“بیٹا جب لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے کوئی کہتا کہ اللہ تعالی کا نسب اور خاندان کیا ہے؟
“اس نے ربوبیت کس سے میراث میں پائی ہے؟
“اور اس کا وارث کون ہوگا؟
“کسی نے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالی سونے کا ہے یا چاندی کا؟ لوہے کا ہے یا لکڑی کا؟
“کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالی کیا کھاتا پیتا ہے؟
“ان سوالوں کے جواب میں اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قل ھو اللہ نازل فرمائی۔۔۔”
“اور اپنی ذات وصفات کا واضح بیان فرما کر اپنی معرفت کی راہ روشن کردی اور کفار کے جاہلانہ خیالات واوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات وصفات کے نورانی بیان سے دور فرما دیا۔۔۔”
(تفسیر۔خزائن العرفان،ص١٠٨٦.پ،٣،اخلاص:١)
“اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر اسے بتا رہے تھے اور نینا مہبوت سے سب سن رہی تھی۔۔۔۔”
“کچھ سمجھ آیا۔۔۔؟
“انہوں نے بتا کر پوچھا۔۔۔۔”
“میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔۔۔”
“نینا نے پوچھا۔۔۔”
“جی پوچھو۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”
“اللہ نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔؟
“نینا الجھی ہوئی تھی۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب مسکرانے لگے۔۔۔”
“آپ مسکرا کیوں رہے ہیں۔۔.؟
“وہ انہیں مسکراتا دیکھ کر الجھی۔۔۔”
“ایک قصہ یاد آگیا۔۔۔۔سننا چاہو گی۔۔۔؟
“انہوں سوال کیا۔۔۔”
“جی ضرور۔۔۔”
نینا غور سے ان کی ایک ایک بات سن رہی تھی اسلام میں اس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔۔۔اس کا دل کررہا تھا کہ یہ باتیں کبھی ختم نہ ہو وہ اللہ کی باتیں بتاتے رہے اور وہ سنتی رہے۔۔۔۔اللہ کی کشش اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔۔۔۔لیکن شاید وہ اپنے دل کی آواز کو سمجھ نہیں پا رہی تھی شاید وہ اس بات سے بے خبر تھی۔۔۔لیکن اللہ باخبر کروا ہی دیتا ہے ایک دن۔۔۔۔۔”
“ایک غیر مسلم مسلمان سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دے دو تو میں مسلمان ہوجاؤنگا۔۔۔”
سوال نمبر 1
“جب سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو تم لوگ انسان کو کیوں ذمے دار ٹھہراتے ہو۔۔؟
سوال نمبر 2
“جب شیطان آگ کا بنا ہوا ہے تو اس پر آگ کیسے اثر کرے گی۔۔؟
سوال نمبر 3
“جب اللہ تعالیٰ تمہیں نظر نہیں آتا تو تم لوگ اسے مانتے کیوں ہو۔۔؟
“مسلمان نے جواب میں ایک پاس پڑا ہوا مٹی کا ڈیلا اس کو دے مارا۔۔۔”
“اس کو بہت غصہ آیا اور اس نے عدالت میں مسلمان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔۔۔”
“عدالت نے مسلمان کو بلایا اور پوچھا تم نے اس کے سوال کے جواب میں مٹی کا ڈیلا اسے کیوں مارا۔۔؟
“مسلمان نے کہا یہ اس کے تینوں سوالوں کے جواب ہیں!!
