وہ فائن آرٹس کالج کے سامنے کھڑی بڑے خفیف سے انداز میں مسکرارہی تھی ۔ اس کی اس خواہش کی تکمیل ان دو فرشتوں کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی ۔ جو تب اسے اپنی بیٹی بنا کر اپنے گھر لائے تھے ، جب اس کی بیوہ ماں دماغ میں رسولی کے باعث ہسپتال میں بے سدھ پڑی تھی اور پھر کچھ عرصے بعد اپنی ماں کی موت کے باعث بے سہارا ہو کر وہ مستقل طور پر ان کے گھر آکر رہنے لگی تھی ۔
” آپ دونوں نے تو مجھے وہاں تک پہنچا دیا جہاں تک جانے کامیں نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور ان سب کے بدلے حمائل کے چھوٹے موٹے غصے کو برداشت کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں ” اس نے بڑی اپنائیت سے سوچاتھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ صحن میں پڑی چارپائی پر بڑی ماں کے پاس بیٹھ ان کا سر دبا رہی تھی ۔اماں پا س میں پڑی دوسری چارپائی پر بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں اور برآمدے میں بچھی چٹائی پر بڑی اور چھوٹی پھوپھو پڑوسی عورتوں کے پاس بیٹھی ہاتھوں میں پارے لیے تلاوت کررہی تھیں۔
بڑی خالہ آج نہ جاتیں تو بڑی ماں کو تھوڑا حوصلہ مل جاتا لیکن ان کی اپنی بھی مجبوریاں ہیں ۔ اپنی چھبیس سالہ معذور بیٹی کو کس کے سہارے چھوڑ کے وہ چھوٹی بہن کے آنسو پونچھنے کویہاں بیٹھی رہتیں ؟
اس نے بڑی ماں کی بھیگی پلکوں کو دیکھ کر تاسف سے سوچا ۔
” وہ عورت جس کی رگ رگ میں زندگی تھی اب کس قدر مرجھا گئی ہے ۔ ” اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ۔ یہاں بڑی ماں نڈھال تو وہاں عرینہ بخار میں تپ رہی ہے۔” اس نے ابھی ابھی مرینہ کو عرینہ کے پاس کمرے میں بھیجا تھا ۔ تین دن ہوئے اس کو کھانے پینے سے توبہ کئے ہوئے تھی ۔دینا اگر اسے زبردستی کھلانے لگی تو وہ اس کے سینے میں سر چُھپا کر رونا شروع کر دیتی تھی ۔
” میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں ۔” وہ چارپائی سے اٹھ کر باورچی خانے کی طرف جانے لگی جب اس نے آہٹ سنی ۔ کسی کے قدموں کی آہٹ جو بڑی شناسا سی تھی ۔
اس نے نگاہیں اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا ۔ سیاہ کرتا پاجامہ پہنے ایک بیگ کندھے سے لٹکائے دوسرا بیگ ہاتھ میں پکڑے ، دروازے میں کھڑا وہ اصغر حمید تھا ۔ دینا کے قدم غیر ارادی طور پر اس کی جانب اٹھنے لگے تھے ۔وہ اس کے قریب گئی تھی ۔اس کے چہرے پر افسردگی اور آنکھوں میں بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملال بھی تھا ۔اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ خوب روتا رہا ہو۔
دینا کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے بیگ گر گیا ۔ اس نے جھک کر اصغر کے ہاتھ سے گرا ہوا بیگ اٹھا لیا ۔ آنسو پیتے پیتے اس کے گلے میں گرہ سی بن گئی تھی ۔ پورے گھر میں ایک وہی تو تھی جو سب کو سہارا دیے ہوئے تھی لیکن اب وہ آگیا تھا ۔ وہ اس کے کندھے پر سررکھ کر بہت سارا روئے گی ، اتنا روئے گی ۔ اتنے آنسو بہائے گی کہ اس کا گریبان تر کر دے گی ۔ اتنی دھاڑیں مار مار کر روئے گی کہ بڑی اماں اور عرینہ کو حیران کر دے گی ۔
” آئیں ۔ ” آنسوؤں کا ایک نمکین سمند ر وہ پی گئی تھی ۔
وہ اس کے پیچھے چلتا ہوا اماں کے پاس گیا تھا اور وہ اس کے سینے سے لگ کر بالکل بچوں کی طرح روئی تھیں۔ ان کی بے شمار آہیں اور سسکیاں وہ اپنے سینے میں جذب کر گیا تھا ۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتا رہا اور دینا کے گلے میں پڑی گرہ بڑھتی گئی ۔ اس کا گلا دکھنے لگا۔
” اپنے ابا کی تدفین کے بعد کیوں آئے تم اصغر؟ ہمارے آنسو پونچھنے ؟ یا پھر ہمیں مزید رلانے؟” وہ آم کے پیڑ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی ۔
” پوری زندگی ہمارے آنسو پونچھتے رہو گے تو بھی اس لمحے کا درد کم نہیں کر سکو گے جب بڑے ابا ہم سب کے روکنے کے باوجود بنا مڑے ہمیشہ کے لیے چلے گئے”۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ ان قطرہ قطرہ آنسوؤں سے اس کا غم ہلکا ہونے والا نہیں تھا ۔ اس نے تو دھاڑیں مار مار کر ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کے رونا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
یونیورسٹی میں اسے ایک مہینہ گزر گیا ۔ وہ بہت کم ہی اپنے دوستوں سے ملتی تھی ۔ کبھی کبھی فو ن پر بات ہو جاتی تو وہ اسے اپنے ڈیپارٹمنٹ آنے کا کہتے لیکن وہ چاہ کر بھی نہ جاپاتی حالاں کہ وہ سب اسے یاد بہت آتے تھے ۔
” ہیلو ماہی ! کیسی ہے تو؟”شام کے وقت جب وہ یوگا کلاس کیلئے جارہی تھی ، اسے صبار کا فون آیا تھا ۔
” ہائے ۔ایس بی ! میں ٹھیک ہوں ۔ تو بتا ۔” یک دم وہ جیسے کھل اٹھی ۔
” تم تو بالکل گم ہو گئی ہو یار!” صبار نے شکایت کی ۔
” ٹائم ہی نہیں ملتا ۔” وہ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
” ٹائم نکالا کرو ناں ۔ آج ایف اور کامی آئے ہوئے تھے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تجھے بہت مس کیا ۔”
” اچھا ؟ آئی مس یو ٹو۔”
” تو بھی کبھی آجا ۔”
” Well I Shall try۔۔۔. ”
” Must come۔۔۔ ”
” اوکے ۔”
” اینڈ لسن ! نیکسٹ تھرسڈے کو میر ا گولف میچ ہے ۔ ضرور آجانا باقی سب بھی آئیں گے ۔”
” اوکے ۔ اوکے ۔ آئی وِل کم ۔ ڈونٹ وری ۔ ابھی میں اکیڈمی پہنچ گئی ہوں ۔میر ی یوگا کلاس ہے ۔”
” اوکے ۔ سی یو ۔ بائے ۔” فون بند ہونے کے بعد وہ کافی دیر تک یونہی مسکراتی رہی ۔ اس کے دوست کتنے پیارے تھے ۔ یک دم اسے اہم ہونے کا احساس ہو اتھا ۔
