اب اگر وہ عبیر سے کہتا ہے کہ اس کے گھر والے بالکل بھی راضی نہیں ہیں تو عبیر رابطہ ختم کر دےگی۔۔۔ اور اگر عبیر نے رابطہ ختم کیا تو وہ پاگل ہو جائیگا۔
اگر وہ اُس سے کہتا ہے کے چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں اور وقت آنے پر سب کو بتا دینگے تب بھی عبیر نہیں مانے گی اور رابطہ ختم کر دیگی۔اور اگر رابطہ ختم ہوا تو وہ پاگل ہو جائیگا۔
اور اگر وہ اُسے سالوں کے انتظار کی سولی پر لٹکاتا ہے تو کیا عبیر انتظار کر لیگی؟؟؟
اگر وہ کہتا ہے کہ گھر والوں کے بغیر اُس کے والد سے اُس کا ہاتھ مانگنے آرہا ہے تو اس کے والد آپے سے باہر ہو جائیں گے ۔۔
اب وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھا
کسی نتیجے پر نہیں پُہنچ پا رہا تھا۔
ایک لڑکی اُس کے مکمل قابو میں آگئی تھی ۔۔۔ اب کوئی بھی جواب اسے دور کر سکتا تھا۔
اس نے یونی میں بہت محتاط رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ کے کبھی کسی شاگرد لڑکی سے بات نہیں کرے گا ایسی۔۔۔ کسی پر غلط نگاہ نہیں ڈالے گا۔۔۔ اُسے احساس تھا کہ وہ ایک استاد ہے۔۔۔ مگر جیسے ہی اُس کی نظر عبیر احسان پر پڑی ۔۔۔ اُس کے ارادے خاک میں مل گئے۔
اس نے عبیر سے پہلی نظر میں شادی کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا یہ ممکن نہیں ۔۔۔ اُس کے والدین اس کے لیے جو سوچے بیٹھے تھے وہ جانتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کے اس کے گھر میں عبیر احسان کا وجود کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ آگے بڑھا۔۔۔ سب جانتے ہوئے کے یہ ممکن نہیں ہے۔۔۔ ایک لڑکی کو اُمید دلائی۔۔۔ نکاح کی اُمید۔۔۔ وہ شروع میں اس سے نکاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نہیں تھا۔۔۔ وہ تو بس اُس کے حسن کو دیکھ کر مائل ہوا تھا۔۔۔
لیکن اُسے پہلی بات چیت میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ عبیر احسان تک پہنچنے کا واحد راستہ نکاح ہے۔۔۔ اُسے بنا استعمال کیے چھوڑنا شہیر شیرازی کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔ اس لڑکی سے فائدہ اٹھائیں بغیر وہ اسے نہیں چھوڑ سکتا تھا اب۔۔۔ اب اُس کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح وہ اُسے خفیہ نکاح کے لیے راضی کر لے۔۔ اگر وہ راضی ہوئی تو کچھ عرصہ اسے نکاح میں رکھ کر پھر سوچے گا کے اس تعلق کو آگے چلانا ہے یاں نہیں ۔۔ اگر اُس کا موڈ ہوا تو اس تعلق کو سنجیدگی سے رواں رکھے گا ۔۔ اور اگر اُس کا دل عبیر احسان سے بھر گیا نکاح کے کچھ عرصے بعد تو وہ اُسے کسی بہانے سے چھوڑ دیگا۔۔۔ لیکن ابھی بس اسے عبیر کو راضی کرنا تھا۔۔۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ۔۔ اس نے سوچا۔۔۔
