ناظم خلیلی(گلبرگہ)
پاگل تو ہزاروں طرح کے ہوتے ہیں اور ان کے سروں پرسینگ نہ ہونے کے باوجود شکل و صورت سے اکثر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ شخص پاگل ہے۔ حلیہ بتادیتا ہے، آنکھیں بتادیتی ہیں اور گفتگو کا انداز بھی۔ جملوں کی بے ربطی، تسلسل کے ساتھ گھما پھرا کے ایک ہی انداز اور موضوع پر کہے جاتا۔ سامنے والے سے آنکھیں چرانا اور آنکھوں میں آنکھیں بھی ڈالناتو خوب جما کے ڈالنا اور ایک ارادے یا دھونس کے انداز میں راست دیکھنا ۔ یہ سب عام طور پر ایک نارمل آدمی کو فوراً یہ سمجھا دیتا ہے کہ مخاطب کسی نہ کسی حد تک کھسکا ہوا یا بہکا ہوا ہے یا پھر اس کا ذہنی توازن متاثر ہے۔صاف طور پر جو پاگل پن کی حرکتیں کرتے ہیں اور حلیہ بھی پھٹے حال ہوتا ہے تو انہیں تو لوگ دوسری نگاہ ڈالے بغیر ہی پاگل سمجھ کر اُن سے ذرا کتراتے ہوئے وہاں سے نکل جاتے ہیں۔
لیکن کچھ پاگل ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پہچاننا اور پاگل قرار دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ یا وربہزاد کے ساتھ بھی تھا۔ میں نے یاور بہزاد جیسے پاگل اپنی زندگی میں کم ہی دیکھے تھے۔ اچھے اچھے ماہرین نفسیات بھی تھوڑی دیر کے لیے چکرا جاتے تھے کہ انہیں پاگل قراردیں یا عقلمند۔ دو تین دفعہ وہ پاگل خانوں کی سیر بھی کرچکے تھے لیکن پھر وہاں سے چھوٹ کر نارمل زندگی گزارنے لگے تھے۔ سیاست ، مذہب اور سماجیات پرایسی بحثیں کرتے اور ایسے ایسے دلائل پیش کرتے کہ سامنے والا عش عش کراٹھتا ۔ اسے اگر پہلے سے علم ہوتا کہ وہ پاگل ہیں تو وہ اُس حساب سے انہیں نامکمل سنجیدگی سے ڈیل کرتا لیکن اگر اُسے یہ پتہ نہ ہوتا تو پھر تو وہ اُن کی علمی وادبی قابلیت اور سماجیات پر اُن کی گہری نظر کو دیکھ کر ان کی شخصیت کا لوہا مانے بغیر وہاں سے نہ اٹھتا۔
میں ایک پیشہ ورڈاکٹر ہوں اور میں نے ذہن نشو ونما اور طرزِ عمل پر نہ صرف M.Dکیا ہے۔ بلکہ اس ذیل میں سوپر اسپیالٹی بھی امریکہ سے کرچکا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ہر آدمی (کچھ مثتثنیات کے ساتھ ) میں پھر دہراؤں گا کہ ہر آدمی کس حد تک ہوش مند ہوتا ہے اور کس حدتک پاگل ۔ اسے عام زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ کون کس حدتک عقل مند ہوتا ہے اور کس حد تک بے وقوف ۔اصل میں بے وقوفی ہی ایک طرح کا پاگل پن ہے۔ لیکن اگر اِس کا تجزیہ ہم کریں تو ہمیں یہ بھی ایک طرح سے غلط ہی نظر آئے گا اور اس سلسلے میں میری ذاتی رائے کسی ذاتی تجربہ پر مبنی نہیں تھی۔ میری ذاتی رائے دراصل ایک نہایت عمدہ اور معیاری لطیفے پر مبنی تھی او رجس کے ساتھ بھی یہ پیش آیا تھا یا جس نے بھی اِس کو ایک لطیفے کی شکل دی تھی اصل میں میری ذاتی رائے اُس کی ذاتی رائے کی یا صرف اِس لطیفے کی مرہون منت تھی۔ وہ لطیفہ یوں تھا۔