شام ڈھل چکی تھی ۔ رات ہر طرف پھیل رہی تھی ۔ اس کے قدم غیر ارادی طور پر ہال کی طرف بڑھ گئے۔ اندر جا کر اس نے دیکھا پھوپھی جی کو نے میں پڑے تخت پر بچھی جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔بڑی پھوپھی پلنگ پہ ٹانگیں پھیلائے لیٹی تھیں ۔ ان کی آنکھیں بند تھیں ۔ شاید سور ہی تھیں، لیکن دینا کو لگا جیسے وہ اپنے اشکوں سے لڑرہی ہوں۔ اس نے چھوٹی پھوپھی کی طرف دیکھا جو اپنے پلنگ پہ لیٹی کسی گہری سوچ میں گم تھیں ۔ اور پھر اس نے اس آرام کرسی کی طرف دیکھا جہاں پر بڑے ابا بیٹھا کرتے تھے ۔ ” دینا بیٹا !قہوہ تو بنے گا ناں ؟” اس کے کان میں کسی شفیق آواز نے سرگوشی کی ۔ اس کا دم گھٹنے لگا ۔ وہ جلدی سے باہر نکل آئی ۔
” فرحت !” بڑی ماں کے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس نے ان کی کمزور سی آواز سنی ۔
” جی بھابھی !” اس نے اماں کی آواز سنی جو آج کل بڑی ماں کے کمرے میں آکر ان کے ساتھ سوتی تھیں ۔
” سعید کے بغیر پندرہ سال ۔۔ کیسے گزارے تم نے ؟ ان کی آواز میں ملال اور بے یقینی سی تھی ۔ دیناکا دل کٹ گیا ۔
” بھابھی !صبر کریں ۔ برداشت خود بخود آجاتا ہے ۔”
” وہی تو فرحت! وہ تو مشکل ہے ۔” بڑی ماں کی آواز آنسوؤں میں بھیگ گئی۔ دینا اپنی آنکھیں زور سے بھینچ کر اپنے کمرے کی سمت چلی گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
جمعے کا دن تھا ۔ وہ یونیورسٹی کیلئے تیا ر ہو کر ناشتہ کرنے ڈائیننگ روم چلی گئی ۔
” گڈ مارننگ ! اس نے امی جی کا بوسہ لیا اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔
” یو آر لوکنگ ونڈر فل ۔” اس نے ان کی تعریف کی ۔
” رئیلی ؟ ” انہوں نے اپنی سکائی بلیو ساڑھی پر ایک نظر دوڑائی ۔
” یس !” اپنے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے کہا ۔” آپ کہیں جارہی ہیں ؟؟؟”
” ہاں ۔ منزہ کو آرٹسٹ آف دی منتھ کا ایوارڈ مل رہا ہے ۔اس کے کالج جارہے ہیں ۔” امی جی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ابو جی بول پڑے ۔ جتنا زیاد وہ ان کو ایوائیڈ کررہی تھی، اتنا زیادہ وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
حمائل نے خاموشی سے منزہ کو گھورا ۔” زہر لگتی ہے مجھے یہ لڑکی” ۔ اس نے نفرت بھری ایک نگاہ منزہ پہ ڈالی اور جلد ی جلدی ناشتہ کرنے لگی ۔
” تم اتنی انجان کیوں بن رہی ہو ؟ کیوں یہ بھول رہی ہو کہ میں تمھارا باپ ہوں ؟ انہوں نے اسے دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد اپنی نگاہیں جھکالیں ۔
” میرے پاس اب تین ہی ریلیشنز بچے ہیں ۔ ایک میرے دوست ، دوسری میری ماں اور تیسرا بھائی ۔ ۔ اور میں تمہیں ان سب کوکبھی مجھ سے چھیننے نہیں دوں گی ۔” وہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگی ۔
” منزہ ! آئی ہوپ تم ایک دن بڑی آرٹسٹ بن جاؤ گی۔ ” یہ آواز اس کے بھائی شہروز کی تھی ۔ وہ بھی منزہ کو بہت اہمیت دیتا تھا ۔
He is my brother ” ” اسے گرمی لگنے لگی ۔
“آئی ہیٹ یو منزہ !” اس کے وجود کی رگ رگ پکاررہی تھی کہ اسے منزہ علی سے نفرت ہے لیکن اس کی زبان خاموش تھی ۔ اس نے بریڈ کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھایا او بنا چبائے نگل لیا ۔اچانک وہ کھانسنے لگی ۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔امی نے جلد ی سے اسے پانی دیا ۔ ابو دوڑ کر اس کے پاس آگئے تھے ۔ اس کی کمر پر پڑا ان کا ہاتھ کسی انگارے کی مانند اس کو جلا رہا تھا ۔ اس نے دیکھا شہرو ز اور منزہ بڑی فکر مند ی سے اس کو دیکھ رہے تھے ۔ شہروز بھائی منزہ کے پاس والی کرسی پر ۔ حمائل نے پہلی بار نوٹس کیا ۔” وہ میرا بھائی ۔۔۔” وہ زو زور رسے کھانستی رہی ۔
“میرے نوٹس میں آئے بغیر تم نے میری بہت سی چیزیں ہتھیا لیں منزہ علی ! وہ جلنے لگی ۔ کھانستے کھانستے اس نے ابو جی کا ہاتھ اپنی کمر سے جھٹک دیااور ڈائیننگ روم سے نکل گئی ۔
کمرے کے اندر جا کر وہ بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی ۔ اس کی آنکھوں سے آگ نکل رہی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں لیکن ان میں مسلسل جلن ہوتی رہی ۔ جلدی سے واش روم جا کر اس نے آئینے میں دیکھا تھا ۔ اس کی آنکھیں خون ہوررہی تھیں ۔اس نے پانی سے بھری بالٹی اٹھا کر اپنے سر پرپانی ڈال دیا۔ وہ کپڑوں سمیت سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ چکی تھی ۔ وہ واش روم سے نکل آئی ۔ اس کے گیلے لباس سے پانی رستا ہوا فرش پہ بچھے قالین میں جذب ہوتا گیا ۔
” کیا ہوا حمائل بیٹا ؟ آر یو اوکے ؟” امی جی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑی فکر مندی سے اس کے گال کو چھوا ۔
” مجھے ۔۔۔گرمی لگ رہی ہے امی جی!” اس نے بڑی حسرت سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
” نہیں بیٹا ! تمہیں سردی لگ رہی ہے ۔ انہوں نے دیکھا وہ کپکپا رہی تھی ۔
” تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ تم آج یونیورسٹی مت جاؤ۔ انہوں نے اس کی پیشانی کو آرام سے چھوا ۔
” جاؤ۔جا کر کپڑے بدل لو۔” وہ ڈریسنگ روم کے اندر کپڑے بدلنے چلی گئی ۔
کپڑے بدل کر جب وہ نکلی تو امی دودھ کا گلاس پکڑ ے کھڑی تھیں ۔
” امی جی !ڈونٹ گو پلیز۔ اس کو لٹا کر جب وہ جانے لگیں تو اس نے التجا کی ۔
” بیٹا ! منزہ کیلئے یہ ایک امپارٹنٹ دن ہے ۔ مجھے جانا پڑے گا”
انہوں نے اس کا ماتھا چوم کر اسے سمجھایا ۔
” امی جی پلیز !”
