پروفیسر ہادی فورا ان کے پاس گئے۔ انہوں نے افسوس سے گردن ہلا کر کہا، “آئم سوری ہادی! وہ آنے سے پہلے ہی چل بسی تھیں مگر ہم نے تھوڑا ٹائم لیا کہ تم لوگ ریلیکس ہو جاؤ۔ آئم رئیلی سوری۔”
شیخ ہادی نے شکست خوردہ نگاہوں سے اپنی بیٹی کی جانب دیکھا جس کے آنسو اب مزید تیزی سے بہنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ بھاگ کر آئی اور ابا کے گلے لگ گئی۔ ڈاکٹر یرسف نے محبت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا،
“اللہ تمہيں صبر دے بیٹی۔”
x———-x
شیخ ہادی سے شادی کے بعد فاطمہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پہلے تو شیخ کی نوکری بہت اچھی جگہ تھی مگر کسی چپقلش کی بنا پر ان کو فارغ کر دیا گیا۔ پھر وہ یونیورسٹی میں لیکچرار ہو گئے مگر تنخواہ پہلے کے مقابلے میں کم تھی۔ اس صورتحال میں فاطمہ کے خاندان والوں نے اس سے قطع تعلق کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا واسطہ کسی مڈل کلاس گھرانے سے ہو اور ان کی عزت پر کوئی حرف آۓ۔ انہی دنوں فاطمہ دل کے مرض میں مبتلا ہو گئی۔ وہ اپنا گھر بیچ کر کرایے کے گھر میں شفٹ ہو گئے مگر فاطمہ نے اس سب پر صبر کیا۔ علیزہ کی پیدائش پر دونوں میاں بیوی بڑے خوش ہوۓ مگر اس موقع پر بھی ان کے گھرانے کا کوئی فرد ملنے نہ آیا۔ تعلقات استوار کرنے کا خواب بنتے بنتے وہ زندگی ہار گئی۔
گھر کے در و دیوار بھی اداس تھے۔ وہ زانوں میں سر دیئے بیٹھی تھی۔ آج جب اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہی تھی تو سارے ننھیالی اس کے گھر آۓ تھے۔ باری باری وہ سب اس کے پاس آ کر تسلی دے رہے تھے اور وہ خالی نظروں سے بس انہيں گھورے جا رہی تھی۔ وہ ان نئے نئے پہروں ميں اپنی ماں کا عکس تلاش کر رہی تھی۔
آہستہ آہستہ گھر خالی ہوتا گیا اور صرف اس کی ماں کے رشتہ دار رہ گۓ۔ اس نے سنا اس کے ماموں اس کے ابا سے کہہ رہے تھے، “تم مان کیوں نہيں جاتے ہادی؟ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔”
“علیزہ میری بیٹی ہے، میں اسے کسی صورت تمہارے سپرد نہیں کروں گا۔” وہ حتمی لہجے میں بولے۔ اب ماموں کا لہجہ دھیما مگر تلخ تھا، “اس سب کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے پروفیسر! آخر کون بیاہے گا اس کو؟۔۔۔ شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ، کیا اپنی ذمہ داری پوری نہيں کرنی تمہيں؟ ہم اس کا کسی اچھے گھرانے میں رشتہ کرا دیں گے، اس کے مستقبل کا سوال ہے ہادی! ہم نہیں چاہتے کہ اس کا انجام بھی فاطمہ جیسا ہو۔”
اب علیزہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ کافی دیر سے وہ ان سب کے بناوٹی پیار بھرے لہجے کو برداشت کر رہی تھی۔ وہ ابا کے کمرے ميں داخل ہوئی ۔ ماموں نے ایک خاموش نگاہ اس پہ ڈالی۔ “ماموں میں بھی کچھ کہنا چاہتی ہوں۔”
“علیزہ بیٹا آپ یہاں سے جائیں، ہم بڑے بات کر رہے ہیں۔” ابا نے پیار سے اسے وہاں سے جانے کو کہا۔ اس کی آنکھوں ميں آنسو تیر رہے تھے۔
