(Last Updated On: )
نوکری۔۔۔نوکری۔۔۔نوکری۔۔۔
نوکری۔۔۔نوکری۔۔۔نوکری۔۔۔
انور بڑبڑانے لگا۔۔۔کیا ہوا یار؟آخر آج اس قدر کیوں چلّا رہا ہے؟ کیا بات ہے؟ کیا پھر کسی نے ڈانٹ پلائی؟۔ سلیم نے پوچھا۔
کیسی ڈانٹ یار۔میری تو جان نکلی جا رہی ہے۔
جب بھی گھر جاتا ہوں تو بس ہر کوئی یہی کہتا ہے،کچھ کرتا کیوں نہیں،کہیں بھی جا، کچھ پیسے کما کر لا۔یوں کہتے ہیں جیسے کسی پیڑ پر پکے ہوئے پھل ہوں اور انہیں توڑ لاؤں۔۔۔ یا راستے میں گری ہوئی کوئی چیز ہے جسے اٹھا لاؤں,میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں کیسے سمجھاؤں۔ کیسے بتاؤں، تنگ آگیا ہوں میں اس زندگی سے۔ انور نے کہا۔سلیم سمجھ گیا کہ معاملہ بگڑا ہوا ہے،انور کے گھریلو حالات ناسازگار ہیں سلیم ،انور کو ایک ریسٹورنٹ میں لے گیا اور تسلی دینے لگا،کہ ماں باپ کی باتوں کا برا نہیں مانتے وہ ہماری بھلائی کے لیے ہی کہتے ہیں۔آخر وہ ہمارے سر پرست ہیں اور ہمارے آنے والے کل کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی پریشان ہیں تو اب اپنے دل کی بھڑاس بچوں پر نہیں تو کس پر نکالیں گے۔دونوں نے چائے پی اور اپنے اپنے گھر کا راستہ لے لیے۔
انور کے گھر میں والدین کے علاوہ ایک بھائی اور ایک بہن تھی،انور چونکہ بڑا تھا اس نے گریجویشن مکمل کر لی۔ ماں باپ کو فکر تھی کہ انور کی طرح اس کا چھوٹا بھائی اور بہن بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہو جائیں۔ اپنے چھوٹے سے بیوپار میں انہیں گھر خرچ کے علاوہ بچوں کی تعلیم کا بھی خیال تھا۔ انور گریجویشن کے بعد حصول روزگار میں کوشاں تھا مگر کہیں بھی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسی صورت میں وہ ایک وکیل کے یہاں روزانہ ٹائپ کرنے جاتا جس سے اس کا جیب خرچ نکل آتا ۔ انور کو بھی خیال ہوا کہ میری طرح میرا بھائی اور بہن بھی پڑھے اور کم سے کم گریجویشن تو مکمل کر لے۔ بھائی میٹرک میں پڑھ رہا تھا اور بہن ابھی آٹھویں جماعت میں تھی۔ انور اپنے جیب خرچ سے کچھ بچا کر والدین کی مدد بھی کرتا مگر کسی اچھی نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ ماں باپ کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی مگر سوائے دعا کے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیونکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہن کی شادی کا بھی خیال ستاتا رہتا کہ اس کی شادی کیسے ہوگی کیسا خاندان ملے گا وغیرہ وغیرہ۔
حسن اتفاق ایک فرم سے انور کو انٹرویو آیا وہ بہت خوش ہوا اس نے سمجھا کہ قدرتی طور پر انتظام ہو رہا ہے۔ جہاں سے اسے انٹرویو آیا وہاں صرف پانچ جائیدادیں تھیں۔انٹرویو کا دن آیا جب وقت مقررہ پر وہ پہنچا تو اس نے دیکھا وہاں سوسے زائد امیدوار انٹرویو دینے بیٹھے ہیں۔ اس نے خدا پر بھروسہ کیا انٹرویو دیا اور انٹرویو اچھا بھی ہوا۔ اس نے تمام سوالوں کے تشفی بخش جواب بھی دیے۔جب وہ باہر آ کر بیٹھا تو ایک کلرک اس کے پاس آیا اور اسے اندر ایک کمرے میں لے گیا اور کہنے لگا بھائی آپ کا پرفارمنس تو اچھا تھا بتاؤ اس نوکری کے لیے آپ کیا دے سکتے ہیں۔انور ہکا بکا رہ گیا۔اس نے پوچھا۔بھائی نوکری کے لیے کیا دینا ہے۔ کلرک نے سمجھاتے ہوئے کہا کچھ تو دینا پڑے گا وگرنہ نوکری یوں ہی نہیں ملنے والی۔ انور خاموش کھڑا تذبذب میں پڑگیا۔ اس پر کلرک نے کہا ٹھیک ہے چلے جائیے آپ کے پاس اس کام کا تجربہ نہیں ہے۔۔