” میں جلدی آجاؤں گی ۔ ربیعہ سے کہتی ہوں وہ تمھارا خیا ل رکھے گی ۔” حمائل کو اپنے ہاتھ سے ایک اور رشتہ چھنتا ہوا محسوس ہوا ۔ اس کی آنکھیں گر م گرم آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا اور بلکنے لگی۔ میری امی ۔۔۔ میرے ابو ۔۔۔ منزہ علی چھین لے گی ان کو مجھ سے ۔۔۔” وہ زور زور سے روتی گئی اور میں اکیلی رہ جاؤں گی۔ ایسے ہی جیسے آج اکیلا چھوڑ دیا مجھے۔۔” اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ دوڑ کرکھڑکی کے پا س آگئی اور کھڑکی پر پڑے پردے سرک کر وہ کھڑکی کے بند پٹ کھولنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بڑے ابا کے چالیسویں کے دوسرے دن پھوپھی جی واپس ملتان چلی گئیں ۔ان کے جاتے ہی بڑی ماں رونے لگی تھیں۔
” اب ایک بھی اپنی نگاہوں سے ہٹتا ہے تو دل بند ہونے لگتا ہے میرا ۔” انہوں نے دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھے ۔
” کل صابرہ واپس فیصل آباد چلی جائے گی ۔” ان کا دل گھبرانے لگا ۔
” صالحہ بھی جانے کی ضد کررہی ہے ۔بہت کہا ایک مہینہ اور رہ کر جاؤ لیکن اسے فردوس کے بچوں کی فکر رہتی ہے ۔” وہ پنکھا جھلنے لگیں۔ گھر خالی ہو جانے کا خیال انہیں ڈرا دیتا تھا ۔ پہلے جو پورے گھر کا انتظام سنبھالتی تھیں اب تو ایک بھی کام میں دل نہیں لگتا تھا ۔ اکیلے رہنے سے خوف کھاتی تھیں اس لیے ہر وقت کسی نہ کسی کو اپنے پاس بٹھائے رکھتیں ۔
” مجھے یقین نہیں آتا ابا کی موت نے اماں کو اتنا بد ل دیا ہے ۔” وہ خلاء کو تکتارہا ۔
” حادثات انسان کو بد ل دیتے ہیں ۔” چاند کی مدھم روشنی میں اس نے اپنی نگاہیں اصغر کے چہرے پر مرکوزرکھتے ہوئے کہا ۔
” پر میری ماں کمزور تو نہیں تھی ” اس کے لہجے میں ملال تھا ۔
” حادثات مضبوط انسانوں کو بھی بدل دیتے ہیں ۔ کمزور تو کبھی بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ” اس کے لہجے میں اعتماد تھا ۔ اصغر نے پہلی بار اس کی طرف دیکھا ۔ وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھی ا س کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
” ان سارے حالات میں اگر تم میرے ساتھ نہ ہوتیں ناں توجانتی ہو کیا ہوتا ؟ ” وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لا کر بولا ۔
” کیا ہوتا؟”
” میں اس کھڑکی کے کانچ کی طرح ٹوٹ جاتا ۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جس کاکانچ پچھلی رات آندھی میں ٹوٹ گیا تھا ۔
” یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ وہ گھبرا کر دورہٹی ۔
” ہاں دینا ! میں ٹوٹ کر بکھر جاتا اور مجھے کوئی سمیٹنے والا نہ ہوتا ۔” اس کے لہجے میں بے بسی تھی ۔
” دینا !تم نے بالکل اس طرح سمیٹا ہے جس طرح تم نے آج صبح اس ٹوٹے ہوئے کانچ کو سمیٹا تھا اور تمہارے اپنے ہاتھ زخمی ہوگئے ۔ ” اصغر نے دینا کی پٹیوں میں بند ھی ہوئی انگلیوں کواپنی آنکھوں کے قریب کر لیا ۔
” ہر کوئی میرے گلے لگ کر رویا ہے لیکن میں کس کے گلے لگ کر روؤں؟ اس کی آوازآنسوؤں میں بھیگ گئی ۔ “سب سے بڑا پہاڑ تو مجھ پر ٹوٹا ہے ۔ کندھے تو میرے بھاری ہوگئے ۔” لیکن میں نہ روسکا۔۔۔ اماں کے سامنے کیا روتا ؟ عرینہ کے سامنے کیسے آنسو بہاتا ؟” وہ اب بلک بلک کے رونے لگاتھا ۔
” اپنے باپ کی موت کے بیالیسویں دن تم ان کی یاد میں نہیں رورہے، بلکہ ان ذمہ داریوں کے بوجھ سے خوف زدہ ہو کے رو رہے ہو جو تمہارے کندھوں پر آن پڑی ہیں۔” وہ اصغر کے روتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر سوچتی رہی ۔
” تم میرے ساتھ ہوتی ہو تو مجھے مضبوطی کا احساس ہوتا ہے دینا !تم وعدہ کرو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی ۔” وہ اپنے آنسو پونچھ کر بولا۔ ایک لمحے کے لیے دینا کو لگا جیسے اس کے سامنے بیٹھا ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتا وہ اصغر حمید نہیں بلکہ تین چار سال کا کوئی بگڑا ہو ا بچہ ہے جوایک لاحاصل چیز کو پانے کی ضدکررہا ہے ۔
” میں تو ہمیشہ سے تمہارے ساتھ تھی ۔ ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں ۔ لیکن آنے والے وقت کا کیا بھروسہ؟ میں تمہیں مستقبل کا وعدہ کیسے دوں ؟” دینا نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ۔ اصغر نے نگاہ اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا ۔
” تم مجھ سے وعدہ نہیں کرو گی ؟ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ چاند کی مدھم روشنی میں دینا نے اس کے گال پر بہتی آنسوؤں کی لڑیاں دیکھ لیں ۔ اُسے اب اصغر پر بہت ترس آ رہا تھا ۔
” نہیں کر سکتی” ۔ اس کا انداز عجیب تھا ۔
” محبت کرتا ہوں میں تم سے ۔۔۔۔” اس کے انداز میں بے بسی تھی ۔
” اشفاق احمد نے کہا ہے ۔،محبت تو یہ ہے کہ کوئی احساس دلائے بنا آپ کے درد کو سمیٹ لے ۔ آپ کی کمزوریوں کو ڈھانپ لے ۔ اس میں کوئی وعدے ہوں نہ انتظار۔ اس میں کچھ طلب کرنے کی نوبت نہ آئے وگرنہ محض رابطے میں رہنا، گفتگو ہے محبت نہیں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” تم اشفاق احمد کو پڑھتی ہو ۔؟” وہ اپنے آستین سے آنسو پونچھتے ہوئے مسکرایا ۔
” دنیا میں عورت کی ذہنیت کو سمجھنے والے بہت کم مرد ہوتے ہیں ۔ ” وہ سمجھ داری سے بولی ۔