ایک شخص لمبے سفر سے اپنی کار کے ذریعے اپنے شہرکو واپس ہورہا تھا اور جب وہ شہر کے مضافات میں داخل ہوا تو اتفاق سے اُس کی کار کے ایک ٹائر میں پنکچر ہوگیا اور وہ اپنی کار کو ایک طرف دھکیل کر اور جیک لگاکر اُس کا پہیہ بدلنے میں لگ گیا۔ پہیّے کے چھ کے چھ نٹس اس نے کھول کر ایک طرف رکھے۔ اسٹپنی کو اُس کی جگہ چڑھا کر وہ اُن نٹس کی طرف متوجہ ہو ا جو اس نے ایک طرف قرینے سے رکھ دیئے تھے۔ لیکن اُسے یہ احساس تک نہیں ہوا تھا کہ وہ چھ کے چھ نٹس اُس کے ایک دھکے سے کبھی کے قریب میں بہنے والے اک نالے میں گرچکے تھے۔ اُس نے جب وہ نٹس ڈھونڈے اور وہ نہ ملے تو اُسے بڑا شاک ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ چھ کے چھ نٹس نالے میں گرگئے تھے۔ اُس نے نالے میں اتر کر اور ہاتھ ڈال ڈال کر کئی دفعہ اُنہیں ڈھونڈا لیکن مایوسی ہی اس کے ہاتھ لگی۔ اِس جائے حادثہ سے قریب ہی ایک بہت بڑی اور پھیلی ہوئی عمارت تھی جس کی کھڑکی میں سے ایک شخص بہت غور سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس شخص نے دو تین دفعہ ہاتھ کے اشارے سے اور زور سے اسے مخاطب کرتے ہوئے اُس سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ لیکن اُس نے جواب دینے سے قبل نگاہیں اٹھا کر اُس عمارت کے سائن بورڈ پر نظر دوڑائی ۔ جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ ’پاگل خانہ!‘
وہ ایک سیکنڈ میں یہ سمجھ گیا کہ کھڑکی سے جھانکتا ہوا آدمی دراصل ایک پاگل ہے۔ اور وہ کیوں ایک پاگل کے سوالات کا جواب دے۔ لیکن جب پانچویں دفعہ اسے اُن نٹس کو ڈھونڈنے میں ناکامی ہوئی اور اُس پاگل نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تو اُس نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ پاگل بولا۔ ’ارے بھائی، دوسرے تین پہیوں سے ایک ایک نٹ نکال کر اس میں لگادو۔ شہر تک پہنچ ہی جاؤگے۔ وہاں اور نٹس ڈلوالینا۔!وہ دنگ رہ گیا۔ کتنی عقل مندی کی بات تھی۔! اُسے یہ مشورہ بہت اچھالگا اور اُس نے وہی کیا جو اُس شخص نے کہا تھا۔ اور پھر روانہ ہوتے وقت اُس نے کہا۔ مجھے معاف فرمائیے۔ میں آپکو پاگل سمجھ کر آپ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے رہا تھا۔
وہ شخص سنجیدگی سے بولا۔ میں پاگل ضرور ہوں لیکن بے وقوف نہیں ہوں۔!