____________
آج کافی عرصے بعد وہ یونی آیا تھا۔ ہر کوئی اُسے دیکھ کر حیران تھا۔۔۔
” آج سرور سجاد نے کیسے یونی ورسٹی کو زینت بخشی ہے؟؟؟” کسی کی آواز آئی۔
” لو جی ۔۔۔ آگیا فساد کی جڑ۔۔” کوئی بولا۔
” اب کس کا سر پھوڑنے آیا ہے؟” کسی نے سرگوشی کی۔
لیکن سرور سجاد کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ سب ڈرتے تھے اُس سے۔۔۔ سب بچ کر نکلتے تھے اُس کے سامنے سے ۔۔ کچھ اُس کے پرستار تھے ۔۔۔ کچھ دشمن۔۔۔ مختصر یہ کے وہ مشہور تھا۔۔۔ بہت مشہور۔۔۔
” آخر کون ہے یہ سرور سجاد حسین ؟؟؟ آج ہر کسی کی زبان کر اُس کا نام ہے۔۔۔” حریم نے بیزاری سے کہا۔
” پتہ نہیں ۔۔۔ میں نے بھی سنا۔۔۔ کوئی بہت ہی اعلیٰ ہستی ہے شاید۔” عبیر کتاب کے اوراق پلٹتی ہوئی بولی۔ کلاس شروع ہونے میں وقت تھا۔ وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھ گئیں۔
سامنے سے وہ آتا دکھائی دیا۔ سیاہ رنگ کا لباس، ہلکی بڑھی ہوئی شیو ، لمبا قد ، مضبوط جسکامت ، کلائی میں ، مردانا طرز کے بریسلیٹ، گھڑی اور دھاگے بندھے ہوۓ تھے جیسے کسی دربار سے منت کے دھاگے ہوں یاں کپڑے سے بنے سیاہ رنگ کے زنجیر نما ۔۔۔
کِسی نے اُس کا نام پُکارا تو دونوں لڑکیوں نے مڑ کر اُسے دیکھا ۔۔۔
” خالص گنڈا ” حریم بولی۔
” میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ۔۔ پر یاد نہیں آرہا ” عبیر نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔
” لو جی ۔۔۔ تم نے بھلا کہاں دیکھا ہے اسے؟” حریم نے کہا۔
” یار ۔۔۔ دیکھا ہے۔۔۔ کہیں تو دیکھا ہے۔۔۔ ” عبیر پورے یقین سے بولی۔
وہ اپنے ٹولے کے ساتھ چلتا ہوا قہقہے لگاتا ہوا آگے نکل گیا۔ اُس کے دوست بھی اسی کے جیسے تھے۔
پھر کلاس شروع ہوئی تو اُسے اپنی ہی کلاس نے دیکھ اور حریم اور عبیر دونوں کو پریشانی ہوئی۔
” اب یہ یہاں بھی نازل ہوگیا۔ ” حریم کو وہ برا لگ رہا تھا۔
” جانے دو ہمیں کیا۔۔۔” عبیر نے اُسے کوہنی مارتے ہوئے کہا۔
لیکچر شروع ہو چکا تھا۔
” سرور سجاد۔۔۔ آفٹر اے لونگ ٹائم۔۔۔” سر نعیم اُسے دیکھ کر بولے۔
لیکچر چل رہا تھا جس میں سرور کو کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” خدا کے نظام نے رب نے خوشی forgiveness میں رکھی ہے یعنی معاف کر دینے میں۔۔اگر اللہ سے معافی چاہتے ہو تو اس کے بندوں کو معاف کر دو۔۔۔۔” سر نعیم بولے جا رہے تھے عبیر ہمہ تن گوش ہوئی۔۔۔ باقی سب سے زیادہ اُسے دلچسپی تھی شاید۔
” خوشی کا راز forgiveness کے بعد forgetness میں ہے ۔ یعنی بھول جانے میں۔۔۔ نعمتوں میں سے ایک نعمت کیا ہے۔۔۔ بھول جانا۔۔۔ بچے کے پاس کیا کمال کی چیز ہوتی ہے؟؟؟؟ بھول جانا۔۔۔ خوش رہنے کے لیے کیا ضروری ہے؟؟؟ بھول جانا۔۔۔”