” میں بھی ان کم مردوں میں سے ایک ہو سکتا ہوں دینا سعید ! میرے بارے میں سنجیدگی سے سوچ لو ۔ ” اس کے لہجے میں شرارت تھی ۔ وہ بنا کچھ کہے مسکرائی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
واپس آتے ہی وہ سیدھا حمائل کو دیکھنے گئی تھیں لیکن وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی شایدسورہی تھی ۔ انہوں نے اس کے گال کا بوسہ لیا اور تھوڑی دیر تک اس کے چہرے کو تکتے رہنے کے بعد وہ بڑی خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔ان کے جاتے ہی حمائل نے اپنی آنکھیں کھول دیں ۔فی الحال وہ ان سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
چار بجے تیار ہو کر وہ اکیڈمی کے لیے نکل گئی ۔ اسے اپنا آپ بہت ہی بے بس محسوس ہو رہاتھا راستے میں کئی بار اس کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ ہر بار اس نے جبراً اپنے آنسوؤں کو روکے رکھا ۔ سررکھنے کو اگر کوئی کندھا نہیں تھا تو پھر رو نے کا کیا فائدہ ۔؟
چھے بجے جب وہ اکیڈمی سے نکلی تو اسے اپنی گاڑی کے پاس صبار کھڑا نظرآیا ۔
” ایس بی ؟ تو یہاں؟” وہ بہت خوش ہو گئی تھی ۔ اسے تو جیسے اجنبیوں کے ہجوم میں کوئی اپنا نظر آیاہو ۔
” ہاں میڈم ! میں یہاں۔۔۔۔ ناراض ہوں تجھ سے ۔” صبار کے انداز میں مصنوعی ناراضی تھی۔
” کیوں ؟ کیاہوا ؟ وہ اپنے پرس سے بوتل نکا ل کر پانی پینے لگی۔
” وجہ تو تم خود معلوم کرلو ۔”
” وہ تو میں کرلوں گی لیکن یہاں کھڑ ے کھڑے نہیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔”
” تو اپنے ڈرائیور کو رخصت کرلے ۔ ہم واک کر کے چلے جائیں گے ۔”
” اچھا ۔” ڈرائیور کو رخصت کر کے وہ صبار کے ساتھ پیدل چلنے لگی ۔
” تو نے پوچھانہیں میں کیوں ناراض ہوں ۔”
تو خود ہی بتا دے ۔” اس کے اندازمیں بے نیازی تھی ۔
” تو میرا میچ دیکھنے بھی نہیں آئی ۔ پھر مجھے congratulate بھی نہیں کیا ۔”
” تُو ۔ تُو جیت گیا ؟اوہ congratulation۔۔۔ ”
” یہ تو میں تب تک acceptنہیں کروں گا جب تک تو مجھے نہ آنے کی وجہ نہیں بتائے گی ۔”وہ دونوں چلتے چلتے ایک پارک کے پاس آکر رک گئے ۔
” تھوڑی دیر یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔” حمائل نے بات بد ل دی ۔ اس کے پاس صبارکو بتانے کے لیے کوئی وجہ نہیں تھی ۔وہ اسے کیا بتاتی کہ اس کے ذہن میں اتنی باتیں ہوتی ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتی ۔
” ماہی !وہاٹ ہیپنڈ ؟” پار ک میں بینچ پر بیٹھتے ہوئے صبار نے تشویش ناک انداز میں حمائل سے پوچھا۔
” Nothing ” وہ نظریں چُرانے لگی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صبار اس کی پریشانی کے بارے میں جان لے یا پھر اسے یہ پتا چلے کہ وہ صُبح سے روتی رہی ہے ۔
” ماہی !ٹیل می۔۔ آئی ایم یور فرینڈ ۔” وہ فکر مند تھا ۔ حمائل دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
Mahi! what’s bothering you ?” “وہ حمائل کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ، وہ جو خود کے ٹوٹے ہوئے، بکھر ے ہوئے وجود کو سمیٹنے میں مصروف تھی ۔
” Mahi! I am asking you ” اس نے حمائل کی آنکھوں میں دیکھا ۔
” تو مجھے اپ سیٹ لگ رہی ہے ۔”
” Listen !S.B There is noting ۔۔۔. I am completely alright ” اس نے بڑی مشکل سے بولنے کی کوشش کی ۔
” آر یو شور؟” اسے یقین تھا وہ کچھ چھپا رہی ہے ۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ وہ رونے لگی ۔ آنسوؤں نے اسے کوئی جھوٹا بہانہ تراشنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا ۔
” او گاڈ! تو رو کیوں رہی ہے ؟” وہ گھبرا گیا ۔ حمائل اشکوں سے ہار مان کر خاموشی سے روتی رہی۔ وہ اسے فکر مندی اور تشویش سے دیکھتا رہا ۔ اس نے حمائل کو ٹینس کھیلتے دیکھا تھا ۔ اس کو annual singing competetion میں گاتے بھی دیکھا تھا ۔ بچپن میں کئی بار وہ اس کے ساتھ ڈانس بھی کرچکی تھی لیکن صبارنے حمائل کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھاتھا ۔اور اب جب وہ رہ رہی تھی اور اس کے گا ل پر اشکوں کی لڑی پھسلی اور ٹھوڑی تک پھسلتی گئی تو صبار کو یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں سے موتی گر رہے ہوں یا پھر گلاب کی پنکھڑی سے شبنم کے قطرے پھسل کر زمین میں جذب ہورہے ہوں ۔ اس کا دل چاہا وہ ان قطروں کو اپنی انگلیوں میں جذب کر لے ۔ کچھ دلفریب سا ، کچھ میٹھا سا احساس ہورہا تھا اسے۔ اچانک اسے لگا کہ وہ حمائل سے محبت کرنے لگا ہے ۔
” آئی ایم سوری ۔” وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی ۔ صبار چونک گیا ۔
” یہ سب کیا تھا ؟” وہ مسکرایا ۔
” کچھ نہیں بس تجھے بہت ٹائم بعد دیکھا ناں تو تھوڑی ایموشنل ہو گئی ۔” اس نے بہانہ بنایا تو صبار کا دل چاہا وہ حمائل کو اس میٹھے سے احساس کیلئے ” تھینک یو” کہہ دے لیکن فی الوقت خاموش رہنا بہتر تھا ۔
” اوہ ۔۔۔ تو تو مجھے دیکھ کے ایموشنل ہو گئی ؟”چل اب چلتے ہیں ۔
“باقی آنسو راستے میں بہا لینا ۔” وہ اسے چھیڑرہا تھا ۔ حمائل بینچ سے اٹھی اور صبار کے پیچھے پارک سے نکل گئی۔
” دل تو چاہتا ہے تو یوں ہی میرے ساتھ چلتی جائے ۔راستہ کٹتا جائے پرمنزل نہ آئے ۔” صبار نے کسی گہری سوچ میں گم حمائل کو دیکھا ۔ شام گہری ہورہی تھی اور اسے پہلے حمائل کو گھر پہنچانا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کے آٹھ بج رہے تھے ۔ وہ بڑے ہاتھ میں تھامے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ۔ اصغر کو صبح سے زکام تھا اور وہ بخار میں تپ رہا تھا ۔
