا تو کاٹی تھی مگر تمہار ا گلا نہیں کاٹ سکتا تھا ۔ کیونکہ میں تم سے محبت کرتا تھا ‘‘ اس نے اپنی بند مٹھی والی چڑیا کو چھوڑدیا ۔ وہ ہوا میں اٹھی ۔ اپنے پنکھ پھیلائے۔ اورپھر سے اڑگئی۔