اردو اور فارسی شاعری میں رائج تمام اصنافِ سخن میں مثنوی کی صنف کو حالیؔ سب سے زیادہ قابلِ قدر خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں مسلسل مضامین کے بیان کے لیے اس صنف سے زیادہ کارآمد اور کوئی صنف نہیں ہوسکتی، اور اس خوبی کی وجہ اس کی ہیئت ہے جس میں ہر دو مصرعہ کے بعد قافیہ بدل جاتا ہے اور شاعر کو اپنے بیش قیمت خیالات اور مضامین قافیہ کی تلاش پر قربان نہیں کرنے پڑتے۔ اُن کے خیال میں :
’’یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ عرب کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہوسکنے کے سبب تاریخ یا قصہ یا اخلاق یا تصوف میں ظاہراً ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جا سکی جیسی فارسی میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں لکھی گئی ہیں۔ اسی لیے عرب شاہنامہ کو قرآن العجم کہتے ہیں اور اسی لیے مثنوی معنوی کی نسبت ’’ہست قرآں در زبان پہلوی کہا گیا ہے۔ ‘‘
مثنوی کے لیے حالیؔ جن چیزوں کو سب سے ضروری خیال کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ ربط کلام: حالی کے مطابق:
’’اس میں ہر بیت کو دوسری بیت سے ایسا تعلق ہونا چاہیے جیسے زنجیر کی کڑی کو دوسری کڑی سے ہوتا ہے۔ ‘‘
’’بیتوں اور مصرعوں کی ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کہ ہر مصرعہ دوسرے مصرعے سے اور ہر بیت دوسری بیت سے چسپاں ہوتی چلی جائے ، اور دونوں کے بیچ کہیں کھانچا باقی نہ رہ جائے۔ ‘‘
۲۔ قصہ کی بنیاد ناممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ ہو۔
۳۔ کلام اقتضائے حال کے موافق ہو۔
۴۔ مبالغہ حد سے بڑھا ہوا نہ ہو۔
۵۔ جو حالت کسی شخص یا کسی چیز کی بیان کی جائے وہ نیچر اور عادت کے مطابق ہونی چاہیے۔
۶۔ ایک بیان دوسرے بیان کی تردید نہ کرتا ہو یا اس کے خلاف نہ ہو۔
۷۔ کوئی بات ایسی بیان نہیں کرنی چاہیے جو تجربے اور مشاہدے کے خلاف ہو۔
۸۔ ضمنی باتوں کو رمزو کنایہ میں ہی بیان کرنا چاہیے۔
مثنوی کی صنف کے سلسلہ میں ان اصولی باتوں کے بعد حالیؔ نے اردو کی چند مشہور مثنویوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ مثلاً یہ کہ:
’’اردو کی عشقیہ مثنویوں میں ہمارے نزدیک اکثر اعتبارات سے بدر منیر کے برابر آج تک کوئی مثنوی نہیں لکھی گئی۔ ‘‘
’’ان مثنویوں (مرزا شوق کی مثنویوں ) میں اکثر مقامات اس قدر اَن مورَل اور خلافِ تہذیب ہیں کہ ایک مدت سے ان تمام مثنویوں کا چھپنا حکماً بند کر دیا گیا ہے۔ ‘‘