آپ کی گرم گرم یخنی تیا ر ہے ۔” اس نے پتنوس میز پر رکھ دیا ۔ ” اٹھ جائیے ۔
” جناب ! اس نے خوش دلی سے کہا ۔ اصغر آنکھیں بند کیے خاموش رہا ۔” اور یہ کیا ؟ نہ کھڑکیاں کھلی ہیں ۔ نہ بلب روشن ہے ایسے میں تو آپ کی طبیعت اور خراب ہو جائے گی ۔دینا نے دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا صرف چاند کی مدھم سی روشنی دروازے کے ذریعے کمرے میں جھانک رہی تھی ۔ اس نے بڑھ کر کھڑکیوں پر پڑے پردے سرکا دیے ۔
” اٹھ بھی جائیں اب ۔ یخنی ٹھنڈی ہو جائے گی ۔ ” اصغر کی پلنگ کے پاس وہ آ کر اس کے سرہانے کھڑی ہو گئی ۔
” نہیں پینی میں نے یخنی دل نہیں کررہا ۔ ” وہ مرجھائی سی آواز میں بولا
” دماغ کا مقام دل سے اونچا ہوتا ہے ۔ وہ کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی ۔
” تمہاری باتیں میر ی سمجھ سے بالا تر ہیں ۔” اس نے آنکھیں کھو ل دیں ۔
” دماغ والوں کی باتیں دل والوں کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔
” ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر لیٹ گیا ۔
” کیوں کہ اس کا کوئی دماغ نہیں ہوتا ۔”
” میرے پاس دماغ ہیں ۔” اس کے لہجے میں ضد تھی ۔
” ثابت کردیں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” کیسے ؟ وہ جھنجلایا ۔
” یخنی پی کر ۔۔۔ ” وہ فیصلہ کن انداز میں بولی ۔
” تم بہت چالاک ہو ۔” وہ بے بس ہو گیا ۔
” نہیں ۔۔ دماغ والی ہوں ۔” وہ مسکرائی اور اصغر کو اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دینے لگی ۔ وہ بیٹھ کر یخنی پینے لگا اور قدرے ناراضگی سے دینا کو دیکھتا رہا ۔
” آپ اور عرینہ میں یہی ایک مسئلہ ہے ۔”
” کیا ؟ ” وہ یخنی پیتے پیتے رک گیا اور نہ سمجھنے والے انداز میں دینا کو دیکھنے لگا ۔
” دماغ کی بجائے دل سے سوچتے ہو ۔”
” اور تمہارے لیے دماغ سے سوچنے لگتے ہیں ۔ ” اس نے جتایا ۔
” چھٹی کتنی ہے ؟ وہ بات بد ل کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” دو مہینے ۔۔۔ ” اس کا جواب مختصر تھا ۔
” ان دو مہینوں میں دماغ سے سوچنے کی مشق کرلیں ۔”
” اور اگر اتنے عرص میں تمہیں دل والا بنا دیا تو۔۔۔؟
” ایسا ممکن نہیں۔۔۔ ” وہ پر اعتماد انداز میں بولی ۔
” میں ممکن کردوں گا ۔ ” وہ فیصلہ کن انداز میں بولا اور خاموشی سے یخنی پینے لگا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام کو لاؤنج میں بیٹھی وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب اس نے شہروز بھائی کی آواز سنی۔
” یہ لو پینٹنگ ٹرے ۔ میں تمہارے لیے لایا ہوں ۔” اس کی آواز حمائل اور منزہ کے مشترکہ کمرے کی طرف سے آرہی تھی ۔
” تھینک یو سو مچ۔” یہ آواز منزہ کی تھی ۔
حمائل ایک جھٹکے سے صوفے پر سے اٹھی ۔ ٹی وی آف کیے بغیر وہ اپنے والدین کے کمرے کی طرف گئی ۔ ایک خیال تھا جو کئی دنوں سے اس کے ذہن میں گردش کررہاتھا اور ابھی وہ امی جی سے اس بارے میں بات کرنے آئی تھی ۔
” Ammi Ji! I need to talk to you۔۔۔ ” وہ ان کے کمرے کے دروازے میں کھڑی رہی ۔ وہ کسی سے فو ن پر بات کررہی تھیں ۔ اس لیے انہوں نے اشارے سے حمائل کو اندر آ کر انتظار کرنے کا کہا۔
” Ammi Ji! Its urgent۔۔۔ ” وہ منہ پھلا کر ایزی چئیر پر بیٹھ کر جھولنے لگی ۔
” اوکے ۔ مسز زاہد ! آئی وِل ٹاک ٹو یو لیٹر ۔” وہ فون بند کرتے ہوئے بولیں ۔
” یس ڈارلنگ !”فون بند ہوتے ہی وہ حمائل کے پاس آگئیں۔
” بھائی کی شادی کروا دیں ۔” وہ سیدھا اپنی بات پر آگئی ۔
” وہاٹ ؟ ڈو یو مین اٹ ؟” وہ بھنویں اچکا کر سوالیہ اندا میں حمائل کو دیکھنے لگیں ۔
” یس ۔ آئی مین اٹ۔”
” تم یہ بات کرنے آئی ہو ؟ ” انہیں اب بھی حمائل کی بات کا یقین نہیں آیا تھا ۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو اتنا تو ضرور سمجھتی تھیں کہ وہ خود پرست لڑکی اپنے سوا کسی کے بارے میں نہیں سوچتی تھی لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ حمائل کو اب اپنے رشتوں کے کھو جانے کا ڈر تھا اس لیے وہ اب اپنے ساتھ ساتھ اوروں کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی ۔
” یس ماں ! میں یہی بات کرنے آئی ہوں ۔ اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے ؟ ” وہ جھنجھلائی۔
” تم نے کوئی لڑکی پسند کی ہے کیا ؟”
” آئی تھنک ایف از دی بیسٹ۔”
” وہاٹ ؟ ایف؟” وہ نہ سمجھتے ہوئے بولیں ۔
” فار گاڈ سیک امی جی! آئی مین افصہ ۔”
” اوہ!!! ۔۔وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں ۔
لیکن شہروز سے بھی تو پوچھنا ہے ناں ۔؟”
” آئی ایم شیور جو آپ پسند کریں گی وہی ان کی پسند ہو گی۔” وہ نہیں چاہتی تھی کہ امی شہروز بھائی سے بات کرلیں اور وہ منزہ کا نام لے لیں ۔
” ہاں ۔ I know لیکن۔۔۔” وہ جھجھکیں ۔
” امی جی ! آئی تھنک یو شوڈ ٹیک دی رسک ۔ ایند ٹرسٹ می ! بھائی آپ کی پسند کو ریجکٹ نہیں کریں گے ۔” اس نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔ وہ خاموشی سے حمائل کو دیکھتی رہیں ۔ ” بیلیو مِی ! سب ٹھیک ہو گا ۔ آپ ایک سٹیپ تو لیں ناں ۔ ” وہ ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔ آپ سوچیں ناں اس بارے میں ۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا ۔
” یس بیٹا ! میں سوچوں گی ۔” انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔
” تھینک یو سو مچ امی جی !” اس نے ان کاہاتھ چوما ۔ وہ جواباً مسکرائیں ۔ حمائل اٹھ کر با ہر جانے لگی ۔ کمرے کے دروازے میں کھڑی منزہ جلدی سے وہاں سے ہٹ گئی ۔ وہ خالہ سے شاید کچھ کہنے آئی تھی لیکن فی الحال اسے کچھ یاد نہیں رہا تھا ۔نہ جانے وہ کیوں بے چین سی ہو گئی تھی ؟وہ بڑی خاموشی سے اپنے کمرے کے اندر گئی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ برآمدے میں کرسی پر بیٹھا شام کی چائے پی رہا تھا ۔اس سے ذرا فاصلے پر چارپائی پر بیٹھی اماں تسبیح پڑھ رہی تھیں اور ان کے پاس بیٹھی چھوٹی ماں مرینہ کیلئے سوئیڑبن رہی تھیں ۔
” اے بلی !ادھر آ جاؤ ۔” اس نے باورچی خانے کی طرف جاتی مرینہ کو پکارا۔اس نے اصغر کی طرف دیکھا اور باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔
” جلدی آؤ۔ کوئی چیز دکھانی ہے تمہیں ۔” اس نے چائے کی پیالی خالی کر کے سامنے میز پر رکھ دی ۔ وہ بسکٹ کھاتے ہوئے باروچی خانے سے نکلی اور اصغر کے پاس والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔
” جی بتائیں اب ۔ کیا دکھانا ہے ؟ ایک پورا بسکٹ منہ میں ڈا لتے ہوئے وہ بولی ۔
” تم کھاتی بہت ہو ۔” اصغر نے اسے چھیڑا ۔
” مطلب کی بات کریں ۔” وہ بسکٹ کھاتے ہوئے بے نیازی سے بولی ۔
” اوہ ۔۔۔ تو اب تم صرف مطلب کی بات سنو گی؟
” جی ہاں ۔ میں فضول باتیں بالکل نہیں سنتی ۔ اس لیے آپ جلد ی سے دکھائیں ناں وہ چیز۔۔۔”
” اچھا ۔۔ تو پھر ۔۔” اصغر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔
” یہ رہی وہ چیز۔۔۔” اس کے ہاتھ میں گلابی رنگ کی ائیر رنگز کا ایک پیکٹ تھا ۔
” اوہ !ائیر رنگز۔۔۔” اس نے اچھل کر اصغر کے ہاتھ سے پیکٹ لے لیا ۔
” تھینک یو سو مچ۔” وہ پیکٹ کھولنے لگی ۔
” ویلکم ۔” وہ مسکرایا ۔
” آپ کو میں کیسے یاد رہی ؟”
” تم مجھے کیسے یاد نہ رہتیں ؟ اپنی پالتو بلیاں سب کو پیاری ہوتی ہیں ۔”
” صرف میرے لیے لائے ہیں ؟”
” ہاں ۔ کیوں کہ میں جانتا تھا یہ صرف تم پر اچھی لگیں گی ۔” اصغر نے کن اکھیوں سے دروازے میں کھڑی دینا کو دیکھ کر مسکرایاکر کہا ۔
” تم ایسی سیدھی سادی اچھی لگتی ہو، بلکہ سچ کہوں تو تم مجھے ہر روپ میں مکمل لگتی ہو۔ تمہاری ذات جس طرح مکمل اور بناوٹ سے پا ک ہے ، تمہارا روپ بھی ویسا ہی بناوٹوں اور سنگھار سے پاک لگتا ہے ۔ تم مضبوط ارادوں والی لڑکی ہو اور تم عارضی بناؤ سنگھار سے بے نیاز ہی اچھی لگتی ہو ۔” اصغر نے گندمی رنگت اور سوچتی سوچتی آنکھوں والی دینا کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں سراہا ۔
” یہ دیکھیں اماں ! کتنی پیاری بالیاں ہیں ۔” مرینہ خوشی خوشی اپنی بالیا ں اماں کو دکھانے لگی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی اپنا پسندیدہ سیریل دیکھ رہی تھیں، جب حمائل آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گئیں۔
” امی جی! آپ نے سوچا اس بارے میں ؟” حمائل نے ان کے کندھے پر بازو جما کر ان سے پوچھا ۔
” جی بیٹا !سوچ لیا ۔” ان کی توجہ سیرئیل سے ہٹ گئی ۔
” ویسے میں کہہ رہی تھی کہ اپنی منزہ کے بارے میں کیا خیال ہے” ؟ وہ پوری طرح حمائل کی طرف مڑ گئیں۔
” وہاٹ ؟” حمائل کی پیشانی پر شکنیں بن گئیں ۔وہ ایسا تو کچھ نہیں چاہتی تھی ۔ وہ تو اپنے بھائی کو منزہ علی سے بچانا چاہتی تھی ۔اس کیلئے تو یہ تصور کرنا بھی تکلیف دہ تھاکہ منزہ اس کی بھابھی بن کر اس کے اکلوتے بھائی کی محبتوں پر قبضہ جما کر بیٹھ جائے ۔
” کیوں ؟Isn’t she a perfect match ..??????— ”
ان کی اس بات سے حمائل کولگا جیسے ڈور اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہو ۔ اس نے خالی الذہنی کے عالم میں اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔
” وہ تو بالکل میری بیٹیوں جیسی ہے ۔” اپنی ماں کے منہ سے منزہ کی تعریف سن کر جیسے حمائل کے تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی تھی ۔
” لیکن امی جی !بیٹیاں جب بہوئیں بن جاتی ہیں تو پتا ہے کیا ہوتا ہے ؟” وہ صوفے پر سے اٹھی۔
” منزہ کو بہو بنانے سے پہلے آپ کو یہ سب معلوم ہونا چاہیے ۔ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے اور اس کو اپنے کسی غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھا کر آپ اپنا نقصان کر بیٹھیں گی۔ “یہ کہتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی سمت گئی تھی ۔ “کیوں سن لیتی ہوں میں یہ باتیں ؟” کچن کے دروازے میں سہمی سی کھڑی منزہ نے بے بسی سے سوچا ۔ “بہت اچھاانسان ہے وہ لیکن حمائل ! مجھے تمہارے بھائی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔” اس نے وہیں کھڑے کھڑے سوچا ۔” وہ چاہے مجھے توجہ دے ، اہمیت دے لیکن میرے پاس اس کو دینے کے لیے کچھ نہیں کیوں کہ میرے پاس سوچنے اور فکر کرنے کے لیے اور بھی بہت سی باتیں ہیں ۔ وہ فریج کے پاس آگئی ۔ “نہ جانے تم کیوں مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو ؟ میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ میری منزل تمہارا بھائی نہیں ۔ ” فریج سے پانی کی ایک بوتل نکا ل کر وہ کھڑے کھڑے ہی کئی گھونٹ پی گئی ۔” میری شاید کوئی منزل ہی نہیں ۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام گہری ہورہی تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔وہ آم کے پیڑ کے نیچے بچھی ہوئی چارپائی پر سمٹی ہوئی بیٹھی تھی ۔اس کے پاس ہی گود میں تکیہ رکھے اصغر بیٹھا تھا ۔
