ایپی جینٹکس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ حوالوں سے یہ غیر ماہرین کی پہنچ میں ہے۔ ظاہری بات ہے ہر کسی کے پاس جدید آلات نہیں ہیں کہ وہ ان ایپی جینیٹک واقعات کے پیچھے کرومیٹن ترامیم کو دیکھ سکیں۔ لیکن ہم سب اپنے اردگرد موجود دنیا کا معائنہ کرسکتے ہیں اور پیشن گوئیاں کرسکتے ہیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا کوئی فینومینا دو ایپی جینیٹک شرائط پر پورا اتر رہا ہے یا نہیں۔ اس طرح سے ہم فطرت بشمول انسانوں کو ایک نئی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ شرائط وہ ہیں جن سے اس سلسلے میں ہمارا سامنا بار بار ہوتا رہا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک فینومینا ڈی این اے اور اسکی ساتھی پروٹین میں ایپی جینیٹک تبدیلیوں سے متاثر ہو اگر وہ دو شرائط پر پورا اترتا ہے۔
1. جاندار جینیاتی طور پر ایک جیسے ہوں مگر ظاہری خصوصیات میں مختلف ہوں۔
2۔ ایک جاندار ایک ابتدائی واقعہ کے بعد بھی طویل عرصہ تک اس واقعہ سے متاثر ہوتا رہے۔
ظاہری بات ہے کامن سینس کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ اگر ایک شخص کی ٹانگ موٹرسائکل حادثے میں ضائع ہوجائے اور بیس سال بعد بھی وہ بغیرٹانگ کے ہوگا تو اسکو ہم اس تناظر میں نہیں دیکھیں گے۔ لیکن اگر وہ اب یہ سمجھتا ہے کہ اسکی دو ٹانگیں ہیں تو یہ فینٹوم لیگ سینڈروم ہے جوکہ اسکے سینٹرل نروس سسٹم میں پروگرام جین ایکسپریشن پیٹرنز کے باعث ہے جسکو ایپی جینٹک ترمیم برقرار رکھتی ہیں۔ ہم بعض اوقات جدید بائیولوجی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز سے اس قدر مغلوب ہوجاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سوچ و بچار کیساتھ مشاہدے سے کس قدر سیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ہمیں لیبارٹری کی پیچیدہ تکینک کی ضرورت نہیں ہوتی یہ بتانے کیلئے کہ دو ظاہری طور پر الگ جاندار ایک جیسا جینیاتی میک اپ رکھتے ہیں۔
میگوٹس مکھیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور کیٹرپلر تتلیوں میں۔ میگوٹ اور مکھی کا جینوم ایک جیسا ہی ہوتا ہے ناکہ مکھی ماحول سے نیا جینوم حاصل کرتی ہے۔ لیکن دونوں میگوٹ اور مکھی اس جینوم کو الگ الگ طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ پینٹڈ لیڈی کیٹرپلر کا رنگ بھدا سا ہوتا ہے جسم پر لاتعداد ابھار ہوتے ہیں اور میگوٹ کی طرح اسکے بھی پر نہیں ہوتے۔ لیکن یہ جس تتلی کے اندر تبدیل ہوتا ہے اسکے اندر خوبصورت رنگ موجود ہوتے ہیں، جسم پر کوئی ابھار نہیں ہوتا اور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان دونوں کا جینیاتی سکرپٹ ایک جیسا ہونا چاہیے لیکن اس سے بننے والی حتمی پروڈکٹ بالکل الگ ہوتی ہے۔ ہم یہ مفروضہ دے سکتے ہیں کہ اسکے پیچھے ایپی جینیٹک واقعات موجود ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں جانوروں کے اندر کھال کی رنگت میں موسم کیساتھ تبدیلی آتی ہے۔ ہم جانتے ہیں اس میں ہارمون کے اثرات شامل ہیں۔ اور ہم یہ مفروضہ دے سکتے ہیں کہ یہ جین ایکسپریشن کے پیٹرن میں تبدیلی کرتے ہیں کرومیٹن کے اندر ایپی جینیٹک ترامیم کے ذریعے۔
