س: آپ نے ناول اور افسانہ لکھنے کی ابتدا کب کی اورآپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے؟
ج: میں نے پہلا ناول ۱۷ سال کی عمر میں لکھا۔ عقاب کی آنکھیں— اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ لمحۂ آئندہ بھی مکمل کرچکا تھا۔ لمحۂ آئندہ جدید طرزکا ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ جلتے بجھتے دیپ تھا جو میں نے ریڈیو کے لیے لکھا تھا۔ لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گزرا اس کانام لمحہ رشتوں کی صلیب ہے۔ یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتدا بچپن سے ہی ہوچکی تھی۔ ایک گھر تھا جس کی خستہ ہوتی دیواروں میں صدیاں قید تھیں۔ یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ ہمیں کہیں بھی آنے جانے پر پابندی تھی۔ اس لیے بچپن سے ہی کتابوں سے دوستی ہوگئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔
س: آپ نے کبھی اردو کو بطور سبجیکٹ نہیں پڑھا پھر بھی اردو میں آپ نے بہترین ناول اور افسانے لکھے ہیں تو اردو کی طرف رغبت کی کوئی خاص وجہ؟
ج:اردو زبان میری پہلی محبت ہے۔ مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ مجھے وہ زبان لکھنے میں قدرت حاصل نہیں جو عبدالحلیم شرر کی زبان تھی یا شاہد احمد دہلوی کی نثر میں جس کا لطف حاصل کرتا ہوں۔ اس زمانے میں تعلیم کا معیار دوسرا تھا۔ اصل تربیت گھر میں ہوتی تھی۔ میں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہاں اٹھتے بیٹھتے ادب پر ہی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ابا حضور مشکور عالم بصیری میرے آئیڈیل تھے۔ تب چاندنی راتوں میں چھت پر پلنگڑیاں بچھ جاتیں۔ گرمی کے دن ہوتے تو چھت پر جانے کا نشہ سا ہوتا۔ ابا حضور کسی داستان گو کی طرح ہم سب بھائی بہنوں کو گھیرکر داستانوں کو زندہ کردیتے۔ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ سے لے کر سراج انور کے ناول بھی پہلی بار ابا حضور سے ہی سنے۔ اردو کے علاوہ انگریزی ناول اور قصوں کا دور بھی شروع ہوتا۔ سردی کا زمانہ ہوتا تو کمرے میں بورسی یا انگیٹھیاں جل جاتیں۔ ہم لحاف میں دبکے ہوئے اباحضور سے کہانیاں سنا کرتے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ہم یہ تربیت اپنے بچوں کو نہیں دے سکے۔ اس لیے اردو کا طالب علم نہ ہونے کے باوجود میں نے داستانوں اور کہانیوں کی آغوش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور یہ فیصلہ میں نے بچپن کے دنوں میں ہی کرلیا تھا کہ مجھے کہانیوں کی سمت پڑھنا ہے۔ اس راہ میں مشکلیں ضرور تھیں لیکن کہا جاسکتا ہے کہ میں نے قصے کہانیوں کے لیے اپنے اچھے کیریئر کو قربان کیا تھا۔ کل بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا اورآج بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
س: اب تک آپ کتنے ناول لکھ چکے ہیں؟
ج: عقاب کی آنکھیں، لمحۂ آئندہ ، نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح، مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ— اس کے بعد سرحدی جناح، اردو، اڑنے دو ذرا—
س: ذوقی کیا آپ کا قلمی نام ہے؟
ج: ذوقی میرا قلمی نام ہے۔ اصل نام مشرف عالم ہے۔ ابا حضور مشکور عالم کا تخلص بصیری تھا۔ میں اسی طرز پر اپنا تخلص بھی چاہتا تھا۔ بچپن میں مجھے ذوق بے حد پسند تھے۔ کیوں؟ یہ بتانا مشکل ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں کی سائیکل ہوا کرتی تھی۔ سائیکل پر بیٹھ کر میں خود کو ابرہیم ذوق سمجھنے لگتا۔ ذوق کا کلام میں اتنا لہک لہک کے اور جوش کے ساتھ پڑھتا کہ ایک دن ابا حضور خوش ہوکر بولے— یہ ذوقی ہے۔ بس وہ دن ہے اورآج کا دن۔ میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔
س: انگریزی ناول نگاری میں فیملی انسیسٹ پر ۱۷ ویں صدی کے نصف اول سے ہی قلم اٹھائے گئے ہیں مگر اردو ادب میں آپ نے پہلی بار اس موضوع کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ادب میں اس فرق کی وجہ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