عقل میں کسی طرح کی کمی رہ جانا ، عقل سلیم کا نامکمل رہ جانا بھی ایک طرح کا پاگل پن ہی ہے۔ آپنے ایسے بے شمار لوگ دیکھے ہوں گے جو بظاہر بہت پڑھے لکھے اور اپنے اپنے جاب مستعدی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ گفتگو کے وقت تقریباً تمام عام موضوعات گفتگو پر بھی کافی بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں اور مخاطب کو مرعوب یا متاثر بھی کردیتے ہیں۔ ویسے بھی عام آدمی اُن کی پڑھائی لکھائی اور عہدے کی وجہ سے ذہنی طور پر ان سے متاثر اور مرعوب ہونے کے لیے پہلے ہی سے تیار رہتا ہے اور اُنہیں بھی خوب اِس کا احساس رہتا ہے۔ اس لیے وہ بڑی آسانی کے ساتھ ہر محفل پر چھا جاتے ہیں۔ لیکن عقل سلیم کی کمی انہیں دو چار ملاقاتوں ہی میں کھول کررکھ دیتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں میں وہ لوگ جو پڑھے لکھے تو ہوتے ہیں لیکن کسی مناسب عہدے یا معقول ذریعہ معاش سے محروم رہتے ہیں عقل سلیم کی کمی کے باعث مکار اور جھوٹے بن کررہ جاتے ہیں۔ وہ عمر بھر اپنی مکاری اور چالاکی کو اپنی دانشمندی پر محمول کرکے اپنے آپ پر نازاں رہتے ہیں اور دوسروں کو الو اور بے وقوف بنا کر فطری خود غرضی کی باعث اپنا الوسیدھا کرتے رہتے ہیں۔ جھوٹ، مکاری ، غیبت اور دوسروں کی کردارکُشی ان کی فطرتِ ثانیہ بن کر عمر بھر ان سے چپکی رہتی ہے اور ان کی موت پر چند ایک قریبی اعزا کے علاوہ باقی سب اندر اندر چین کا سانس لیتے ہیں۔
یا ور بہزاد نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تھا کہ ’ڈاکٹر صاحب آپ پاگلوں کے ڈاکٹر مشہور ہیں۔!‘
میں نے کہا’ مشہور نہیں ہوں بلکہ ہوں۔ لیکن آپ کہنا کیاچاہتے ہیں ؟‘
یاور بہزاد بولے ’اس سے میرا مطلب یہ ہیکہ آپ مجھکو ایک مریض سمجھ کر ہی ٹریٹ کرتے ہونگے۔ !‘
میں نے کہا ’میں اپنے آپ کو بھی اسی طرح ٹریٹ کرتا ہوں۔!‘
’جی ۔۔!؟‘ وہ حیرت سے بولے۔
’جی ہاں ۔!‘ میں نے کہا۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں اپنے آپ سے فیس نہیں لیتا ۔!‘
یا ور بہزاد دل کھول کر ہنسے اور اُن کے انداز سے صاف لگا کہ وہ میری بات سے بہت محظوظ ہوئے تھے۔
’اور یجنل جملے سن کر مجھے واقعی خوشی ہوتی ہے۔ اور اوریجنل جملے اور یجنل آدمیوں کی طرح تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔!‘
میں دنگ رہ گیا۔ کتنا عجیب وغریب اور محیر العقول آدمی ہے۔ میں نے سوچا اور اُسی وقت میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اِس شخص کو پوری طرح سمجھ کر ہی دم لونگا۔ چنانچہ اِس تحلیلِ نفسی کے عمل کے پہلے قدم کی حیثیت سے میں نے ایک ریڈہرنگ (Red Herring)یعنی دامِ مغالطہ کو استعمال کیا۔ میں نے کہا یاور بہزاد صاحب آپ مجھے صرف اور صرف ایک ڈاکٹر سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ بھی تو علم ہے کہ ڈاکٹر بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ میں آپ کو بقول آپ کے مریض سمجھتا ہوں لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کہ میں آپ کو کتنا قابل اور جہاں دیدہ بھی سمجھتا ہوں۔ آپ سچ پوچھیں تو خود میں ایک ناکام ونامراد انسان ہوں۔ اور میں نے محبت کی راہ میں بہت دھوکے کھائے ہیں۔ میں نے جس لڑکی کو ایک نہایت باوفا اور محبت کی دیوی سمجھا وہ صرف جنسی مقاصد رکھنے والی ایک خود پرست عورت نکلی۔ ایسی عورت جسے اپنی محبت سے زیادہ اپنا مستقبل عزیز تھا۔ آپ جانتے ہیں ایسے لوگوں کو انگریزی میں Calculativeیعنی چالاک اور نفع نقصان کا دھیان رکھ کے کام کرنے والے کہا جاتا ہے۔ او رمحبت اور Calculationsدو متضاد چیزیں ہیں۔!