ممالیہ جانوروں میں جنس کے تعین کے پیچھے واضح جینیاتی وجہ ہوتی ہے۔ فعال وائی کروموسوم ہمیشہ نر فینوٹائپ بناتا ہے۔ بہت سی ریپٹائلز انواع جیساکہ مگرمچھوں میں دونوں جنس جینیاتی طور پر ایک جیسی ہوتی ہیں۔ آپ کروموسومز سے مگرمچھ کی جنس کا تعین نہیں کرسکتے۔ جنس کا تعین انڈے کی ڈیولپمنٹ کے دوران ایک انتہائی اہم مرحلے کے اندر درجہ حرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک ہی جیناتی کوڈ کو نر یا مادہ مگرمچھ پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہارمون اس میں کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس میں ایپی جینیٹکس کے کردار کے بارے ابھی تک کوئی تحقیق موجود نہیں لیکن ایسا ممکن ہے۔
مگرمچھوں اور ان کے رشتہ داروں میں جنس کے تعین کے طریقہ کار کو سمجھنا مستقبل قریب میں انکے تحفظ کیلئے ایک اہم ضرورت بن سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں عالمی تبدیلی ان رینگنے والے جانوروں کے لیے منفی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ایک جنس کے مقابلے میں دوسری جنس زیادہ ہوجائے۔ کچھ مصنفین نے یہاں تک قیاس کیا ہے کہ اس طرح کے اثر نے ڈائنوسار کے معدوم ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسے تصورات سادہ اور آسانی سے ٹیسٹ کے قابل مفروضہ جات ہیں۔ اور ہم مشاہدات کی مدد سے اور بھی بناسکتے ہیں۔
سر جان گورڈن اور شنیا یاماناکا کو 2012 کا فزیالوجی اور میڈیسن کا نوبل پرائز دیا گیا ۔ اس فیلڈ میں بہت سے لوگوں کیلئے یہ حیرت کا باعث ہے کہ یہ میری لیون کو انکے ایکس غیرفعالیت پر بہترین کام پر کیوں نہیں دیا گیا۔ گوکہ ان کے ابتدائی پیپرز میں جن کے اندر تصوراتی فریم ورک ورک دیا گیا تھا اوریجنل تجرباتی ڈیٹا نہیں تھا۔ لیکن یہی بات جیمز وٹسن اور فرانسس کرک کے بارے بھی کہی جاسکتی ہے۔ عظیم سورانی اور ایما وائٹلا بھی اس حوالے سے اہم نام ہیں۔ ان دونوں نے نہ صرف یہ دکھایا کہ جنسی تولید میں کسطرح ایپی جینوم ریسیٹ ہوجاتا ہے بلکہ کیسے بعض اوقات یہ عمل الٹ جاتا ہے اور حاصل شدہ خصوصیات وراثت میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ ڈیوڈ ایلس نے ہسٹونز میں ایپی جینیٹک تبدیلیوں کے تحقیق کی قیادت کی ہے۔ اور انکا انتخاب بھی ہوسکتاہے ممکنہ طور پر ڈی این اے میتھائیلیشن میں کچھ سرکردہ نام خاص طور پر ایڈریان برڈ اور پیٹر جونز کے ساتھ مل کر۔
پیٹر جونز کا شمار ایپی جینٹک تھیراپیز کےبانیوں میں ہوتا ہے۔ ہسٹون ڈی ایسیٹائلیز انہبیٹر اور ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز انہبیٹر ان طریقوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔ ان مرکبات کے ساتھ کلینیکل ٹرائلز کی اکثریت کینسر میں رہی ہے لیکن یہ تبدیل ہونا شروع ہو رہا ہے۔ ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیسز کے سیرٹائن کلاس کا ایک انہبیٹر ہنٹنگٹن سینڈروم کے لیے ابتدائی طبی آزمائشوں میں ہے۔ کینسر اور دوسری بیماریوں کے لیے سب سے بڑا جوش و خروش فی الحال ایسی دوائیوں کی تیاری کے ارد گرد مرکوز ہے جو زیادہ فوکسڈ ایپی جینیٹک انزائمز کو روکتی ہیں۔ ان میں انزائمز شامل ہیں جو ہسٹون پروٹین پر ایک مخصوص امینو ایسڈ پوزیشن پر صرف ایک ترمیم کو تبدیل کرتے ہیں۔ اس شعبے میں دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ امکان ہے کہ ان کوششوں سے نئی دوائیں چند سالوں میں کینسر کے لیے کلینیکل ٹرائلز میں داخل ہوں گی۔