ج: ماحول اور معاشرہ کا فرق سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ مغرب کا ماحول اور ہے— مشرقی تہذیب میں بہت سی باتوں کا گزر ممکن نہیں۔ یہ مشکل موضوع تھا، جب میں نے لکھنے کا ارادہ کرلیا۔ آپ کو بتائوں جب قلم اٹھانے کو سوچا تھا، اس وقت یہ فکر بھی لاحق ہوئی تھی کہ اردو والے اس موضوع کو قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ اردو والے آج بھی ایک مخصوص قسم کے تہذیبی ناستلجیا میں سانس لیتے ہیں۔ ناول لکھنے کے بعد بھی میں ڈرا ہوا تھا۔ مگر کل اور آج کے اس فرق کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اس ناول کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ اس خطرناک موضوع کو اردو والوں نے قبول بھی کیا اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ سائبر اور صارفی سماج کے ساتھ جو گندگیاں سامنے آئی ہیں، وہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ لوگ واقف ہیں کہ ان کے اثرات معاشرے پر کس طرح کے ہورہے ہیں۔ The Clash of civilisation کی الگ الگ وجوہات دونوں جگہ تھیں۔ ایک جائزہ وہاں بھی لیا جارہاتھا۔ کیونکہ مغرب بھی بدل رہا ہے۔ مغرب میں سیکس عام ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اس کا نام لینا بھی گناہ۔ مغرب کھلے پن کی وجہ سے کئی حصوں میں تقسیم ہوا— ہمارے یہاں یہ کھلا پن ادھر دس برسوں میں آیا ہے— پھر بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ نوجوانوں اوربچوں پر اس کے اثرات کو لے کر میں نے پوکے مان کی دنیا تحریر کیا تھا۔ اب گلوبلائزیشن کی تھیوری کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے ایک Rich پلاٹ کی ضرورت تھی۔ اور میں نے اسی لیے ’لے سانس بھی آہستہ‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ ہمارا معاشرہ ابھی بھی اتنا ایڈوانس نہیں ہوا، پھر بھی آپ دیکھ سکتی ہیں کہ فیملی انسیسٹ کے موضوع کو یہاں بھی قبول کیاگیا— کیونکہ یہ بیماری مغرب سے ہوتی ہوئی ہمارے دروازے پر دستک دے چکی ہے۔
س: آپ کے ناولوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ خاص طور سے نئی نسل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس حوالے کیا دقتیں در پیش ہوئی ہیں؟
ج: میرا ٹارگیٹ آج کے نوجوان ہیں۔ ’پو کے مان کی دنیا ‘سے لے کر’ اڑنے دو ذرا‘ تک میں در اصل آج کے بچوں کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ پھٹی ہوئی جینس، الٹی ٹوپی پہننا دراصل ان نوجوانوں کے Attitude کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ نوجوان بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ ان کے پاس زندگی، محبت اور کیریئر کی اپنی تعریف ہے۔ بہت کم بچے ہیں جو ماں باپ کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنا راستہ خود بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ان بچوں کے مزاج کو میں تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ کل یہی بچے مستقبل کے افق پر طلوع ہوں گے۔کل یہ بچے سماج سے سیاست تک ہر جگہ ہوں گے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان بچوں کی نفسیات کو سمجھا جائے۔ میں نئی نسل کو پرکھتا نہیں، ہر قدم پر ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا بیٹا ۱۷ سال کا ہے۔ عکاشہ عالم۔ ہم پیار سے اسے ساشا بلاتے ہیں۔ ’پوکے مان کی دنیا ‘تحریر کرتے ہوئے بھی ساشا میرے سامنے تھا۔’ اڑنے دو ذرا‘ میں بھی میں نے ساشا کو ہی سامنے رکھا ہے۔ جب آپ نوجوان نسل کو سنجیدگی اور ایمانداری سے سمجھنا چاہتے ہیں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ ذرا ان بچوں کے قریب جائیے تو آپ کو پتہ چلے گا۔ یہ بچے Complicated نہیں ہیں۔ ان بچوں کو سمجھنا بے حد آسان ہے۔
س: آپ نے اپنے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا عنوان میر کے شعر سے مستعار لیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتا ہے؟
ج: اس ناول کے عنوان کے لیے میر کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میر کے شعر کی تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میر نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگالیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرے کو یہ شعر لکھنا پڑا لکھنا— آج کے ماحول میں دیکھیے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جاسکتی۔
س: آپ نے اپنے ناول کا اختتام رومی کے مصرعے ہر نفس نومی شود دنیا وما— ہرآن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے پر کیا ہے— اس شعر کے تناظر میں آپ اپنے ناول کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