سب سن رہے تھے۔۔۔ سرور نے آنے والی زور دار جمائی کو بائیں ہاتھ سے روکتے ہوئے کلاس کے گرد و نواح میں نظریں دوڑائیں۔۔۔ اس کی نظر سب سے ہوتی ہوئی عبیر احسان پر جا کر ٹھہر گئی ۔۔
” اگر آپ کہتے ہیں کے ۔۔۔ آپ کو یاد رہے گا ۔۔ آپ کی نسلیں بھی یاد رکھیں گي۔۔۔ اور اُن کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی ۔۔۔ تو آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔۔”۔
سر نعیم بولتے ہوئے بورڈ اور لکھتے بھی جا رہے تھے۔
معافی کر دینا۔۔۔
بھول جانا۔۔۔
” غم آتا ہے تو پہاڑ کی مانند لگتا ہے۔۔۔ پھر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے ۔۔ مردے کو دفناتے وقت ہم دھاڑیں مار مار کے روتے ہوئے اُسے دفناتے ہیں۔۔۔ پھر سال بعد وہی قبر ویران ہوتی ہے۔۔۔ کوئی جاتا ہی نہیں وہاں۔۔۔ کل لگ رہا تھا مردے کے ساتھ ہم بھی مر جائیں گے۔۔۔ سال بعد وہ غم کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور انسان آگے نکل جاتا ہے ۔۔”
سرور نے عبیر سے نظریں ہٹا لیں ۔۔
” دعا کا مطلب ہے آپ اُسے طاقتور مان رہے ہیں۔۔۔ آپ اسے قادر مان رہے ہیں۔۔۔ آپ اسی لیے دعا کر رہے ہیں۔۔۔ کیوں کے آپ مانتے ہیں وہ قادر ہے۔۔۔ قادر کا مطلب؟؟؟ جو کوئی نہیں کر سکتا وہ رب کرتا ہے۔۔۔ ” سر نعیم کی بات کہاں سے کہاں پُہنچ گئی تھی۔۔۔
سرور منہ میں غبارے کی شکل میں ہوا بھر کر باہر نکلتا جا رہا تھا۔۔۔ وہ شدید بور ہو رہا تھا۔
” لوگوں کو سرپرائز دیں۔۔۔ ہمیں سرپرائز دینا نہیں آتا۔۔۔ اگر آپ کو اندازہ ہو کے ایک خوبصورت سا سرپرائز کتنی تبدیلی اور خوشی لاتا ہے تو آپ ضرور ایسا کریں گے ۔۔ہمیں سرپرائز دینے کی بجائے ترا نکلنا آتا ہے۔ خوشی کا سب سے گہرا تعلق اپنی زندگی کو قبول کرنے میں ہے۔ہم اپنے اصل کو نہیں جیتے۔۔ ہم اپنے ذہن کو جیتے ہیں۔۔ اصل کو تو ہم قبول ہی نہیں کرتے۔”
سرور۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے آپ کے ساتھ کوئی مسلہ ہے۔” سر نعیم اچانک اپنی بات چھوڑ کر بولے تو سرور چونک گیا۔
” میرے ساتھ ایک نہیں ۔۔۔ کافی مسئلے ہیں ۔۔لیکِن سر میں اپنے مسئلے سرِ عام بیان نہیں کرتا۔اس لیے آپ اپنی بات جاری رکھیں”
سرور اطمینان سے بولا تو ساری کلاس ہنسنے لگی۔ پھر سر نعیم کا سرخ چہرہ دیکھ کر جلدی خاموش بھی ہوگئی۔
” ہاں اسی لیے آگے بڑھنے کے کوئی ارادے نہیں لگ رہے آپ کے۔۔۔ آپ کے ساتھ والے ڈگریاں لے کر یہاں سے رخصت بھی ہو گئے۔۔۔ پر آپ کو میں کب سے دیکھ رہا ہوں۔۔۔ اور شاید آگے بھی دیکھتا رہوں اسی کلاس میں۔۔۔” سر بولے۔
” کوئی بات نہیں سر ۔۔۔ صرف آپ نہیں ۔۔۔ میں بھی آپ کو دیکھتا آرہا ہوں کب سے ۔۔۔ اور نہ جانے کب تک دیکھتا رہوں۔۔۔ سو کیری آن۔”
وہ پر اعتماد ہو کے بولا۔
