جوڈتھ سسمین ایک کھلنڈری لڑکی تھیں۔ گھنٹوں تک غبارہ لے کر سیر کرنا، گڑیوں سے کھیلنا، کہانیاں اور کردار بنانا ۔۔۔ ان کی اپنی تصوراتی دنیا تھی۔ ان کی شادی ایک مختلف ذہن رکھنے والے اپنے ہم جماعت سے ہوئے۔ ان کے شوہر تجزیاتی سوچ رکھنے والے وکیل تھے۔ 1960 کی دہائی میں ان کے دو بچے تھے اور وہ گھریلو خاتون کے طور پر زندگی بسر کر رہی تھیں۔
یہ ایک اچھی زندگی تھی اور انہیں پسند تھی لیکن ان کے ذہن کا لچکدار حصہ کلبلاتا رہتا تھا۔ اس کے پاس اس کے اظہار کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اور انہیں پریشان کرتا تھا۔ “ایسا نہیں تھا کہ میں کوئی خاص کام کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے کچھ تو کرنا تھا”۔
سسمین کے پاس فارغ وقت تو زیادہ نہیں تھا لیکن انہوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ انہیں اس پر اپنے شوہر سے یا دوستوں سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ اور نہ ہی ان مدیروں سے جنہیں سسمین نے اپنی تحاریر بھیجیں۔ “جب میری تحریر کے ناقابلِ اشاعت ہونے کا خط ملا تو میں رو پڑی۔ اگلے دو سال روتے ہوئے ہی گزرے”۔
سسمین لکھتی رہیں۔ اور آخر کار 1969 میں وہ اپنی پہلی کتاب شائع ہونے میں کامیابی ہوئی۔ یہ کتاب جوڈی بلوم کے نام سے لکھی گئی تھی۔ نوجوانوں کے لئے لکھی گئی ان کی فکشن اور ناول بیسٹ سیلر بنے جن میں سے کئی فہرست میں اول نمبر تک پہنچے۔ ایک کروڑ سے زائد کتابیں بکیں۔ ادب کے درجنوں انعامات ملے۔ نہ صرف کمرشل کامیابی ملی بلکہ نقادوں نے بھی ان کے کام کو سراہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر ایسا کیوں کہ بلوم تمام مشکلات کے باوجود اور کوئی سپورٹ نہ ملنے کے باوجود اور گھریلو زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کے بھی باوجود لکھنے پر لگی رہیں؟ “جب میں نے لکھنا شروع کیا تو پھر مجھے اگلے دن کی بے چینی رہتی کہ کچھ کرنا ہے۔ اس نے میری زندگی کو بچایا۔ مجھے تصوراتی دنیا کی ضرورت تھی۔ مجھے زندہ رہنے کے لئے اس کی ضرورت تھی۔ یہ میرے وجود کا حصہ تھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محققین لوگوں کے دماغ کو فنکشنل ایم آر آئی مشین میں ڈال کر مسئلہ پوچھتے ہیں۔
“اگر تمام الف، ب ہوں۔ تمام ب، ج ہوں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام الف، ج ہوں گے؟”۔
جبکہ کچھ لوگوں سے۔
“اگر تمام بلیاں پالتو ہیں۔ تمام پالتو بال رکھتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بلیاں بال رکھتی ہیں؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منطق کے لحاظ سے ان دونوں syllogism میں بالکل کوئی فرق نہیں۔ الف کی جگہ پر بلی لکھنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن ہمارے ایسوسی ایشن والے دماغ کے لئے یہ بہت بڑا فرق ہے۔ الف صرف الف ہے۔ جبکہ بلی کے ساتھ معنی ہیں۔
ایک کمپیوٹر ان دونوں کا تجزیہ کرتے وقت دونوں کو بالکل ایک ہی طرح سے دیکھے گا۔ اور توقع ہو گی کہ انسانوکے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن دماغ ان دونوں کو بہت الگ طرح سے لیتا ہے۔ جب یہاں پر خالی حروف تھے تو دماغ کے شریک ہونے والے حصے الگ تھے۔ اہم چیز یہ نہیں کہ یہ کونسے تھے۔ اہم چیز ان کا مختلف ہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب میں دو الگ قسم کے مفکر موجود ہیں۔ منطقی بھی اور شاعر بھی۔ اور ان کا بھی مقابلہ رہتا ہے جو طے کرتا ہے کہ کونسے خیالات اور سوچیں ابھریں گی۔ ہم ان دونوں کے درمیان سوئچ کرتے رہتے ہیں۔ ہماری کامیابی کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اوریجنل خیالات کی آمد اور خیالات کی عقلی جانچ والے طریقے کے درمیان ہم سوئچ کس طرح کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوڈی بلوم کہتی ہیں۔ “میرے اندر دو قسم کے شخص ہیں۔ عام طور پر منظم اور ترتیب والا۔ لیکن جب میں اپنے ناول لکھتی ہوں تو میں الگ ہی بن جاتی ہوں۔ میں لکھتی اس لئے ہوں کیونکہ میرے اندر کوئی دوسرا بھی ہے۔ یہ اپنا اظہار چاہتا ہے۔ اور جب میں اپنی لکھی کتاب شائع ہونے کے بعد پڑھتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ کیا یہ واقعی میں نے ہی لکھا تھا؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نے پچھلی چند اقساط پڑھی ہیں تو اب آپ جانتے ہوں کہ جوڈی بلوم کا یہ کہنے کا مطلب کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...