ج: ہر نفس نومی شود دنیا وما— میرے ناول کا موضوع دراصل یہی ہے— ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے— کسی تہذیب پر تنقید یا تبصرے کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے اسکی جگہ نئی تہذیب آجاتی ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا نور محمد جب گائوں کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو نئی تہذیب کے ساتھ نیا نور محمد ہوتا ہے۔ وہ پرانے نور محمد کو بلند شہر دفن کرآیا ہوتا ہے۔ اوروہ ایک نئی آئیڈینٹٹی کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ ماضی یا تاریخ میں ہمارا حصہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہم اسے بھول نہیں پاتے۔ مگر اصل چیلنج اپنے وقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے— نور محمد نے یہی کیا اور اسی لیے وہ مشکل حالات کے باوجود زندہ رہا۔ بلکہ جس طرح کے مسائل اس کے سامنے آئے، وہاں اسے مرجانا چاہئے تھا۔ مگر میں نے جان بوجھ کر اسے زندہ رکھا۔ کیونکہ وہ مرجاتا تو میں نئی تہذیب کی جھلک دکھانے سے چونک جاتا— کوئی بھی ناول کوئی پیغام نہیں دیتا— بلکہ وقت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ میں نے بھی پیغام نہیںدیا ہے بلکہ بدلتی ہوئی تہذیبوں کا آئینہ اپنے قارئین کے سامنے رکھدیا ہے۔
س: تہذیبوں کا تصادم عرصے سے مفکرین کے درمیان موضوع بحث بناہوا ہے۔ اس تصادم کے اسباب وعوامل کیا ہیں؟
ج: یہ لمبی بحث کا موضوع کا ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ ہم جس نتیجے پر پہنچیں اس پر اتفاق کیا جائے۔ تہذیبوں کے تصادم کو میں نے اس ناول میں گلوبلائزیشن کے آئینہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے— لیکن موضوع کے لیے جس ملک کا انتخاب کیا ، وہ ہندستان ہے۔ ہندستان سے تقسیم کے بعد ایک ملک جدا ہوچکا ہے۔ پاکستان کی اپنی جمہوریت اپنی قدریں ہیں۔ اسی لیے میں نے تصادم کے اس سلسلے کی شروعات جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ سے کی ہے۔ مغل بادشاہوں کے زوال کے بعد کی تصویر ابھی بہت دھندلی نہیں ہوئی ہے— سراج الدولہ تک آتے آتے انگریز اس ملک کے نگہبان ہوچکے تھے۔ واجد علی شاہ تک آتے آتے اودھ کی تہذیب کے تار تار بکھر چکے تھے۔ دلی بار بار لٹتی رہی اور باربار آباد ہوتی رہی۔ انگریزوں کی حکمرانی اور تقسیم نے ایک ایسے ہندستان کی بنیاد رکھی تھی، جسے نئے سرے سے آباد ہونا تھا۔ اس لیے آزادی کے بعد کے ۶۷ برسوں کا جائزہ مقصود تھا۔ اس درمیان جو تبدیلیاں آئیں ان کے اسباب وعوامل پر بھی غور کرنا تھا اور اس کے لیے سماج، معاشرے سے لے کر مذہب تک کا مطالعہ ضروری تھا۔ ۹۰ کے بعد ہندستان نے ترقی کے ریس میں قدم رکھا۔ اور بھاجپا کی حکومت آنے تک سپر شائننگ انڈیا کے نعرے تیز ہوچکے تھے۔ لیکن اس درمیان نفرت اور تیرتھ یاترائوں کا دور بھی چلا۔ مسجد اور مندر کا جھگڑا بھی۔ اس سے الگ دیکھیں تو نو آبادیاتی نظام— اور ہندستان آہستہ آہستہ بڑے ممالک کے درمیان اپنی جگہ بناتا جا رہا تھا۔ نئی نسل کی برین واشنگ ہوچکی تھی۔ گلوبلائزیشن نے نوجوان نسل کو مغرب کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔ لڑکیوں نے بھی آزاد ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ گلوبلائزیشن کو میں کوئی چیلنج یا خطرہ نہیں مانتا بلکہ نئے تناظر میں اسے سمجھنا چاہتا ہوں۔ اور اس کے لیے مجھے بالکل نئے اور اچھوتے موضوع پر ایک ناول کی ضرورت تھی۔
س: ’لے سانس بھی آہستہ‘ ایک سماجی ناول ہے۔ آج تبدیل ہوتی اس دنیا اورسماج میں اخلاقیات کا رول کیا ہوسکتا ہے؟
ج: ناول میں بدلتی ہوئی اخلاقیات کی میں نے کھل کر تعریف کی ہے۔ ایک طرف غلام ملک کی اخلاقیات ہے اور دوسری طرف آزاد ملک کی۔ آزادی کے بعد کی نسل دونوں طرح کی اخلاقیات کو ساتھ لے کر چلی۔ آج کے نوجوان غلام ملک کی اخلاقیات اور اس کی فکر سے باہر نکل آئے ہیں اوروہ اپنی نئی اخلاقیات کی تھیوری پیش کررہے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی اخلاقیات ہیں۔ تبصرے اورتنقید کا حق جائز نہیں۔ ابھی اس پورے پروسیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
س: آپ ماضی، حال سے اٹھ کر اپنی کہانی کو مستقبل سے بھی جوڑتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں مستقبل میں آپ کس طرح کے سماجی نتائج کی امید کرتے ہیں۔
ج: ناول یا تخلیق کا کام نتائج برآمد کرنا نہیں ہوتا۔ میں نے پہلے ہی کہا ہے، ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے، دوسری آجاتی ہے۔ میرے لیے جو آج کاچہرہ ہے وہ بھی قبول ہے بلکہ برائیوں کے باوجود یہ مہذب دنیا کا چہرہ ہے۔ انسانی آبادی کے ساتھ مسائل توآئیں گے۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور اس کا سامنا کرنا ہی دستور ہے۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...