” لگتا ہے استاد اور شاگرد ۔۔۔ دونوں ہی بيزتی پروف ہیں۔” حریم نے عبیر کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
_____________
گیارہ بجے والی کال جاری تھی۔
” آپ نے بات کی گھر میں؟” عبیر نے پوچھا۔
” ہاں ۔۔۔ کی تھی۔” شہیر نے جواب دیا۔
” پھر کیا کہا آپ کے پرنٹس نے؟” عبیر نے پوچھا۔
” عبیر ۔۔۔ وقت لگے گا۔۔۔ اُنہیں راضی کرنے میں ۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گے۔” وہ بولا
” کتنا وقت؟” عبیر نے پوچھا۔
” کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔ اور تم بھی تو پڑھ رہی ہو ۔۔۔ تمہیں کیا جلدی ہے؟” وہ بولا۔
” مجھے جلدی نہیں۔۔۔ مجھے تصلی چائیے۔۔۔ ایسا نہ ہو کے آپ آخر میں اپنے وعدے سے مکر جائیں” عبیر نے کہا
” تو پھر ٹھیک ہے۔ ہم نکاح کر لیتے ہیں۔ پھر جب تمہاری پڑھائی مکمل ہوگی تب تک میرے گھر والے بھی مان جائیں گے۔ اس طرح تمہاری تصلی ہو جائے گی۔” شہیر نے کہا۔
” لیکن ۔۔۔ ایسے کیسے۔۔۔ نکاح ” عبیر سوچ میں پڑ گئی۔
” تم سوچ لو۔۔۔ ” شہیر بولا۔
عبیر واقعی سوچنے لگی ۔۔۔
وہ اگلے دن اسی سوچ میں تھی۔۔۔ یونی میں بھی یہی سوچ۔
( ایسے میں کیسے چھپ کر نکاح کر لوں۔۔۔ اگر کوئی مسئلہ ہوگیا کل کو تو۔۔۔ اگر بابا کو پتہ چل گیا تو۔۔۔ اور علی۔۔۔ وہ تو مجھے جان سے مار دیگا۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ بلکل بھی نہیں۔۔۔)
اس نے شہیر کو صاف انکار کے دیا۔
پھر کسی جاننے والے کا رشتا آن ٹپکا۔۔۔ وہ پریشان ہوئی۔
” رشتا اچھا ہے۔ انکار فضول ہے۔ ابھی منگنی کر دیتے ہیں۔۔۔ پھر عبیر کی پڑھائی مکمل ہوتے ہو شادی۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں۔” احسان احمد رات کھانے کی میز اور کہنے لگے۔
” عبیر سے پوچھ لیں۔” سعدیہ نے کہا۔
” عبیر کو کیا اعتراض ہونا ہے۔ اچھا لڑکا ہے اچھی شکل ہے جاب ہے اپنا گھر ہے۔ خاندان اچھا ہے ۔۔۔ اور میں ہوں عبیر کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے۔۔۔ میں اُس کا اچھا برا سمجھتا ہوں۔ مجھ سے بہتر کوئی اُس کا بھلا نہیں سوچ سکتا۔ ” احسان احمد عبیر کی طرف دیکھتے ہوئے جتانے والے انداز میں بولے۔
جس لڑکی کو اپنی پسند کا جوتا نے ملا تھا آج تک ۔۔۔ اُسے شوہر کیسے ملتا ۔۔۔ اور وہ تو اتنا آگے نکل چکی تھی۔۔۔
” شہیر کچھ کریں۔۔۔ بھیجیں اپنے گھر والوں کو ۔۔۔ اب یہ رشتے آنے لگے ہیں۔۔۔ یہ سلسلہ اب چل پڑا ہے۔۔۔ میں کتنے رشتے ٹالتی جاؤں ؟؟؟ اور کب تک؟؟؟ امی کو منع کر دیا ہے۔۔۔ وہ ابا کو سمجھا لینگی۔۔۔ لیکن اگر پھر کوئی اچھا رشتا آگیا تو؟ کب تک نہ کہتی جاؤں؟؟”
اس نے رات شہیر سے کہا۔
” جب تک مجھ سے محبت ہے۔۔۔ تب تک نہ کرتی جاؤ ہر رشتے کو۔۔۔ جس دن میری محبت تمہارے دل سے ختم ہوگئی ۔۔۔تو اس دن ہاں کر دینا۔۔۔”
