(مطبوعہ ماہ نامہ ’’لاریب‘‘ لکھنؤ)
برادرم عامر قدوائی سے میرا تعارف میرے عزیز دوست نور پرکار کے ذریعہ ہوا۔ نور کویت میں ایک اہم مشاعرے کے انتظامات میں روحِ رواں تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ عامر صاحب ایک قابل ذکر شاعر ہیں جو کویت کے دہلی پبلک اسکول میں آئے ہوئے ہیں، کلام موزوں کہتے ہیں اور اچھے اردو سماج کے نمائندہ ہیں۔ ان کا کلام سنا تو واقعی دلکش لگا۔
پھر ملاقاتیں ہوتی رہیں، کلام سنا بھی گیا اور سنایا بھی گیا۔ نور صاحب تو اپنی روشنی سمیٹ کر بمبئی روانہ ہو گئے، کویت کی ادبی محفلیں ویسی نہیں رہیں۔ بہر طور ملاقات کے نئے امکانات پھر نئے باب سے شروع ہوئے۔ اس طرح عامر صاحب سے جو ربط باہمی پیدا ہوا، وہ قائم ہے۔ وہ ایک سخن فہم، نکتہ رس اور متوازن فکر رکھنے والے ادیب ہیں اور ادب ان کی زندگی کے اہم ترین مشغلوں میں سے ہے۔
عامر صاحب نے اپنا کچھ کلام مجھے دیا تو پڑھ کر ایسا لگا کہ ایک اچھے شاعر کے فکری ارژنگ سے آشنا ہوتا جا رہا ہوں، ایسا شاعر جو سماج میں مسرتیں اور خوش خوابی بانٹنا بھی چاہتا ہے اور حیات کی کرب انگیز کشاکش سے روبہ پیکار بھی ہے، مسیحائی کا شوق بھی رکھتا ہے اور درد کی گہرائی سے بھی واقف ہے۔
اگر آپ اجمالی طور پر دیکھیں تو عامر قدوائی کی شاعری کا بنیادی عنصر بہ ہر طور عشق ہی ملے گا۔ یہ عشق کے پرتو ہی تو ہیں جو کبھی وصل کی مسرت بخشتے ہیں تو کبھی ہجر اور نارسائی کی کیفیتوں سے دوچار بھی کرتے ہیں۔ اس ہجر وصال کے زمان و مکان کے عرصہ میں دونوں حالتوں کے تفاوت کو شاعر مختلف پیرائے میں تصویریں بدل بدل کر پیش کرتا ہے اور اس طرح ہر بار آپ ایک جداگانہ زاویہ سے منظر دیکھتے ہیں۔ ان مناظر میں شاعر ایک خاص تناسب سے لمسیاتی اور حسیاتی رنگتوں کو شامل کر کے ایسے پیکر اجاگر کرتا ہے جو شعر کے پیمانے میں ڈھل جاتے ہیں انحراف بھی نہ ہو، حد ادب بھی قائم رہے اور وہ احساس بھی واضح طور پر سامنے آ جائے جو شاعر کے درون میں ہے۔ آپ عامر قدوائی کے ان اشعار میں ایک ایسے ہی معتبر عاشق سے مل سکتے ہیں:
نشہ میں ڈوب گیا ہے بدن کا ہر رگ و ریشہ
لبوں سے چھو کے تو پانی شراب کر دیا اس نے
…
حدود جسم سے باہر ہوئی ہے عریانی
سیاہ پھول کھلائے قبا کے تیشے نے
…
نظر رکی نہ کوئی لمس جاگتا پایا
میں ہو بھی آیا تری دل کی آخری حد تک
عامر کائنات کو جولان گاہ فرو سمجھتے ہیں، اس لیے انھوں نے فرد کے تجربات، مسائل، موضوعات اور امکانات پر خصوصی توجہ دی ہے۔ انھوں نے بیم و رجا میں رجائیت کے پہلو کو اہمیت دی ہے اور اپنی شاعری میں ایسے ہی مضامین کو نمایاں طور پر برتا ہے۔ ان کا عمومی وسیلہ اظہار غزل کا فارم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک فکر و فن سے لیس سیاح قافیوں اور ردیفوں کے جزیرے میں اپنے وجود کے نشانات ثبت کرتا جا رہا ہے وہ چاہے سنگ میل ہو یا راہرو کا نقش پا۔ قافیہ اور ردیف سے کامیابی کے ساتھ مناسب پیمانوں کے درمیان وہ اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ بلا شبہ انھوں نے کوئی نئی راہ اپنائی ہے، نہ ہی کوئی اجنبی جہت منتخب کی ہے۔ غزل کے شعروں کو ان کے مروجہ اسلوب، مقبول عام لفظیات اور معتبر ڈکشن سے منطبق رکھا ہے، اسی لیے ان کا کلام یکساں طور پر سامع اور قاری دونوں کی پسندیدگی حاصل کر لیتا ہے۔ انھوں نے کئی عالمی مشاعروں میں شرکت کی ہے اور کئی مشاعرے برپا بھی کیے ہیں، کویت کی نمائندگی بھی کی ہے۔ ان کی گفتگو عوام اور خواص دونوں سے ہے ان کے متوسط اور متوازن کلام کے چاہنے والے بھی کافی ہیں۔