نوکری کا نام سنتے ہی گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔مگر انور کے افسردہ چہرے نے سب کو مایوس کر دیا اسی افسردگی میں وہ باہر نکلا نکڑ پر فہیم پر نظر پڑی فہیم اس کے بچپن کا ساتھی تھا دونوں ہم عمر اور ہم جماعت تھے ساتھ میں کھیل کود پڑھنا لکھنا گھومنا پھرنا ہوتا تھا۔ فہیم کے والد سرکاری ملازم اور اچھے عہدے پر تھے, اور یہ اکلوتی اولاد۔کسی قسم کی اس کو فکر بھی نہیں تھی۔ کچھ دن پہلے ہی فہیم کے والد کا تبادلہ ہو گیا تھا وہ دوسری جگہ شفٹ ہو گئے تھے۔ بہت دنوں سے ملاقات نہیں البتہ خطوط کا سلسلہ جاری تھا۔
فہیم پوسٹ گریجویشن کر رہا تھا انور کو چونکہ وسائل نہ ہونے کے سبب وہ پوسٹ گریجویشن کی سوچا بھی نہیں۔۔جب تک یہاں فہیم تھا تو انور اس کے گھر بلا تکلف آجایا کرتا تھا۔ اب اچانک ملاقات نے سب پچھلی یادوں کو تازہ کر دیا۔ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے گپ شپ کے دوران انور نے اپنے حالات سنا دیے تو فہیم نے مشورہ دیا کہ انور بھی پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لے۔ انور نے کہا میرے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔۔فہیم نے سمجھاتے ہوئے کہا تیری تعلیمی حالت مجھ سے بہتر ہے۔ رہی فیس کی بات تو وہ مجھ پر چھوڑ دے۔ دوست ہونے کے ناطے میں اتنی مدد تو کر ہی سکتا ہوں۔ بالآخر انور نے اس کے کہنے پر پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لیا اور دیکھتے دیکھتے دو سال کیسے گزر گئے پتہ نہیں۔انور اچھے نمبروں سے پوسٹ گریجویشن مکمل کر لیا ۔
ایک کالج میں اسے پارٹ ٹائم لیکچررشپ کی نوکری مل گئی۔ وہ خوش تھا اپنے بھائی کو پڑھانے لگا بہن کو بھی ایک اچھے گھر سے رشتہ آیا اس کی شادی کا بندوبست بھی ہو گیا۔والدین کی مدد بھی کرنے لگا اب جیسے تیسے دن گزر رہے تھے چھوٹا سا خاندان پہلے سے تنگی ترشی میں گزر بسر کی عادت تھی اس لیے اب انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔
کچھ عرصے بعد ایک مال میں اچانک فہیم دکھائی دیا۔ انور نے آواز دی,فہیم سے مل کر بہت خوش ہوا۔ دونوں ہی ایک ہوٹل میں بیٹھے چائے کے گھونٹ لے رہے تھے, انور نے جیب سے رقم نکال کر فہیم کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے کہنے لگا،بھائی تو نے میری مدد کی اور میں نے پوسٹ گریجویشن مکمل کر لیا اور اب ایک جگہ پارٹ ٹائم نوکری کر رہا ہوں۔ اس وقت تو نے میری مدد نہ کی ہوتی تو نہ میرے پاس یہ ڈگری ہوتی اور نہ نوکری۔تیرا شکر کیسے ادا کروں سمجھ میں نہیں آتا۔ فہیم نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا ایک طرف تو مجھے اپنا سچادوست کہتا ہے۔ پھر یہ کیا؟یہ رقم میں نہیں لے سکتا۔ کیا دوست ہونے کے ناطے میں اتنا بھی نہیں کر سکتا۔ بس ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھی۔انور نے پوچھا بتا اب تو کیا کر رہا ہے؟۔ فہیم نے کہا کیا کروں۔بس ایک کالج میں پارٹ ٹائم جاب کر رہا ہوں۔ انور ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔کہنے لگا یہ کیا یار۔ میں غریب ہوں میرے پاس وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی میرے پاس اتنی پہنچ ہے۔ پر تجھے کیا کمی ہے۔۔فہیم نے کہا، یارکیا بتاؤں تو تو جانتا ہی ہے۔ میرے والد گو کہ اچھے عہدے پر رہے۔ زندگی میں مختلف مقامات پر ملازمت کی،اب ریٹائر ہو توگئے ہیںمگر دوران ملازمت انہوں نے نہ رشوت لی اور نہ دی۔نہ وہ رشوت لینے کے قائل تھے نہ ہی دینے کے۔ اس لیے مجھے یہ مشکلات درپیش ہیں۔ میرے والد کی نصیحت یہی ہے۔ کہتے ہیں بیٹا اپنے بل پر زندگی کو سنوارو،اپنی اپنی محنت سے زندگی میں مقام بنا لو۔ یہ زندگی مستقل تھوڑی ہے۔ یہ بھی پارٹ ٹائم جیسی ہے۔ جب تک سانس ہے جیتے رہو، مسکراتے رہو۔ تو سوچتا ہوں جب زندگی ہی پارٹ ٹائم ہے تو پھر ملازمت یا نوکری مستقل کیسی؟اس پر دونوں نے قہقہہ لگایا اور ایک زبان کہنے لگے میں بھی پارٹ ٹائم اور تو بھی۔یارزندگی شاید اسی کا نام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