“عدالت نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے جواب دیا۔۔ ”
“پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے ڈیلا اسے اللہ کی مرضی سے مارا ہے تو اس کا ذمے دار یہ مجھے کیوں ٹھہراتا ہے۔۔؟
“دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان تو مٹی کا بنا ہوا ہے تو اس پر مٹی کے ڈیلے نے کس طرح اثر کیا۔۔۔؟
“تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب اس کو درد نظر نہیں آتا تو محسوس کیوں ہوتا ہے۔۔؟
“غیر مسلم اپنے تینوں سوالوں کے جواب سن کر فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے سارا قصہ سنا دیا۔۔۔”
“سمجھی اب۔۔۔کہ اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔”
“وہ دل پر ہاتھ رکھے آنکھوں کو بند کیے بول رہے تھے۔۔۔۔”
“نینا نے انہیں دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی دیوانے سے باتیں کررہی ہے۔۔۔”
“شاید وہ دیوانے ہی تھے اللہ کے دیوانے جو اس کا ذکر کرتے ہوئے جھوم اٹھتے ہیں۔۔ ”
“ابھی تو میں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا اس سورۃ کی تفسیر اگر تمہیں سارا دن بھی بتاتا رہوں تو ختم نہیں ہوگی۔۔۔”
“انہوں نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔۔۔”
“وہ کیوں۔۔۔۔؟
“وہ حیران ہوئی۔۔۔۔”
“کیونکہ بیٹا اللہ کی ایک بات میں ہزار مطلب چھپے ہیں۔۔۔
“وہ اپنی ایک بات میں ہزار باتیں کہہ جاتا ہے۔۔۔۔انسان کو بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔”
“انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔”
“نینا ان سب باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔”
“چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔۔۔”
“انہوں نے چائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔”
“اوہ ہاں۔۔۔”
“اس نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔۔ ”
“اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔۔
“مغرب کی اذانوں کی آواز گونج اٹھی۔۔۔”
“اسحاق صاحب اذان کا جواب دینے لگے نینا بغور انہیں دیکھ کر رہی تھی اور حیران ہورہی تھی کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔”
“اب میں چلتی ہوں۔۔۔اجازت دیں۔۔۔”
“نینا جانتی تھی کہ وہ اب نماز پڑھنے جائے گے اسی لیے وہ احتراماً کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔”
“آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔کیا کل میں یہاں آسکتی ہوں۔۔۔؟
“نینا جاتے جاتے مڑتے ہوئے بولی۔۔۔”
“ضرور جب دل چاہے تمہارا تم آسکتی ہو۔۔۔”
“وہ کھلے دل سے بولے۔۔۔”
“شکریہ۔۔۔”
“نینا مسکراتی ہوئی چلی گئی۔۔۔”
“کوئی آیا تھا ماموں جان۔۔۔؟
“اس نے کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
“ہاں۔۔۔۔میری نئی شاگرد آئی تھی۔۔۔۔اچھا چلو نماز کے چلو دیر ہورہی ہے۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور باہر نکل گئے۔۔۔”
“جو پڑھایا ہے کل یاد ہونا چاہیے میں سب سے پوچھوں گا اب جلدی کرو نماز پڑھنے جانا ہے نا۔۔۔؟
“وہ بچوں کی جانب مڑتا ہوا سب سے پوچھنے لگا۔۔۔”
“جی۔۔۔۔”
“سب بچے ذور سے بولے۔۔۔۔”
“چلو پھر۔۔۔”
“وہ مسکراتا ہوا باہر چلا گیا اور بچے بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔۔۔”
“آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔۔۔”
“نینا جب سے گھر واپس آئی تھی اس کے دماغ میں بس اسحاق صاحب کی باتیں ہی گھوم رہی تھی۔۔۔”
“نینا۔۔۔نینا۔۔۔۔نیناااا۔۔۔۔”
“پوجا کے بار بار پکارنے کے بعد بھی جب اس نے نہیں سنا تو اس نے اس کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔”