“ابا مجھے بولنے دیں پلیز۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ پوچھیں ان سے، کہاں تھے یہ جب امی کو ان کی ضرورت تھی؟ اب جب وہ چلی گئی ہیں تو یہ مجھ سے ہمدردی کرنے آۓ ہیں۔ ان کو کبھی مجھ سے ملنے کی تو فرصت ملی نہیں، اب کس حق سے مجھے یہ لے کر جانا چاہتے ہیں؟” اس کی آواز کوشش کے باوجود اونچی ہوتی گئی۔۔۔ ماموں بڑے ضبط سے بولے، “علیزہ تم ابھی جذبات کے زیر اثر بول رہی ہو۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو، کل کو تمہاری شادی۔۔۔”
“آپ کو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لئے میرے بابا کافی ہیں۔” وہ ان کی بات کاٹ کر درشتی سے بولی۔ ابا اپنی بیٹی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے، انہوں نے اسے اس انداز میں کسی سے بات کرتے نہيں دیکھا تھا۔
“ٹھیک ہے، تمہاری مرضی! میری بھول تھی جو تم لوگوں کا بھلا سوچا۔” یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گۓ اور باقی سب بھی ان کے پیچھے باہر چلے گئے۔ ابا تھکے تھکے سے بستر پہ بیٹھ گئے اور وہ ان کا کندھا تھامے ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔
“ابا ہمیں کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے، آپ آرام کريں۔۔۔۔۔۔۔ کاش امی یہاں ہوتیں۔”
“بیٹی اداس نہ ہو،میں ہوں تمہارے ساتھ۔” ابا نے محبت سے اس کی پیشانی کو چوما۔ جہاں ہمیشہ ماں پیار کرتی تھی، آج وہاں باپ کا لمس محسوس ہوا تو آنسو پھر ٹپک پڑے۔ یہ احساس بڑا تکلیف دہ تھا کہ اب وہاں کبھی ماں کے لب ثبت نہیں ہوںگے۔۔۔ خدا نے اپنی امانت واپس لے لی تھی۔
x———-x
“کیا؟ فہد؟؟ فہد خان؟؟؟ ابو کیا واقعی؟فہد کراچی آ رہا ہے؟” بابا کی بات سن کر احمد کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ عجب بے یقینی سی بےیقینی تھی۔۔۔
“ہاں بھئ! تم تو ایسے حیران ہو رہے ہو جیسے فہد نہيں، کسی لڑکی کا رشتہ آ رہا ہو تمہارے لئے۔” وہ ہنستے ہوۓ بولے۔ “باباااا!” وہ خفگی سے بولا۔”اب میں اتنا برا بھی نہیں ہوں کہ رشتہ آنے پہ اتنی حیرانی ہو۔” اس بات پہ کسی نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ وہ خود بھی اپنے بے ساختہ جملے پہ خود کو کوس رہا تھا۔ سب جانتے تھے کہ کتنا ‘اچھا’ انسان تھا وہ۔
“ابو کب آۓ گا فہد؟” احمد دوبارہ پوچھ بیٹھا۔
” اف احمد! کیا ہو گیا ہے یار! جاؤ اپنی ماں کا سر کھاؤ۔” وہ تپ کر بولے “لگ رہا ہے پتہ نہیں کون سی اہم شخصیت آ رہی ہے کہ انتظار ہی نہیں ہو رہا برخوردار سے۔” وہ بڑبڑاۓ۔
“بابا اہم شخصیت نہیں، بہت زیادہ اہم شخصیت! آپ جانتے نہیں ہیں فہد کیا ہے میرے لئے، میری جان، میرا جگری یار، میرا۔۔۔” وہ مزے لے لے کے بولا۔
“اچھا اچھا، بس بس! سمجھ گیا اور مان گیا فہد صاحب کو۔۔۔ اس کی تو آتے ہی خبر لوں گا، کون سا جادو کیا ہے کہ دیوانہ بنا دیا میرے بیٹے کو۔” وہ بھی اسی کے انداز ميں بولے تو سب ہنس دیئے۔
“ابھی علی گھر آئے گا تو وہ بھی اس خبر پر ایسے ہی اچھلے گا بابا جان! سارے سوالوں کے دوبارہ جواب دینے ہوں گے۔” حرا بولی تو ابا کا منہ بن گیا۔