الفاظ کے جادو گر نے اسے لاجواب کر دیا تھا۔
________________
شہیر شیرازی کا لیکچر تھا۔۔ سب سن رہے تھے۔
سرور کی نظریں حسبِ معمول کلاس میں گردش کرتی ہوئے عبیر پر ٹھہر گئیں۔۔۔ پھر شہیر شیرازی پر ۔۔۔ اُس نے غور کیا ۔۔ پھر غور کیا ۔۔ پھر غور کیا۔۔۔
وہ جو دونوں سمجھ رہے تھے کہ ان کی نظروں کی طرف کسی کا دہان نہیں ۔۔۔ سرور سب دیکھ رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا۔۔۔
“دعوے سے کہتا ہوں ۔۔۔ یہ لڑکی سیٹ ہے اس لیکچرار کے ساتھ۔۔۔ ” سرور نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے جنید سے کہا۔
” نہ یار ۔۔ وہ لڑکی بہت معصوم ہے ۔۔۔ آج تک اس نے کسی لڑکے سے بات تک نہیں کی” جنید نے سرگوشی میں کہا۔
” میری نظریں نہیں ۔۔۔ایکس رے مشین ہیں بیٹا۔۔۔میرا اندازہ آج تک غلط ثابت نہیں ہوا ہے۔” وہ بولا
” رہنے دے سرور ۔۔ لڑکی بہت شریف ہے ” جنید نے کہا۔
” شرافت کی ایسی کی تیسی۔۔۔ سب سمجھ گیا میں ۔۔۔ سرور سجاد اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے ” وہ بولا۔
” اسی لیے کے خلاف ہوں۔۔۔ مخلوط تعلیمی نظام کے۔۔۔ ” کلاس ختم ہونے کے بعد وہ اپنے ٹولے کے ساتھ بیٹھا تھا۔
” سرور وہ بہت شریف لڑکی ہے۔ یار نظر آرہا ہے۔” جنید بولا۔
” جو مجھے نظر آیا ہے ۔۔ وہ تم لوگ نہیں دیکھ سکتے ۔۔ ماں باپ سمجھ رہے ہیں بیٹی پڑھ رہی ہے ۔۔ اور بیٹی اپنے استاد سے عشق فرما رہی ہے۔۔۔ ایک استاد شاگرد کے رستے تک کا لحاظ نہیں دونوں کو۔۔۔ اس شہیر شیرازی کو ذلیل کروا کے نہ نکلوایا یونی سے تو میرا نام بدل دینا۔۔۔ کمینہ انسان۔۔۔ اور وہ لڑکی ۔۔۔ ”
سرور سگریٹ سلگاتا ہوا بولا۔
” ویسے۔۔۔ دیکھی دیکھی سي لگتی ہے مجھے یہ لڑکی۔۔۔ ” وہ ابرو اچکا کر بولا
______________
وقت گزرتا گیا۔۔۔ شہیر کے بہانے بڑھتے گئے۔۔۔ عبیر کے رستے آتے گئے ۔ انکار ہوتا گیا۔۔۔ عبیر آدھی پاگل ہونے کو تھی۔
ستم یہ کے حریم سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
دوسری طرف علی نے اپنے والدین کو حریم کے گھر بھیج دیا ۔۔ آگے سے فوراً ہاں ہوگئی ۔۔ علی کی اچھی جاب تھی ۔ اور سب سے بڑھ کر حریم کی اپنی مرضی تھی۔۔ حریم کے والدین نے حریم کی خوشی دیکھی اور بس ۔۔۔
منگنی کی رسم ہوئی ۔۔۔ علی کی منگنی کے دن اُس نے دیکھا ۔۔۔ علی خوش ہے ۔۔۔ حریم خوش ہے ۔۔۔ تو وہ کیوں خوش نہیں ہے؟؟؟! کیوں کیوں ۔۔ آخری کیوں۔۔۔۔
حریم کی پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کرنے کا فیصلہ ہوا ۔۔
تو عبیر احسان کہاں پھنس گئی تھی ۔۔۔
وہ سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔
علی نے پسند کیا ۔۔ رشتا بھیجا ۔۔ منگنی کر لی ۔۔۔ تو شہیر کیا کر رہا تھا اس کے ساتھ۔۔۔ وہ تو علی سے زیادہ مضبوط تھا ۔۔