“ہ۔۔ہاں۔۔۔”
“نینا اپنے خیالوں سے باہر آتے ہوئے چونک کر بولی۔۔۔”
“کہاں گھم ہو۔۔۔کھانا کھاؤ کیا چمچ کو پلیٹ میں گھمائے جارہی ہو کب سے۔۔۔۔”
“پوجا نے اس کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا جہاں کھانا ویسا کا ویسا ہی تھا۔۔۔۔”
“اوہ۔۔۔۔بس دل نہیں کررہا تھا۔۔۔”
“اس نے اداسی سے کہا۔۔۔”
“طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔۔؟
“پوجا فکرمند ہوئی۔۔۔۔”
“ہاں ٹھیک ہے تو پریشان نہ ہو۔۔۔۔”
“نینا نے اسے تسلی دی۔۔۔”
“اچھا کھانا کھاؤ پھر میں میڈیسن دونگی وہ کھا کر آرام کرنا تم۔۔۔۔”
“پوجا نے کھانے پر ذور دیتے ہوئے کہا۔۔۔”
“ہمممم۔۔۔۔
“نینا چپ چاپ کھانا کھانے لگی۔۔۔۔”
“کھانے سے فارغ ہو کر نینا اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔۔۔”
“نینا بیڈ پر سیدھی لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی تمام باتیں اس کے ذہن سے نکل نہیں رہی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ان باتوں کے حصار میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔”
“اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے۔۔۔۔”
“نینا نے دھیرے سے آنکھیں بند کرلی۔۔۔اور اپنے دل کی دھڑکن کو محسوس کرنے لگی۔۔۔”
“سوچتے سوچتے دنیا سے دور کسی اور جہاں میں آگئی تھی اسے ایک سکون سا محسوس ہورہا تھا برسوں بعد اس سکون کو محسوس کرکے اس کے لب مسکرا اٹھے تھے۔۔۔۔لیکن وہ سکون چند پل کا تھا۔۔نینا کی نظروں کے سامنے کینوس پر بنی پینٹنگز لہرائی اور اچانک سے اسے دہکتی ہوئی آگ کی شعلیں نظر آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔اور نینا نے گھبرا کر آنکھیں کھول لیں۔۔۔”
“پسینے کی بوندیں اس کے ماتھے پر نمودار ہونے لگی۔۔۔۔”
“نینا نے گردن موڑ کر دائیں جانب دیکھا جہاں اس کی کئی شاہکار پینٹنگز رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔”
“کسی جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے۔۔۔۔ اللہ کو یہ کام نہیں پسند۔۔۔۔اگر واقع سکون چاہتی ہو تو چھوڑ دو اسے۔۔”
“اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے اپنی سب سے قیمتی شے کو قربان کرنے کا بہت ثواب ہے۔۔۔۔”
“نینا کے کانوں میں اسحاق صاحب کی باتیں گونجنے لگی۔۔۔۔”
“تم نے کہا نا کہ کوئی کمی ہے کوئی خالی پن محسوس کرتی ہو تم۔۔۔کوئی کشش ہے جو تمہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔۔۔اور ایسا لگتا ہے کوئی آواز دے رہا ہے بلا رہا ہے۔۔۔یہ تمہاری روح ہے جو بے سکون ہے۔۔۔اور روح کا سکون اللہ کے پاس ہے۔۔۔تمہاری روح پیاسی ہے اللہ کے ذکر کی۔۔۔اور جس چیز سے تم اس کی پیاس بجھانا چاہ رہی ہو وہ اس کی غذا نہیں ہے۔۔۔۔”
“اس سے روح کا وہ غذا ملنی تو بند ہوجائے گی جو تم اسے دے رہی ہو لیکن جو اس کی اصل غذا ہے وہ پھر بھی اسے نہیں مل پائے گی۔۔۔اور وہ یونہی مرجھاتی رہے گی۔۔۔اور تم یونہی بےچین رہو گی۔۔۔۔”
“اس نے ایک گہری سانس لی اور آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔”
“اگلے دن وہ عصر کے بعد اسحاق صاحب کے گھر کے لیے نکل گئی۔۔۔۔”
“نینا گھڑی میں ٹائم دیکھتی ہوئی دروازہ بجانے لگی۔۔۔”
“کچھ ہی لمحوں کے بعد دروازہ کھل گیا اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ ایک پل کو حیران تو ہوئی تھی۔۔۔”
“اسحاق۔۔انکل ہیں گھر پر۔۔۔؟
“اپنی بےاوسانی پر قابو پاتے ہوئے اس نے پوچھا۔۔۔۔”
“نہیں۔۔۔۔”
“اس نے جواب دیا۔۔۔”
“لگتا ہے میں جلدی آگئی ہوں۔۔۔”
