ڈاکٹر محمد وسیم انجم ، دنیائے علم کا ایک جیتا جاگتا اور جانا پہچانا نام ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کھولئے تو دل چسپ و متنّوع ابواب سے مزّین ملتی ہے جو سب کے سب اُن کی ذات کے نوع بہ نوع پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔سیلف میڈ، باغ و بہار شخصیت، اسلامی ذہن، نیک خُو، بااخلاق، ہنس مُکھ، نرم دم گفتگو، ملنسار غرضیکہ ہمہ صفت موصوف۔
ڈاکٹر صاحب ایک طویل عرصہ تک پیشۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ نومبر ۲۰۲۱ء تک اردو یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کے سربراہ تھے۔ بہت متحرک اور ہر دلعزیز ۔ ۲۴ نومبر ۲۰۲۱ء کو سروس پوری ہونے پر ریٹائر ہو گئے ۔
تاہم علم و ادب سے وابستہ آدمی کب ریٹائر ہوتا ہے۔آج بھی ان کے دن کا بیشتر حصہ قلم و قرطاس کے ساتھ گزرتا ہے۔ ان کی اصل پہچان یہ ہے کہ اچھی کتاب کے حریص ہیں اور مطالعے سے جنون کی حد تک لگائو رکھتے ہیں۔ ذاتی خشوع و خضوع کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ انہیں کتاب سے قربت اور علم دوستی وراثت میں ملی ہے۔ ان کی پچھلی ساری زندگی ٹھیٹھ دیہاتی رنگ والی لیکن خاندان کے سبھی بڑوں نے جو کاشت کاری کے ساتھ ساتھ سپاہ گری بھی کرتے تھے ، انہیں بچپن ہی سے کتاب و تختی کا خوگر بنایا۔ سو انہوں نے جماعت اول سے لے کر پی ایچ ڈی کرنے تک چھتیس سال تحصیل علم میں گزارے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میٹرک تک سرکاری اداروں میں زیر تعلیم رہے اور بعد ازاں پرائیویٹ طور پر تعلیمی مدارج طے کیے۔ تاہم کسی پر بوجھ بننے کی بجائے انہو ں نے متفرق کاروبار کیے، وکالت کی اور مختلف اداروں میں ملازمتیں بھی کیں۔ ۸۴۔۱۹۸۳ء میں رزق کی تلاش انہیں سعودی عرب لے گئی ۔ کورس کی کتابیں بھی ساتھ لے گئے ۔موقع ملتے ہی مکہ اور مدینہ منورہ میں حاضری دی اور جلد وطن واپس آ گئے۔ یہاں آ کر دوبارہ کیرئیر بنانے کی جستجو میں مگن ہو گئے۔ کہاں سے اور کس عہدے سے ریٹائر ہوئے اس کا ہلکا سا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
پیشہ ورانہ مصروفیات نبھانے کے ساتھ ساتھ ہی ڈاکٹر وسیم انجم کتاب دوستی کے علاوہ کتاب ساز بھی ہیں۔ اس وقت تک انہوں نے ۳۵/۳۶ کتابیں شائع کی ہیں۔ ان میں ایک بہت ضخیم کتاب ’’انجم نامہ‘‘ (کل صفحات ساڑھے تیرہ سو) بھی ہے جو جون ۲۰۱۳ء میں چھپی تھی۔ یہ اُن خطوط کا مجموعہ ہے جو ان کے دوستوں، چاہنے والوں اور نیازمندوں نے انہیں لکھے۔ خط کیا ہیں دلچسپ افکار اور چٹکلے ہیں اور نامہ نگاروں کی تعداد پونے تین سو ہے۔ کتاب میں ان سب کا اندراج حروف تہجی کے حساب سے ہے ۔ ان میں بڑی معروف علمی و ادبی شخصیات شامل ہیں اور بعض ایسے نام بھی ہیں جو یہ دنیا چھوڑ کر جا چکے ۔ اس کتاب پر ایم فل کا مقالہ لکھا جا چکا ہے۔
یہ جان لینا ضروری ہے کہ زیر نظر تازہ کتاب ’’یادگار خطوط‘‘ میں بھی مکتوب نگار کرم فرما وہی ہیں جو ڈاکٹر صاحب سے دلبری کا مان رکھتے ہیں۔ پہلی کتاب کی ضخامت نے اجازت نہ دی تو پھر خطوط سے لبریز یہ دوسری جلد بھی معرض وجود میں آئی۔ اس میں بھی مزے دار ذاتی باتیں ہیں، کچھ ذاتی اور کچھ عرصۂ حاضر کی ۔ مخاطب وہی ہے جو اُن کا ،سب کا چہیتا اور ہردلعزیز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...