” پرسوں جانا ہے آپ نے ؟ وہ دھیرے سے بولی ۔ اصغر کو لگا وہ اس سے سوال نہیں پوچھ رہی بلکہ اسے یاد دلا رہی ہے ۔
” میں جانا نہیں چاہتا ۔” وہ بچوں کی طرح بولا ۔
” چاہتے تو ہم بہت کچھ نہیں لیکن پھر بھی ہم وہ کام کرتے ہیں ۔”
” تم حالات کو سمجھ کر ان کے مطابق ڈھلناجانتی ہو ۔ مجھ میں یہ خوبی نہیں ۔”
” ہونی چاہیے ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” میں تمہاری طرح دماغ سے نہیں سوچ سکتا ۔ میں ایک مضبوط دل والا انسان ہوں ۔
” آپ مرد ہیں اور مرد کو اپنے رشتوں کی خاطر مضبوط بننا پڑتا ہے۔” وہ اس کو سمجھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔
” اس لیے تو میں جانا نہیں چاہتا ۔ ” وہ تکیے پر اپنے بازو جما کے بولا ۔
” وقتی آرام و سکون کیلئے آپ اپنے مستقبل کو خراب نہیں کریں گے ۔”
تم تو حال میں جیتی ہو ۔ نہیں ؟” و ہ طنز کرنے لگا ۔ نہ جانے کیوں کبھی کبھی اس کا دل کرتا وہ ہر کسی کو لاجواب کرنے والی دینا کو لاجواب کردے اور آج تو وہ اسے لاجواب کر کے اسی کے پاس رہنا چاہتا تھا ۔
” میں اپنی نہیں آپ کی بات کررہی ہوں ۔”
” تمہارے اصول میرے لیے بدل کیوں جاتے ہیں ؟” وہ بے بس ہو گیا ۔
” کیوں کہ آپ مرد ہیں ۔” دینا کی اس بات سے وہ واقعی لاجواب تھا ۔ وہ خاموشی سے اسے تکتا رہا ۔ وہ دینا کے سامنے بے بس تھا۔ وہ ہر بار اس کی باتوں کو نہ چا ہ کر بھی مان لیتاتھا۔ کیوں کہ وہ دلائل ہی ایسے پیش کرتی تھی ۔وہ دماغ سے سوچتی تھی اور اصغر حمید ہمیشہ دل کی سنتا تھا۔ جذبات کو پوجتا تھا اور دل تو بنا دلیل کے ضدکرتا تھا ۔اسے تنگ کرتا تھا ، بے چین کرتا تھا اس لیے وہ دینا کے سامنے ہمیشہ لا جواب ہو جایا کرتا تھا ۔
” دینا !میں تمہارے بغیر ٹوٹ کر بکھر جایا کرتا ہوں ۔ تمہیں پتا ہے تمہاری باتیں مجھ میں عجیب توانائی بھر دیتی ہیں ۔ ” اس نے دینا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دیوانگی سے کہا ۔
” میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں ۔ تم سے تو کوئی بھی محبت کرنے لگے گا ۔ تم الگ ہو دینا ! بہت الگ ہو ۔ ” دینا حیرت سے اصغر کو تکتی رہی ۔ اس نے اصغر کو کبھی اپنے احساسات کی اتنی کھل کر ترجمانی کرتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
” کاش میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ۔” اس کے لہجے میں حسرت تھی ۔
” تمہارے ساتھ ہونے سے مجھے مضبوطی کا احساس ہوتا ہے دینا ! تم نہ ہوتیں تو میں ابا کی موت اور اماں کی یہ حالت دیکھ کر کبھی جی نہ پاتا۔” وہ اب اس لڑکی کے سامنے بڑی آزادی سے اپنی کمزوریوں کا اظہار کررہا تھا ۔ جس کو تھوڑی دیر پہلے وہ لاجواب کرنے کے درپے تھا ۔
” اندر چلیں ۔ بارش شروع ہو گئی ۔ ” دینا چارپائی پر سے اٹھی ۔
” میرے ساتھ بھیگ جاؤ۔ ” وہ اس کا بازو پکر کر بولا ۔
دینا اند ر نہ جاسکی ۔ وہ وہیں پہ کھڑی اصغر حمید کے ساتھ بارش میں بھیگتی رہی ۔ نجانے کب اس کے بھیگے بال اس کے چہرے پر آگئے تھے اور اصغر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر وہ بال اس کے کان کے پیچھے کر دئیے ۔ اپنے گال پر اس کا لمس محسوس کر تے ہی وہ بنا مڑے اند ر کی طرف بھاگی تھی ۔ کافی دیر تک وہ کمرے میں جانے کے بہ جائے برآمدے میں کھڑی رہی ۔ اس کا خاموش دل بولنے لگا تھا اور وہ اسے خاموش کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔کیوں کہ وہ دل کی نہیں دماغ کی باتوں پر یقین رکھتی تھی ۔ وہ جانتی تھی اس کا دماغ جو بولتا ہے وہ درست ہوتا ہے ۔
اگلے دن صبح کے دس بجے لیزا عرینہ سے ملنے آئی تھی ۔ لیزا کے ساتھ دعا سلام کے بعد دینا چائے کا بندوبست کرنے باورچی خانے کی سمت چلی گئی ۔ یہ مرینہ بھی بڑی تیز ہے ۔ابھی تو بڑی خاموش بیٹھی لیزا کی باتیں سُن رہی ہے لیکن جب وہ جائے گی تو یہ اس کی نقلیں اتارے گی ۔ ” وہ چائے میں دودھ ڈالتے ہوئے مسکرائی ۔
” میرے بارے میں سوچ سوچ کرمُسکرا رہی ہو ؟” باورچی خانے کے اندر آکر وہ اس کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
” آ پ سوچنے ہی کب دیتے ہیں ؟ وہ ٹرے میں پیالیاں رکھنے لگی ۔
” کیوں؟” وہ دینا کے ہاتھ سے بسکٹ کاڈبہ لے کر کھولنے لگا ۔
” ہر وقت حاضر جو ہوتے ہیں میری خدمت میں ۔” وہ تھرماس میں چائے ڈالنے لگی ۔
” چلا جاؤں گا کل ۔” اس نے بسکٹ کھاتے ہوئے دینا کو یاد دلایا۔ ”
” وہ کل دیکھا جائے گا لیکن فی الحال آپ یہ بسکٹ ختم نہ کریں ۔ یہ آپ کے لیے نہیں ہیں ۔” اس نے بسکٹ کا ڈبہ واپس اصغر کے ہاتھ سے لیا اور پلیٹ میں بسکٹ رکھنے لگی۔
” تم اتنی سخت دل کیوں ہو ؟ وہ ٹرے میں تھرماس رکھ کر جانے لگی تو اس کا ہاتھ تھام کر بولا ۔
” نہیں ۔ میر ادل سخت نہیں بلکہ خاموش ہے ۔ جیسے آپ کا دماغ ۔۔۔۔ ” اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔
” You mean میرا دماغ کا م نہیں کرتا؟” اس کے چہرے پر ناراضی سی چھا گئی ۔
” میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ۔” وہ دیکھ کر مسکرائی اور اپنا ہاتھ چھڑا کر باہرجانے لگی ۔
میرا دل بھی کام کرنا چھوڑ دے گا اگر ایسے ہی تمہارے دماغ کی سنتا رہا تو ۔۔۔۔” اصغر نے پیچھے سے پکارا تو وہ مڑ کر اس کو دیکھنے لگی ۔