“عائشہ! فاطمہ یاد ہے تمہیں؟شیخ ہادی کی بیوی۔” ان کو جیسے کوئی بات یاد آئی۔
“فاطمہ! ارے ہاں، وہی جس کی بیٹی علیزہ تھی ناں؟”
“یار یہ علیزہ اور فاطمہ کہاں سے بیچ میں آ گئیں؟اور یہ ہادی شیخ! میرے ٹیچر کی بات تو نہیں کر رہے آپ؟” احمد بد مزہ ہو کر بولا(ضرور کوئی شکایت کی ہو گی۔) مجال تھی جو کبھی کسی استاد کو عزت دیتا۔
“ہاں وہی۔ اس کی وائف کا کل انتقال ہو گیا۔”
“اوہ!” عائشہ کے منہ سے نکلا۔ “انا للہ وانا الیہ راجعون۔” اب احمد کو بھی اپنی کہی بات پہ ندامت ہوئی۔
“مگر آپ ان کو کیسے جانتے ہیں بابا؟” وہ پووچھے بنا نہ رہ سکا۔
“میرے استاد تھے، شیخ احمد۔ بڑے نرم گو اور اچھے انسان تھے۔آج جہاں میں ہوں ان ہی کی وجہ سے ہوں۔ انہوں نے مجھ جیسے نالائق شاگرد کو کلا س کا سب سے لائق بچہ بنا کر چھوڑا۔ وہ مجھ سے باپ جیسی محبت کرتے تھے۔ آج بھی ان کے بارے میں سوچوں تو دل کرتا ہے تعریفیں ہی کۓ جاؤں۔انہی کے نام پہ تمہارا نام رکھا تھا کہ کچھ اثر۔۔۔ ہاں تو شیخ ہادی ان کا بیٹا ہے اور میرا سب سے اچھا دوست! بہت اداس تھا وہ کل اور اس کی بیٹی کی حالت بھی بہت خراب تھی۔” وہ جذبات کی رو میں بولتے چلے گۓ۔ نیک اور اچھے لوگوں کا ذکر ایسے ہی اچھے الفاظ میں ہوا کرتا ہے۔
“کتنے غم دیکھے تھے فاطمہ نے زندگی ميں۔ نہایت صابر و شاکر عورت تھی وہ۔ اللہ اس کی مغفرت فرماۓ۔”
“آمین!” سب نے مل کر کہا۔
“کل جائیں گے عائشہ! ان سے ملنے۔” وہ افسردہ لگ رہے تھے۔
x———-x
“دیکھو دیکھو کون آیا!” وریشہ چہکتے ہوۓ بولی۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا، احمد بھاگتا لاؤنج میں آیا اور نو وارد سے لپٹ گیا۔۔۔ “فہد!”
فہد مسکرایا اور اسی گرمجوشی سے اس سے ملا۔
“اتنے پرجوش استقبال کی تو امید نہیں تھی مجھے۔” وہ کچھ کچھ حیران ہوا تھا۔
“کیا بات کرتے ہویار؟ تمہارے انتظار میں مرا جا رہا تھا میں۔”
“ہاں، یہ تو ہم سے پوچھو کیسے برداشت کر رہے تھے اس کے دیوانے پن کو۔۔۔” بابا نے کہا تو سب ہنس پڑے۔
“وہ۔۔۔۔ علی؟” فہد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
“وہ آنے ہی والا ہو گا کالج سے۔” امی نے جواب دیا۔
“حرا آپی کا نہیں پوچھا آپ نے؟ وہ بھی آنے ہی والی ہوں گی۔” وریشہ اس کے قریب آ کر شرارت سے بولی۔فہد کھسیاہٹ چھپاتے ہوۓ ہنسا۔”اچھا!” اور وریشہ کے گال پر چٹکی بھری۔اتنے میں دروازہ کھلا۔۔۔
“اف! یا خدا! حرا آپی، اللہ پوچھے گا آپ سے۔ اپنے معصوم بھائی پر اتنا بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ ہاۓ اتنا ظلم تو کوئی گدھے پر بھی نہیں کرتا۔۔۔۔ امی ی ی ی!” علی حرا کے واٹر کلرز کا سیٹ پکڑے گھر میں داخل ہوا۔ اندر آتے ہی وہ رک گیا، حیرت کے مارے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔ پینٹس دھڑام سے فرش پر گرے اور وہ بھاگ کر فہد کے گلے لگ گیا۔
