مسلسل چلنے کی وجہ سے زارا کے پاؤں سوجھ گئے تھے تھک کر ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر رونے لگی شفا کی پریشانی تھکن اور رتجگے نے زارا کو نڈھال کر لیا تھا
صبح کی نیلی روشنی سے پھیلنے لگی ہر طرف سکون تھا دور کہیں مسجد میں ازان دی جا رہی تھی زارا نے روتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں اور وہیں بےسد ہو کر سو گئی
نماز کے لیے جانے والوں میں میراج کے ملازم بھی تھے
ارے یہ لڑکی مر گئی ہے کیا کسی نے آواز لگائ میراج نے مڑ کر دیکھا
نہیں یہ ہل ڈھل رہی ہے یہ ذندہ ہے زارا کے گرد مردوں کا گھیرا بن گیا تھا
لگتا ہے گھر سے بھاگی ہوئ ہے لوگ باتیں کرنے لگے میراج نے اپنے ملازموں کو بھیجا
چلو سب یہاں اس لڑکی کا پتہ ہم خود لگولیں گے ملازم نے اونچی آواز میں کہتے ہوئے سب کو جانے کا کہا
اتنے میں زارا کی آنکھ بھی کھل گئی مگر لوگوں کو دیکھ کر وہیں بیٹھی رہی اب لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے
سائیں جی لڑکی ذندہ ہے اور ہوش میں بھی ہے میراج کے ملازم نے آکر میراج کو کہا
اسے گودام لے کر جاؤ وہیں دیکھیں گے ملازم نے تابعداری سے سر ہلا کر چلا گیا
چھوٹے سائیں کا حکم ہے تو ہمارے ساتھ گودام چل تیری جو بھی بات ہے وہ وہیں سن لیں گے
ملازم نے جلدی جلدی کہہ کر مخاطب کیا
زارا اپنی حیرت چھپاتے ہوئے ملازم کی معید میں چل دی زارا کے پیروں میں شدید درد تھا جس کی وجہ سے وہ اہستہ چل رہی تھی
ملازم اس کے اس طرح چلنے پر ناگوار ہوا
…………….😍
شفا بیٹا کیسی ہو راحیلا کی ایک دوست جو ابھی انگلینڈ سے آئیں تھیں وہ شفا کا حال پوچھنے ڈائریکٹ گھر ہی آگئ
آنٹی میں ٹھیک ہوں مگر ابھی آپ یہاں بور ہوں گی ممی والے گھر میں نہیں ہے اس نے بتایا تو روزینہ نے سر اثبات میں ہلایا
مجھے پتہ ہے بیٹا میں بھی وہیں جا رہی ہوں تم کو دیکھنے آگئ.. پیار سے شفا کے چھوٹے چھوٹے بالوں میں ہاتھ پھیر کر دروزے سے ہی چلی گئی
روزینہ کے جاتے ہی گھر کا خاص ملازم بھاگتا ہوا آیا چھوٹی بی بی جی مالک اور مالکن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ابھی پولیس کا فون آیا ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے بی بی جی آپ سن رہیں ہیں… وہ کیا کہہ رہا تھا شفا تو بہری ہوگئ تھی صرف لفظ ایکسیڈنٹ دماغ نے کا کرنا چھوڑ دیا آنکھوں کے آگے سے تمام منظر دھندلا گۓ شفا زمین پر بیٹھتی چلئ گئی سارء ملازم جمع ہوگئے کیا ہو رہا تھا شفا کو کچھ خبر نا تھی
دوگھنٹوں بعد پولیس کی گاڑیاں آکر لاشیں دے گئیں گھر میں کاننے والوں کا رش جمع ہوچکاتھا شفا ہنوز بے ہوش تھی
……………….😔
ہۓ بچاری بچی اب کیا ہوگا یہ چاچے چاچیاں تو سب ہڑپ لیں گی اب یہ کہاں جاۓ گی عورتوں کو ایک نیا موضوع مل گیا سو شفا نور کی زندگی کی آزمائشیں شروع ہوچکیں تھیں
جیسے ہی ہوش آیا جنازے اٹھانے کے لیے آگۓ تھے شفا رو بھی نا سکی ایک آنسو بھی نا گرا کیوں شفا تم پتھر بن گئی ہو شفانے خود سے سوال کیا
جانے والے چلے گئے لیکن شفا کو کسی نے قبول نا کیا بڑی چاچی نے یہ کہہ کر جان چھڑائ
بھئ میرے گھر میں جوان بیٹے ہیں کیسے اس کو وہاں رکھوں بس اپنا حصہ لیے جاؤں گی ویسے بھی ابھی تو شفا 16 سہولہ سال کی ہے ساری جائیداد اسی کی تو ہے جب اٹھارہ کی ہوجاۓ گی تو لے لے گی…. سب نے اس دے ملتے جھلتے الفاظ میں جائیداد مانگی
اور پھر شفا کے سر سے چھت بھی چھین کر چلے گئے
شفا نے زارا کو فون کر کے بلایا ایک سال ہیں گزار کر زارا اسے گاؤں لے جانے لگی کیوں کہ یہاں رہائش ممکن نا تھی شفا کے سارے قیمتی زیورات جو کہ راحیلا نے شفا کی شادی کے لئے اکٹھے کیۓ تھے وہ سب بینک میں ہی رہ گئے اور شفا خالی ہاتھ رہ گئی
………………….😔
قاسم نماز کے بعد چوبارے پر شفا کو دیکھنے آیا تو وہ اسی حالت میں سو رہی تھی سوتے ہوئے معصوم سی بچی لگ رہی تھی
سائیں مائ کے لیۓ کھانے کا کیا انتظام کروں ماسی نے قاسم کو دیکھا تو ہاتھ باندھے استفسار کیا
(سند کے علاقوں میں مائ بوڑھی عورت کے علاوہ چھوٹی بچی کو بھی مائ کہہ لیتے ہیں )
ہاں ہماری خاص مہمان ہے اچھا تگڑا ناشتہ کروانا اور جانے نہیں دینا جب تک میں واپس نا آؤں قاسم نے شفا کے معصوم سے چہرے کو نظروں کی گرفت میں لیا اور چلا گیا
شفا کی آنکھ کھلی تو سورج چڑھ آیا تھا اٹھتے ہی اردگرد غور سے دیکھا چوبارہ کافی وسیع تھا یہاں رہنے کا سب سامان تھا چارپائیاں بھی باہر ہی تھیں ترتیب سے لگیں جن میں ایک پر خود تھی صاف ستھرا ماحول اور اس پر اچانک کھانے کی خوشبو نے شفا کی بھوک جگا دی
مائ آپ کے لئے کھانا لگا دیا ہے آپ میرے ساتھ چلیں ماسی نے آکر نرمی سے کہا
رات دواؤں کے اثرات نے کافی بہتر کر لیا تھا ابھی جلدی سے اٹھ کر ماسی کی معید میں چل دی
…………………….💖
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...