عامر نے اپنی شاعری کے لیے مروجہ زندگی کے مانوس عناوین اور حالات کے حقیقی ماحول کو موضوعات کے طور پر برتا ہے۔ شاعر نے کوئی خیالی اور مجہول پس منظر نہیں پیدا کیا ہے جو سراسر مصنوعی اور خواب ناک ہو، انھوں نے خواب بھی دیکھے ہیں تو زندہ علامتوں کے وسیلے سے۔ شاعر زندگی کے سرد و گرم موسموں اور بین مناظر سے ربط اور رشتہ رکھنا چاہتا ہے۔ ان کا طریقہ کلام کبھی واحد متکلم کے طور پر ہے تو کبھی مخاطب سے مکالمہ کی شکل میں ہے۔ باہمی تعلقات، دوست اور دشمن سے مخاطبت، محبوب سے اشاراتی ترسیل اور کچھ اسی طرح کے سیناریو ان کی غزلوں کی جان ہیں۔ معاشی ترقی سے سماجی اقدار میں تفاوت، اس کے پس پردہ براہین میں قابل غور تبدیلیاں شاعر کو چوکنا بھی کرتی ہیں اور کبھی کبھی وحشت زدہ بھی۔ سیاست کے اسفل معیار کی طرف جھکاؤ اور خود غرضی کی زہر ناکی سے وہ مانوس تو ہے لیکن نئی نویلی زندگی کے خوش رنگ جلوؤں کا شائق بھی۔ ایسا شاعر جو سماجی شعور سے دلی تعلق رکھتا ہے، اس کا مطمح نظر فلاح اور ارتقا سے ممنون و متفق ہوتا ہے۔ عامر ایسے ہی شاعروں میں سے ہیں۔ ان کی شاعری زندگی کے ہمراہ متوازی اور اسی کی سمت میں چل رہی ہے اور اس تناظر میں ہی ان کا فریضہ عرض سخن ادا ہو رہا ہے۔ ہاں مسئلہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب شعر صرف اظہار خیال اور بیانیہ سا ہو جائے اور اس میں فن کاری کا جمال نہ ہو، حسن ادا عنقا ہو جائے۔ میرے خیال میں عامر قدوائی اس صورت حال سے کافی حد تک بالاتر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے کلام میں شعری تلازمے کا خیال رکھا ہے۔
کیوں نہ اس زاویہ نگاہ کو ان اشعار سے پہچانا جائے:
…
اب رنگ بھر نہ کوئی مصور حیات میں
ہر لمحہ انتشار کا موسم ہے زندگی
…
مسافت طے کیے جاتا ہوں ہنس کر زندگانی کی
میں ہر مشکل کو اپنی راہ کا رہبر بناتا ہوں
…
منزلیں تم کو بلائیں گی، پتہ پوچھیں گی
اپنی آنکھوں میں کوئی خواب سجائے رکھنا
…
وحشت ناک خبریں، ماحول کی حقائق سے سرد مہری، بدلتے ہوئے فرقہ پرستی کے تیور، معاشی اخلاق کا فقدان اور ایسے کئی موضوعات ہیں جو آئے دن خبروں کا موضوع بنتے رہتے ہیں، عامر ایک کھلی ہوئی لیکن نمناک آنکھ سے یہ مناظر دیکھتے ہیں اور ان کی تہہ میں منافقت کی طرح ان دیکھی، چھپی زہریلی لہر کو محسوس کرتے ہیں اور ایک مہذب زندگی کے معلم کی طرح کراہ اٹھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب کا ہر شاعر بے حد حساس ہوتا ہے۔ مثبت اقدار، سماجی انصاف اور آزادی اظہار اردو شاعری کا طرۂ امتیاز ہیں۔ عامر اپنے اشعار میں سادہ طور پر بڑی بات کہہ جاتے ہیں، مثلاً:
تمام چہرے پہ تھیں خراشیں، بدن دریدہ، حواس گم سم
غریب پیکر امیر زادوں سے مل کے لوٹا تو میں نے دیکھا
…
جڑوں سے کاٹ دیے ہیں وفاؤں کے رشتے
اثر کیا ہے یہاں تک جفا کے تیشے نے!