“وہ شرمندہ نظر آرہی تھی۔۔۔”
“نہیں نہیں ماموں بس آتے ہی ہوگے دراصل نماز کے بعد انہوں ان کے دوست مل گئے تھے ان سے بات کرنے میں لگ گئے۔۔۔آپ آئیے اندر۔۔۔۔”
“اس نے خوش دلی سے کہتے ہوئے راستہ دیا۔۔۔”
“نینا نے ایک پل کو سوچا اور پھر اندر چلی گئی۔۔۔”
“تو آپ ہیں ان کی نئی شاگرد۔۔۔؟
“وہ دروازہ بند کرتا ہوا مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔”
“جی۔۔۔۔ایسا ہی سمجھے۔۔۔”
“نینا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔”
“مجھے پہلے لگا آپ ایلا سے ملنے آئی ہو۔۔۔”
“اس نے اس کے مقابل چلتے ہوئے کہا۔۔۔”
“یہ ایلا کا گھر ہے۔۔۔؟
“نینا نے پوچھا۔۔۔”
“جی۔۔۔”
“اس جواب دیا۔۔۔۔”
“وہ کہاں ہے۔۔۔؟
“نینا ادھر ادھر دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔”
“وہ یہاں نہیں رہتی وہ ہاسٹل میں رہتی ہے۔۔۔”
“اس نے نینا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔”
“اچھا۔۔۔۔۔”
“نینا کو مزید سوال کرنا مناسب نہ لگا۔۔۔اس لیے وہ خاموش ہوگئی۔۔۔۔”
“Dokuz erkek kardeş bugün bize bir hikaye anlatacağını söylemiştin”
(نین بھائی آپ نے کہا تھا کہ آپ آج ہمیں ایک قصہ سنائیں گے۔۔۔۔”)
“ایک بچہ نین کے پاس آتے ہوئے ترکش زبان میں معصومیت سے بولا۔۔۔۔”
“İçeri gel”
(تم چلو میں آرہا ہوں۔۔۔)
“نین نے اس کے بال بگاڑتے ہوئے کہا۔۔۔”
“اوکے۔۔۔۔”
“وہ کہتا ہوا وہاں سے اندر کمرے میں چلا گیا۔۔۔”
“آپ چاہیں تو چل سکتی ہیں اندر جب تک ماموں نہیں آجاتے۔۔۔ ”
“نین نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔”
“نینا نے ایک پل کو سوچا اور پھر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔”
“نین مسکراتا ہوا کمرے میں چلا گیا نینا بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئی۔۔۔جہاں پہلے سے بہت سے بچے موجود تھے۔۔۔”
“تو پھر شروع کروں۔۔۔؟
“نین مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔۔۔”
“جی۔۔۔۔۔۔”
“وہ سب ذور سے بولے۔۔۔”
“آج میں آپ سب کو بتاؤ گا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی پہلی ملاقات کے بارے میں ایک دفعہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی بار حضر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے دیکھا؟
“تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔۔۔۔۔”
“ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار ہوگیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔۔۔۔”
“اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہائت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟
“جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔۔۔۔”
“قصہ مختصر کہ حضرت بلال نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی سخت جملے کہے۔۔۔
“حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو حضرت بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔۔۔۔”
“حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر بھی چلتے رہے۔۔ حضرت بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔۔۔۔ لیکن حضرت بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔۔۔۔۔”
حضرت بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔۔۔۔۔”
“میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔۔۔۔۔”
ب”لال سو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔۔۔۔”
“صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔۔۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...