ایپی جینیٹکس کے بارے میں اور خاص طور پر نسلی وراثت کے بارے میں ہماری بڑھتی ہوئی سمجھ میں ادویات کی دریافت میں مسائل پیدا کرسکتی ہے اور نئے مواقع بھی۔ اگر ہم نئی دوائیں تخلیق کرتے ہیں جو ایپی جینیٹک عمل میں مداخلت کرتی ہیں تو کیا ہوگا اگر یہ دوائیں ری پروگرامنگ کو بھی متاثر کررہی ہوں جو عام طور پر جرم سیلز کی پیداوار کے دوران ہوتی ہے؟ نظریاتی طور پر یہ جسمانی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے نہ صرف اس شخص میں جس کا علاج کیا گیا تھا بلکہ اس کے بچوں یا پوتے پوتوں میں بھی۔ ہمیں شاید اپنے خدشات کو کیمیکلز تک محدود نہیں رکھنا چاہیے جو خاص طور پر ایپی جینیٹک انزائمز کو نشانہ بناتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا vinclozolin کئی نسلوں تک چوہوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر نئی ادویات کے لائسنسنگ کو ریگولیٹ کرنے والے حکام ٹڑانسجنریشنل وراثت کے مطالعے پر اصرار کرنا شروع کر دیں تو اس سے نئی ادویات تیار کرنے کی لاگت اور پیچیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
ایپی جینیٹک تبدیلیوں کے نسلوں میں اثرات ان فیکٹرز میں سے ایک ہوسکتے ہیں جو آنے والی دہائیوں میں انسانی صحت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونگے۔ ادویات یا آلودگی کی وجہ سے نہیں بلکہ خوراک اور غذائیت کی وجہ سے۔ ہم نے یہ سفر ایپی جینیٹک لینڈ سکیپ میں ہالینڈ کی قحط زدہ سردیوں کو دیکھ کر شروع کیا۔ اس کے نتائج نہ صرف ان لوگوں کے لیے تھے جو اس سے گزرے تھے بلکہ ان کی اولاد کے لیے بھی۔ ہم ایک عالمی موٹاپے کی وبا کی لپیٹ میں ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہمارے معاشرے اس پر قابو پا لیتے ہیں (اور بہت کم مغربی ثقافتیں ایسا کرنے کے آثار دکھارہی ہیں) تو ہم نے پہلے ہی اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے بہترین ایپی جینیٹک میراث پیدا کر دی ہے۔
عام طور پر غذائیت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہم پیشن گوئی کر سکتے ہیں کہ اگلے دس سالوں میں ایپی جینیٹکس سامنے آئیگی۔ یہاں صرف چند مثالیں ہیں جو ہم اس وقت جانتے ہیں۔ فولک ایسڈ ان سپلیمنٹس میں سے ہے جو حاملہ عورتوں کو تجویز کیا جاتا ہے کیونکہ اسکی وجہ سے نومولود بچوں میں سپائنا بائفیڈا نامی بیماری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ فولک ایسڈ جسم میں ایس ایڈینوسائل میتھائیونینSAM کی پروڈکشن کرتا ہے۔ SAM ڈی این اے میتھائی لیشن کے دوران میتھائل گروپ مہیا کرتا ہے۔ اگر چوہوں کے بچوں کو فولک ایسڈ کی کم مقدار والی خوراک کھلائی جائے تو انکے اندر جینوم کے امپرنٹڈ حصوں کی ابنارمل ریگولیشن ہوجاتی ہے۔
ہماری خوراک میں ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انہبیٹر کینسر اور ممکنہ طور پر دیگر امراض کو روکنے میں بھی مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گوکہ اعداد و شمار اس وقت نسبتاً قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔ پنیر میں سوڈیم بیوٹیریٹ، شاخ گوبھی میں سلفورافین اور لہسن میں ڈائیالائل ڈائیسلفائیڈ یہ تمام ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز کے کمزور انہبیٹرز ہیں۔ محققین نے مفروضہ پیش کیا ہے کہ ہاضمے کے دوران خوراک سے ان مرکبات کا اخراج گٹ میں جین کے اظہار اور خلیوں کے پھیلاؤ کو تبدیل کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ یہ بڑی آنت میں کینسر کی تبدیلیوں کے خطرے کو کم کر سکتا ہے۔ ہماری آنتوں میں موجود بیکٹیریا بھی قدرتی طور پر کھانے کی چیزوں کے ٹوٹنے سے بیوٹیریٹ پیدا کرتے ہیں خاص طور پر پودوں سے حاصل کردہ مواد جو کہ ہماری سبزیاں کھانے کی ایک اور اچھی وجہ ہے۔