علی کی بات تو کوئی سنتا ہی نہیں تھا ۔۔۔ کیسے اُس بے اپنی بات منوا لی۔
” حریم آزاد خیال لڑکی ہے۔۔۔ گاڑی خود چلاتی ہے ۔۔۔ گھومتی پھرتی ہے ۔۔” احسان احمد نے کتنے اعتراض اٹھائے۔۔۔ لیکن علی ڈٹا رہا ۔۔۔
” حریم اچھی لڑکی ہے لیکن۔۔۔ مجھے جیسی بہو چائے ویسی نہیں ہے حریم۔۔۔” سعدیہ کا اعتراض۔۔۔ لیکن علی ڈٹا رہا ۔۔
علی کو شادی حریم سے کرنی تھی ۔۔۔ اس نے سب کو راضی کر لیا۔۔۔
پھر شہیر ۔۔۔ اُس کے لیے کیا مشکل تھا۔۔۔ اپنے گھر والوں کو راضی کرنا۔۔۔ وہ تو لفظوں کا جادو گر ہے ۔۔۔ اپنی باتوں سے دنیا کو قائل کرنے والا ۔۔۔ کیا اپنے گھر والوں کو قائل نہیں کر سکتا؟؟؟۔ یہ کیا بھونڈا مذاق کیا ہے شہیر میں میرے ساتھ۔۔۔ عبیر سوچ سوچ کر نفسیاتی ہورہی تھی۔۔۔
_______________
” اگر تم مجھے چھوڑنا چاہتی ہو تو چھوڑ دو بس۔۔۔ آج کے بعد میں تمہیں کبھی کال نہیں کروں گا۔” شہیر کی یہ دھمکی ہمیشہ اُس کے کام آتی تھی۔۔۔
یہ کال ۔۔۔ یہ گیارہ بجے والی کال ہی تو سارے فساد کی جڑ تھی۔۔۔
وہ شہیر شیرازی کو چھوڑ بھی دیتی ۔۔۔ لیکن اس کال نے اسے غلام بنا دیا تھا۔۔۔ ذہنی غلام
وہ چاہ کر بھی اس گیارہ بجے والی کال سے نہیں آزاد ہو پا رہی تھی۔۔۔
اگر یہ کال نہ آئی تو اس کی زندگی ویران ہو جائیگی۔۔۔
ایک لت تھی یہ کال ۔۔۔ جو اُسے پڑ چکی تھی۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ جس رات یہ کال نہیں آتی تھی۔۔۔ اس کی رات نہیں کٹتی تھی۔۔۔
سارے کا سارا معاملہ ۔۔۔ اور مسلہ اسی کال ہی کا تو تھا۔۔
اگر یہ کال کا ہوتی تو سب آسان تھا۔۔ اگر رو برو بات ہوتی تو تعلق ختم کرنا آسان تھا۔
مگر اب آسان کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ پھر کال آگئی۔۔ پھر وہی محبت بھری باتیں۔۔۔ وہ نیم اندھیرا کمرہ۔۔۔ وہ سرگوشیاں۔۔ شہیر کی رس گھولتی باتیں اس کی سماعتوں سے ٹکراتیں۔۔۔
سب سے بڑھ کر اُس کے حسن کی تعریفیں۔۔۔ یہ حسن کی تعریفیں ہی تو لڑکیوں کی کمزوری ہوتی ہیں۔۔۔ وہ اس کی انکھوں سے بات شروع کرتا ۔۔ پھر پلکوں کے قصیدے پڑھتا ، پھر گال۔۔۔پھر ہونٹوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتا۔۔۔ اسکے ہاتھوں کی تعریف کرنے کے بعد اُسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی خواہش کا اظہار کرتا۔۔۔ پھر اُس کے وجود کو اپنے بانہوں میں بھرنے کی خواہش کا اظہار کرتا۔۔۔ پھر مستقبل کے خواب ۔۔۔ قربت کا خمار اُس کے دل میں جگاتا ۔۔۔
عبیر احسان ضائع ہورہی تھی۔۔۔ ایک فریبی کے ہاتھوں۔۔۔
” عبیر ۔۔۔ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ ۔۔ تنہائی میں۔ ملو گی مجھ سے؟” شہیر شیرازی آہستہ آہستہ اپنے مطلب کی طرف رواں دواں تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...