“علی کے بچے! میرے پینٹس کیوں پھینک دیئے؟ آج تو تمہیں سزا دلوا کے رہوں گی، ڈرامے باز کہیں کے۔” حرا نے اپنی چیزوں کو گرتے دیکھا تو غصے میں آگے بڑھی۔ دروازہ کے پار جو منظر تھا، اسے دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی۔ چہرے پہ حیا کی سرخی چھا گئی اور وہ نظریں نیچی کئے، اپنا دوپٹہ صحیح کرتی اندر آئی۔”السلام علیکم”
“وعلیکم السلام” وہ بھی نظریں چرا گیا۔
“چلو بھئی، سب مل لئے۔۔۔ ایوری ون از ویری ہیپی مگر فہد بیٹے کو ذرا آرام کرنے دو، سفر کر کے آیا ہے۔” ڈاکٹر صاحب کو خیال آیا۔
“جی تایا! ویسے یہاں کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہےموقع نہیں ملنے والا آرام وارام کا۔” وہ ابھی تک خود سے لپٹے علی کو دیکھتے ہوۓ بولا۔ علی اس سے الگ ہوا،اس کی آنکھیں نم تھیں۔۔۔ “یہ دنیا کا سب سے بیسٹ سرپرائز تھا۔” اس کی آواز سے بے پناہ خوشی جھلک رہی تھی۔
“دیکھو ذرا! بڑے والے کو دیوانہ کیا ہوا ہے اور چھوٹے والے کو آتے ہی رلا دیا۔ کیا چیز ہو تم فہد؟” ڈاکٹر یوسف ہنستے ہوۓ بولے۔
x———-x
ڈاکٹر یوسف کے بھائی عمر خان پہلے ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا،فہد خان، جو احمد کے برابر تھا۔ دونوں ساتھ پلے بڑھے تھے اور ایک دوسرے کے ہمراز تھے۔ ہر کام مل کر کرتے،ہر شرارت مل کر کرتے اور انہی سے گھر کی رونق تھی۔ دونوں بیگمات، عائشہ اور مہوش میں بھی بہت اچھی دوستی تھی۔
علی ان سے چار سال چھوٹا تھا مگر وہ بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھا۔ وہ تینوں مل کر حرا کو تنگ کرتے تھے۔ وریشہ بہت چھوٹی تھی اس لئے اسے معاف کر دیتے مگر حرا کا سارا دن ناک میں دم کر کے رکھتے۔۔۔
جب احمد اور فہد کا کالج ختم ہوا تو عمر خان کو کسی مجبوری کے تحت اپنے گھر والوں کے ساتھ اسلام آباد شفٹ ہونا پڑا۔ کوئی بھی اس کے حق میں نہ تھا مگر سب بے بس تھے۔
جب وہ تین لوگ گھر سے روانہ ہو رہے تھے تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ احمد فہد سے بغل گیر ہوا تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے۔ دونوں یاروں کے لیۓ جدائی کا یہ لمحہ بڑا کٹھن تھا۔ اتنے بڑے لڑکوں کو یوں روتا دیکھ کر وریشہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔ علی کا بھی یہی حال تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ فہد کا بیگ اس کے کمرے میں خالی کرآۓ۔
“فہد بھائی! وعدہ کریں جلدی واپس آئیں گے۔ وعدہ کریں ورنہ میں جانے نہیں دوں گا۔” علی نے فہد کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ “وعدہ کرتا ہوں چھوٹو!” وہ مسکرا کے بولا۔
“پکا کرامس کریں، میں بالکل سیریس ہوں۔” وہ ضدی لہجے میں بولا۔
“اوکے اوکے ۔” وہ اس کے انداز پہ ہنسا۔ ” میں، فہد حان، علی حیدر سے پکا پرامس کرتا ہوں کہ جلدی واپس آؤں گا۔”سب کے چہروں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
“خدا حافظ فہد بھائی!” آخر حرا نے بھی زبان کھولی۔
“خدا حافظ حرا! اپنا خیال رکھنا۔” فہد کو اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کی وجہ سے حرا اور وریشہ کی آنکھوں میں آنسو آۓ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...