آئس لینڈ سے ایک مفروضے پر مبنی لیکن دلچسپ کیس اسٹڈی موجود ہے کہ کس طرح غذا کسی بیماری کو ایپی جینیٹک طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ آئس لینڈ کے اندر ایک خاص بیماری کے باعث اموات میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس میں ایک خاص جین کے اندر میوٹیشن پائی جاتی ہے۔ جب ریکارڈ مرتب کیا گیا تو جو نتائج سامنے آئے ان میں یہ دیکھا گیا کہ 1820 تک اس میوٹیشن کے حامل افراد کی اوسط عمر ساٹھ تھی لیکن 1820 سے 1890 تک اسی میوٹیشن کے حامل افراد کی عمر اوسطاً تیس رہی ۔ ماہرین نے اسکی وجہ ان ستر سالوں میں وہاں کے ماحول میں تبدیلی کو قرار دیا جس نے خلیہ کی اس میوٹیشن کے کنٹرول میں تبدیلی پیدا کردی تھی۔
2010 میں کیمبرج میں ہونے والی ایک کانفرنس میں انہی مصنفین نے رپورٹ کیا کہ آئس لینڈ میں 1820 سے لے کر آج تک کی اہم ماحولیاتی تبدیلیوں میں سے ایک روایتی خوراک سے یورپی خوراک کی طرف تبدیلی تھی۔ روایتی آئس لینڈ کی خوراک میں غیر معمولی مقدار میں خشک مچھلی اور مکھن شامل ہے۔ مؤخر الذکر میں بیوٹیرک ایسڈ بہت زیادہ ہے جوکہ کمزور ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انہبٹر یے۔ ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انہبیٹر خون کی نالیوں میں پٹھوں کے ریشوں کے کام کو بدل سکتے ہیں جو فالج کی اس قسم سے متعلق ہے جس میں اس میوٹیشن کے حامل مریض مبتلا ہوتے ہیں۔ ابھی تک اس بات کا کوئی باضابطہ ثبوت نہیں ہے کہ یہ غذائی ہسٹون ڈی ایسیٹائیلیز انہیبیٹرز کے استعمال میں کمی ہے جس کی وجہ سے اس آبادی میں ابتدائی اموات ہوئی ہیں۔ لیکن یہ ایک دلچسپ مفروضہ ہے۔
ایپی جینیٹکس کی بنیادی سائنس وہ حصہ ہے جس کے بارے میں پیشین گوئی کرنا سب سے مشکل ہے۔ لیکن سائنس میں اسکی مثالیں سامنے آتی رہینگی یہ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں۔ سرکیڈئن ردھم فزیالوجی اور بائیو کیمسٹری کا قدرتی چوبیس گھنٹے کا چکر جو زیادہ تر جاندار انواع میں پایا جاتا ہے اسکی ایک مثال ہے۔ ایک ہسٹون ایسٹائیل ٹرانسفریز کو اس ردھم کو ترتیب دینے میں اہم پروٹین کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اور ردھم کو کم از کم ایک دوسرے ایپی جینیٹک انزائم کے ذریعے ایڈجسٹ بھی کیا جاتا ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونے کا امکان ہے کہ کچھ ایپی جینیٹک انزائمز خلیات کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اینزائمز صرف کرومیٹن کو تبدیل نہیں کرتے ہیں۔ وہ خلیے میں موجود دیگر پروٹینز کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں اس لیے ایک ہی وقت میں بہت سے مختلف راستوں پر کام کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ خیال کیا جارہاہے کہ ہسٹون میں ترمیم کرنے والے کچھ جین دراصل اس وقت ارتقاء پذیر ہوئے جب خلیات میں ہسٹون موجود نہیں ہوتی تھی۔ اسکا مطلب ہے کہ ان انزائمز کے اصل میں دیگر افعال تھے اور ارتقاء کے ذریعے ان کو جین کے اظہار کے کنٹرولر بننے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ جان کر حیرانی کی بات نہیں ہوگی کہ کچھ اینزائمز کے ہمارے خلیات میں ایک سے زائد افعال ہوتے ہیں۔