میں نے دیکھا کہ یاور بہزاد صاحب کا چہرہ ایک دم سُت گیا ۔ اور وہ بے حد سنجیدہ ہوگئے۔ میں سمجھ گیا کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ وہ مجھ سے پانچ سات سال عمر میں بڑے تھے اور قریب پینتالیس یا سینتالیس سال ان کی عمر تھی۔ قدآور، خوب رو اور جسمانی طور سے نہایت چا ق و چوبند اور صحت مند آدمی تھے اور چہرے مہرے ہی سے باوقار اور کسی اچھے خاندان کے فرد لگتے تھے۔ البتہ شادی انہوں نے نہیں کی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ انہیں عورت ذات ہی سے نفرت ہے۔ اُن کے مطابق یاور بہزاد صاحب کو اپنی ماں سے بھی بہت دکھ ملے تھے۔ مجھے ایک مغربی مفکر نیطشے کی یاد آگئی تھی جو خود بھی ماں کے ہاتھوں ستایا ہوا تھا اور جسے راہ عشق میں بھی ٹھوکروں کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا تھا اور اِسی لیے اُس نے عورت ذات کے خلاف اک باقاعدہ محاذ ہی کھول دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ خوا مخواہ عورت کو پرکشش اور جاذب نظر کہا جاتا ہے حالانکہ مرد کے مقابلے مین یہ کمزور، بے ڈول اور بڑی حد تک بے وقوف مخلوق ہوتی ہے جب کہ مرد طاقتور ، سڈول ، صحتمند اور کئی گنازیادہ عقلمندہوتا ہے۔ دوچار دس بیس عورتیں اگر زیادہ عقل مندیا طاقتور نکل بھی جائیں تو اس سے کلیہ کیسے بدل سکتا ہے ۔اُس نے ایسے ہی ایک گھریلو جھگڑے کے دوران اپنی ماں سے کہا تھا کہ ماں۔ تو اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے۔ لوگ کل تجھے تیری وجہ سے نہیں بلکہ میری وجہ سے جانیں گے۔ !
میری نظرمیں نیطشے بھی ایک طرح سے پاگل ہی تھا۔ اُسے جتنی صلاحتیں اور قابل قدر ذہنی خزانے ملے وہ سب باپ اور ماں اور اجداد ہی کا عطیہ تھے۔ کسی ایک جنس کی جانب سے اُس کا یہ ذہنی جنون بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ماں ہی سے ملا ہو لیکن نسلی اچھائیوں اور برائیوں کو اولاد میں منتقل کرنا یا منتقل ہونے سے روک دینا ابھی سائنس کے بس میں کہاں۔! لہذا وہ مجبور تھی اور کسی کی مجبوری کو نہ سمجھ کر سو فی صد اُس کو موردالزام قراردینا اور اُس سے منتقمانہ رویہ اختیار کرنا بجائے خودایک سخت کم فہمی کی علامت ہے کیوں کہ نہایت خوبصورت اور لائق تحسین مثالوں سے بھی اس دنیا کی گودبھری ہوئی ہے۔
(Red Herring)کے طور پر میرے کہے گئے واقعے کا بڑا گہرا ثریاور بہزاد صاحب کے چہرے پر مرتب ہوا تھا اور میں سمجھ گیا تھا کہ تیر نشانے پر لگاہے۔ میں نے اپنے تعلق سے جو کہانی انہیں سنائی تھی وہ بالکلیہ فرضی اور خلافِ واقعہ تھی۔ ہمیں خصوصی طور پر سوپر اسپیشیالٹی میں یہ تربیت دی جاتی تھی کہ مریض کو ڈیل کرتے وقت اور اُن کی تحلیل نفسی کے عمل کے دوران ڈاکٹر اگر مریض کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ وہ ایک ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ مریض کا انسانی اقدار کے لحاظ سے بہی خواہ بھی ہے اور سماجی حساب سے اُس کا دوست اور ہم پلہ تو وہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے کیوں کہ وہ اِس کے نتیجے میں مریض کو اپنے نفیساتی خول میں سے ڈرا(Draw)کرنے میں یا اپنے آپ کو کھول کر ڈاکٹر کے سامنے رکھ دینے میں ظفر یاب ہوجاتا ہے۔ اور ایک دفعہ اگر اِس عمل میں ڈاکٹر کامیاب ہوجائے تو پھر اُسے اُس کا علاج کرنے میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ؟‘ یا ور بہزاد کی آواز کانپ رہی تھی۔
’میں اس سلسلے میں آپ کے علم اور جہاں دیدگی کی بنیادوں پر آپ سے کوئی مشورہ یارہ نمائی چاہ رہا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ وہ جہاں بھی ہے بظاہر خوش اور مطمئن ہے۔ لیکن اصل میں وہ مجبور ہو کررہ گئی ہے کیوں کہ وہ ماں بننے والی ہے اور اُسے اِس کا احساس کافی دیر سے ہوا ہے کہ اُس کا Calculationغلط تھا۔ کیا میں اُسے بھول جاؤں یا اُس کے وہاں سے نکل آنے کا انتظار ہی کرتا رہوں؟ میں تو اُسے ہر حال میں اور ہر قیمت پر حاصل کرلینا چاہتا ہوں۔ آپ اِس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیے۔!‘ میں نے نہایت عاجزانہ اور ملتجیانہ انداز میں اُن سے درخواست کی۔اور شاید وہی لمحہ میرے پیشہ ورانہ دور کا سب سے اہم لمحہ تھا ۔ یاور بہزاد بجائے کوئی جواب دینے کے پھوٹ پھوٹ کر روپڑے۔
’آئی ایم سوری، آئی ایم رئیلی سوری!۔‘ میں نے گھبرا کر کہا۔’میں نے آپ کو خواہ مخواہ اپنی ذاتی باتیں سنا کر پریشان کردیا۔ میں ایک بے وقوف ڈاکٹر ثابت ہوا۔!‘
یاور بہزاد بولے۔ ’چھوڑئیے۔ آپ اب زیادہ اپنے آپ کو Exertمت کیجئے (تھکائیے مت) جو بات آپ کو اور اس شہر کے بیش تر لوگوں کو نہیں معلوم وہ میں آج آپ کو بتادیتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ میں خود اک پاگلوں کا ڈاکٹر ہوں اور اس سلسلے میں میں نے بھی U.S.A.سے سوپر اسپشیالٹی کی تھی۔ آپ نے مجھے Drawکرنے کے لیے جو فرضی کہانی اپنے تعلق سے سنائی وہ اتفاق سے ہو بہو میری اپنی زندگی کی سچی کہانی سے ٹکراگئی اور میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ خود میں اسی اذیت سے گذر رہا ہوں اور گذرتا رہوں گا۔ کبھی کبھی اتنا جذباتی اور بے قابو ہوجاتا ہوں کہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگتا ہوں اور سامنے کوئی ہوتو اُسے نشانہ بنا دیتا ہوں اور اِسی لیے مجھے دو دفعہ پاگل خانے میں رہنا پڑا ۔ لیکن میں نے کسی ڈاکٹر سے اپنا مافی الضمیر نہیں کہا۔ کیوں کہتا۔ میں جانتا تھا کہ میں کہاں فیل ہورہا ہوں اور کہاں اور کیوں ابنارمل حرکتیں کررہا ہوں۔ کرتا بھی کیا ۔میں مجبور تھا۔ لیکن آج اتنے برسوں بعد پہلی دفعہ میں پھر اُس شدت سے ایک ڈاکٹر یا اجنبی کے سامنے جذبات سے مغلوب ہوا لیکن تھینک گاڈ بے قابو نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ آپِ اس گرہ کو کھولنے میں کامیاب ہوہی گئے ہوں۔ لیکن اگر پھر کبھی میں اِس طرح جذبات سے مغلوب ہوا اور میں نے پھر ویسی ہی حرکتیں کیں تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے ذہن کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ مجنوں بھی اسی طرح مجبور رہا ہو۔
جتنی شرمندگی مجھے اُس دن اپنے اک پیشہ ور ڈاکٹر ہونے پر ہوئی شاید اُتنی کسی اور کو کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ میں اپنے آپ کو یا ور بہزاد کے سامنے ایک خطاکار بچہ محسوس کرنے لگا۔ یاور بہزاد بولے ڈاکٹر بشیر الدین آپ ابھی ایک نو آموزڈاکٹر ہیں۔ آپ اک نہایت سمجھ دار اور باکمال ڈاکٹر ہیں اس میں ہر گز دورائیں نہیں ہوسکتیں لیکن پاگلوں کو سمجھنے کے لیے ابھی اور تحقیق اور وقت درکار ہے۔ آپ کی معلومات کے لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنی ڈاکٹری کے دور میں اِسی شہر کے مسلم چوک پر ایک پاگل کو اکثر دیکھا تھا۔ صاف طور پر پاگل تھا اور حلیہ اور حرکتیں بھی اِس کی تصدیق کرتی تھیں کہ وہ بلا شبہ ایک پاگل ہے۔ وہ جب بھی مجھے دیکھتا فوراً میرے قریب آجاتا اور اپنا دستِ سوال دراز کرتا اور میں اکثر اُسے پانچ روپے کا ایک سکہ بھی دیتا جو اُسے عمومی خیرات سے کہیں زیادہ لگتا اور وہ جھک کر اور نہایت ادب سے مجھے سلام کرکے آگے بڑھ جاتا ۔ بلکہ کبھی کبھی تو میرا ہاتھ بھی چوم لیتا۔ اور اگر کبھی میں اسے آٹو چکاتا ہوا نظر آتا تو وہ آٹو والے کے قریب جاکر اپنے مخصوص اندا ز میں کہتا ۔’صاب ایک بہت بڑے صاب ہیں، اُن سے ذرا دیکھ سمجھ کے لو!‘ اُس کا یہ مطلب ہوتا کہ ذرا کم لو۔ آٹو والا ہنس کر آگے بڑھ جاتا اور معاملہ وہیں ختم ہوجاتا ۔ لیکن مجھے یہ بھی اندازہ تھا کہ وہ مجھے ایک اسمارٹ آدمی بھی سمجھتا ہے اور اِس ذیل میں اُس نے کئی دفعہ میری تعریف بھی کی تھی اور میری خوش پوشی کو بھی سراہا تھا۔ لیکن میں نے اُسے اُس کے پاگل پن اور ذاتی مطالب کے ذیل میں شامل کرکے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔ پر ایک دن جب میں نے ایک نئی ٹی شرٹ خریدی اور اُسے پہن کر مسلم چوک پر اپنے کسی کام سے گیا تو وہ فوراً اپنے پانچ روپے کے سکے کی بو سونگھ کر میرے پاس آگیا اور جب میں نے حسب عادت جیب میں پانچ روپے کا سکہ ٹٹولا تو وہ مجھے نہ ملا۔ لہذا میں نے دل بڑا کرتے ہوئے اُسے دس روپے کا نوٹ تھما دیا۔
اُس نے نہایت ادب اور عاجزانہ انداز میں جھک کر مجھے سلام کیا اور میرا ہاتھ لے کر چوم لیا۔ لیکن جاتے جاتے رک کر وہ پلٹا اور مجھ سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’سر‘ آپ اپنے ٹی شرٹ کا اوپر کا بٹن کھول دیں جو آپنے لگایا ہے۔ نیچے کارہنے دیں۔۔۔!‘