” محبت دل کو مرنے نہیں دیتی ۔” وہ جانے کو مڑی۔
” مطلب میر ادل ہمیشہ زندہ رہے گا؟” وہ جلدی سے اس کے پاس آیا ۔
” آپ کی محبت پہ منحصر ہے ۔” وہ دروازے سے نکل گئی ۔ اصغر دیوار سے ٹیک لگا کر کافی دیر تک اپنے ذہن میں گڈ مڈ ہوتی دینا کی باتوں کو ترتیب دیتارہا ۔ وہ لڑکی کتنی عجیب تھی ۔ اس کی ہر بات کو اتنا سمجھتی تھی کہ کبھی کبھی اصغر کو وہ اپنے وجود کا حصہ لگتی ۔۔۔؟
ہال کے اند ر جا کر اس نے پتنوس میز پر رکھ دیا اور باہر نکل آئی ۔ تھوڑی دیر بڑی ماں کے ساتھ برآمدے میں بیٹھ کر وہ اپنے کمرے کی سمت چلی گئی ۔
” کل وہ چلا جائے گا ۔” وہ پلنگ پر بیٹھ گئی ۔ وہ بے چین ہونے لگی ۔ پلنگ سے اٹھ کر اس نے میزپر سے مرینہ کی ڈائری اٹھا لی۔ بھورے کلر کی اس ڈائری میں وہ اکثر کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی لیکن وہ کیا لکھتی ہے ؟” یہ جاننے کی دینا نے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔
ڈائری کھول کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی ۔اپنی بے چینی کم کرنے کیلئے وہ ڈائری پڑھنے لگی ۔ ڈائری کے شروع میں چند صفحات پر مرینہ کے پسندیدہ اشعار تحریر تھے ۔ وہ ورق پلٹنے لگی ۔ اگلے چند صفحات پرمرینہ نے مختلف ناولوں میں سے چن چن کے اپنے پسندیدہ ڈائیلاگز اور اقتباسات لکھے تھے ۔
” غم کسی مخصوص جگہ پر جاکر اور بیٹھ کر تھوڑا ہی ہوتا ہے ۔ جو غم ہمارے اپنے ہوتے ہیں وہ ہم سب سے الگ ہو کر چپ چاپ ہی منانا چاہتے ہیں ۔(دستک نہ دو)” دینا نے جلدی سے ورق پلٹا۔
” آج تو حد کر دی عرینہ بجیا نے ۔ ہم بڑی ماں اور دینا بجیا کے لیے جوتے خریدنے گئے تھے لیکن عرینہ بجیا نے تو وہاں میدان جنگ کھول دیا ۔پہلے تو رکشے والے سے دس روپے کی خاطر اتنی بحث کی کہ میں ان کی اس چڑیل دوست لیزا کے سامنے شرم سے پانی پانی ہورہی تھی لیکن خود تووہ شاید شرم نامی چیز جانتی ہی نہیں، اس لیے اس بے چارے رکشے والے پہ چوری کا الزام لگا کے اس کو پٹوا دیا ۔ لیکن اس سے بھی انہیں چین نہیں ملا تبھی تو انہوں نے جوتوں کی دکان سے دینا بجیاکیلئے گلابی جوتے چرا لیے ۔ مجھے تو لگ رہا تھا، دینا بجیا کبھی نہ کبھی جان ہی جائیں گی ۔ وہ اتنی سمجھ دار جو ہیں ۔” دینا حیر ت سے سمند ر میں غوطے لگاتی رہی ۔ اس نے جلدی سے ورق پلٹا ۔
” لیکن بنا ڈبے کے جوتے دیکھ کر بھی وہ نہیں سمجھیں ۔ عجیب بات ہے کبھی کبھی یہ بہت عقل مند لوگ بھی بے وقوف بن جاتے ہیں اور وہ بھی عرینہ بجیا کے ہاتھوں ۔۔۔۔ ” دینا کو سخت غصہ آیاہوا تھا ۔ دوپٹے کے پلوسے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ خشک کر کے وہ مزید پڑھنے لگی ۔
” جب میں نے عرینہ بجیا سے پوچھا کہ بڑی ماں کے لیے جوتے نہیں لیے تو انہوں نے شرط لگا لی کہ اسی دکان سے ان کے لیے بھی جوتے چرائیں گی ۔ مجھے تو حیرت ہو رہی ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا ؟وہ دکان والا تو ہمیں دکان سے باہر پھینک دے گا اگر اس نے ہمیں پہچان لیا تو ۔ بلکہ شاید پولیس کے حوالے کر دے ۔ دیکھوں کیا ہوتا ہے ۔؟” دینا کادل چاہا کہ وہ اسی وقت جا کر عرینہ کو اتنا مارے ، اتنا مارے کہ اس کی ہڈیاں دکھنے لگیں لیکن فی الحال و ہ ایسا کچھ نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ عرینہ لیزا کے ساتھ بیٹھی کسی فضول سے موضوع پر بات کر رہی تھی ۔
” چوری کے جوتے لا کے دیے مجھے ۔ حیرت ہے ۔ مرینہ ٹھیک کہتی ہے میں بھی بے وقوف ہوں۔ اتنا بھی پتا نہیں چلا ۔” وہ بڑبڑائی ۔ اس نے بے دھیانی میں صفحہ پلٹا ۔
” کل وہ چلے جائیں گے ۔ نہ جانے پھر واپس کب آئیں ؟ ان کے جانے کاسوچتی ہوں تو اداس ہو جاتی ہوں لیکن مجھے یقین ہے وہ چاہے کتنا بھی عرصہ باہر رہیں ۔ مجھے یاد رکھیں گے ۔ اب دیکھو تو میرے لیے اتنی پیاری ائیر رنگز لائے ہیں حالاں کہ میں نے ان سے کبھی ایسی کوئی فرمائش نہیں کی۔کہہ رہے تھے ، میں جانتا تھا صرف تم پر اچھی لگیں گی ۔مجھے لگتا ہے میں انہیں پسند کرنے لگی ہوں ۔شاید محبت کرنے لگی ہوں ۔ ورنہ ان کے بارے میں سوچ میں کیوں مسکرائی ؟”وہ بہت کم گو سے ہیں ۔” کسی کے ساتھ زیادہ بولتے نہیں لیکن میرے ساتھ تو بہت باتیں کرتے ہیں اب دیکھو تو ائیر رنگز بھی لیں تو صرف میرے لیے ۔۔۔۔” دینا کے ہاتھ سے ڈائری گر گئی ۔ ” میرے خدا!!!” اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ وہ کرسی پر سے اٹھ گئی لیکن اسے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ وہ نڈھال سی واپس کرسی پر بیٹھ گئی ۔
” یہ کوئی خواب تو نہیں ہے ؟” اس نے اپنے گال کو چھوا ۔ یہ۔۔۔کیا ہوگیا ؟کیسے ہو گیا ؟” اس نے خالی سی نگاہوں سے کمرے کو دیکھا ۔” میں حال میں جیتی ہوں۔ مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہوتی ہوں تو پھر مجھے یہ تکلیف کیوں ہورہی ہے ؟ “اس نے زور سے آنکھیں بھینچ لیں ۔” میر ا دل اگر خاموش ہے تو مطلب یہ ہے کہ میں احساسات سے ماورا ء ہوں ۔۔۔؟” اس نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا ۔” مرینہ کو یہ پتہ نہیں کہ اصغر مجھے ۔۔۔؟” اس نے آنکھیں کھول کر چھت کو دیکھا ۔ ” یہ کیوں ہوا ؟” یہ سب کیوں ہوا ؟” بے اختیار ا س کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے ۔ وہ بے یقینی کے ساتھ ساتھ تکلیف میں بھی مبتلا تھی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...