ایپی جینیٹکس کی مالیکیولر مشینری کے ارد گرد کچھ بنیادی مسائل بہت پراسرار ہیں۔ جینوم میں منتخب جگہوں پر کس طرح مخصوص تبدیلیاں قائم کی جاتی ہیں اس کے بارے میں ہمارا علم واقعی نامکمل ہے۔ ہم اس عمل میں نان کوڈنگ آر این اے کے لیے ایک کردار دیکھنا شروع کر رہے ہیں لیکن ہماری سمجھ میں اب بھی متعدد خلاء موجود ہیں۔ اسی طرح ہمیں تقریباً کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کس طرح ہسٹون کی تبدیلیاں پیرنٹ خلیے سے اسکی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسا ہوتا ہے کیونکہ یہ خلیات کی مالیکیولر میموری کا حصہ ہے جو انہیں اپنی قسمت کو برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ جب ڈی این اے کی نقل تیار کی جاتی ہے تو ہسٹون پروٹینز کو ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ ڈی این اے کی نئی کاپی نسبتاً کم ترمیم شدہ ہسٹونز کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ یا پھر یہ شاید ہی کسی ترمیم کے ساتھ نئی ہسٹون کے ساتھ لپٹی ہو. یہ درستگی بہت جلد ہوجاتی ہے لیکن ہمیں کوئی سمجھ نہیں ہے کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایپی جینیٹکس کے پورے شعبے میں سب سے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔
یہ ممکن ہے کہ ہم اس معمہ کو اس وقت تک حل نہیں کر پائیں گے جب تک کہ ہمارے پاس دو جہتوں میں سوچنا چھوڑنے اور تین جہتی دنیا میں جانے کی ٹیکنالوجی اور تخیل نہ ہو۔ ہم لینئر ٹرمز میں جینوم کے بارے میں سوچنے کے بہت عادی ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جینوم کے مختلف علاقے ایک دوسرے تک پہنچ کر نئے امتزاجات اور ریگولیٹری ذیلی گروپس بناتے ہیں۔ ہم اپنے جینیاتی مواد کو ایک عام اسکرپٹ کے طور پر سوچتے ہیں لیکن یہ میڈ میگزین کے مڑے ہوئے حصے کی طرح ہے جہاں کسی تصویر کو کسی خاص طریقے سے فولڈ کرنے سے ایک نئی تصویر بنتی ہے۔ اس عمل کو سمجھنا واقعی یہ جاننے کے لیے اہم ہو سکتا ہے کہ کیڑے، بلوط، مگرمچھ یا انسان کا معجزہ تخلیق کرنے کے لیے ایپی جینیٹک تبدیلیاں اور جین کے امتزاج کس طرح مل کر کام کرتے ہیں۔
لہذا اگلی دہائی میں ایپی جینیٹک تحقیق کا خلاصہ اسطرح کیا جاسکتا ہے۔ اس میں امید اور مبالغہ ہوگا حد سے زیادہ پر امید رویہ دیکھنے کو ملیگا اندھی گلیاں آئیں گی غلط موڑ اور کبھی کبھار مبہم تحقیق بھی ہوگی۔ سائنس ایک انسانی کوشش ہے اور بعض اوقات یہ غلط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگلے دس سالوں کے آخر میں ہم حیاتیات کے کچھ اہم ترین سوالات کے جوابات کو سمجھیں گے۔ ابھی ہم واقعی یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ جوابات کیا ہو سکتے ہیں اور بعض صورتوں میں ہمیں سوالات کے بارے میں بھی یقین نہیں ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے۔
ایپی جینیٹکس کا انقلاب جاری ہے۔
(ختم شد)
اس کیلئے مواد اس کتاب سے لیا گیا ہے۔
The Epigenetics Revolution: How Modern Biology is Rewriting Our Understanding of Genetics, Disease and Inheritance
Book by Nessa Carey
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...