آج کل شاعری میں جو نئے شعرائ،شاعرات آرہے ہیں ان میں سے اوریجنل لوگوں کو چھوڑ کر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے شاعر تو کیا متشاعر بھی نہیں ہیں۔خصوصاََ ادھر مغربی ممالک میں تو اب یہ عالَم ہے کہ کوئی بندہ ہو یا بندی ،ایک مصرعہ تک کہنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے بھی راتوں رات صاحبِ کتاب بن جاتے ہیں۔پہلے پہل متشاعروں نے بے وزن شعری مجموعے طمطراق سے چھپوائے لیکن بعد میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہوئے شاعری کا شوق رکھنے والے غیر شاعروں نے شاعر بننے کا کامیاب نسخہ دریافت کر لیا ہے۔انڈیا اور پاکستان میں ایسے پُر گو اور استاد قسم کے شعراءکی کمی نہیں ہے جو معقول معاوضہ پر پورا مجموعہ لکھ دیتے ہیں۔سو ان کی برکت سے ایسے لوگ جو ایک مصرعہ بھی وزن میں نہیں لکھ سکتے،پورے مجموعوں کے مالک بن گئے ہیں۔انڈیا یا پاکستان کا ایک سفر کیا جاتا ہے اور ایک مجموعہ تیار ہوجاتا ہے۔یوں مجموعوں پر مجموعے آرہے ہیں۔ادبی جعل سازی کے ایسے ماحول میں مجھے صبا حمید کے پہلے شعری مجموعہ کا مسودہ دیکھنے کا موقعہ ملا تو میں نے اسے بے دلی سے دیکھنا شروع کیا۔لیکن پھر اس مسودہ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہ ادب میں نووارد سہی ،پر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے باطن کی ترجمانی کر رہی ہے۔وہ جیسی بھی ہیںاوریجنل طور پر ہی سامنے آئی ہیں۔
مجھے ان کے پہلے مجموعہ کلام سے ان کے ہاں اُن ممکنات کی خوشبو سی محسوس ہوئی ہے جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوں گے۔بس اتنا ہے کہ صبا حمید کو شاعری کی ان اصناف پر زیادہ توجہ کرنا ہو گی جن میں انہیں زیادہ فطری لگاؤ محسوس ہو، اور غیر ضروری طور پر ہر شعری صنف میں کچھ نہ کچھ کہنے سے احتیاط کرنا ہوگی۔خاور اعجاز نے ان کی شاعری کے حوالے سے جو تجزیہ کیا ہے وہ بے حد صائب ہے۔مجھے اس سے مکمل اتفاق ہے۔میری دعا ہے کہ صبا حمید کا پہلا شعری مجموعہ ادبی طور پر مقبول ہو نہ ہو لیکن اِن کے اُن شعری امکانات کو اجاگر کرنے کا باعث ضرور بنے جو اس مجموعہ کے عقب سے اور شاعرہ صبا حمید کے باطن سے جھانکتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
(تاثرات مطبوعہ شعری مجموعہ مٹھی بھر تقدیر اور جدید ادب جرمنی شمارہ جنوری ۲۰۰۵ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