…
مہک اٹھی ہے لہو میں بہار کی خوشبو
عجیب قتل کیا ہے حیا کے تیشے نے
…
ہوا سے لڑکے آخر فائدہ کیا؟
اندھیرے گھر میں بیٹھا سوچتا ہوں
…
عامر کا کلام سہل ممتنع کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ غالباً اس لیے ہے کہ انھیں کلام سنانا ہے۔ سامع کے دل میں اترنا ہے اور اپنا پیام بھی پہچانا ہے۔ اشارت، علامت اور استعارہ کا بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔ گفتگو بالراست ہے، واضح ہے اور ابہام سے پرہیز کیا ہے۔ الفاظ ان کے معتبر معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، نئی لفظیات اور تراکیب کم ملتی ہیں۔
ایک اور بات جو عامر کو اپنے ہم عصر شاعروں سے الگ رکھتی ہے وہ ان کا مرکوز بہ انا ہونا ہے۔ وہ ایک بے حد خوددار (کبھی کبھی خود پسند) متکلم کی طرح ملتے ہیں۔ ان کے اس زاویۂ اظہار سے آپ کبھی کبھی چونک پڑتے ہیں:
مرے بدن کو چھوا اور گلاب کر دیا اس نے
شاعر اپنے آپ کو گلاب کہتا ہے!! چند اور مثالیں لیجیے:
ہمیں تو فخر ہے اپنے نصیب پر عامر
کہ کچھ بزرگ ابھی اپنے خاندان میں ہیں
…
وراثت میں ملی ہے سرفرازی
کہ نیزوں پر ہمارا سر رہا ہے
…
ذرا سنبھل کے میاں ہم سے بات کیجیے گا
ہم اپنے سر پہ کئی آسمان رکھتے ہیں
ردیف قافیہ نبھانے میں غزل کے شاعر کو عجیب سی کامیابی اور کامرانی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے برسوں سے روایت رہی ہے کہ شعرا بحور اور اوزان کو برتنے میں اپنی مہارت دکھاتے رہتے ہیں۔ یہ غزل کی دلکشی ہے کہ ایک سے ایک کامیاب اشعار اس کی زنبیل میں ہیں جو مختلف شعرا نے مختلف بحور میں لکھے اور طرحی مشاعروں میں نمایاں رہے۔ عامر صاحب کا معاملہ تھوڑا جدا ہے، وہ خود ایک خاص ردیف و قافیہ کا انتخاب کرتے ہیں، تجرباتی طور پر ان کے التزام میں اپنی شعری کاوش کو پیش کرتے ہیں۔ وہ بیش تر ایسے تجربے میں کامیاب ہوئے ہیں:
ہٹا دیے ہیں پڑے تھے جو راہ میں پتھر
کھٹک رہے ہیں مگر کچھ نگاہ میں پتھر
…
روز سکھانے آ جاتا ہے آداب فرہنگ مجھے
شہر انا کا پاگل بچہ کر دیتا ہے تنگ مجھے
…
جس قدر کر پائے کر، آوارگی پاگل ہوا
سونپ دی ہم نے بھی تجھ کو زندگی پاگل ہوا
عامر کی نظمیں ان کی غزلوں کے مقابلے میں زیادہ نیا پن رکھتی ہیں۔ ان میں نئی ہندی اور اردو شاعری کا ایک طرح سے امتزاج ملتا ہے۔ ان کی نظمیں، خیالوں کی دنیا، آغاز سحر، کپڑوں کا پیڑ اور فون کال، ذاتی زندگی اور گھر آنگن کی شاعری کی طرح سادہ، راست اور دل پسند ہیں۔ ان میں شعریت بھی ہے اور قبول عام کی باتیں بھی۔ خواب اور ہوش کے درمیان خوب منظر کشی کی ہے۔ اس سے ہٹ کر ان کی کچھ نظمیں زندگی کے باطنی فلسفے سے میل کھاتی ہیں مثلاً آنکھوں کی گہرائی اور وقت، سچ تو یہ ہے کہ عامر نظموں کے میدان میں سنبھل سنبھل کر قدم بڑھا رہے ہیں اور ان کا اسلوب جلد ہی اپنی شناخت بنالے گا۔ آج کل وہ حالاتِ حاضرہ اور ملک کے مسائل کو بہت شدت سے پیش کر رہے ہیں۔
مجموعی طور پر عامر قدوائی اردو شاعری کی نئی نسل میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ ایک پُر خلوص شاعر ہیں جو فن کاری میں جہد مسلسل کر رہے ہیں، خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں ہیں وہ زبان و بیان اور فن شعر پر اچھی نظر رکھتے ہیں اور سقم سے پاک شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نوٹ:
ابھی ابھی ۲۰۱۹ء جناب عامر قدوائی صاحب کا مجموعۂ کلام ’’شورِ خاموشی‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ ایک قابلِ قدر سخن کا مجموعہ ہے جسے اُردو حلقوں میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔
٭٭٭