ایک دن وہ تھا کہ ہر جانب یہ ہوتی تھی پکار
بیبیاں پر دے میں ہو جائیں کہ مرد آتے ہیں یاں
پھر یہ دیکھا لوگ کہتے تھے بہ آوازِ بلند
مرد کر لیں اس طرف منہ آ رہی ہیں بیبیاں
پارسل بن کر کبھی نکلیں جو تانگہ میں کہیں
اس کے اندر سے نظر آتی تھیں خالی انگلیاں
جھانکنے کا راستے میں اک عجب انداز تھا
کھلتی تھیں اور بند ہو جاتی تھیں فوراً کھڑکیاں
رفتہ رفتہ ہو گیا غائب وہ گھونگھٹ کا رواج
برقع اور پر دہ کہیں حائل نہیں ہے درمیاں
ریل گاڑی میں بھی اب وہ پردۂ چادر نہیں
جب سے رائج ہو گئیں یہ خوبصورت ساڑیاں
رنگ بدلا ہے زمانے نے بڑی تیزی کے ساتھ
آج جلسوں اور تماشوں میں نہیں وہ سختیاں
مرد اب رہتے ہیں پیچھے بیبیاں ہیں پیش پیش
اور سب ان کے لیے کرتے ہیں خالی کرسیاں
عام جلسوں میں صفِ اول میں ہے ان کی نشست
بیوی لکچر دیتی ہے خاموش بیٹھے ہیں میاں
۲۔مسلمان طلبا اور تعلیمی جد و جہد
ہمارے لڑکوں کو کتنا ہی کوئی سمجھائے
ہزار زور لگائے کہ راہ پر لائے
برادرانِ وطن کی مثال دے دے کر
ہزار پند و نصیحت سے ان کو سمجھائے
انھیں پسند نہیں، یہ طریقۂ تعلیم
کہ جو اٹھائے مشقت وہی سند پائے
تلاش ہوتی ہے آسانیاں ملیں گی کہاں
جو مدرسہ میں کوئی نام جا کے لکھوائے
کہیں یہ عذر ہے پنجاب میں پڑھیں گے ہم
کسی کے جی میں ہے بنگال کی طرف جائے
کتاب سال میں اک دن نہ کھول کر دیکھی
قریب آ گیا جب امتحاں تو گھبرائے
یہ آرزو ہے مہیا ہو ایسی آسانی
کوئی پڑھے نہ لکھے اور پاس ہو جائے
حصول علم کی ایسی کوئی بنا دے مشین
اکنی ڈال دیں اور اک سند نکل آئے